ماء مستعمل کے طاہر و مطہر ہونے پر دلیل؟
شمارہ السنہ جہلم

جواب: ماء مستعمل یعنی جو پانی وضو اور غسل کرنے کے بعد اعضا سے گرتا ہے ، پاک ہوتا ہے اور پاک کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے ۔
➊ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم يعودني ، وأنا مريض لا أعقل ، فتوضا وصب على من وضوئه
” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کو آئے ، میں بیمار اور بے ہوش تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضوفرمایا اور اپنے وضو والا پانی میرے اوپر بہا دیا ۔ “ [ صحيح البخاري: ١٩٤ ، صحيح مسلم: ١٦١٦]
➋ سیدنا ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم بالهاجرة ، فأتي بوضوء فتوضا ، فجعل الناس يأخذون من فضل وضوئه فيتمسحون به
” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کے وقت ہمارے ہاں تشریف لائے ، پانی لایا گیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ کے وضو والا پانی لے کر اپنے جسموں پر ملنا شروع کر دیا ۔ “ [ صحيح البخاري: 187 ، صحيح مسلم: ٥٠٣]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وفيه دلالة بينة على طهارة الماء المستعمل
” یہ حدیث ماء مستعمل کے طاہر ہونے کی واضح دلیل ہے ۔“ [ فتح الباري: ٢٩٥/١]
علامه ابن حزم رحمہ اللہ (456ھ) فرماتے ہیں:
والوضوء بالماء المستعمل جائز ، وكذلك الغسل للجنابة ، وسواء وجد ماء آخر غيره أو لم يوجد ، وهو الماء الذى توضأ به بعينه لفريضة أو نافلة أو اغتسل به بعينه لجنابة أو غيرها ، وسواء كان المتوضي ، به رجلا أو امرأة . برهان ذالك قول الله تعالى: ﴿وإن كنتم مرضى أو على سفر أو جاء أحد منكم من الغائط أو لامستم النساء فلم تجدوا ماء فتيمموا﴾ [النساء: ٤٣] ، فعم تعالى كل ماء ولم يخصه ، فلا يحل لاحد أن يترك الماء فى وضوئه وغسله الواجب وهو يجده إلا ما منعه منه نض ثابت أو إجماع متيقن مقطوع بصحته ، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: وجعلت لنا الأرض كلها مسجدا وجعلت تربتها لنا طهورا إذا لم نجد الماء ، فعم أيضا عليه السلام ولم يخص ، فلا يحل تخصيص ماء بالمنع لم يخصه نض آخر أو إجماع متيقن
”ماء مستعمل سے وضو اور غسل جنابت جائز ہے ، خواہ اس کے علاوہ اور پانی ہو یا نہ ہو ۔ ماء مستعمل ایسے پانی کو کہتے ہیں ، جسے فرض و نفل وضو یا غسل جنابت یا کسی اور غسل کے لیے استعمال کیا جائے ۔ وضو کرنے والا مرد ہو یا عورت ۔ اس کے جواز کی دلیل اللہ کا یہ فرمان ہے: ﴿وَإِن كُنتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا﴾ [النساء: ٤٣] ، تم بیمار ہو ، سفر پر ہو ، کوئی قضائے حاجت سے فارغ ہو کر آیا ہو یا تم نے حالت شہوت مین بیویوں کو چھو لیا ہو ، تو پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کر سکتے ہیں ۔ اللہ نے پانی کو عام ذکر کیا ہے ، کسی قسم کی تخصیص نہیں فرمائی ۔ لہذا کسی کو روا نہیں کہ پانی ہوتے ہوئے اس سے وضو یا فرض غسل نہ کرے ، الا کہ کوئی نص صریح یا قطعی اجماع ا جائے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارے لیے ساری زمین مسجد بنا دی گئی ہے اور پانی کی عدم موجودگی میں مٹی کو پاکی کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کو عام ہی ذکر کیا ہے، تخصیص نہیں کی، لہذا ماء مستعمل کے عدم جواز کا کہہ کر اس کی تخصیص درست نہیں ، جب تک کوئی اور نص یا اجماع اس کی تخصیص نہ کر دے۔“ [ المحلى بالآثار: ١٨٢/١ ، مسئلة نمبر: ١٤١]
ثابت ہوا کہ وضو و غسل کا بچا ہوا پانی ظاہر ہے ۔ جب پاک ہے ، تو پاک کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے ۔ نفی کے لیے دلیل درکار ہے ۔
جب مسلمان نجس نہیں ، تو محض اس کے جسم سے ملنے والا پانی کیسے نجس ہو جاتا ہے؟
اور ویسے بھی وضو اور غسل میں جسم اور کپڑوں کو قطرات سے بچانا ممکن نہیں ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!