قبر پر اذان دینے کا حکم قرآن و حدیث کی روشنی میں
تحریر: قاری اسامہ بن عبدالسلام حفظہ اللہ

سوال:

کیا دفن کے بعد قبر پر اذان دینا جائز ہے؟ کیا یہ عمل سنت ہے یا بدعت؟

قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب

 قرآن مجید سے استدلال

قرآن کریم میں کہیں بھی جنازے کے بعد یا دفن کے بعد قبر پر اذان دینے کا ذکر نہیں ملتا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ دین میں نئی چیزیں شامل کرنے سے منع فرماتے ہیں:

"أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّهُ”
(الشوریٰ: 21)

ترجمہ: "کیا ان کے ایسے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے وہ دین مقرر کر دیا جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی؟”

یعنی دین میں ایسی نئی چیزیں شامل کرنا جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے نہیں سکھائیں، غلط ہے۔

 احادیث سے تحقیق

(الف) نبی کریم ﷺ کا جنازے کے بعد یا قبر پر اذان نہ دینا

نبی اکرم ﷺ نے بے شمار جنازے پڑھائے اور دفن کیے، مگر کہیں بھی یہ ثابت نہیں کہ آپ ﷺ نے قبر پر اذان دی ہو یا اس کا حکم دیا ہو۔

حضرت جابر بن عبداللہؓ فرماتے ہیں:

"أن النبي ﷺ صلى على النجاشي فصفوا خلفه فصلى عليه”
(صحیح بخاری: 1333، صحیح مسلم: 951)

یعنی نبی ﷺ نے نجاشی (حبشہ کے بادشاہ) کی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھائی، لیکن نہ قبر پر اذان دی اور نہ کسی کو اس کا حکم دیا۔

اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے:

"اتبعنا النبي ﷺ في جنازة، فجلسنا ولم يأمرنا بالأذان عند القبر”
(سنن ابی داؤد: 3186)

یعنی نبی ﷺ کے ساتھ ہم ایک جنازے میں گئے، مگر نہ آپ ﷺ نے اذان دی اور نہ اس کا حکم دیا۔

یہ واضح دلیل ہے کہ اگر دفن کے بعد اذان دینا ضروری ہوتا تو رسول اللہ ﷺ ضرور سکھاتے۔

(ب) صحابہ کرامؓ کا عمل

صحابہ کرامؓ نے ہزاروں جنازے پڑھائے اور دفن کیے، لیکن کسی بھی صحابی سے یہ ثابت نہیں کہ انہوں نے قبر پر اذان دی ہو۔

حضرت ابو بکر صدیقؓ، عمر فاروقؓ، عثمان غنیؓ، علی المرتضیٰؓ، ابن عباسؓ اور عبد اللہ بن عمرؓ سمیت کسی بھی صحابی نے نہ خود قبر پر اذان دی اور نہ کسی کو اس کا حکم دیا۔

امام شافعیؒ فرماتے ہیں:

"إذا دفن الميت فلا يؤذن عليه، فإن ذلك لم يكن من سنة رسول الله ﷺ”
(کتاب الام، 1/280)

یعنی "جب میت کو دفن کر دیا جائے تو اس پر اذان نہ دی جائے، کیونکہ یہ نبی کریم ﷺ کی سنت نہیں ہے۔”

(ج) بدعت کی ممانعت

نبی کریم ﷺ نے واضح طور پر فرمایا:

"من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد”
(صحیح بخاری: 2697، صحیح مسلم: 1718)

یعنی "جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسا نیا کام ایجاد کیا جو اس میں سے نہیں ہے، وہ مردود (ناقابلِ قبول) ہے۔”

یہ حدیث واضح طور پر ثابت کرتی ہے کہ جو عمل نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرامؓ سے ثابت نہ ہو، وہ دین میں اضافہ شمار ہوگا اور بدعت کہلائے گا۔

بدعت کا رد اور وضاحت

قبر پر اذان دینے کا کوئی ثبوت نہیں
اگر یہ عمل دین کا حصہ ہوتا تو نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرامؓ اسے ضرور کرتے۔

یہ غیر ضروری عمل ہے
اذان نماز کے لیے دی جاتی ہے، نہ کہ قبر پر۔ میت کو قبر میں اذان کی ضرورت نہیں، بلکہ اس کے لیے دعا، استغفار اور مغفرت کی درخواست کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

بدعت کا سبب بن سکتا ہے
جب کوئی عمل بار بار کیا جاتا ہے تو لوگ اسے دین کا لازمی حصہ سمجھنے لگتے ہیں۔ آج جو لوگ قبر پر اذان دیتے ہیں، وہ اسے "ثواب” کا کام سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ نبی ﷺ اور صحابہؓ کے عمل کے خلاف ہے۔

نتیجہ:

قبر پر اذان دینا دین میں اضافہ (بدعت) ہے، کیونکہ یہ قرآن، حدیث، اور صحابہؓ کے عمل سے ثابت نہیں۔
نبی کریم ﷺ، خلفائے راشدین اور دیگر صحابہؓ نے کبھی ایسا نہیں کیا، لہٰذا ہمیں بھی اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
اس کی جگہ میت کے لیے دعا، استغفار اور سورۃ الفاتحہ یا سورۃ یٰسین کی تلاوت کرنا افضل ہے۔

صحیح عمل کیا ہے؟

میت کے لیے دعا کریں:
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ، وَارْحَمْهُ، وَعَافِهِ، وَاعْفُ عَنْهُ
اے اللہ! اس کو بخش دے، اس پر رحم فرما، اسے عافیت دے اور اس سے درگزر فرما۔
(صحیح مسلم: 963)

قبر پر جانے کے بعد یہ دعا پڑھیں:
"السلام عليكم أهل الديار من المؤمنين والمسلمين، وإنا إن شاء الله بكم لاحقون، أسأل الله لنا ولكم العافية”
السلام علیکم اے ایمان لانے والے اور مسلم بستی والو! اور بے شک ہم بھی، اگر اللہ نے چاہا، تم سے ملنے والے ہیں۔ میں اللہ سے ہمارے اور تمہارے لیے عافیت کی دعا کرتا ہوں۔
(صحیح مسلم: 975)

یہی سنت طریقہ ہے، جو نبی کریم ﷺ اور صحابہؓ سے ثابت ہے۔

خلاصہ:

قبر پر اذان دینا بدعت ہے، کیونکہ یہ نہ نبی ﷺ، نہ صحابہؓ اور نہ تابعین سے ثابت ہے۔
اس کے بجائے میت کے لیے دعا کریں اور مغفرت کی درخواست کریں، یہی سنت طریقہ ہے۔
بدعات سے اجتناب کریں اور دین میں وہی عمل کریں جو نبی کریم ﷺ نے سکھایا ہے۔

اللہ ہمیں دین میں سنت کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1