تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ
قصہ ایک راہب کا جس کو شیطان نے بہلا کر زنا کروایا پھر لڑکی کو قتل کروایا
بنی اسرائیل میں ایک عابد تھے، ساٹھ سال اسے عبادت الٰہی میں گزر چکے تھے، شیطان نے اسے ورغلانا چاہا لیکن وہ قابو میں نہ آیا اس نے ایک عورت پر اپنا اثر ظاہر کیا کہ گویا اسے جنات ستا رہے ہیں اور اس عورت کے بھائیوں کو یہ وسوسہ ڈالا کہ اس کا علاج اس عابد سے ہو سکتا ہے یہ اس عورت کو اس عابد کے پاس لائے، اس نے علاج معالجہ یعنی دم کرنا شروع کیا اور یہ عورت یہیں رہے گی، ایک دن عابد اس کے پاس ہی تھا، جو شیطان نے اس کے خیالات خراب کرنے شروع کیے یہاں تک کہ وہ زنا کر بیٹھا اور وہ حاملہ ہو گئی، اب رسوائی کے خوف سے شیطان نے چھٹکارے کی صورت بتائی کہ اس عورت کو مار ڈال ورنہ راز کھل جائے گا۔
چنانچہ اس نے اسے قتل کر ڈالا، ادھر اس نے جا کر عورت کے بھائیوں کو شک دلوایا وہ دوڑے آئے، شیطان راہب کے پاس آیا اور کہا : وہ لوگ آ رہے ہیں، اب عزت بھی جائے گی اور جان بھی جائے گی۔ اگر مجھے خوش کر لے اور میرا کہا مان لے تو عزت اور جان دونوں بچ سکتی ہیں۔ اس نے کہا : جس طرح تو کہے میں تیار ہوں۔ شیطان نے کہا : مجھے سجدہ کر، عابہ نے سجدہ کر لیا، یہ کہنے لگا : تف ہے تجھ پر کم بخت، میں تو اب تجھ سے بیزار ہوں میں تو اللہ سے ڈرتا ہوں جو رب العالمین ہے۔ ایک اور روایت میں اس طرح ہے کہ ایک عورت بکریاں چرایا کرتی تھی اور ایک راہب کی خانقاہ تلے رات گزارا کرتی تھی اس کے چار بھائی تھے ایک دن شیطان نے راہب کو گدگدایا اور اس سے زنا کر بیٹھا، اسے حمل رہ گیا، شیطان نے راہب کے دل میں ڈالا کہ اب رسوائی ہو گی اس سے بہتر یہ ہے کہ اسے مار ڈال اور کہیں دفن کر دے تیرے تقدس کو دیکھتے ہوئے تیری طرف تو کسی کا خیال بھی نہ جائے گا اور اگر بالفرض پھر بھی کچھ پوچھ گچھ ہو تو جھوٹ موٹ کہہ دینا، بھلا کون ہے جو تیری بات کو غلط جانے ؟ اس کی سمجھ میں بھی یہ بات آ گئی، ایک روز رات کے وقت موقعہ پا کر اس عورت کو جان سے مار ڈالا اور کسی اجاڑ جگہ زمین میں دبا دیا۔ اب شیطان اس کے چاروں بھائیوں کے پاس پہنچا اور ہر ایک کے خواب میں اسے سارا واقعہ کہہ سنایا اور اس کے دفن کی جگہ بھی بتادی صبح جب یہ جاگے تو ایک نے کہا آج کی رات تو میں نے ایک عجیب خواب دیکھا ہے، ہمت نہیں پڑتی کہ آپ سے بیان کروں دوسروں نے کہا : نہیں کہو تو سہی چنانچہ اس نے پورا خواب بیان کیا کہ اس طرح فلاں عابد نے اس سے بدکاری کی پھر جب حمل ٹھہر گیا تو اسے قتل کر دیا اور فلاں جگہ اس کی لاش دبا آیا ہے، ان تینوں میں سے ہر ایک نے کہا : مجھے بھی یہی خواب آیا ہے اب تو انھیں یقین ہو گیا کہ خواب سچا ہے، چنانچہ انھوں نے جا کر اطلاع دی اور بادشاہ کے حکم سے اسی راہب کو اس خانقاہ سے ساتھ لیا اور اس جگہ پہنچ کر اس کی لاش برآمد کی، کامل ثبوت کے بعد اب اسے شاہی دربار میں لے چلے اس وقت شیطان اس کے سامنے ظاہر ہوتا ہے اور کہتا ہے یہ سب میرے کرتوت ہیں اب بھی اگر تو مجھے راضی کر لے تو جان بچا دوں گا اس نے کہا جو تو کہے کروں گا کہ مجھے سجدہ کر لے اس نے یہ بھی کر دیا، پس پورا بے ایمان بنا کر شیطان کہتا ہے کہ میں تو تجھ سے بری ہوں میں تو اللہ تعالی سے جو تمام جہانوں کا رب ہے ڈرتا ہوں، چنانچہ بادشاہ نے حکم دیا اور پادری صاحب کو قتل کر دیا گیا، مشہور ہے کہ اس پادری کا نام برصیصا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ طاؤس رحمہ اللہ مقاتل بن حیان رحمہ اللہ وغیرہ سے یہ قصہ مختلف الفاظ سے کی پیشی کے ساتھ مروی ہے۔
[مستدرك للحاكم 484/2 رقم الحديث 3801 كنز العمال 694/2 تفسير الطبري 47/12]
بنی اسرائیل میں ایک عابد تھے، ساٹھ سال اسے عبادت الٰہی میں گزر چکے تھے، شیطان نے اسے ورغلانا چاہا لیکن وہ قابو میں نہ آیا اس نے ایک عورت پر اپنا اثر ظاہر کیا کہ گویا اسے جنات ستا رہے ہیں اور اس عورت کے بھائیوں کو یہ وسوسہ ڈالا کہ اس کا علاج اس عابد سے ہو سکتا ہے یہ اس عورت کو اس عابد کے پاس لائے، اس نے علاج معالجہ یعنی دم کرنا شروع کیا اور یہ عورت یہیں رہے گی، ایک دن عابد اس کے پاس ہی تھا، جو شیطان نے اس کے خیالات خراب کرنے شروع کیے یہاں تک کہ وہ زنا کر بیٹھا اور وہ حاملہ ہو گئی، اب رسوائی کے خوف سے شیطان نے چھٹکارے کی صورت بتائی کہ اس عورت کو مار ڈال ورنہ راز کھل جائے گا۔
چنانچہ اس نے اسے قتل کر ڈالا، ادھر اس نے جا کر عورت کے بھائیوں کو شک دلوایا وہ دوڑے آئے، شیطان راہب کے پاس آیا اور کہا : وہ لوگ آ رہے ہیں، اب عزت بھی جائے گی اور جان بھی جائے گی۔ اگر مجھے خوش کر لے اور میرا کہا مان لے تو عزت اور جان دونوں بچ سکتی ہیں۔ اس نے کہا : جس طرح تو کہے میں تیار ہوں۔ شیطان نے کہا : مجھے سجدہ کر، عابہ نے سجدہ کر لیا، یہ کہنے لگا : تف ہے تجھ پر کم بخت، میں تو اب تجھ سے بیزار ہوں میں تو اللہ سے ڈرتا ہوں جو رب العالمین ہے۔ ایک اور روایت میں اس طرح ہے کہ ایک عورت بکریاں چرایا کرتی تھی اور ایک راہب کی خانقاہ تلے رات گزارا کرتی تھی اس کے چار بھائی تھے ایک دن شیطان نے راہب کو گدگدایا اور اس سے زنا کر بیٹھا، اسے حمل رہ گیا، شیطان نے راہب کے دل میں ڈالا کہ اب رسوائی ہو گی اس سے بہتر یہ ہے کہ اسے مار ڈال اور کہیں دفن کر دے تیرے تقدس کو دیکھتے ہوئے تیری طرف تو کسی کا خیال بھی نہ جائے گا اور اگر بالفرض پھر بھی کچھ پوچھ گچھ ہو تو جھوٹ موٹ کہہ دینا، بھلا کون ہے جو تیری بات کو غلط جانے ؟ اس کی سمجھ میں بھی یہ بات آ گئی، ایک روز رات کے وقت موقعہ پا کر اس عورت کو جان سے مار ڈالا اور کسی اجاڑ جگہ زمین میں دبا دیا۔ اب شیطان اس کے چاروں بھائیوں کے پاس پہنچا اور ہر ایک کے خواب میں اسے سارا واقعہ کہہ سنایا اور اس کے دفن کی جگہ بھی بتادی صبح جب یہ جاگے تو ایک نے کہا آج کی رات تو میں نے ایک عجیب خواب دیکھا ہے، ہمت نہیں پڑتی کہ آپ سے بیان کروں دوسروں نے کہا : نہیں کہو تو سہی چنانچہ اس نے پورا خواب بیان کیا کہ اس طرح فلاں عابد نے اس سے بدکاری کی پھر جب حمل ٹھہر گیا تو اسے قتل کر دیا اور فلاں جگہ اس کی لاش دبا آیا ہے، ان تینوں میں سے ہر ایک نے کہا : مجھے بھی یہی خواب آیا ہے اب تو انھیں یقین ہو گیا کہ خواب سچا ہے، چنانچہ انھوں نے جا کر اطلاع دی اور بادشاہ کے حکم سے اسی راہب کو اس خانقاہ سے ساتھ لیا اور اس جگہ پہنچ کر اس کی لاش برآمد کی، کامل ثبوت کے بعد اب اسے شاہی دربار میں لے چلے اس وقت شیطان اس کے سامنے ظاہر ہوتا ہے اور کہتا ہے یہ سب میرے کرتوت ہیں اب بھی اگر تو مجھے راضی کر لے تو جان بچا دوں گا اس نے کہا جو تو کہے کروں گا کہ مجھے سجدہ کر لے اس نے یہ بھی کر دیا، پس پورا بے ایمان بنا کر شیطان کہتا ہے کہ میں تو تجھ سے بری ہوں میں تو اللہ تعالی سے جو تمام جہانوں کا رب ہے ڈرتا ہوں، چنانچہ بادشاہ نے حکم دیا اور پادری صاحب کو قتل کر دیا گیا، مشہور ہے کہ اس پادری کا نام برصیصا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ طاؤس رحمہ اللہ مقاتل بن حیان رحمہ اللہ وغیرہ سے یہ قصہ مختلف الفاظ سے کی پیشی کے ساتھ مروی ہے۔
[مستدرك للحاكم 484/2 رقم الحديث 3801 كنز العمال 694/2 تفسير الطبري 47/12]
تحقیق الحدیث :
اگرچہ اس کو حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا ہے بعض محققین کے نزدیک اس کی سند حسن درجے کی ہے مگر صحیح تلبیس ابلیس میں علامہ البانی کے شاگرد علی حسن علی عبدالحمید نے اس کو حذف کر دیا ہے۔ گویا ان کے نزدیک یہ قصہ سند سے ثابت نہیں ہے۔ «والله اعلم. »