(1) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من صلى على واحدة؛ صلَّي الله عليه عشرا .
”جو آدمی مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔“ (صحيح مسلم : 408)
دوسری روایت یوں ہے:
من صلى على مرة واحدة؛ كتب الله عزوجل له بها عشر حسنات .
”جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے دس نیکیاں لکھ دیتے ہیں۔“ (مسند الامام أحمد : 262/2، وسنده حسن، و صححه ابن حبان : 905)
(2) سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
من صلّى على صلاة واحدة؛ صلى الله عليه عشر صلوات، وحط عنه بها عشر سيئات، ورفعه بها عشر درجات .
”جو آدمی مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے، اس کی دس خطائیں مٹا دیتا ہے اور اس کے دس درجے بلند کر دیتا ہے۔“ (مسند الإمام أحمد : 102/3،261؛ عمل اليوم والليلة للنسائي: 62، واللفظ له، وسنده حسن)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (904) نے ”صحیح“، جب کہ امام حاکم رحمہ اللہ (550/1) نے ”صحیح الاسناد‘‘ قرار دیا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اس پر ’’صحیح‘‘ کا حکم لگایا ہے۔
* مستدرک حاکم کے یہ الفاظ ہیں:
من صلّى على صلاة، صلى الله عليه وسلم عشر صلوات، وحط عنه عشر خطيئات .
”جو شخص مجھ پر ایک دفعہ درود پڑ ھتا ہے، اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے اور اس کے دس گناہ معاف فرما دیتا ہے۔“
امام ابن حبان رحمہ اللہ (907 ) نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔
(3) سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إني لقيت جبريل عليه السّلام فبشرني، وقال: إنّ ربّك يقول : من صلى عليك صليت عليه، ومن سلم عليك سلمت عليه، فسجدت لله شكرا .
”میں جبریل علیہ السلام سے ملا تو انہوں نے مجھے خوش خبری دیتے ہوئے کہا : آپ کا ربّ فرماتا ہے: جو شخص آپ پر درود پڑ ھے گا، میں اس پر رحمت نازل فرماؤں گا اور جو آپ پر سلام کہے گا، میں اس پر سلامتی نازل فرماؤں گا۔ اس پر میں نے سجدۂ شکر کیا۔“ (المستدرك على الصحيحين للحاكم :550/1، وسنده حسن)
امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ”صحیح الاسناد‘‘ اور حافظ ذہبی نے ”صحیح“ کہا ہے۔
(4) سیدنا ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
إنّ رسول الله صلى الله عليه وسلم جاء ذات يوم، والبشر يرى فى وجهه، فقلنا: إنا لنرى البشر فى وجهك، فقال : إنهٔ أتاني ملك، فقال : يا محمد إن ربك يقول : أما يرضيك أن لا يصلي عليك أحد من أمتك ؛ إلا صليت عليه عشرا، ولا يسلم عليك، إلا سلمت عليه عشرا
”ایک دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر خوشي جھلک رہی تھی۔ ہم نے عرض کیا: ہم آپ کے چہرہ مبارک پر خوشی کے آثار دیکھ رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس ایک فرشتہ آیا ہے اور اس نے کہا ہے: اے محمد! آپ کا رب فرماتا ہے کہ کیا آپ اس بات سے خوش نہیں ہیں کہ کوئی بھی آپ پر درود پڑھے گا تو میں اس پر دس رحمتں نازل فرماؤں گا اور کوئی بھی آپ پر سلام کہے گا تو میں اس پر بھی دس سلامتیاں نازل فرماؤں گا۔“ (مسند الإمام أحمد : 4 /29، 30 ؛ سنن النسائي : 1283، 1295 ؛ وسنده صحيح)
اس حدیث کو امام ابن حبان (915) اور امام ضیاء مقدسی (الفتح الکبیر للسیوطي ح: 142) رحمهااللہ نے ”صحیح“ کہا ہے، جبکہ حافظ عراقی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ”جید“ قرار دیا ہے۔ (تخريج أحاديث الإحياء، ح : 1004)
اس کے راوی سلیمان مولیٰ حسن بن علی ثقہ ہیں۔ امام ابن حبان، امام حاکم اور امام ضیاء مقدسی وغیرہم رحمها اللہ نے ان کی حدیث کی تصحیح کر کے ان کی توثیق کی ہے۔
(5) سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ سے اس حدیث کا ایک شاہد بھی مروی ہے، اس کی سند بھی حسن ہے۔ (مسند الامام أحمد :191/1)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (810) نے ”صحیح“، امام حاکم رحمہ اللہ (345/1) نے امام بخاری و مسلم کی شرط پر ”صحیح“ کہا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
اس کے راوی ابوالحویرث عبدالرحمن بن معاویہ جمہور کے نزدیک ”حسن الحدیث“ ہیں، کیونکہ امام مالک (الكامل فى ضعفاء الرجال لابن عدي : 309/4؛ الجرح والتعديل : 284/5؛ وسندہ صحيح)، امام نسائی (كتاب الضعفاء والمتروكين ت: 365 ؛ الكامل فى ضعفاء الرجال :309/4) اور امام ابوحاتم رازی (الجرح والتعديل : 284/5) رحمها اللہ کی تضعیف کے مقابلے میں امام احمد بن حنبل (الجرح والتعديل :284/5؛ وسنده صحيح)، امام ابن خزیمہ (145)، امام ابن حبان (الثقات : 406)، امام حاکم (72/3) اور امام ضیاء مقدسی (الأحاديث المختارة: 930) رحمها اللہ کی توثیق مقدم ہو گی، نیز امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ کے دو متعارض اقوال میں سے ان کا جمہور کے موافق توثیق والا قول (تاريخ ابن معين برواية الدارمي:603) قبول کیا جائے گا۔
(6) سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن للہ في الأرض ملائكة سياحين، يبلغوني من أمتي السلام
”زمین میں اللہ تعالیٰ کے فرشتے گشت کریں گے، جو میری امت کی طرف سے پیش کیا گیا سلام مجھ تک پہنچائیں گے۔“ (مسند الإمام أحمد : 387/1، 441، 452، سنن النسائي الصغرى: 44/3، ح : 1282؛ الكبري له : 22/6، وسندہ حسن)
اس حدیث کی بہت سے ائمہ نے ”تصحیح“ کی ہے، مثلا امام ابن حبان رحمہ اللہ (914) نے اسے ”صحیح“ قرار دیا ہے، امام حاکم رحمہ اللہ (456/2 ) نے ”صحیح الاسناد“ قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
یاد رہے کہ اس حدیث میں سفیان ثوری ’’تدلیس“ نہیں کر رہے، کیونکہ ان کے سماع کی صراحت موجود ہے، جیسا کہ فضل الصلاۃ علی النبي للقاضي إسماعیل (21) اور مسند البزار (1924) میں اس حدیث کو امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے امام یحییٰ بن سعید قطان رحمہ اللہ بیان کر رہے ہیں۔ وہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے وہی احادیث بیان کرتے ہیں، جن میں سماع صراحت ہوتی ہے۔
چنانچہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ، امام یحییٰ بن سعید قطان رحمہ اللہ سے نقل فرماتے ہیں:
ما كتبت عن سفيان شيئا، إلا ما قال: حدّثني، أو حدّثنا .
”میں نے سفیان ثوری رحمہ اللہ سے صرف وہ احادیث لکھی ہیں، جن میں انہوں نے حدثني یا حدثنا کے الفاظ کے ہیں۔“ (العلل ومعرفة الرجال:517/1)
(7) سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما من احد يسلّم علي، إلا ردّ الله على روحي، حتى أردّ عليه السلام .
(میری وفات کے بعد میری قبر پر آ کر) جب بھی کوئی مسلمان مجھ پر سلام کہے گا تو اتنی دیر اللہ تعالیٰ میری روح لوٹا دے گا کہ میں اس پر جواب لوٹا دوں۔“ (سنن أبي داود : 2041)
اس حدیث کی سند کو حافظ نووی (خلاصة الاحكام:441/1 ح: 1440) شیخ الاسلام ابن تمیہ (اقتضاء الصراط المستقيم، ص : 324)، علامہ ابن القیم (جلاء الأفهام : 53/1)، حافظ ابن ملقن (تحفة المحتاج : 190/2) وغیرہم رحمها اللہ نے ”صحیح“، جب کہ حافظ عراقی (تخريج أحاديث الاحياء : 1013)، حافظ ابن عبدالہادی (الصارم المنكي: 114/1) رحمها اللہ نے ”جید“ کہا ہے۔ حافظ سخاوی (المقاصد الحسنة: 587/1 ) اور حافظ عجلونی (كشف الخفاء: 194/2) رحمها اللہ وغیرہم نے اس حدیث کو ”صحیح“ قرار دیا ہے۔
اس حدیث کا تعلق اس شخص کے ساتھ ہے، جو سیدہ عائشہ رضی اللہ کے حجرہ میں آپ صلی الله عليه وسلم کی قبر مبارک پر جا کر سلام کہے۔
(8) سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أولى الناس بي يؤم القيامة أكثرهم على صلاة.
”روز قیامت لوگوں میں سے میرے زیادہ قریب وہ ہو گا جو مجھ پر زیادہ درود پڑھتا ہے۔“ (سنن الترمذي : 484، وسنده حسن)
اس حدیث کو امام ترمذی اور حافظ بغوی (شرح السنة: 686) رحمها اللہ نے ”حسن غریب“، جب کہ امام ابن حبان رحمہ اللہ (911) نے ”صحیح“ کہا ہے۔
(9) سیدنا اوس بن اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنّ من أفضل أيامكم يؤم الجمعة، فيه خلق آدم، وفيه النفخة، وفيه الصعقة، فأكثروا علی من الصلاة فيه، فإن صلاتكم معروضة علي
”بلاشبہ تمہارے دنوں میں جمعہ کا دن سب سے بہتر ہے۔ اس دن سیدنا آدم علیہ السلام پیدا ہوئے، اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن سخت آواز ظاہر ہو گی۔ لہذا س دن مجھ پر بکثرت درود بھیجا كرو، کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جائے گا۔“ ایک آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! ہمارا درود آپ کی وفات کے بعد آپ کو کیسے پیش کیا جائے گا؟ کیا آپ کا جسد مبارک خاک میں نہیں مل چکا ہو گا ؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان الله قد حرم الارض ان تاكل اجساد الانبياء . ”یقینا : اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاے کرام کے جسموں کو کھانا حرام فرما دیا ہے۔“ (مسند الإمام أحمد : 8/4، سنن أبى داود : 1047، 1531، سنن النسائي : 1375، سنن ابن ماجة:1085، 1636، فضل الصلاة على النبى للقاضي إسماعيل :22، وسنده صحيح)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ (1733)، امام ابن حبان (910) اور حافظ ابن قطان فاسی (بيان الوهم والابهام:574/5) رحمها اللہ نے ”صحیح“ قرار دیا ہے۔
امام حاکم رحمہ اللہ (278/1) نے اسے ”امام بخاری کی شرط پر صحیح“ کہا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
حافظ نووی رحمہ اللہ نے بھی اس کی سند کو ”صحیح“ کہا ہے۔ (رياض الصالحين : 1399، خلاصة الاحكام : 814/2،441/1)
حافظ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ (م :751 ھ) لکھے ہیں:
ومن تأمل هذا الإسناده، لم يشك فى صحته، لثقة رواته، وشهرتهم، وقبول الأئمة أحاديثهم.
”جو شحض اس روایت کی سند پر غور کرے گا، وہ اس کی صحت میں شک نہیں کرے گا، کیونکہ اس کے راوی ثقہ، مشہور ہیں اور ائمہ حدیث کے ہاں ان کی بیان کردہ احادیث مقبول ہیں۔“(جلاء الأفهام:81)
(10) سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
إذا سمعتم الموذن، فقولوا مثل ما يقول، ثم صلّوا علي، فإنه من صلّى على صلاة، صلّ الله عليه بها عشرا، ثم سلّوا الله لى الوسيلة، فإنها منزلة فى الجنة، لا تنبغى إلا لعبد من عباد الله، وأرجو أن أكون أنا هو، فمن سأل لي الوسيلة حلت له الشفاعة .
”جب تم مؤذن کو (اذان دیتے ہوئے) سنو تو وہی کلمات کہو جو مؤذن کہہ رہا ہو، پھر مجھ پر درود بھیجو، کیونکہ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس شخص پر دس رحمتیں نازل کرتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ سے میرے ليے ”الوسیلہ“ كی دعا کرو، ”الوسیلہ“ جنت میں ایک مخصوص مقام ہے، جو اللہ کے تمام بندوں میں سے صرف ایک بندے کو نصیب ہو گا اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ بندہ میں ہوں گا۔ جو شخص، میرے لئے’’الوسیلہ‘‘ کی دعا مانگے گا، اسے میری شفاعت ضرور نصیب ہو گی۔‘‘ (صحيح مسلم : 384)
(11) سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے تھے :
إذا صليتم على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأحسنوا الصلاة عليه، فإنكم لا تدرون لعل ذلك يعرض عليه، قال: فقالوا له: فعلمنا، قال: قولوا: اللهم اجعل صلاتك، ورحمتك، وبركاتك على سيد المرسلين، وإمام المتقين، وخاتم النبيين، محمد عبدك ورسولك، إمام الخير، وقائد الخير، ورسول الرحمة، اللهم ابعثه مقاما محمودا، يغبطه به الاولون والآخرون، اللهم صل على محمد وعلى آل محمد، كما صليت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميد مجيد، اللهم بارك على محمد وعلى آل محمد، كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميد مجيد .
”جب تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھو تو اچھے الفاظ میں درود پڑھا کرو، کیوں کہ تمہیں معلوم نہیں کہ شاید وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کیا جائے۔ لوگوں نے کہا: پھرآپ ہمیں وہ الفاظ سکھا دیجیے۔ انہوں نے فرمایا: یوں کہا کرو: اے اللہ ! تو سید المرسلین، امام المتقین اور خاتم النبیین، محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرما، جو تیرے بندے و رسول، امام الخیر، قائد الخیر اور رسول رحمت ہیں۔ اے اللہ ! تو انہیں اس مقام محمود پر فائز فرما، جس کی وجہ سے اولین و آخرین ان سے رشک کریں گے۔ اے اللہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل پر اس طرح رحمت فرما، جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر فرمائی تھی، بلاشبہ تو ہی قابل تعریف اور بزرگی والا ہے۔ اے اللہ ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل پر اس طرح برکت نازل فرما، جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر برکت نازل فرمائی تھی، بلاشبہ تو ہی قابل تعریف اور بزرگی والا ہے۔“ (سنن ابن ماجه:906؛ المعجم الكبير للطبراني : 115/9؛ ح : 8594، مسند الشاشي: 611؛ الدعوات الكبير للبيهقي: 177، وسنده صحيح)
مضمون کے اہم نکات:
فائده نمبر 1:
سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من صلّى على حين يصبح عشرًا وحين يمسي عشرًا، ادركته شفاعتي يوم القيامة
(مجمع الزوائد للهيثمي : 491/1، 120/10؛ الترغيب والترهيب للمنذري : 233/1؛ جلاء الأفهام لابن القيم، ص : 63)
یہ روایت بلحاظ سند ”ضعیف“ ہے، کیونکہ اس کے راوی خالد بن معدان کا سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں، جیسا کہ: امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اس کی نفی کی ہے۔ (المراسيل لابن أبي حاتم، ص : 52، جامع التحصيل، ص: 206)
حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وفيه انقطاع. ”اس سند میں انقطاع ہے۔“ (تخريج أحاديث الإحياء : 398/3)
حافظ سخاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
فيه انقطع لأنّ خالدًا لم يسمع من أبى الدّرّداء، وأخرجه ابن ابي عاصم ايضا، وفيه ضعف .
”اس سند میں انقطاع ہے، کیونکہ خالد بن معدان نے سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے حدیث نہیں سنی۔ اس حدیث کو ابن ابوعاصم نے بھی بیان کیا ہے، لیکن ان کی بیان کردہ سند میں بھی کمزوری ہے۔“ (القول البديع فى الصلاة على الحبيب الشفيع، ص :121)
فائده نمبر 2 :
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے یہ منسوب ہے : میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من صلى على يؤم الجمعة ثمانين مرة؛ غفر الله له ذنوب ثمانين عاما، فقيل له : كيف الصلاة عليك يا رسول الله؟ قال : تقول: اللَّهُمْ صل على مُحَمّد عبدك ونبىك ورسولك النبي الأمى، وتعقد واحدة. (تاريخ بغداد للخطيب : 463/13، العلل المتناهية فى الأحاديث الواهية لابن الجوزي : 468/1، ح : 796، ميزان الاعتدال للذهبي :351/3)
اس روایت کی سند بھی ”ضعیف“ ہے، کیونکہ :
اس کے راوی وہب بن داؤد بن سلیمان ابو القاسم کے بارے میں امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وكان ضريرا، ولم يكن ثقة.
”یہ نابینا تھا اور قابل اعتبار نہیں تھا۔‘‘ (تاريخ بغداد :463/13)
حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذ ا حديث لا يصح
”یہ حدیث ثابت نہیں۔“ (العلل المتناهية فى الأحاديث الواهية:468/1)
حافظ سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وحسنه العراقي، ومن قبله أبو عبدالله بن النعمان، ويحتاج إلى نظر .
”حافظ عراقی رحمہ اللہ اور ان سے پہلے ابو عبداللہ بن نعمان نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے لیکن یہ بات تحقیق کی محتاج ہے۔“ (القول البديع فى الصلاة على الحبيب الشفيع، ص: 199)
فائده نمبر 3 :
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من صلى علي، بلغتني صلاته، وصليت عليه، وكتبت له سوى ذلك عشر حسنات .
”جو شخص مجھ پر دوود پڑھتا ہے، مجھے اس کا درود پہنچ جاتا ہے اور میں اس پر رحمت کی دعا کرتا ہوں، اس کے علاوہ اس کے لئے دس نیکیاں بھی لکھ دی جاتی ہیں۔“ (المعجم الأوسط للطبراني : 1642)
اس روایت کی سند دو وجہ سے ”ضعیف“ ہے:
(1) اسحاق بن زید بن عبدالکبیر خطابی راوی ”مجہول الحال“ ہے۔ امام ابن حبان (اثقات : 122/8) کے علاوہ کسی نے اسے ثقہ نہیں کہا۔
(2) ابوجعفر رازی (حسن الحدیث) کی روایت بہ طور خاص ربیع بن انس سے ”ضعیف“ ہوتی ہے۔ امام ابن حبان رحمہ اللہ ربیع بن انس کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:
والناس يتقون حديثة، ما كان من رواية أبي جعفر عنه، لان فيها اضطراب كثير .
”محدثین ربیع بن انس کی ان روایات سے بچتے ہیں جو ابوجعفر نے ان سے بیان کی ہیں، کیونکہ ان میں بہت اضطراب ہے۔“ (الثقات: 228/4)
مذکورہ بالا روایت بھی ربیع بن انس سے عیسیٰ بن ابی عیسیٰ بن ماہان ابوجعفر رازی بیان کر رہے ہیں۔ یہ جرح مفسر ہے، جسے رد کرنا جائز نہیں۔
یاد رہے کہ مذکورہ حدیث کی سند میں امام طبرانی کے استاذ احمد بن نضر بن بحر، مقری، عسکری ’’ثقہ“ ہیں۔
فائده نمبر: 4
امام عبدالملک بن عبدالعزیز، ابن جریج رحمہ اللہ سے بیان کیا جاتا ہے:
قلت لعطاء : فإن لم يكن فى البيت أحد؟ قال: سلم، قل: السّلام على النبى ورحمة الله وبركاته، السّلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، السّلام على أهل البيت ورحمة الله .
میں نے امام عطاء بن ابو رباح رحمہ اللہ سے پوچھا کہ اگر گھر میں کوئی نہ ہو تو (سلام کہوں) ؟ انہوں نے فرمایا: یوں سلام کہو: نبی اکرم پر سلام، اللہ کی رحمت اور برکتیں ہوں۔ ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلامتی ہو۔ اہل بیت پر بھی سلامتی اور اللہ كی رحمت ہو۔ (تفسير الطبري: 379/17، وفي نسخة : 174/18)
اس قول کی سند بھی ”ضعیف“ ہے، کیونکہ اس کی سند میں قاسم بن حسن کون ہے؟ معلوم نہیں۔
فائده نمبر 5:
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان تک یہ بات پہنچی ہے:
إذا دخل البيت غير المسكون؛ يقال : السّلام علينا وعلى عباد الله الصّالحين.
”جب کسی غیر آباد گھر میں داخل ہوا جائے تو یوں کہا جائے: ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلامتی ہو۔“ (المؤطا للامام مالك : 962/2)
اس کی سند ”ضعیف“ ہے، کیونکہ :
امام مالک رحمہ اللہ تک اس قول کو پہنچانے والا نامعلوم و مجہول ہے۔
فائده نمبر 6:
فقہ حنفی کی معتبر کتب میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا:
مع كل مؤمن خمسة من الحفظة؛ واحد عن يمينه يكتب الحسنات، وآخر عن يساره يكتب السيئات، وآخر أمامه يلقنه الخيرات، وآخر ورائه يدفع عنه المكاره، وآخر عند ناصيته يكتب ما يصلّي على النبى صلى الله عليه وسلم يبلّغة إلى الرسول عليه الصّلاة والسّلام.
”ہر مومن کے ساتھ پانچ فرشتے ہوتے ہیں؛ ایک اس کی دائیں جانب ہوتا ہے جو نیکیاں لکھتا ہے، دوسرا اس کی بائیں جانب ہوتا ہے جو گناہ لکھتا ہے تیسرا اس کے سامنے ہوتا ہے جو اسے نیکیوں کی تلقین کرتا ہے اور چوتھا اس کے پیچھے ہوتا ہے جو اس سے تکلیفوں کو دور کرتا ہے اور پانچواں اس کی پیشانی کے پاس ہوتا ہے جو اس کی طرف سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑ ھے جانے والا درود لکھتا ہے اور اسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتا ہے۔“ (العناية شرح الهداية للبابرتي : 321/1 ؛ الجوهرة النيرة للحدّاد : 56/1؛ تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق للزيلعي الحنفي : 126/1؛ البحر الرائق شرح كنز الدقائق لا بن نجيم : 256/1؛ منحة السلوك للعيني الحنفي، ص : 142؛ حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح للطحطاوي :275/1؛ مراقي الفلاح شرح نور الايضاح للشرنبلالي، ص : 102)
لیکن یہ بے سروپا قصہ اور سفید جھوٹ ہے، جسے بعض لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بے خوف و خطر ہوتے ہوئے اپنی طرف سے گھڑ کر سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب کر دیا ہے۔
فائده نمبر 7 :
ایک روایت یہ بیان کی جاتی ہے کہ سیدہ حواء علیہا السلام کا حق مہر یہ مقرر کیا گیا کہ سیدنا آدم علیہ السلام نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر درود پڑھیں۔ (بستان الواعظين ورياض السامعين لابن الجوزي، ص: 307 بحار الأنوار المجلسي الرافضي: 33/15)
لیکن آج تک کوئی مسلمان اس جھوٹی کہانی کی سند پر مطلع نہیں ہو سکا۔
فائدہ نمبر 8 :
جناب محمد زکریا تبلیغی دیوبندی صاحب نے بلا تردید ایک جھوٹا خواب نقل کیا ہے:
” (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:) میں ہر اس شخص کی فریاد کو پہنچتا ہوں، جو مجھ پر کثرت سے دور بھیجے۔ (تبلیغی نصاب، ص:791)
جناب زکریا صاحب نے اس جھوٹے خواب کو رد کرنے کی بجائے اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بعد از وفات فریاد کرنے کی دلیل بنایا ہے، جو کہ صریحاً شرک ہے۔
فائده نمبر 9 :
بعض لوگ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی، بلکہ صحابہ کرام ٹولیوں کی صورت میں جاتے تھے اور درود پڑھ کر واپس آ جاتے تھے۔ جب کہ یہ بات صحیح روايات اور اجماع امت کے خلاف ہونے کی وجہ سے باطل ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نماز جنازہ پڑھی گئی، البتہ اس میں امام کوئی نہیں تھا، سب نے اپنے طور پر نماز جنازہ ادا کی۔