قرآن میں عقل کی اہمیت اور الحاد کے سوالات

قرآن کا پیغام: پیروی عقل کی روشنی میں

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو اس پر چلیں گے جس پر اپنے باپ دادا کو پایا۔ کیا اگرچہ ان کے باپ دادا کچھ نہ عقل رکھتے ہوں نہ ہدایت؟”
(سورۃ البقرہ، آیت 70)

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ دین کا راستہ محض روایات اور عقیدت کے بجائے عقل و شعور کی بنیاد پر اختیار کیا جانا چاہیے۔ کسی بھی مذہب یا عقیدے کو اگر صرف عقیدت کی بنا پر اپنایا جائے اور اس میں عقل شامل نہ ہو، تو وہ خود اپنے ماننے والوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ جبکہ قرآن جگہ جگہ انسان کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے، کیونکہ آخرت میں انسان کے اعمال کا حساب اسی عقل کی بنیاد پر لیا جائے گا۔

دینِ اسلام اور عقل کا معیار

عقل کا استعمال اور ہدایت:

دینِ اسلام میں نابالغ بچوں اور مجنون افراد پر گناہ کا تصور نہیں ہے۔ کیوں؟ کیونکہ ان کے پاس عقل کی وہ سطح موجود نہیں جو صحیح و غلط کی پہچان کے لیے ضروری ہے۔ گناہ گار صرف وہی قرار دیا جاتا ہے جسے عقل دی گئی ہو، لیکن اس نے اس عقل کو ہدایت کے لیے استعمال نہ کیا ہو۔

والدین کی تربیت اور اولاد کی ذمہ داری:

اگر والدین حق پر نہ ہوں تو کیا اولاد کے لیے سیدھے راستے پر چلنا ممکن ہے؟ دینِ اسلام اس مسئلے کا واضح جواب دیتا ہے:
"باپ کے گناہ پر بیٹا نہیں پکڑا جائے گا، اور نہ ہی بیٹے کے گناہ پر باپ۔”
ہر شخص کو اپنی عقل کے ذریعے صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنا ہوگا، کیونکہ ہر انسان اپنی ذمہ داری خود اٹھانے کا پابند ہے۔

انسان اور دیگر مخلوقات میں فرق

انسان اور دیگر مخلوقات کے درمیان بنیادی فرق عقل و شعور کا ہے۔ جانوروں کو تربیت دی جا سکتی ہے، مگر ان کی عقل محدود ہوتی ہے اور وہ صرف مخصوص عمل دہراتے ہیں۔ اس کے برعکس انسان کو جب شعور حاصل ہوتا ہے تو وہ آزادانہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
مثال کے طور پر، اگر ایک انسان کو بچپن سے ناچنے کی تربیت دی جائے تو وہ ابتدا میں لاشعوری طور پر ایسا کرے گا، لیکن شعور آتے ہی وہ فیصلہ کر سکے گا کہ اسے یہ عمل جاری رکھنا ہے یا نہیں۔ یہی آزادی انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے۔

قرآن: انسان کی عقل و تجسس کا معجزہ

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو مختلف اشیاء کے نام سکھائے اور فرشتوں کو چیلنج کیا کہ وہ ان چیزوں کے نام بتائیں:
"فرشتے بولے: اے اللہ! تُو پاک ہے، ہم اس کے سوا کچھ علم نہیں رکھتے جو تُو نے ہمیں عطا کیا۔”
(سورۃ البقرہ، آیت 32)

یہ واقعہ انسان اور فرشتوں کے علم میں بنیادی فرق کو واضح کرتا ہے۔ فرشتوں کا علم محدود تھا، جب کہ انسان کو تجسس، تحقیق اور عقل کی نعمت دی گئی۔ یہی تجسس انسان کو نئی ایجادات، دریافتوں اور کائنات کے رازوں کی کھوج پر آمادہ کرتا ہے۔ انسان محض یہ جان کر مطمئن نہیں ہوتا کہ کوئی چیز کیا ہے؛ وہ یہ بھی جاننا چاہتا ہے کہ یہ کیوں ہے۔

الحاد اور مذہب: "کیسے” اور "کیوں” کا فرق

"کیسے” کی حد تک علم:

دنیاوی علم اور سائنس اکثر "کیسے” کے سوالات کے جواب دیتی ہیں، جیسے:

◈ کھانا کیسے ہضم ہوتا ہے؟
◈ بچہ کیسے پیدا ہوتا ہے؟
◈ ماں کا دودھ بچے کے لیے کیوں ضروری ہے؟

ان سوالات کا جواب ہر جاندار کے لیے یکساں ہوتا ہے، چاہے وہ انسان ہو یا جانور۔

"کیوں” کی کھوج:

تاہم "کیوں” کے سوالات، جیسے:

◈ ہم کھانا کیوں کھاتے ہیں؟
◈ بچہ کیوں پیدا ہوتا ہے؟
◈ ماں کا دودھ بچے کے لیے کیوں مخصوص ہے؟

یہ سوالات مذہب کی طرف اشارہ کرتے ہیں، کیونکہ ان کا جواب سائنس کے دائرہ کار سے باہر ہے۔ سائنس "کیسے” کی وضاحت کرتی ہے، مگر "کیوں” کا تعین کرنا صرف مذہب کا میدان ہے۔

الحاد کا خلا اور مذہب کی برتری

الحاد اکثر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ مذہب کسی مسئلے کو سمجھنے میں ناکام ہو تو اسے خدا پر ڈال دیتا ہے۔ لیکن عملی طور پر الحاد "کیوں” کے سوال پر ہمیشہ خاموش دکھائی دیتا ہے۔
چند مثالیں:

◈ کائنات کیسے بنی؟ جواب: بگ بینگ۔
◈ بگ بینگ کیوں ہوا؟ جواب ندارد۔
◈ زندگی کی ابتدا کیسے ہوئی؟ جواب: ارتقاء۔
◈ زندگی کی ابتدا کیوں ہوئی؟ جواب ندارد۔

یہی حال دیگر سوالات کا بھی ہے۔ مثلاً:

◈ پھلوں میں ذائقہ کیوں ہے؟
◈ پھولوں میں خوشبو کیوں ہے؟
◈ جانوروں کے جسموں پر خوبصورت نقش و نگار کیوں ہیں؟

سائنس ان سوالات کے "کیسے” پر گفتگو کرتی ہے، لیکن "کیوں” کے جواب دینے سے قاصر ہے۔

فطری انتخاب اور سوالات کا فقدان:

الحاد کے نظریے میں بھی تضاد پایا جاتا ہے:
◈ جب پوچھا جاتا ہے کہ ڈائناسارز کیوں ختم ہو گئے؟ تو جواب دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ماحول سے مطابقت نہ رکھنے کی وجہ سے ناپید ہو گئے۔
◈ لیکن جب پوچھا جاتا ہے کہ اونٹ کے اندر صحرا کے مطابق خصوصیات کیسے پیدا ہوئیں؟ تو جواب دیا جاتا ہے کہ اس کے جسم نے خودبخود ان خصوصیات کو اپنا لیا۔

یہ تضادات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ الحاد کے پاس "کیوں” کے سوالات کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں۔ درحقیقت، ان سوالات کا منطقی نتیجہ صرف خدا پر ایمان کی صورت میں نکلتا ہے۔

خلاصہ

انسانی عقل، تجسس اور "کیوں” کے سوالات انسان کو خدا کی ذات کی طرف لے جاتے ہیں۔ قرآن عقل و شعور کی اہمیت پر زور دیتا ہے اور ہر انسان کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ مذہب انسان کے "کیوں” کے سوالات کا جواب فراہم کرتا ہے، جو الحاد اور سائنس کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے