مذہب فلسفہ اور حقیقت پر معقول مکالمہ

بحث کا پس منظر

یہ دلچسپ مکالمہ ایک مارکسی فلسفی عمران شاہد بھنڈر اور مذہب کے دفاع میں پیش کی جانے والی جوابی آراء کے گرد گھومتا ہے، جس میں ڈاکٹر زاہد مغل اور دیگر افراد نے حصہ لیا۔
بھنڈر صاحب کا بنیادی دعویٰ یہ تھا کہ مذہب کا علمیت یا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور مذہب کی توجیہات محض "مفروضات” پر مبنی ہیں۔ اس کے برعکس، ڈاکٹر زاہد مغل اور دیگر احباب نے مذہب کے فلسفیانہ اور منطقی دفاع میں اپنے نکات پیش کیے اور حقیقت کے بارے میں "غیر مفروضاتی” تصور کا مطالبہ کیا۔

عمران شاہد بھنڈر کے نکات

➊ مذہب کی علمیت سے عدم مطابقت:

بھنڈر صاحب کے مطابق مذہب حقیقت کے بارے میں جو وضاحتیں دیتا ہے، وہ مفروضاتی ہیں اور اس کا علم یا سائنسی فکر سے کوئی تعلق نہیں۔

➋ مذہب کے بنیادی عقائد کو مفروضہ قرار دینا:

  • خدا کی موجودگی، تخلیق کائنات، انسان کی تخلیق، قیامت، جنت اور جہنم جیسے تمام مذہبی تصورات کو "مفروضے” قرار دیا۔
  • ان کے مطابق مذہبی نظریات تاریخی، سماجی یا سائنسی شہادتوں سے ثابت نہیں ہوتے۔

➌ عقل کی فوقیت:

بھنڈر صاحب کا موقف یہ تھا کہ انسانی عقل کے ذریعے ہی حقیقت کو سمجھا جا سکتا ہے، اور مذہب عقل کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔

ڈاکٹر زاہد مغل اور دیگر شرکاء کے جوابی نکات

➊ مذہب کا حقیقت سے تعلق:

ڈاکٹر زاہد مغل نے بھنڈر صاحب کی اس بات کو مسترد کیا کہ مذہب کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کے مطابق مذہب "حقیقت” کے واضح اور جامع جوابات دیتا ہے:

  • دنیا کیا ہے؟
  • انسان کون ہے؟
  • اچھائی اور برائی کیا ہیں؟
  • حقیقت کا علم کہاں سے حاصل ہوگا؟

حوالہ: زاہد مغل نے کہا، "خدا پر ایمان حقیقت کے بارے میں ایک مخصوص تصور قائم کرتا ہے، اور یہی تصور آگے چل کر علم و عقل کی بنیاد بنتا ہے۔”

➋ مفروضہ کی نوعیت:

زاہد مغل کے مطابق کسی نظریے کا "مفروضاتی” ہونا اس کے غلط ہونے کی دلیل نہیں۔ ہر فلسفہ اور علم چند مفروضات پر قائم ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کس نظریے کا مفروضہ زیادہ "معقول” اور "قرین قیاس” ہے۔

مثال: فلسفہ، سائنس، اور منطق میں بھی axioms یا presuppositions موجود ہیں جنہیں قبول کیے بغیر کسی علم کی تشکیل ممکن نہیں۔

➌ عقل اور وحی کا تعلق:

عقل استقرائی (Empirical Reason) کی حدود ہیں اور یہ ماورائے عقل حقائق کو سمجھنے کی اہل نہیں۔ مذہب وحی کے ذریعے ایسے حقائق پیش کرتا ہے جو عقل کی حدود سے باہر ہیں، جیسے اچھائی اور برائی کی بنیاد یا زندگی کا مقصد۔

حوالہ: زاہد مغل نے کہا، "استقرائی عقل خیر و شر کا بنیادی پیمانہ دینے سے قاصر ہے، الا یہ کہ پہلے سے کسی اخلاقی معیار کو مفروضہ تسلیم کرے۔”

➍ حقیقت کا متبادل تصور پیش کرنے کا چیلنج:

زاہد مغل اور دیگر احباب نے بار بار عمران شاہد بھنڈر سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ حقیقت کا کوئی "غیر مفروضاتی” اور "غیر مذہبی” تصور پیش کریں جو مذہبی تصور سے زیادہ معقول ہو۔
بھنڈر صاحب اس چیلنج کا براہ راست جواب دینے سے گریز کرتے رہے۔

➎ اتفاقات اور کائنات کی تخلیق:

بحث میں شامل دیگر افراد نے کائنات اور زندگی کے وجود کو "اتفاقات” کا نتیجہ ماننے کے نظریے پر سوال اٹھایا:

  • کیا یہ ممکن ہے کہ اربوں گلیکسیز، زمین پر زندگی، اور انسان کا شعور محض اتفاقات کا نتیجہ ہوں؟
  • اگر کائنات میں "لزوم” (necessity) پایا جاتا ہے تو اس کے پیچھے کوئی شعوری سبب کیوں نہیں؟

مثال: محمد فاروق نے سوال کیا، "کیا اتفاقات کی لزومیت مفروضات کے بغیر ممکن ہے؟”

مکالمے کا تجزیہ

➊ بھنڈر صاحب کی تنقید کی محدودیت:

  • بھنڈر صاحب نے مذہب کے "مفروضاتی” ہونے پر اعتراض کیا لیکن حقیقت کے متبادل تصور کے لیے کوئی واضح موقف یا دلیل پیش نہیں کی۔
  • ان کے خیالات زیادہ تر مذہب پر تنقید تک محدود رہے اور کوئی ٹھوس فلسفیانہ یا سائنسی بنیاد فراہم نہیں کی۔

➋ زاہد مغل کا منہج:

  • زاہد مغل نے نہ صرف مذہب کی منطق کو مدلل انداز میں پیش کیا بلکہ مذہب کے ناقدین سے ان کے نظریات پر وضاحت طلب کی۔
  • ان کا رویہ علمی اور مکالماتی رہا۔

➌ حقیقت کے سوالات:

یہ بحث اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ چاہے مذہب ہو یا فلسفہ، ہر نظریہ کچھ بنیادی مفروضات پر قائم ہوتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کون سے مفروضات زیادہ معقول، قابل فہم، اور انسانی شعور کے قریب ہیں۔

نتیجہ

یہ مکالمہ ظاہر کرتا ہے کہ مذہب اور فلسفہ دونوں ہی حقیقت کے بارے میں بنیادی سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن مذہب کا تصور زیادہ جامع اور معقول معلوم ہوتا ہے۔
فلسفیانہ تنقید، اگرچہ اہم ہے، لیکن اس وقت تک نامکمل رہتی ہے جب تک کہ وہ حقیقت کا کوئی متبادل تصور فراہم نہ کرے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے