قضاء عمری کے بدعت ہونے سے متعلق 10 دلائل
ماخوذ: فتاویٰ الدین الخالص ،ج1ص، 201

قضاء عمری ایک قبیح بدعت – شرعی دلائل و تفصیلات

قضاء عمری کے بارے میں سوال

سوال:

قضاء عمری کی نماز کے متعلق وضاحت کریں۔ کیا یہ شرعی عمل ہے یا بدعت؟ بعض فقہی کتب جیسا کہ "ھدایہ” کی شروحات میں ایک حدیث ذکر کی جاتی ہے، اس کی حقیقت کیا ہے؟

جواب

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ولا حول ولا قوة الا باللہ۔

قضاء عمری شرعی لحاظ سے بدعتِ قبیحہ ہے

قضاء عمری کو شرعی اعتبار سے بدعتِ قبیحہ شمار کیا گیا ہے۔

نہ رسول اللہ ﷺ نے یہ عمل کیا، نہ اس کی ترغیب دی اور نہ ہی اس کا کوئی طریقہ سکھایا۔
کسی صحابی، تابعی یا کسی امام دین نے اس کا ذکر نہیں کیا۔

جس عمل کی یہ کیفیت ہو، وہ بدعت اور گمراہی قرار پاتا ہے، اور اس پر عمل کرنے والا گمراہ، مبتدع اور گستاخِ رسول ﷺ سمجھا جائے گا۔

صحیح احادیث سے رہنمائی

رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:

"جو ہمارے دین میں کوئی نئی بات نکالتا ہے جو اس میں نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔”

ایک اور روایت:

"جس نے ایسا کام کیا جس پر ہمارا امر (دین) نہیں، وہ مردود ہے۔”
(صحیح بخاری و صحیح مسلم، مشکٰوۃ المصابیح 1/27)

بدعت کے بارے میں ائمہ دین کے اقوال

امام مالکؒ کا قول:
"جس نے اسلام میں بدعت نکالی اور اسے اچھا سمجھا، گویا اس نے خیال کیا کہ رسول ﷺ نے رسالت میں خیانت کی۔”

امام ابن کثیرؒ
(تفسیر ابن کثیر 6/156):
اہل سنت والجماعت ہر اس قول و فعل کو بدعت کہتے ہیں جو صحابہ کرامؓ سے ثابت نہ ہو۔

اگر یہ عمل نیک ہوتا تو صحابہؓ ضرور ہم سے پہلے اس پر عمل کرتے، کیونکہ وہ کسی نیکی میں پیچھے نہیں رہے۔

قضاء عمری کی نام نہاد حدیث کا تجزیہ

بعض لوگ "المنایہ” اور "النہایہ” جیسی "ھدایہ” کی شروحات سے ایک حدیث پیش کرتے ہیں:

"جس نے رمضان کے آخری جمعہ کے دن فرض نمازوں کی قضا کی تو اس سے گذشتہ عمر اور مزید 70 سال تک کی فوت شدہ نمازوں کی کمی پوری ہو گی۔”

اس روایت کی حقیقت:
یہ روایت نہ صحیح سند سے ثابت ہے، نہ ضعیف سند سے۔

ملا علی قاریؒ نے
موضوعات کبریٰ (ص:74)
میں اس حدیث کو "قطعی باطل” قرار دیا ہے۔

یہ روایت اجماع کے خلاف ہے، کیونکہ:
عبادات میں سے کوئی بھی عبادت کئی سالوں کی فوت شدہ عبادات کا بدل نہیں ہو سکتی۔

فقہاء کی آراء اور ان کی حیثیت

ھدایہ کے دیگر شراح کی نقل کردہ روایت غیر معتبر ہے:

کیونکہ یہ حضرات محدثین نہیں تھے۔
انہوں نے نہ سند ذکر کی، نہ اس حدیث کا ماخذ۔

"ہم کہتے ہیں: کہ فقہاء یا خود ساختہ فقہاء رسول اللہ ﷺ کی طرف جھوٹ منسوب کرنے میں پرواہ نہیں کرتے۔”

امام ابن حجرؒ کی شہادت

آپ کی کتاب
الدرایہ فی تخریج احادیث الھدایہ
میں ایسی بے اصل روایات کا ذکر موجود ہے۔

قضاء عمری کی بدعت سے پیدا ہونے والا فتنہ

اس جھوٹی روایت کی وجہ سے لوگ نماز چھوڑنے کی جرأت کرتے ہیں۔

ان کا گمان ہوتا ہے کہ قضاء عمری کرنے سے بخشش ہو جائے گی۔

یہ دھوکہ انہیں ان کی من گھڑت باتوں کی وجہ سے لاحق ہوا ہے:

ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا ٱلنَّارُ إِلَّآ أَيَّامًۭا مَّعْدُودَٰتٍۢ ۖ وَغَرَّهُمْ فِى دِينِهِم مَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ
ان کی گھڑی گھڑائی باتوں نے ان کے دین کے بارے میں دھوکے میں ڈال رکھا ہے
(آل عمران: 24)

علماے حدیث کی آراء

صلاۃ تسبیح، صلاۃ حاجت کے علاوہ:

◈ صلاۃ الرغائب
◈ صلاۃ الرجیہ
◈ شعبان کی پندرہویں رات کی نماز
◈ راتوں اور دنوں کی خود ساختہ نمازیں
◈ قضاء عمری کی نماز

➤ سب بدعت ہیں اور ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔

حوالہ جات:

الموضوعات لابن جوزیؒ (2/111 تا 146)
المنار الصھف لابن قیمؒ (ص95)
ضیاء النور (ص:204)
التبیان للشیخ عبدالسلام رستمیؒ (ص:197)

ابن عابدینؒ کے قول کی حیثیت

بعض لوگ ابن عابدینؒ کے قول
(1/542)
کا حوالہ دیتے ہیں:

"وہ شخص جو نماز فوت نہ ہونے کے باوجود قضاء عمری کرے، تو یہ مکروہ نہیں کیونکہ اس نے احتیاط کی۔”

اس پر تبصرہ:
یہ گمراہی ہے:

ابن عابدین اسے مجہول سے نقل کرتے ہیں۔

فرائض جو اپنی شرائط کے مطابق ادا ہو چکے ہوں، ان کی دوبارہ قضاء بدعت اور گمراہی ہے۔

اگر یہ بدعت نہ ہو تو پھر دنیا میں کوئی بھی بدعت باقی نہ رہے۔

نتیجہ

قضاء عمری کے عمل کی کوئی شرعی بنیاد نہیں۔

اس پر عمل کرنا گمراہی، بدعت اور سنتِ رسول ﷺ کے خلاف ہے۔

سنت کے بعد صرف بدعت رہ جاتی ہے، اور حق کے بعد صرف گمراہی۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

(منگل، 10 ربیع الاول، 1415ھ)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1