قبروں کی مجاوری اور اسلام
تحریر: غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

قبروں کی تعظیم میں غلو نے بہت سے اعتقادی اور اخلاقی فتنوں کو جنم دیا ہے۔ قبروں اور مزارات پر مشرکانہ عقائد و اعمال اور کافرانہ رسوم و رواج اس قدر رواج پا رہی ہیں کہ بعض لوگوں نے یہود و نصاریٰ کی پیروی میں اولیاء و صالحین کی قبور کو سجدہ گاہ بنا لیا ہے۔ طلب حاجات کے لیے ان پر مراقبہ اور مجاہدہ کرتے نظر آتے ہیں، ہر مشکل میں ان کی پکار کرتے ہیں اور ان سے فریادیں کرتے ہیں، ان سے ڈرتے ہیں اور انہی سے امیدیں وابستہ کرتے ہیں۔ ان پر چڑھاوے چڑھاتے ہیں، منت منوتی اور نذرانے پیش کرتے ہیں۔ لوگوں کا قیمتی مال ہڑپ کرنے کے لیے وہاں ٹھگ بیٹھے ہوتے ہیں جنہیں مجاور کہتے ہیں۔ وہ زائرین کو صاحب قبر کے متعلق جھوٹی حکایات اور کرامات سناتے ہیں۔ جہالت اور ضعف اعتقادی کے باعث لوگ ان کی باتوں میں آ جاتے ہیں۔ اس طرح یہ جاہل لوگ عوام کا ایمان برباد کرتے ہیں۔ قبوریوں کی یہ انتہائی کوشش ہوتی ہے کہ وہ عوام الناس کو قبرپرستی اور اولیاء پرستی کے حوالے سے وہ سارے کے سارے و سائل و ذرائع مہیا کریں جن کی بنیاد پر وہ شرک و بدعت کی طرف چل دیں۔

انہی وسائل میں سے ایک قبروں پر مجاور بن کر بیٹھنا ہے۔ قبروں پر مجاور اور خادم بن کر بیٹھنا منکر اور بدعت ہے۔ یہ بتوں کے پجاریوں کے ساتھ مشابہت اور یہودیانہ روش ہے۔ مشرکین اپنے بتوں کی دیکھ بھال اور نگرانی اسی طرح کرتے تھے :

جیسا کہ : اللہ تعالیٰٰ کا فرمان عالی شان ہے :
﴿إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا تَعْبُدُونَ ٭ قَالُوا نَعْبُدُ أَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عَاكِفِينَ﴾ [26-الشعراء: 71، 70]
’’ جب (ابراہیم علیہ السلام نے) اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا کہ یہ کیاچیزیں ہیں جن کی تم عبادت کرتے ہو ؟ وہ کہنے لگے : ہم بتوں کی پوجا کرتے ہیں اور انہیں کے مجاور بنے رہتے ہیں۔ “

نیز فرمایا :
﴿إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا هَـذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنْتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ﴾ [21-الأنبياء:52]
’’ جب ابراہیم نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا: کیا ہیں یہ مورتیاں جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو ؟ “

ایک مقام پر یوں ارشاد باری تعالیٰٰ ہے :
﴿وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتَوْا عَلَى قَوْمٍ يَعْكُفُونَ عَلَى أَصْنَامٍ لَهُمْ قَالُوا يَا مُوسَى اجْعَلْ لَنَا إِلَـهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ﴾ [7-الأعراف:138]
’’ اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے پار اتارا تو وہ ایسے لوگوں پر آئے جو اپنے کچھ بتوں پر جمے بیٹھے تھے۔ کہنے لگے : اے موسیٰ ! ہمارے لیے کوئی معبود بنا دیں جیسے ان کے کچھ معبود ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : یقینا تم بڑے جاہل لوگ ہو۔ “

اس آیت کریمہ کی تفسیر میں ایک حدیث بھی ملاحظہ فرما لیں :
سنان بن ابی سنان دؤلی بیان کرتے ہیں :
أنه سمع أبا واقد الليثي، يقول وكان من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم : لما افتتح رسول الله مكة، خرج بنا معه قبل هوازن، حتى مررنا على سدرة الكفار، سدرة يعكفون حولها، ويدعونها ذات أنواط، قلنا : يا رسول الله، اجعل لنا ذات أنواط كما لهم ذات أنواط، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : الله أكبر، إنها السنن، هذا كما قالت بنو إسرائيل لموسى : اجعل لنا إلها كما لهم آلهة، قال إنكم قوم تجهلون ، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إنكم لتركبن سنن من قبلكم
’’ میں نے صحابی رسول سیدنا ابوواقد رضی اللہ عنہ سے سنا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا تو آپ ہمیں اپنے ساتھ ہوازن قبیلے کی طرف لے گئے۔ ہم کفار کی ایک بیری کے پاس سے گزرے جس کے پاس وہ مجاور ی کرتے تھے اور اسے ذات انواط کا نام دیتے تھے۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول ! جس طرح کفار کی ذات انواط ہے، اسی طرح ہمارے لیے بھی ذات انواط مقرر کر دیجیے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ اکبر ! یہ گزشتہ امتوں کے طریقے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا کہ ہمارے لیے بھی کچھ معبود بنا دیں جیسے کفار کے معبود ہیں اور اس پر موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا : تم بڑے جاہل لوگ ہو۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم ضروربالضرور اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقے پر چلو گے۔ “ [صحيح ابن حبان: 6702، وسنده صحيح]
علامہ شاطبی (م : 790 ھ) اسی حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں
وصار حديث الفرق بهذا التفسير صادقا على أمثال البدع التي تقدمت لليهود والنصارى، وأن هذه الأمة تبتدع في دين الله مثل تلك البدع، وتزيد عليها بدعة لم تتقدمها واحدة من الطائفتين . . .
’’ اس تفسیر کے ساتھ (تہتر) فرقوں والی حدیث ان بدعتوں پر صادق آتی ہے جن کا ارتکاب یہود و نصاریٰ پہلے سے کرتے رہے ہیں، نیز معلوم ہوا کہ یہ امت بھی اللہ کے دین میں ایسی بدعتوں کا ارتکاب کرے گی بلکہ ایک زائد بدعت ایسی بھی کرے گی جس کا ارتکاب یہود و نصاریٰ نے نہیں کیا . . . [الاعتصام : 245/2]

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ومن المحرمات: العكوف عند القبر، والمجاورة عنده، وسدانته، وتعليق الستور عليه، كانه بيت الله الكعبة .
’’ قبر پر اعتکاف، اس کی مجاور ی، اس کی خدمت، اس پر خانہ کعبہ بیت اللہ کی طرح چادریں چڑھانا، سب حرام کام ہیں۔ “ [اقتضاء الصراط المستقيم : 267]

نیز فرماتے ہیں :
فأما العكوف والمجاورة عند شجرة أو حجر، تمثال أو غير تمثال، أو العكوف والمجاورة عند قبر نبي، أو غير نبي، أو مقام نبي أو غير نبي، فليس هذا من دين المسلمين. بل هو من جنس دين المشركين .
’’ کسی شجر و حجر یا مورتی وغیرہ کے پاس اعتکاف کرنا اور کسی نبی یا غیر نبی کی قبر یا نبی یا غیر نبی کے مقام پر مجاور بن کر بیٹھنا، ان کاموں کا مسلمانوں کے دین سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ مشرکین کے دین سے تعلق رکھنے والی چیزیں ہیں۔ “ [اقتضاء الصراط المستقيم : ص 365]

شیخ الاسلام ثانی، علامہ ابن القیم فرماتے ہیں :
فمنها: تعظيمها الموقع في الافتتان بها، ومنها اتخاذها عيدا، ومنها السفر إليها، ومنها مشابهة عباد الأصنام بما يفعل عندها من العكوف عليها، والمجاورة عندها، وتعليق الستور عليها وسدانتها. وعبادها يرجحون المجاورة عندها علي المجاورة عند المسجد الحرا، ويرون سدانتها افضل من خدمة المساجد .
’’ قبر پرستی کی خرابیوں میں سے یہ بھی ہے کہ ان کی ایسی تعظیم کی جاتی ہے جو انسان کو شرک و بدعت میں مبتلا کر دیتی ہے۔ ایسے ہی ان کو میلہ گاہ بنانا، ان کی طرف سفر کرنا، انہی میں سے یہ بھی ہے کہ قبروں کے پاس وہ کام کیے جاتے ہیں جو بت پرستی سے مشابہ ہیں، مثلاً ان پر اعتکاف کرنا، ان کے پاس مجاور بن کر بیٹھنا، ان پر پردے لٹکانا، ان کی خدمت کے لیے وقف ہونا وغیرہ۔ قبر پرست لوگ قبروں کی مجاور ی کو بیت اللہ کی مجاور ی پر بھی ترجیح دیتے ہیں اور ان کا یہ نظریہ ہے کہ قبروں کی خدمت بیت اللہ کی خدمت سے بھی افضل ہے۔ “ [اغاثة اللهفان : 197/1]

اس مجاور ی والی بدعت کو ثابت کرنے کی کوشش میں جناب احمد یار خان نعیمی بریلوی (1391۔ 1324 ھ)
لکھتے ہیں :
’’ مجاور بننا تو جائز ہے۔ مجاور اسی کو تو کہتے ہیں جو قبر کا انتظام رکھے، کھولنے بند کرنے کی چابی اپنے پاس رکھے وغیرہ وغیرہ۔ یہ صحابہ کرام سے ثابت ہے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ مسلمانوں کی والدہ حضور علیہ السلام کی قبر انور کی منتظمہ اور چابی والی تھیں۔ جب صحابہ کرام کو زیارت کرنی ہوتی تو ان سے کھلوا کر زیارت کرتے۔ دیکھو مشکوٰ ۃ باب الدفن، آج تک روضۂ مصطفٰے علیہ الصلاۃ و السلام پر مجاور رہتے ہیں، کسی نے ان کو ناجائز نہ کہا:۔ “ [جاء الحق : 293/1]

اگر احباب برا نہ مانیں تو ہم کہہ دیں کہ جناب نعیمی صاحب نے ایک سانس میں کئی جھوٹ بول دیے ہیں۔ کہتے ہیں کہ مجاور بننا تو صحابہ کرام سے ثابت ہے۔ صحابہ کرام کو مجاور کہنا ان کی توہین اور گستاخی ہے۔ ان کے متعلق بدعقیدگی کا اظہار اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتا ہے ؟ رہا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا صحابہ کرام کے لیے حجرہ کھول دینا تو اس کا مجاور ی سے کیا تعلق ہے ؟ آخر وہ ان کا اپنا حجرہ تھا، اسی میں وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے بھی رہائش پذیر تھیں۔ اپنے حجرے کو وہی کھول سکتی تھیں۔ بمطاق وحی الٰہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک اسی جگہ بنائی گئی۔ اس سے مجاور ی کا اثبات کیسے ہوا ؟

باقی نعیمی صاحب کا یہ کہناکہ روضۂ مصطفٰے علیہ الصلاۃ والسلام پر مجاور رہتے ہیں تو یہ صریح دروغ گوئی ہے۔ ہر صاحب عقل اس بات کو بے حقیقت خیال کرتا ہے۔ جس طرح آج مزاروں اور آستانوں پر ملنگ بیٹھے ہوتے ہیں، یہ کفار کی عادت ہے۔ دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا کوئی تعلق و ناطہ نہیں۔ مشکوٰۃ کی جس روایت کی طرف نعیمی صاحب نے اشارہ کیا ہے، وہ بھی ملاحظہ فرمائیں تاکہ ان کی جہالت اور بددیانتی پر مہرثبت ہو جائے۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے قاسم بن محمد رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
دخلت على عائشة فقلت : يا أمه اكشفي لي عن قبر النبي صلى الله عليه وسلم وصاحبيه رضي الله عنهما، فكشفت عن ثلاثة قبور، لا مشرفة ولا طئة مبطوحة ببطحاء العرصة الحمراء .
’’ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا اور عرض کیا : امی جان ! میرے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دونوں ساتھیوں (سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ) کی قبریں کھولیں (یعنی اپناحجرہ کھولیں) تو انہوں نے میرے لیے تینوں قبریں کھولیں۔ نہ وہ اونچی تھیں اور نہ بالکل زمین کے ساتھ برابر بچھی ہوئی تھیں۔ میدان کی سرخ کنکریاں ان پر بچھی ہوئی تھیں۔ “ [سنن ابي داود : ح : 3220 وسنده صحيح]

امام حاکم رحمہ اللہ [1/963] نے اس اثر کو ’’ صحیح “ کہا ہے اور حافظ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔ اس کے راوی عمرو بن عثمان بن ہانی کو امام ابن حبان
نے ’’ الثقات “ [8/874] میں ذکر کیا ہے اور امام حاکم نے اس کی روایت کی تصحیح کر کے اس کی توثیق کر دی ہے، لہٰذا یہ ’’ حسن الحدیث “ ہے۔

قارئین اس حدیث کو باربار پڑھیں اور سوچیں کہ کیا اس سے وہ مسئلہ ثابت ہوتا ہے جو جناب نعیمی صاحب نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھرمیں چونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی قبور مبارکہ تھیں، اس لیے ان کی اجازت سے ہی ان کی زیارت کی جا سکتی تھی۔

احباب اس بات کی طرف بھی غور فرمائیں کہ جناب نعیمی صاحب نے اس حدیث کی طرف اشارہ کرنے میں ہی اپنی عافیت کیوں جانی ؟ انہوں نے اسے ذکر کیوں نہ کر دیا ؟ اس لیے کہ یہ حدیث تو ان کے قبوری سسٹم کے لیے بہت نقصان دہ تھی۔ اس میں صاف مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی قبریں نہ بلند تھیں اور نہ پکی تھیں، بلکہ زمین سے تھوڑی سی اونچی اور کچی تھیں۔ ان پر کوئی چادر وغیرہ نہیں ڈالی گئی تھی۔ اگر نعیمی صاحب اس حدیث کو ذکر کر کے اس کا ترجمہ کر دیتے تو ان کے قبوری مذہب کی بنیادیں ہل جاتیں اور لوگ ان سے پوچھتے کہ جناب اگر صحابہ کرام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی قبروں کو نہ اونچا کیا، نہ پختہ کیا اور نہ ان پر چادریں چڑھائیں تو آپ اس بدعت کو جائز کیسے قرار دیتے ہیں ؟ یہ ہے دیانت داری اور علمیت جناب نعیمی صاحب کی ! ! !

جناب احمد یار خان نعیمی مزید لکھتے ہیں :
’’ سیدنا حسن ابن حسن ابن علی رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا۔ ضربت امراته القبة علي قبره سنة .
تو ان کی بیوی نے ان کی قبر پر ایک سال تک قبہ ڈالے رکھا۔ “ [جاء الحق : 285/1]

جناب احمد یار خان نعیمی صاحب جب قبروں پر مجاور بننے کے ثبوت پر کوئی وضعی و من گھڑت روایت بھی پیش نہ کر سکے تو ایک چال چل دی۔ چونکہ اس روایت میں القبه کا لفظ آیا تھا، ترجمہ میں بھی قبه لکھ دیا کہ عوام کو یہ باور کرایا جا سکے کہ حسن ابن حسن رضی اللہ عنہ کی بیوی نے ان کی قبر پر قبه بنایا تھا، لہٰذا بزرگوں کی قبروں پر گنبد و قبہ بنانا اور ان میں مجاور بن کر بیٹھنا جائز ہوا، حالانکہ یہاں قبه سے خیمہ مراد ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اس روایت کے ماخذ و ثبوت کو لیجیے تو یہ روایت صحیح البخاری میں تعلقاً موجود ہے۔ [صحيح البخاري : ح 1330]

اس کی سند میں محمد بن حمید الرازی راوی جمہور کے نزدیک ’’ضعیف “ ہے۔ اس کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773۔ 852ھ) لکھتے ہیں کہ یہ ’’ ضعیف “ راوی ہے۔ [تقريب التهذيب لابن حجر: 5834]

مفتی صاحب نے اپنی روایتی ’’ دیانتداری “ سے کام لیتے ہوئے اس روایت کے اگلے الفاظ ذکر نہیں کیے، وہ بھی ملاحظہ فرمائیں :
ثم رفعت، فسمعوا صائحا يقول: الا هل وجدوا ما فقدوا فاجابه آخر: بل يئسوا، فانقلبوا
’’ پھر اس خیمے کو اٹھا لیا گیا۔ انہوں نے ایک چیخنے والے کو یہ کہتے ہوئے سنا : کیا انہوں نے جو گم پایا تھا، اسے حاصل کر لیا ؟ دوسرے نے جواب دیا : بلکہ وہ مایوس ہو کر واپس چلے گئے ہیں۔ “

اس روایت سے تو معلوم ہوتا ہے کہ قبر پر خیمہ ان پر رونے کے لیے لگایا گیا تھا، نیز قبروں پر قبے بنانے والے ناکام و مایوس ہی ہوتے ہیں۔ ان کو کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا یہ بے فائدہ اور فضول کام ہے۔ اسی لیے یہ الفاظ جناب نعیمی صاحب نے ڈکار لیے تھے۔

تنبیہ :

یہی روایت کتاب الہواتف لابن ابی الدنیا [131] میں اس سند کے ساتھ مذکور ہے : حدثني يوسف بن موسي : ثنا جرير عن ابن خالد ابن مسلمة القرشي، قال . . .

اس سند میں ابن خالد بن مسلمہ القرشی کا تعارف اور توثیق مطلوب ہے۔ نیز سند کا اتصال بھی ثابت کیا جائے۔

قارئین کرام نے قرآن و سنت کے دلائل اور ائمہ دین کی تصریحات سے قبروں کی مجاور ی کا بدعت اور یہود و نصاریٰ کی روش ہونا ملاحظہ فرمایا۔ ساتھ ہی اس ضمن میں جناب نعیمی صاحب کے دلائل بھی دیکھے۔ ان سے اپیل ہے کہ خود فیصلہ فرمائیں کہ کیایہ لوگ دین کے لیے مخلص ہیں ؟ قرآن و سنت کو تروڑ مروڑ کر اپنے شرکی و بدعتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا جن لوگوں کا وطیرہ ہو، وہ اسلام اور مسلمانوں کے خیرخواہ کیسے ہو سکتے ہیں ؟
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰٰ ہمیں راہ حق پر گامزن فرمائے۔ آمين

 

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے