الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کے بارے میں دو اسناد پیش کی ہیں:
➊ پہلی سند:
"عن محمد بن عبدالله بن صالح المروزي حدنا بكر بن خداش عن فطر بن خليفة عن ابي الطفيل عن ابي بكر الصديق رضي الله عنه مرفوعاً اي عن رسول الله صلي الله عليه وسلم”
محمد بن عبداللہ بن صالح المروزی نے ہمیں بکر بن خداش کے واسطے سے بیان کیا، وہ فطر بن خلیفة سے، وہ ابو الطفیل سے، اور وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً منقول ہے۔
(بحوالہ: الدیلمی 1/1/31 الصحیحہ 4/44)
تحقیقی جائزہ:
محمد بن عبداللہ بن صالح مجہول راوی ہے، جس کے بارے میں خود شیخ البانی رحمہ اللہ نے لکھا:
"لم اعرفه”
(یعنی "میں نے اسے نہیں پہچانا”)۔
(الصحیحہ، ص 44)
دوسری کمزوری یہ ہے کہ محمد بن عبداللہ تک محدث دیلمی کی سند نامعلوم ہے۔
نتیجہ: یہ سند ثابت نہیں ہے۔
➋ دوسری سند:
"إِنَّ لِلَّهِ مَلَكًا أَعْطَاهُ أَسْمَاءَ الْخَلائِقِ كُلَّهَا، وَهُوَ قَائِمٌ عَلَى قَبْرِي، إِذَا مُتُّ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، فَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِي يُصَلِّي عَلَيَّ صَلَاةً إِلاَّ أَسْمَاهُ بِاسْمِهِ، وَاسْمِ أَبِيهِ، قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، صَلَّى عَلَيْكَ فُلانٌ…..”
ترجمہ: "اللہ نے ایک فرشتے کو مخلوقات کی سماعتیں عطا فرمائی ہیں، جو میری وفات کے بعد میری قبر پر کھڑا ہوگا، پھر جو کوئی مجھ پر درود پڑھے گا تو وہ کہے گا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! فلاں کے فلاں بیٹے نے آپ پر درود پڑھا ہے۔”
(بحوالہ: ابوالشیخ بن حیان والطبرانی وغیرہما عن القول البدیع للسخاوی ص 112، الصحیحہ 4/44)
تحقیقی جائزہ:
نعیم بن ضمضم مجہول راوی ہے، جسے کسی محدث نے ثقہ قرار نہیں دیا۔
(لسان المیزان، 6/169، طبع جدیدہ 7/213)
عمران بن الحمیری بھی مجہول الحال ہے، اور صرف ابن حبان نے اسے ثقہ کہا ہے۔
(لسان المیزان، 4/345، دوسرا نسخہ 5/264)
امام بخاری رحمہ اللہ نے التاریخ الکبیر
(6/416)
میں اس روایت کو ذکر کرکے اس کی کمزوری کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا:
"لا يُتَابَعُ عَلَى حَدِيثِهِ”
(اس کی حدیث کی متابعت نہیں کی گئی)۔
شیخ البانی رحمہ اللہ کی رائے:
البانی رحمہ اللہ نے ان مجہول راویوں کی سند کے باوجود لکھا:
"فالحديث بهذا الشاهد وغيره مما في معناه حسن ان شاء الله تعاليٰ”
"تو یہ حدیث اس شاہد (یعنی مؤید روایت) اور اس کے ہم معنی دیگر روایات کی بنا پر حسن (درجہ رکھتی) ہے، اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا۔”
(الصحیحہ 4/45)
تبصرہ:
یہ روایت ان دونوں سندوں کے ساتھ ضعیف اور ناقابل قبول ہے، کیونکہ مجہول راویوں کی روایات مردود ہوتی ہیں۔
نیز، ضعیف + ضعیف کی بنا پر کسی روایت کو حسن قرار دینا درست نہیں۔
یہ روایت ایک صحیح حدیث کے خلاف بھی ہے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"إِنَّ لِلَّهِ مَلائِكَة سَيَّاحِينَ يُبَلِّغُونِي مِنْ أُمَّتِي السَّلامَ”
ترجمہ:
"بے شک اللہ کے فرشتے زمین میں گھومتے رہتے ہیں اور وہ مجھے میری امت کی طرف سے سلام پہنچاتے ہیں۔”
(سنن النسائی 3/43، حدیث 1283، اور دیگر حوالہ جات: مسند احمد 1/387، 452، فضل الصلوٰۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم للإمام اسماعیل القاضی: 21، اسناد صحیح، ابن حبان، الحاکم 2/431، حدیث 3576)
اعتراضات اور جوابات
➊ اعتراض: اس روایت کی سند میں امام سفیان ثوری مدلس ہیں؟
جواب:
امام اسماعیل بن اسحاق القاضی نے وضاحت کی:
(فضل الصلوٰۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ص 11، حدیث 21، اسناد صحیح)
یہاں امام سفیان ثوری نے سماع کی تصریح کردی ہے، اور سلیمان بن مہران الاعمش (ثقہ مدلس) نے ان کی متابعت بھی کی ہے، لہٰذا اعتراض باطل ہے۔
➋ اعتراض: اس سند میں زاذان راوی شیعہ ہے؟
جواب:
زاذان ابو عمر کے شیعہ ہونے کا کوئی ثبوت نہیں، بلکہ حافظ ابونعیم الاصبہانی نے انہیں اہل سنت کے اولیاء میں شمار کیا ہے۔
(حلیۃ الاولیاء 4/199-204، ماہنامہ الحدیث حضرو، شمارہ 14، ص 25)
جمہور محدثین نے انہیں ثقہ و صدوق قرار دیا ہے، لہٰذا ان پر کی گئی ہر قسم کی جرح مردود ہے۔
(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: "الیاقوت والمرجان فی توثیق ابی عمر زاذان”)
نتیجہ:
درود پہنچانے والے مخصوص فرشتے کی روایت ضعیف اور ناقابل قبول ہے، کیونکہ اس کی اسناد میں مجہول راوی موجود ہیں۔
صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ فرشتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو امت کی طرف سے سلام پہنچاتے ہیں، جس کی سند صحیح ہے۔
اللہ ہی بہتر جاننے والا ہے۔