اعتراضات
➊ تین دن سے کم عرصے میں قرآن پڑھنے کی ممانعت
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کو تین دن سے کم عرصے میں پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔
لہذا، جو ایسا کرتا ہے، وہ سنت کی مخالفت کرتا ہے، اور صحابہ کرام یا دیگر عظیم شخصیات سنت کی مخالفت نہیں کر سکتے۔
➋ وقت کی محدودیت اور عملی امکان
کچھ روایات میں ایک ہی رات میں قرآن مکمل کرنے یا رمضان میں ساٹھ مرتبہ قرآن پڑھنے کے واقعات ملتے ہیں۔
یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اتنے کم وقت میں قرآن کی تکمیل ممکن نہیں۔
جواب
1. مخالفت سنت کا فتویٰ اور علماء کا موقف
علماء کا موقف: امام نووی، حافظ ابن حجر اور دیگر علماء نے وضاحت کی ہے کہ حدیث میں تین دن سے کم قرآن پڑھنے کی ممانعت کا مطلب تحریم نہیں ہے۔
سلف صالحین کا عمل: اکثر سلف صالحین تین دن سے کم وقت میں قرآن مکمل کرتے تھے۔
حافظ ابن حجر:
حدیث کے مختلف معانی بیان کرتے ہوئے حافظ ابن حجر نے فرمایا کہ:
"یہ ممانعت لازمی تحریم کے طور پر نہیں ہے، بلکہ یہ اس شخص پر موقوف ہے کہ وہ قرآن کے معانی کو سمجھنے میں کتنا وقت لیتا ہے۔ جو شخص سمجھ بوجھ رکھتا ہے، اس کے لیے یہ مدت مختلف ہو سکتی ہے۔”
(فتح الباری، 9/97)
لطائف المعارف: حافظ ابن رجب نے واضح کیا کہ رمضان کے فضیلت والے دنوں یا مکہ مکرمہ جیسی جگہوں پر قرآن زیادہ پڑھنا مستحب ہے، اور اس پر ائمہ کا عمل بھی رہا ہے۔
2. وقت کی محدودیت اور قیاس مع الفارق
زمانے کا فرق:
سلف صالحین کی تلاوت کے معیار اور وقت کی برکت کو موجودہ دور کے حالات پر قیاس کرنا غلط ہے۔
روانی کا اثر:
جو شخص قرآن کو زیادہ پڑھتا ہے، اس کی روانی اور مہارت میں اضافہ ہوتا ہے، جس سے وہ کم وقت میں زیادہ تلاوت کر سکتا ہے۔
سلف صالحین کے اعمال
ایک رکعت یا دو رکعت میں قرآن مکمل کرنے کے واقعات:
◈ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ:
"حضرت عثمان نے ایک رکعت میں پورا قرآن ختم کیا۔”
(مصنف ابن ابی شیبہ، 2/243)
◈ تمیم داری رضی اللہ عنہ:
"تمیم داری نے ایک رکعت میں پورا قرآن ختم کیا۔”
(مصنف ابن ابی شیبہ، 2/243)
◈ سعید بن جبیر رحمہ اللہ:
"انہوں نے کعبہ میں دو رکعتوں میں قرآن ختم کیا۔”
(مصنف ابن ابی شیبہ، 2/243)
◈ رمضان میں قرآن کی تلاوت:
"علی الازدی رمضان میں ہر رات قرآن مکمل کرتے تھے۔”
(مصنف ابن ابی شیبہ، 2/243)
قرآن فہمی اور تلاوت کی مدت
قرآن کو سمجھ کر پڑھنا:
قرآن کی تلاوت کو سمجھنے کی کوشش کرنا افضل ہے، لیکن سمجھ کے بغیر بھی تلاوت باعثِ ثواب ہے۔
مدت کی گنجائش:
قرآن مکمل کرنے کی مثالی مدت تین دن سے چالیس دن ہے، لیکن یہ طبیعت اور ذوق کے مطابق مختلف ہو سکتی ہے۔
خلاصہ
تین دن سے کم وقت میں قرآن مکمل کرنے کے اعتراضات تاریخی روایات اور علماء کے فتاویٰ سے متصادم ہیں۔
سلف صالحین کے اعمال اور قرآن کے متعلق روایات واضح کرتی ہیں کہ وقت کی کمی بیشی افراد کی طبیعت، ذوق اور حالات پر موقوف ہے۔
قرآن فہمی اور تلاوت دونوں میں توازن رکھنا ضروری ہے، اور کسی مخصوص مدت کو لازمی سمجھنا غلط ہے۔
واللہ أعلم