قبروں پر تعمیر کے نقصانات: شرک اور بدعات کا خطرہ
اصل مضمون غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

قبروں پر تعمیر کے نقصانات

قبروں پر عمارتیں بنانا اور انہیں مساجد میں تبدیل کرنے کے بے شمار نقصانات ہیں۔ علمائے کرام نے اس عمل کے خطرات اور منفی اثرات کو واضح طور پر بیان کیا ہے:

امام شافعی رحمہ اللہ (١٥٠۔٢٠٤ھ) کا قول:

امام شافعی فرماتے ہیں:
"وأکرہ أن یعظّم مخلوق حتّی یجعل قبرہ مسجدا ، مخافۃ الفتنۃ علیہ ، وعلی من بعدہ من الناس۔”
"میں ناپسند کرتا ہوں کہ مخلوق کی اتنی تعظیم کی جائے کہ اس کی قبر کو مسجد بنادیا جائے۔ خدشہ ہے کہ بنانے والا اور اس کے بعد والے لوگ (شرک) فتنے میں مبتلا ہو جائیں گے۔”
(کتاب الام للشافعی : ١/٢٧٨)

حافظ ابن القیم رحمہ اللہ کا نقطہ نظر:

ابن القیم رحمہ اللہ قبروں پر تعمیر کے نقصانات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:

  • اس عمل سے قبر کے پاس نماز پڑھنے کا راستہ کھل جاتا ہے، حالانکہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔
  • لوگ وہاں دعائیں کرتے ہیں، جو ایک بہت بڑی بدعت ہے۔
  • رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت ان لوگوں پر پڑتی ہے جو ایسا کرتے ہیں۔
  • اس سے مقبرے آباد اور مساجد ویران ہو جاتی ہیں، جبکہ اسلام اس کے برعکس تعلیم دیتا ہے۔
  • بعض زائرین قبروں کے سامنے سجدہ کرتے ہیں، جو بت پرستی کے مترادف ہے۔
  • مردے کے نام پر نذر و نیاز کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
  • مردے کی عظمت لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ سے زیادہ ہو جاتی ہے۔
  • لوگ مردے سے اپنی ضروریات کا سوال کرتے ہیں اور مصائب سے نجات طلب کرنے لگتے ہیں۔

یہ تمام خرابیاں اور فتنے قبروں پر تعمیرات کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔
(اغاثۃ اللہفان لابن القیم : ١/٣٠٩۔٣١٠، ملخصاً)

ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ (٩٠٩۔٩٧٤ھ) کی رائے:

ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"فإنّ أعظم المحرّمات وأسباب الشرک الصلاۃ عندہا واتّخاذہا مساجد أو بناؤہا علیہا ۔والقول بالکراہۃ محمول علی غیر ذلک إذ لا یظنّ بالعلماء تجویز فعل تواتر عن النبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم لعن فاعلہ ، وتجب المبادرۃ لہدمہا وہدم القباب التی علی القبور ، إذ ہی أضرّ من مسجد الضرار ، لأنّہا أسّست علی معصیۃ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، لأنّہ نہی عن ذلک وأمر صلی اللّٰہ علیہ وسلم بہدم القبور المشرفۃ ، وتجب إزالۃ کلّ قندیل أو سراج علی قبر ، ولا یصحّ وقفہ ونذرہ ۔”
"قبروں کے پاس نماز پڑھنا، انہیں مسجد بنانا یا ان پر عمارتیں تعمیر کرنا بڑے حرام کاموں اور شرک کے اسباب میں سے ہے۔ کراہت کا قول کسی اور بات (حرمت) پر محمول ہے، کیونکہ علمائے کرام کے بارے میں یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ایسے فعل کو جائز قرار دیں، جس کے کرنے والے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت تواتر کے ساتھ ثابت ہو۔ ان عمارتوں کو گرانا واجب ہے، اسی طرح ان قبوں کو بھی گرانا ضروری ہے جو قبروں پر بنائے گئے ہیں، کیونکہ یہ مسجد ضرار سے بھی زیادہ نقصان دہ ہیں۔ ان کی بنیاد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے اور اونچی قبروں کو گرانے کا حکم فرمایا ہے۔ اسی طرح قبر پر موجود ہر قندیل اور ہر چراغ کو ہٹانا بھی واجب ہے۔ قبر پر وقف و نذر صحیح نہیں۔”
(الزواجر عن اقتراف الکبائر لابن حجر الہیتمی : ١/١٢٠۔١٢١)

نتیجہ:

قبروں پر عمارتیں تعمیر کرنا، ان کو مساجد میں تبدیل کرنا، یا ان کے پاس عبادت کرنا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے اور یہ شرک کے فتنے کی طرف لے جا سکتا ہے۔ علمائے کرام کی رائے کے مطابق، اس عمل کو روکنا اور اس کی اصلاح کرنا ضروری ہے تاکہ معاشرے میں صحیح اسلامی عقائد کی حفاظت کی جا سکے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے