اہل ایمان کا طرز یہ ہوتا ہے کہ جب انہیں قرآن وسنت کی طرف بلایا جاتا ہے، تو فورا سر نیا زخم کر دیتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
(24-النور:51)
” مومنوں کو جب اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ ان کے درمیان فیصلہ کردیں، تو کہتے ہیں کہ ہم نے یہ بات سن لی اور اسے مان لیا، اور وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔ “
مصور کھینچ وہ نقشہ کہ جس میں یہ صفائی ہو
ادھر فرمانِ محمد ہو ادھر گردن جھکائی ہو
اطاعت فرض عین ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ
(8-الأنفال:20)
”اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اور رسول کے حکم کو سن کر اس سے روگردانی نہ کرو۔ “
دوسری جگہ فرمایا:
وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
(3-آل عمران:132)
”اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے ۔ “
مزید ارشاد فرمایا:
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (31) قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ(32)
(3-آل عمران:31، 32)
”آپ کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا، اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا، اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ آپ کہہ دیجیے کہ اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرو، اگر وہ منہ پھیر لیں تو اللہ کافروں سے محبت نہیں رکھتا ۔“
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: کہ یہ آیت کریمہ اُن تمام لوگوں کے خلاف دلیل ہے جو اللہ کی محبت کا دعوی کرتے ہیں اور طریقہ محمدی پر گامزن نہیں ہوتے۔ جب تک آدمی اپنے تمام اقوال و افعال میں شرع محمدی کی اتباع نہیں کرتا ، وہ اللہ سے دعوئے محبت میں کاذب ہوتا ہے۔
تفسير ابن كثير تحت الآية.
مزید برآں یہ آیت دلیل ہے کہ طریقہ محمدی کی مخالفت کفر ہے۔ اس لیے اللہ نے فرمایا: اگر انہوں نے اعراض سے کام لیا تو اللہ تعالیٰ کافروں کو پسند نہیں کرتا ۔ معلوم ہوا کہ طریقہ محمدی سے اعراض کرنے والا کافر ہوتا ہے۔ سورۃ النور میں فرمایا:
فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
(24-النور:63)
”پس جو لوگ رسول اللہ کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں، انہیں ڈرنا چاہیے کہ ان پر کوئی بلا نہ نازل ہو جائے ، یا کوئی دردناک عذاب نہ انہیں آگھیرے۔ “
فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ آیت کریمہ کا یہ جز اس بات کی دلیل ہے کہ زندگی کے تمام امور کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت غرا اور ان کی سنت کی کسوٹی پر پرکھنا واجب ہے، جو چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہوگی اسے قبول کر لیا جائے گا، اور جو قول و عمل اس کے مخالف ہو گا اسے رد کر دیا جائے گا، چاہے کہنے یا کرنے والا کوئی بھی انسان ہو۔
فقہاء امت نے اسی آیت کریمہ سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کا ”امر“ وجوب کے لیے ہوتا ہے۔ اس لیے کہ یہاں آپ کے حکم کو ترک کر دینے کا لازمی نتیجہ دو سزاؤں میں سے ایک کو بتایا گیا ہے کہ یا تو کوئی بلا نازل ہوئی یا کوئی دردناک عذاب۔ اس لیے جو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کی مخالفت کرتے ہیں، یا فاسد تاویلوں کے ذریعہ دوسروں کے اقوال کو اس پر ترجیح دیتے ہیں، انہیں اس آیت پر ضرور غور کرنا چاہیے، اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام ومحبت کا تصور کرتے ہوئے، کسی کے قول و عمل کے مقابلے میں درخور اعتنا نہیں سمجھنا چاہیے۔
ہوتے ہوئے مصطفی کی گفتار
مت دیکھ کسی کا قول و اقرار
سورۃ الحجرات میں فرمایا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
(49-الحجرات:1)
”اے ایمان والو! تم لوگ اللہ اور اس کے رسول کے حکم سے آگے نہ بڑھو ۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک اللہ خوب سننے والا، بڑا جاننے والا ہے۔“
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اس بات سے منع کر دیا ہے کہ وہ عجلت میں آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کوئی بات کہیں، یا کوئی کام کریں، یا اللہ اور اس کے رسول کا حکم جاننے سے پہلے کوئی اقدام کریں۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس آیت کریمہ کا معنی یہ بیان کیا ہے کہ مسلمانو ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کوئی کام کرنے میں جلدی نہ کرو، بلکہ تمام امور میں ان کی پیروی کرو۔
تفسير ابن كثير۔
ابن جریر نے اس کا معنی یہ بیان کیا ہے کہ اے وہ لوگو! جنہوں نے اللہ کی وحدانیت اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار کیا ہے، تم اپنے کسی جنگی یا دینی معاملے میں اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے سے پہلے خود کوئی فیصلہ نہ کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کی مرضی کے خلاف فیصلہ کر لو۔ عرب کہا کرتے ہیں:فلان يتقدم بين يدى إمامه ، یعنی فلاں شخص امام سے پہلے امر اور نہی صادر کرنے لگتا ہے ۔
تفسير ابن جرير۔
اور آیت کریمہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مومنو! اپنے تمام معاملات میں اللہ سے ڈرتے رہو۔ ان معاملات میں یہ بھی داخل ہے کہ اللہ اور اس کے رسول سے پہلے نہ کوئی کام کیا جائے ، نہ کوئی بات کہی جائے ، اور نہ ان کے فیصلہ سے پہلے کوئی فیصلہ کیا جائے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا
(4-النساء:59)
”اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو، اور تم میں سے اقتدار والوں کی، پھر اگر کسی معاملہ میں تمہارا اختلاف ہو جائے، تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو، اس میں بھلائی ہے اور انجام کے اعتبار سے یہی اچھا ہے۔“
علامہ طیبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ واطيعوا الرسول میں فعل کا اعادہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ رسول کی اطاعت مستقل اور” واولی الامر“ میں فعل کا عدم اعادہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ ان کی اطاعت مشروط ہے۔ اگر ان کا حکم قرآن وسنت کے مطابق ہوگا تو اطاعت کی جائے گی ، ورنہ نہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نزدیک ”واولی الامر“ سے مراد اہل فقہ ودین ہیں ۔ اور مجاہد ، عطا اور حسن بصری وغیر ہم کے نزدیک اس سے مراد علماء ہیں ۔
امام مجاہد اور دوسرے علماء سلف نے کہا ہے کہ ”اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیر دو“ سے مقصود قرآن و سنت ہے۔ آیت کے اس حصہ میں مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ کسی بھی مسئلہ میں ان کے درمیان اختلاف ہو تو اس کا فیصلہ قرآن وسنت کے مطابق ہونا چاہیے، اللہ اور آخرت پر ایمان کا یہی تقاضا ہے۔ معلوم ہوا کہ جو شخص بھی کسی اختلافی مسئلہ میں قرآن وسنت کا حکم نہیں مانے گا، وہ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والا نہیں مانا جائے گا۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ قرآن وسنت کی طرف رجوع میں ہی ہر خیر ہے، اور انجام کے اعتبار سے بھی یہی عمل بہتر ہے۔
بحواله تيسير الرحمن ص: 269۔
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
(4-النساء:65)
”پس آپ کے رب کی قسم، وہ لوگ مؤمن نہیں ہو سکتے جب تک آپ کو اپنے اختلافی امور میں اپنا فیصل نہ مان لیں ، پھر آپ کے فیصلہ کے بارے میں اپنے دلوں میں کوئی تکلیف نہ محسوس کریں، اور پورے طور سے اسے تسلیم کرلیں ۔“
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی قسم کھا کر کہا ہے کہ کوئی آدمی اُس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا، جب تک اپنے تمام امور میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فیصل نہیں مان لیتا، اس لیے کہ آپ کا فیصلہ وہ ربانی فیصلہ ہے، جس کے برحق ہونے کا دعویٰ دل میں اعتقاد رکھنا ضروری ہے، اور عمل کے ذریعہ بھی اس پر ایمان رکھنے کا ثبوت فراہم کرنا ضروری ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد فرمایا : یہ ضروری ہے کہ لوگوں کا ظاہر و باطن اسے تسلیم کرلے، اور اس کی حقانیت کے بارے میں دل کے کسی گوشے میں بھی شبہ باقی نہ رہے۔
کسی معاملے میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم صادر ہو جائے تو کسی مومن مرد یا عورت کے لیے یہ اختیار باقی نہیں رہتا کہ اس کی مخالفت کرے اور اپنی یا کسی اور کی رائے پر عمل کرے، اس لیے کہ ایسا کرنا اللہ اور اس کے رسول کی سراسر نا فرمانی اور کھلم کھلا گمراہی ہوگی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا
(33-الأحزاب:36)
”اور جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے میں فیصلہ کر دے، تو کسی مسلمان مرد اور عورت کے لیے اس بارے میں کوئی اور فیصلہ قبول کرنے کا اختیار باقی نہیں رہتا، اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا وہ کھلی گمراہی میں مبتلا ہو جائے گا۔“
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ رقم طراز ہیں : کہ اس آیت کریمہ میں مذکور حکم تمام امور کو شامل ہے، یعنی کسی بھی معاملے میں جب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم صادر ہو جائے ، تو کسی کے لیے بھی اس کی مخالفت جائز نہیں ہے، اور نہ کسی کے قول یا رائے کی کوئی حیثیت باقی رہ جاتی ہے۔
تفسير ابن كثير تحت الآية.
کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کر کے اللہ کا فرمانبردار نہیں بن سکتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی خلاف ورزی کر کے اللہ کی بندگی اور عبادت نہیں ہو سکتی ۔
چنانچہ ارشاد فرمایا:
مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ ۖ وَمَن تَوَلَّىٰ فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا
(4-النساء:80)
”جس نے رسول کی اطاعت کی اُس نے اللہ کی اطاعت کی ، اور جس نے روگردانی کی تو ہم نے آپ کو ان کا پہرہ دار بنا کر نہیں بھیجا ہے۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کی تفسیر و توضیح اپنی خواہش نفس کے مطابق نہیں لاتے ہیں، بلکہ وہ اللہ کی وحی ہوتی ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا:
وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ (3) إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ(4)
(53-النجم:3، 4)
” اور وہ اپنی خواہش نفس کی پیروی میں بات نہیں کرتے ہیں، وہ تو وحی ہوتی ہے جو اُن پر اُتاری جاتی ہے۔ “
سورۃ النساء میں ارشاد فرمایا:
وَأَنزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ
(4-النساء:113)
” اللہ نے آپ پر کتاب و حکمت دونوں کو نازل کیا ہے۔“
صاحب فتح البیان رقمطراز ہیں: یہ آیت دلیل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت وحی ہوتی تھی جو آپ کے دل میں ڈال دی جاتی تھی۔
امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
« وسمعت من أرضاه من أهل العلم بالقرآن يقول: الحكمة سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم.»
الرسالة، ص:13۔
”میں قرآن مجید کے جن اہل علم کو پسند کرتا ہوں ان کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ حکمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا نام ہے۔ “
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«والحكمة هي السنة باتفاق السلف»
كتاب الروح، ص: 119۔
سلف صالحین کا متفقہ فیصلہ ہے کہ حکمت سے مراد سنت ہے۔
سیدنا یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ میں تھے، ایک شخص آیا، اس نے جبہ پہن رکھا تھا۔ اس پر زعفران یا پیلے رنگ کے نشان تھے۔ اس نے سوال کیا کہ آپ مجھے عمرہ میں کیا کرنے کا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے کوئی جواب نہ دیا: جب آپ پر وحی نازل ہوئی تو آپ نے کپڑے سے اپنے آپ کو ڈھانپ لیا۔
سیدنا یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : کہ میں چاہتا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نزول وحی کے وقت دیکھوں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم وحی کی حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنا چاہتے ہو؟ میں نے کہا: ”ہاں تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کپڑے کا کونہ اٹھایا، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ سے اونٹ کی آواز کی طرح آواز آرہی تھی۔ جب آپ سے وحی کی کیفیت دور ہوئی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عمرہ سے متعلق سوال کرنے والا کہاں ہے؟ پھر آپ نے اس سے کہا: جبہ اتار دو، زعفران اور پیلا رنگ اپنے جسم سے صاف کرلو، اور جس طرح حج میں کرتے ہو اسی طرح عمرہ میں کرو ۔
صحيح بخاري، كتاب الحج، رقم: 1536۔ صحيح مسلم، رقم: 1180/6۔ سنن ابوداؤد، رقم: 1819.
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ
(47-محمد:33)
”اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، اور رسول کی اطاعت کرو، اور اپنے اعمال کو بے کار نہ بناؤ۔“
اور سورۃ القیامہ میں فرمایا:
لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ (16) إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ (17) فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ (18) ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ (19)
(75-القيامة: 16 تا 19)
”اے میرے نبی ! آپ ( نزول وحی کے وقت ) اپنی زبان نہ ہلائیے تا کہ اسے جلدی کریں۔ بے شک اس کا جمع کرنا اور آپ کو اس کا پڑھانا ہمارا کام ہے۔ اس لیے جب ہم اس کی قراءت پوری کر لیں تو آپ اُسے پڑھ لیا کیجیے۔ پھر یقینا اس کی تفسیر و توضیح بھی ہمارا ہی کام ہے۔“
بخاری و مسلم سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی نازل ہوتی تو آپ ہونٹ ہلانے لگتے ۔ آپ سے کہا گیا کہ آیتوں کو یاد کرنے کے لیے اپنی زبان نہ ہلائے ، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم انہیں آپ کے سینے میں محفوظ کر دیں تاکہ نزول وحی ختم ہونے کے بعد آپ انہیں پڑھیں۔ اس لیے جب ہم پوری وحی نازل کر چکیں، تب آپ پڑھیے پھر اس کے بیان کرنے کی ذمہ داری بھی ہم پر ہے۔ بخاری کی دوسری روایت میں ہے کہ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب جبریل وحی لے کر آتے تو آپ غور سے سنتے ، اور جب جبریل چلے جاتے ، تو آپ ویسے ہی پڑھتے جس طرح جبریل نے پڑھا تھا۔
صحيح بخاري، كتاب بدء الوحي، رقم: 5 و كتاب التفسير رقم: 4929۔ صحيح مسلم، كتاب الصلاة رقم: 448۔
ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ کے ضمن میں مفسرین نے لکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تیئس سالہ نبوت کی زندگی میں قرآن کریم کی تشریح و توضیح کے لیے جو کچھ کہا اور کیا، اور جنتی باتوں کی تائید کی اور جتنی باتوں سے منع فرمایا، جسے اسلام کی زبان میں ”حدیث“ کہا جاتا ہے، وہ پورا ذخیرہ اللہ کی طرف سے نازل کردہ وحی کا حصہ تھا، اور اگرچہ قرآن نہیں تھا، لیکن قرآن کی مذکورہ بالا آیت میں موجود ربانی وعدے کے مطابق، وہ ذخیرہ قرآن کی تشریح اور اس کا بیان تھا، اور امت کے لیے آسمانی وحی کی حیثیت سے واجب الاتباع تھا۔
مصطفیٰ سے ہم کو ورثے میں ملی ہیں دو کتاب
ایک کلام اللہ دوم آپ کا فعل الخطاب