محمود غزنوی کی شخصیت پر اعتراضات اور تاریخی حقائق

محمود غزنوی کا تعارف

سلطان محمود غزنوی، اپنے والد سبکتگین کی وفات کے بعد 387 ہجری میں تخت نشین ہوا۔ اُس کی فتوحات اور حملوں کو بعض لوگ لُوٹ مار کے الزامات کی نظر سے دیکھتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ اسے شدت پسندی سے جوڑتے ہیں۔ اس کے حوالے سے لکھی گئی کتابوں میں علی گڑھ یونیورسٹی کے پروفیسر ایم حبیب کی کتاب "سلطان محمود آف غزنی” کا ذکر خاص طور پر کیا جاتا ہے، جہاں انہوں نے سلطان پر متعدد اعتراضات کیے۔ تاہم ان اعتراضات کو موضوعی اور غیر سائنسی قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ تاریخی حالات اور واقعات کو جانبداری سے دیکھتے ہیں۔

محمود غزنوی کے ہندوستانی حملے

محمود کے ہندوستانی حملوں کا مقصد محض دولت کا حصول نہیں تھا بلکہ یہ اُس وقت کی سیاسی اور سماجی صورتحال کا تقاضا بھی تھا۔

  • راجہ جے پال اور دیگر مقامی راجاؤں کی سازشیں اور دراندازیاں محمود کے حملوں کی بنیادی وجوہات تھیں۔
  • محمود کے حملے مذہبی جنونیت کی بجائے سیاسی حکمت عملی کا حصہ تھے۔

سومناتھ مندر کی تباہی

سومناتھ مندر کو محمود کے مخالفین کا مرکز کہا جاتا ہے جہاں شکست خوردہ راجاؤں نے پناہ لے رکھی تھی۔

رومیلا تھاپر، ایک مشہور ہندو مورخ، اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ مندر اکثر اقتدار کی علامت بن جاتے تھے اور اسی لیے حملوں کی زد میں آتے تھے۔

"ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جب بھی مندر اقتدار کا منبع بنے تو یہ حملوں کی زد میں آگئے۔”
(رومیلا تھاپر، سلطان محمود غزنوی اور سومنات کا مندر)

اگر محمود متعصب ہوتا تو باقی ہزاروں مندر کیوں محفوظ رہے؟ اور غیرمسلموں کو زبردستی مسلمان کیوں نہ بنایا؟

مذہبی رواداری

محمود غزنوی کے عہد میں غیر مسلموں کو مذہبی آزادی حاصل تھی۔

  • ہندوؤں کو غزنی میں الگ بستیوں میں رہنے کی اجازت دی گئی اور انہیں اعلیٰ عہدے بھی دیے گئے۔
  • ہندو کمانڈر مثلاً ہزاری رائی، تلاک رائی، اور سونائی محمود کی فوج کے نمایاں سپہ سالار تھے۔

"مذہبی رواداری، بحوالہ پالیٹکس ان پری مغل ٹائمز، ص: 45-46”

محمود پر شراب نوشی اور ہم جنس پرستی کا الزام

"شعر العجم” میں بیان کردہ شراب نوشی اور ایاز سے محبت کی کہانی کسی مستند راوی کے بغیر محض افسانہ معلوم ہوتی ہے۔

  • عربی، فارسی، یا انگریزی تاریخ میں کہیں بھی محمود کے شراب نوشی یا ہم جنس پرستی کے شواہد نہیں ملتے۔
  • محمود ایک جوشیلا مسلمان تھا جو فرصت کے وقت قرآن پاک لکھا کرتا تھا۔

"میڈول انڈیا، اسٹینلی لین پول، چیپٹر دوم، ص: 14-33”

علمی خدمات اور دربار

محمود غزنوی نہ صرف ایک عظیم سپہ سالار بلکہ علم و ادب کا سرپرست بھی تھا۔

  • مشہور مسلم سائنسدان ابو ریحان البیرونی اور شاعر عنصری، فردوسی، فرخی اس کے دربار کی زینت تھے۔
  • غزنی میں ایک عظیم الشان یونیورسٹی اور کتب خانہ قائم کیا گیا جہاں نایاب کتابیں دستیاب تھیں۔

"مغیث الخلق فی اختیار الاحق، امام الحرمین ابو المعالی جوینی”

غلامی کا الزام

بعض مورخین سبکتگین کو غلام قرار دیتے ہیں، لیکن اس کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں۔

سبکتگین ترکستان کے معزز خاندان سے تھا اور یزدی جرد بادشاہ فارس کی نسل سے تعلق رکھتا تھا۔

"تاریخ مجدول، ابو القاسم حمادی”

اختتامیہ

محمود غزنوی کو تاریخ کے تناظر میں متعصب نظر سے دیکھنے کی بجائے اس کے عہد کے سیاسی، سماجی، اور مذہبی حالات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ وہ محض ایک جنگجو نہیں بلکہ ایک مدبر حکمران، علم و ادب کا سرپرست، اور انصاف پسند حکمران تھا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے