قبر کو ایک بالشت سے زیادہ بلند نہ کیا جائے
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ حکم دے کر بھیجا کہ :
لا تدع تمثالا إلا طمسته ولا قبرا مشرفا إلا سويته
”تم ہر ذی روح کی تصویر کو مٹا دو اور ہر (شرعی مقدار سے) بلند قبرکو برابر کر دو ۔“
[مسلم: 969 ِ، كتاب الجنائز: باب الأمر بتسوية القبر، أبو داود: 3218 ، ترمذي: 1049 ، نسائي: 88/4 ، أحمد: 89/1]
➋ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
ورفع قبره عن الأرض قدر شبر
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر زمین سے ایک بالشت برابر اونچی بنائی گئی۔“
[حسن: أحكام الجنائز: ص/ 195 ، بيهقى: 410/3 ، ابن حبان: 602/14 ، 6635 – الإحسان ، شيخ صجي حلاق نے اسے صحیح كها هے۔ التعليق على سبل السلام: 377/3]
اس روایت کے لیے ایک مرسل روایت شاہد ہے۔ صالح بن ابی الاخضرؒ بیان کرتے ہیں کہ :
رايت قبر رسول الله شبرا أو نحو شبر
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو ایک بالشت برابر یا بالشت کے قریب (بلند) دیکھا۔“
[أبو داود فى المراسيل: 421]
(شافعیؒ) قبر میں صرف وہی مٹی ڈالی جائے جو اس سے نکلی ہو ورنہ زائد مٹی ڈالنے سے قبر بہت بلند ہو جائے گی۔ نیز اسے صرف ایک بالشت برابر ہی بلند رکھا جائے ۔
[الأم: 245/1]
(نوویؒ) اصحاب شافعی متفق ہیں کہ مذکورہ مقدار کے برابر قبر بلند کرنا مستحب ہے۔
[المجموع: 296/5]
(البانیؒ) قبر کو تھوڑا سا بلند رکھا جائے یعنی ایک بالشت برابر اور قبر کو زمین کے برابر نہ کیا جائے۔
[أحكام الجنائز: ص/95]
جیسا کہ ایک روایت میں موجود ہے کہ امام قاسمؒ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دوساتھیوں (یعنی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ ) کی قبروں کو اس حالت میں دیکھا کہ :
لا مشرفة ولا لاطئة
”نہ بلند تھیں اور نہ ہی زمین کے ساتھ ملی ہوئی تھیں ۔“
[ضعيف: ضعيف أبو داود: 705 ، كتاب الجنائز: باب فى تسوية القبر ، أبو داود: 3220 ، حاكم: 369/1]