آرتھر جیفری کا تعارف
آرتھر جیفری ایک آسٹریلوی نژاد امریکی مستشرق تھا، جس نے قرآن کریم کے مختلف پہلوؤں خصوصاً قراءتوں کے موضوع پر تفصیلی کام کیا۔ اس کا سب سے نمایاں کام "Materials for the History of the Text of the Quran” ہے، جو 1937ء میں ای۔ جے۔ برل (لیڈن) نے شائع کیا۔ یہ کام ابن ابی داؤد کی کتاب "المصاحف” کے ساتھ شائع ہوا، جسے آرتھر جیفری نے مرتب کیا تھا۔ اس کے علاوہ اس نے قرآن کی تدوین اور قراءتوں پر کئی اور تحریریں بھی ترتیب دیں، جن میں "مقدمتان فی علوم القرآن” شامل ہیں۔
جیفری کا نظریہ اور تحقیقات
آرتھر جیفری نے قرآن کریم کے مختلف پہلوؤں، جیسے:
- ◈ قراءتوں میں اختلاف،
- ◈ قرآن کے غیر عربی الفاظ،
- ◈ قرآن کی تدوین،
- ◈ اور قرآن کے مبینہ یہودی و عیسائی مآخذ پر تحقیق کی۔
جیفری نے دعویٰ کیا کہ قرآن کریم کی موجودہ قراءت نبی اکرم ﷺ کے الفاظ کی اصل ترتیب نہیں بلکہ بعد کے مسلمانوں نے اپنی ضروریات کے مطابق اس میں تبدیلیاں کیں۔ اس نے قرآنی سورتوں کے خود ساختہ تراجم بھی پیش کیے اور ان کی ترتیب نو کا تصور دیا، تاکہ یہ ثابت کر سکے کہ حضرت محمد ﷺ کی سوچ میں ارتقاء ہوا تھا۔
اختلاف قراءتوں پر کام
آرتھر جیفری نے قرآن کریم کی مختلف قراءتوں کو جمع کیا، جن میں سے بہت سی ابن ابی داؤد کی کتاب
"کتاب المصاحف”
سے لی گئی تھیں۔ اس نے تقریباً 15 "بنیادی نسخے” اور 13 "ثانوی نسخے” پیش کیے، جنہیں مختلف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کی طرف منسوب کیا۔ یہ نام درج ذیل ہیں:
بنیادی نسخے:
- حضرت عبداللہ بن مسعود، ابی بن کعب، علی بن ابی طالب، زید بن ثابت، حضرت عمر بن خطاب، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم وغیرہ۔
ثانوی نسخے:
- علقمہ، سعید بن جبیر، مجاہد، عکرمہ، عطا بن ابی رباح وغیرہ۔
جیفری کا دعویٰ تھا کہ ان صحابہ کے پاس قرآن کے ایسے نسخے موجود تھے، جو مصحف عثمانی سے مختلف تھے۔
جیفری کے اہم دعوے
مصحف عثمانی کے خلاف اختلافات
جیفری نے اختلاف قراءتوں کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں قرآن کی تدوین کے دوران کئی نسخوں کو نظر انداز کیا گیا اور چند آیات شامل کی گئیں، جن کی اسناد مشکوک ہیں۔
قراءتوں کی بنیاد پر اعتراضات
جیفری نے مصحف عثمانی کی کتابت کو "غلطیوں” سے بھرپور قرار دیا۔ مثلاً:
سورہ الفاتحہ:
- اس نے دعویٰ کیا کہ مختلف صحابہ کرام مثلاً عبداللہ بن مسعود اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہم اس سورہ کو مختلف انداز میں پڑھتے تھے۔
- ➊ "مالک” کی جگہ "ملک” یا "ملیک”۔
- ➋ "ایاک” کی جگہ "ایا”۔
- ➌ "صراط” کی جگہ "سراط” یا "زراط”۔
مصحف عثمانی کے رسم الخط پر تنقید
جیفری نے کہا کہ مصحف عثمانی میں موجود رسم الخط میں غیر معیاری الفاظ شامل ہیں، جیسے:
- ◈ "صلوٰۃ” میں "و” کا اضافہ،
- ◈ "رحمت” کو "ۃ” کے بجائے "ت” سے لکھنا۔
یہودی و عیسائی مآخذ
جیفری نے قرآن کریم کو بائبل جیسی کتب کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کی کہ قرآن کے کئی مواد یہودی و عیسائی روایات سے لیے گئے ہیں۔
جیفری کا تنقیدی جائزہ
تاریخی حقائق کا انکار
جیفری نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مصحف پر اجماع کو نظرانداز کیا۔ اس نے یہ حقیقت نظرانداز کی کہ مصحف عثمانی کی تدوین میں ہزاروں حفاظ قرآن شریک تھے اور ان سب نے اسے نبی اکرم ﷺ کی تلاوت کے عین مطابق تسلیم کیا۔
غیر مستند اسناد
جیفری نے اختلافی قراءتوں کو پیش کرنے کے لیے غیر مستند اسناد پر انحصار کیا اور کسی مضبوط و متواتر سند کو سامنے نہیں لایا۔
قرآن کے متن کا تحفظ
جیفری کے اس دعوے کے برعکس کہ قرآن میں تبدیلیاں کی گئیں، حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کا متن حفظ اور قراءت کے ذریعے نسل در نسل بغیر کسی تبدیلی کے منتقل ہوا ہے۔ حتیٰ کہ قرآن کے لاکھوں نسخوں میں تحریری غلطیاں تو ہوسکتی ہیں، لیکن متن میں کوئی فرق نہیں۔
پروفیسر برجسٹراسر اور ڈاکٹر اوٹو پریکشل کی تحقیق
میونخ میں قائم قرآن محل نے قرآن کے 42,000 نسخوں کا جائزہ لیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ان نسخوں میں متن کا کوئی اختلاف نہیں پایا گیا۔ یہ تحقیق جیفری کے دعوؤں کی تردید کرتی ہے۔
جیفری کے نظریے کی خامیاں
- ◈ جیفری نے اختلافی قراءتوں کو متن کے اختلاف کے طور پر پیش کیا، حالانکہ وہ لہجے اور تلفظ کے اختلافات تھے، جو نبی اکرم ﷺ کی اجازت سے مختلف قبائل کے لیے آسانی پیدا کرنے کے لیے تھے۔
- ◈ اس نے "سبعہ احرف” کی روایت کو نظرانداز کیا، جو اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ قرآن سات طریقوں پر نازل ہوا، اور ان اختلافات کو نبی اکرم ﷺ نے خود جائز قرار دیا تھا۔
- ◈ جیفری نے یہ دعویٰ کیا کہ مصحف عثمانی میں شامل کچھ آیات مشکوک ہیں، لیکن وہ ان آیات کے بارے میں کوئی مستند مثال پیش نہ کرسکا۔
نتیجہ
آرتھر جیفری نے قرآن کریم پر اپنے اعتراضات پیش کرنے کے لیے تنقید کے اعلیٰ اصولوں (Higher Criticism) کا دعویٰ تو کیا، لیکن وہ ان اصولوں کی پاسداری نہ کرسکا۔ اس کے نظریات زیادہ تر قیاس آرائیوں اور غیر مستند حوالوں پر مبنی ہیں۔ اس کے برعکس، قرآن کریم کا متن اپنی اصل شکل میں محفوظ ہے، اور اس کے لیے مسلمانوں کا اجماع اور متواتر نقل اس کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے قرآن کے رسم الخط اور تلفظ میں معمولی تبدیلیوں کو بھی محفوظ رکھا تاکہ قرآن کی اصل شکل میں کسی تحریف کا خدشہ نہ رہے۔