قیمتوں کے تعین کا حکم
قمیتوں کے تعین اور نرخ بندی کی دو اقسام ہیں:
(1) ایک قسم یہ ہے کہ جس میں حکام لوگوں کے ظلم اور ذخیرہ کرنے کی وجہ سے نرخ بندی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ حسن تدبیر اور بہترین سیاست کاری کی علامت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”خطا کار ہی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے۔“ [سنن أبى داود، رقم الحديث 3447]
خطا کار اس کو کہتے ہیں جو جان بوجھ کر خطا کا ارتکاب کرتا ہے، جب وہ عمدا خطا کرے تو پھر ضروری ہو جاتا ہے کہ حکام کی جانب سے اس کی اصلاح کی جائے، اگر آدمی کوئی سامان ذخیرہ کر لے اور وہ اس کے علاوہ کسی کے پاس نہ ہو اور لوگوں کو اس کی ضرورت ہو، تو حکام پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ اس معاملے میں دخل اندازی کریں اور اس کے لیے اتنا منافع مقرر کر دیں جس سے بیچنے والے کو نقصان نہ ہو اور خریدار فائدہ اٹھا سکے۔
اگر قیمتوں میں گرانی ظلم کی وجہ سے پیدا نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو، جیسے: سامان کی قلت پیدا ہو جانا، یا کوئی ایسا سبب واقع ہو جانا جو عموی معیشت پر اثر انداز ہو تو اس صورت میں نرخ بندی جائز نہیں کیونکہ یہ اس شخص کے ظلم کا ازالہ نہیں جس نے قیمت بڑھائی ہے، معاملات اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں، یہی وجہ ہے جب عہد نبوی میں قیمت بڑھ گئی تو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے لیے نرخ مقرر کر دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اللہ تعالیٰ ہی نرخ مقرر کرنے والا، رزق میں تنگی اور کشادگی کرنے والا ہے، اور میں امید کرتا ہوں کہ جب میں اللہ تعالیٰ سے ملوں تو مجھ سے کوئی بھی کسی مال یا خون کے متعلق کوئی مطالبہ نہ کرے۔“ [سنن أبى داود 3451 سنن الترمذي، برقم 1314 سنن ابن ماجه 2200]
اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے نرخ بندی سے رک گئے، کیونکہ یہ گرانی ان کے کسی فعل یا عمل کی وجہ سے نہیں تھی۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نرخ بندی کی دو قسمیں ہیں، اگر اس کا سبب ظلم کا ازالہ کرنا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں اور اگر وہ بذات خود ظلم ہو کہ گرانی انسان کے ظلم کی وجہ سے نہ ہو تو ایسی صورت میں نرخ بندی ظلم ہوگی اور جائز نہیں ہو گی۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 10/254]