قربانی کے جانور پر ضرورت کے وقت سواری کا جواز
تحریر: عمران ایوب لاہوری

قربانی کے جانور پر ضرورت کے وقت سواری کا جواز
➊ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ قربانی کا جانور لیے جا رہا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”اس پر سوار ہو جا۔“ اس نے کہا یہ قربانی کا جانور ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سوار ہو جا۔“ اس نے پھر عرض کیا کہ یہ قربانی کا جانور ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ بھی یہی فرمایا:
ار كبها
”تو اس پر سوار ہو جا۔“
[بخاري: 1690 ، كتاب الحج: باب ركوب البدن ، مسلم: 1323 ، نسائي: 176/5 ، ترمذي: 913 ، ابن ماجة: 3104 ، أحمد: 106/3 ، ابن خزيمة: 188/4 ، شرح معاني الآثار: 161/2 ، بيهقى: 236/5 ، أبو يعلى: 2869]
➋ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح کی حدیث مروی ہے۔
[بخارى: 1689 أيضا ، مسلم: 1322 ، ابو داود: 1760 ، نسائي: 176/5 ، ابن ماجة: 3103 ، ابن الجارود: 428 ، أحمد: 254/2 ، شرح معاني الآثار: 160/2 ، بيهقى: 236/5 ، ابو يعلى: 2307 ، شرح السنة: 115/4]
➌ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے قربانی کے جانور پر سواری کرنے کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے:
اركبها بالمعروف إذا الجئت إليها حتى تجد ظهرا
”معروف طریقے سے اس پر سواری کر لو جبکہ تم اس کی طرف مجبور کر دیے جاؤ تاوقتیکہ تم کسی سوار کو پا لو ۔“
[أحمد: 317/3 ، مسلم: 1324 ، كتاب الحج: باب جواز ركوب البدنة المهداة لمن احتاج إليها ، أبو داود: 1761 ، نسائي: 277/5 ، ابن الجارود: 429 ، ابن خزيمة: 189/4 ، ابو يعلى: 1815]
(شوکانیؒ ) یہ احادیث قربانی کے جواز پر دلالت کرتی ہیں قطع نظر اس سے کہ وہ قربانی نفلی ہو یا فرضی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق مسائل سے کچھ بھی دریافت نہیں کیا ۔
[نيل الأوطار: 463/3]
(ابن قدامہؒ) بوقت ضرورت قربانی کے جانور پر بھی سواری کی جا سکتی ہے۔ امام شافعیؒ ، امام ابن منذرؒ اور اصحاب الرائے کا یہی موقف ہے۔ امام ابن عربیؒ اور امام مہدیؒ نے امام ابو حنیفہؒ سے مطلقا قربانی کے جانور پر سواری سے ممانعت نقل کی ہے جبکہ امام طحاویؒ نے بوقت ضرورت امام صاحب سے جواز نقل کیا ہے۔
[المغنى: 442/5 ، نيل الأوطار: 463/3]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1