إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:
اخلاص نیت کی فضیلت
قَالَ اللهُ تَعَالَى: فَادْعُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ ﴿١٤﴾
(40-غافر:14)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” پس اللہ کو پکارو، اس حال میں کہ دین کو اسی کے لیے خالص کرنے والے ہو، اگر چہ کافر برا ما نہیں۔“
حدیث 1
عن عمر بن الخطاب رضى الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إنما الأعمال بالنيات، وإنما لكل امرء ما نوى، فمن كانت هجرته إلى دنيا يصيبها ، أو إلى امرأة ينكحها ، فهجرته إلى ما هاجر إليه
صحيح البخارى، كتاب بدء الوحى، رقم : 1 .
” اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمارہے تھے کہ تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔ پس جس کی ہجرت دولت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض سے ہو۔ پس اس کی ہجرت ان ہی چیزوں کے لیے ہو گی جن کے حاصل کرنے کی نیت سے اس نے ہجرت کی ہے۔“
کلمہ توحید کے فضائل
قَالَ اللهُ تَعَالَى: إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَاعْتَصَمُوا بِاللَّهِ وَأَخْلَصُوا دِينَهُمْ لِلَّهِ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَسَوْفَ يُؤْتِ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ أَجْرًا عَظِيمًا ﴿١٤٦﴾
(4-النساء:146)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”مگر وہ لوگ جنھوں نے توبہ کی اور اصلاح کرلی اور اللہ کو مضبوطی سے تھام لیا اور اپنا دین اللہ کے لیے خالص کر لیا تو یہ لوگ مومنوں کے ساتھ ہوں گے اور اللہ مومنوں کو جلد ہی بہت بڑا اجر دے گا۔“
حدیث 2
وعن عبد الله بن عمرو يقول قال رسول الله : يصاح برجل من أمتي يوم القيامة على رؤوس الخلائق ، فينشر له تسعة وتسعون سجلا ، كل سجل مد البصر ، ثم يقول الله عزوجل : هل تنكر من هذا شيئا؟ فيقول: لا يا رب فيقول: أظلمتك كتبتي الحافظون؟ فيقول: لا ، ثم يقول: ألك عدر؟ ألك حسنة؟ فيهاب الرجل ، فيقول: لا ، فيقول: بلى ، إن لك عندنا حسنات ، وإنه لا ظلم عليك اليوم ، فتخرج له بطاقة فيها ، أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله ، قال: فيقول: يا رب ما هذه البطاقة مع هذه السجلات ؟ فيقول: إنك لا تظلم. فتوضع السجلات فى كفة والبطاقة فى كفة، فطاشت السجلات ، وثقلت البطاقة
سنن ابن ماجه، کتاب الزهد، رقم : 4300 ، المشكاة، رقم : 5559، سلسلة الصحيحه، رقم : 135 .
”اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: روز قیامت اللہ تعالیٰ میری امت کے ایک فرد کو الگ کرے گا۔ اس کے گناہوں کے ننانوے رجسٹر کھول دیئے جائیں گے۔ ہر رجسٹر اتنا بڑا ہوگا جہاں تک انسان کی نگاہ پہنچتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اس سے مخاطب ہوگا کہ کیا تو اس میں سے کسی بھی چیز کا انکار کرتا ہے؟ کیا میرے لکھنے والے محافظ فرشتوں نے تجھ پر ظلم کیا ہے؟ وہ عرض کرے گا نہیں اے پروردگار! پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا، تیرے پاس اس کا کوئی عذر ہے؟ وہ کہے گا نہیں اے پروردگار! پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا، ہمارے پاس تیری ایک نیکی ہے آج تجھ پر کچھ ظلم نہ ہو گا۔ پھر کاغذ کا ایک ٹکڑا نکالا جائے گا جس پر کلمہ شہادت لکھا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میزان کے پاس حاضر ہو جاؤ۔ وہ عرض کرے گا اے اللہ! ان بڑے بڑے رجسٹروں کے مقابلے میں اس کاغذ کے ایک ٹکڑے کا کیا وزن ہو گا ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ آج تجھ پر کوئی ظلم نہیں ہو گا، چنانچہ وہ تمام رجسٹر ایک پلڑے میں رکھے جائیں گے اور وہ پرزہ ایک پلڑے میں رکھا جائے گا۔ وہ تمام رجسٹر اوپر اٹھ جائیں گے اور وہ پرزہ بھاری ثابت ہوگا۔“
سنت زندہ کرنے کا ثواب
قَالَ اللهُ تَعَالَى: قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٣١﴾
(3-آل عمران:31)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”کہہ دیجیے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھیں تمھارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بے حد بخشنے والا ، نہایت مہربان ہے۔“
حدیث 3
وعن عمرو بن عوف المزني حدثني أبى عن جدى أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من أحيا سنة من سنتي فعمل بها الناس ، كان له مثل أجر من عمل بها لا ينقص من أجورهم شيئا
سنن ابن ماجه ، مقدمة باب من احيا سنة قداميت رقم : 209۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور حضرت عمرو بن عوف مزنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے میری کوئی سنت زندہ کی اور لوگوں نے اس پر عمل کیا، تو سنت زندہ کرنے والے کو ان تمام لوگوں کے برابر اجر ملے گا جنہوں نے اس پر عمل کیا ۔“
حدیث 4
وعن عبد الله الصنابحي رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا توضأ العبد المؤمن فتمضمض خرجت الخطايا من فيه ، فإذا استنشر خرجت الخطايا من أنفه ، فإذا غسل وجهه خرجت الخطايا من وجهه ، حتى تخرج من تحت أشفار عينيه، فإذا غسل يديه خرجت الخطايا من يديه ، حتى تخرج من تحت أظفار يديه ، فإذا مسح برأسه خرجت الخطايا من رأسه، حتى تخرج من أذنيه ، فإذا غسل رجليه خرجت الخطايا من رجليه، حتى تخرج من تحت أظفار رجليه ، ثم كان مشيه إلى المسجد وصلاته نافلة له
سنن النسائى كتاب الطهارة ، رقم : 103 ، صحيح الترغيب، رقم : 185، سنن ابن ماجه، رقم:282، مستدرك حاكم : 129/1۔ امام حاکم اور محدث البانی نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
” اور حضرت عبد الله رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب مومن بندہ وضو کرتا ہے اور کلی کرتا ہے تو اس کے منہ سے گناہ نکل جاتے ہیں ، جب ناک جھاڑتا ہے تو اس کے ناک سے گناہ نکل جاتے ہیں، جب اپنا چہرہ دھوتا ہے تو اس کے چہرے سے گناہ نکل جاتے ہیں حتی کہ اس کی دونوں آنکھوں کی پلکوں کے نیچے سے بھی گناہ نکل جاتے ہیں، جب اپنے ہاتھ دھوتا ہے تو اس کے ہاتھوں سے گناہ نکل جاتے ہیں حتی کہ اس کے دونوں ہاتھوں کے ناخنوں کے نیچے سے بھی گناہ نکل جاتے ہیں، جب اپنے سر کا مسح کرتا ہے تو اس کے سر سے گناہ نکل جاتے ہیں حتی کہ اس کے دونوں کانوں سے بھی نکل جاتے ہیں، جب وہ اپنے دونوں پاؤں دھوتا ہے تو اس کے دونوں پاؤں سے گناہ نکل جاتے ہیں حتی کہ اس کے دونوں پاؤں کے ناخنوں کے نیچے سے بھی گناہ نکل جاتے ہیں۔ پھر ( طہارت حاصل کر لینے کے بعد ) مسجد کی جانب اس کا چلنا اور اس کا نماز ادا کرنا اس کے لیے زائد ہوتا ہے۔ یعنی وہ اس وقت گناہوں سے نجات حاصل کر چکا ہوتا ہے اس لیے اب یہ اعمال اس کے لیے محض اجر وثواب میں اضافے اور درجات میں بلندی کا باعث ہوتے ہیں۔“
وضوء کے بعد کلمہ شہادت پڑھنے کی فضیلت
حدیث 5
وعن عقبة بن عامر ، قال: أدركت رسول الله صلى الله عليه وسلم قائما يحدث الناس ، فأدركت من قوله: ما منكم من أحد يتوضأ فيبلع أو فيسبع الوضوء ثم يقول: أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبد الله ورسوله ، إلا فتحت له أبواب الجنة الثمانية ، يدخل من آيها شاء
صحيح مسلم، كتاب الطهارة، رقم : 553.
” اور حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں پایا کہ آپ کھڑے لوگوں کو یہ حدیث بیان فرما رہے تھے کہ جس نے وضو کیا اور اچھا وضو کیا، پھر کہا: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جائیں گے کہ وہ جس سے چاہے داخل ہو جائے۔“
مسجد تعمیر کرنے کی فضیلت
قَالَ اللهُ تَعَالَى: إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ﴿١٨﴾
(9-التوبة:18)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اللہ کی مسجدیں تو صرف وہ آباد کرتا ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لایا۔ “
حدیث 6
وعن عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ يقول عند قول الناس فيه حين بنى مسجد الرسول صلی اللہ علیہ وسلم : إنكم أكثرتم وإني سمعت النبى صلی اللہ علیہ وسلم يقول: من بنى مسجدا – قال بكير : حسبت أنه قال: يبتغي به وجه الله – بنى الله له مثله فى الجنة
صحيح البخارى، كتاب الصلاة، رقم: 450 ، صحيح مسلم، رقم : 533 سنن الترمذي، رقم : 318 .
”اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ کے لیے مسجد بنائے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس کی مثل جنت میں گھر بنائیں گے۔ “
نماز کی فضیلت
حدیث 7
وعن عبد الله بن عمرو بن العاص ، عن النبى صلى الله عليه وسلم أنه ذكر الصلاة يوما فقال: من حافظ عليها ، كانت له نورا ، وبرهانا ونجاة يوم القيامة . ومن لم يحافظ عليها ، لم تكن له نورا ولا برهانا ولا نجاة ، وكان يوم القيامة مع قارون وفرعون وهامان و أبى ابن خلف
مسند احمد : 169/2 ، رقم 6576 ، سنن دارمی: 390/2، رقم : 2721، المشكاة، رقم : 578 ۔ احمد شاکر نے اسے صحیح الاسناد کہا ہے۔
”اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو نماز کی حفاظت کرے گا اس کے لیے یہ روز قیامت نور، حجت اور نجات کا ذریعہ ہوگی۔ اور جس نے اس کی حفاظت نہ کی اس کے لیے یہ نہ نور ہوگی ، نہ حجت اور نہ نجات کا ذریعہ اور روز قیامت اس کا انجام قارون، فرعون، ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہو گا ۔ “
نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کی فضیلت
حدیث 8
وعن أبى هريرة ، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: من صلى صلوة لم يقرأ فيها بأم القرآن فهي خداج ثلاثا ، غير تمام ، فقيل لأبي هريرة إنا نكون وراء الإمام فقال: اقرأ بها فى نفسك ، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: قال الله عز وجل: قسمت الصلوة بيني وبين عبدى نصفين، ولعبدي ما سأل ، فإذا قال العبد الحمد لله رب العالمين ، قال الله عز وجل: حمدني عبدى، وإذا قال: الرحمن الرحيم ، قال الله عز وجل: أثنى على عبدى، وإذا قال: مالك يوم الدين، قال: مجدني عبدى، وقال مرة: فوض إلى عبدي ، فإذا قال: إياك نعبد وإياك نستعين، قال: هذا بيني وبين عبدى، ولعبدى ما سأل ، فإذا قال: اهدنا الصراط المستقيم صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين، قال: هذا لعبدى ولعبدي ما سأل
صحیح مسلم کتاب الصلاة، باب وجوب قراءة الفاتحه في كل ركعة ، رقم: 878 .
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کر دیا ہے اور میں بندے کا سوال پورا کرتا ہوں ۔ جب بندہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ پڑھتا ہے، تو اللہ تعالیٰ جواب میں فرماتے ہیں کہ میرے بندے نے میری حمد بیان کی ۔ جب بندہ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ پڑھتا ہے، تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے بندے نے میری ثنا بیان کی۔ جب بندہ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ پڑھتا ہے، تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میرے بندے نے میری تعظیم کی۔ جب بنده إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ پڑھتا ہے، تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے، اور میرے بندے کے لیے وہ سب ہے جو اس نے مانگا۔ اور جب بندہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضالين پڑھتا ہے، تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ میرے بندے کے لیے خاص ہے اور میرے بندے کے لیے وہ سب ہے جو اس نے مانگا ہے۔“
تشہد کی ایک خاص دعا اور اس کی فضیلت
حدیث 9
وعن عبد الله بن بريدة، عن حنظلة بن على ، أن محجن بن الأدرع حدثه قال: دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم المسجد، فإذا هو برجل قد قضى صلاته وهو يتشهد وهو يقول: اللهم إني أسألك يا ألله، الأحد الصمد، الذى لم يلد ولم يولد، ولم يكن له كفوا أحد، أن تغفر لي ذنوبي ، إنك أنت الغفور الرحيم قال: قد غفر له ، قد غفر له ، ثلاثا
سنن ابوداؤد کتاب الصلاة، باب ما يقول بعد التشهد ، رقم : 985۔ سنن النسائی، رقم : 1301 ۔ مسند احمد ( الموسوعة الحديثية):18974۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور حضرت محجن بن ادرع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے تو ایک آدمی کو تشہد کے آخر میں یہ دعا پڑھتے سنا: اللَّهُمَّ إِنِّى أَسْأَلُكَ يَا اَللَّهُ، الأَحَدُ الصَّمَدُ، الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ ، أَنْ تَغْفِرَ لِي ذُنُوبِي ، إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ تو آپ نے اس کے لیے تین مرتبہ فرمایا: یقیناً اسے بخش دیا گیا، یقیناً اسے بخش دیا گیا۔“
معمولی صدقہ کی فضیلت
قالَ اللهُ تَعَالَى:مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً ۚ وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ﴿٢٤٥﴾
(2-البقرة:245)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”کون ہے وہ جو اللہ کو قرض دے، اچھا قرض، پس وہ اسے اس کے لیے بہت زیادہ گنا بڑھا دے اور اللہ بند کرتا اور کھولتا ہے اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔“
حدیث 10
عن أبى هريرة صلى الله عليه وسلم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من تصدق بعدل تمرة من كسب طيب، ولا يقبل الله إلا الطيب، وإن الله يتقبلها بيمينه، ثم يربيها لصاحبه كما يربي أحدكم فلوه، حتى تكون مثل الجبل
صحيح البخارى، كتاب الزكاة، باب الصدقة من كسب طيب ، رقم : 1410 ، صحیح مسلم، رقم : 1014 ، سنن الترمذی، رقم : 661 ، سنن ابن ماجه رقم: 1842 ، سنن دارمی، رقم : 1675 ، شرح السنة، رقم: 1632 .
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے پاکیزہ یعنی حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کیا، اور اللہ تعالیٰ صرف پاکیزہ کمائی کے صدقے کو ہی قبول کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے داہنے ہاتھ سے قبول کرتا ہے پھر صدقہ کرنے والے کے فائدے کے لیے اس میں زیادتی کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی اپنے جانور کے بچے کو کھلا پلا کر بڑھاتا ہے حتی کہ اس کا صدقہ پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے۔“
آمدنی کا تیسرا حصہ صدقہ کرنے والے آدمی کی فضیلت
حدیث 11
وعن أبى هريرة ، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: بينا رجل بفلاة من الأرض ، فسمع صوتا فى سحابة ، اسق حديقة فلان، فتنحى ذلك السحاب ، فأفرغ ماته فى حرة، فإذا شرجة من تلك الشراج قد استوعبت ذلك الماء كله ، فتتبع الماء ، فإذا رجل قائم فى حديقته يحول الماء بمسحاته ، فقال له: يا عبد الله ما اسمك؟ قال: فلان للاسم الذى سمع فى السحابة ، فقال له: يا عبد الله! لم تسألني عن اسمي، فقال: إني سمعت صوتا فى السحاب الذى هذا ماؤه يقول: اسق حديـقة فلان لاسمك ، فما تصنع فيها؟ قال: أما إذ قلت هذا فإني أنظر إلى ما يخرج منها ، فأتصدق بثلثه ، وآكل أنا وعيالي ثلما ، وارد فيها ثلثة
صحیح مسلم کتاب الزهد والرقائق، باب الصدقة على المسكين، رقم: 2984 ، صحیح ابن حبان رقم 3355 ۔
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک آدمی چٹیل میدان میں تھا اس نے ایک بادل سے آواز سنی کہ فلاں شخص کے باغ کو پانی پلاؤ۔ چنانچہ بادل اس طرف چلا اور ایک سنگلاخ زمین میں بارش برسی تو سارا پانی ایک نالے میں اکٹھا ہو گیا۔ پھر وہ شخص نالے کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ بالآخر اس نے دیکھا کہ ایک آدمی باغیچے میں کھڑا ہے اور بیلچے کے ساتھ پانی اِدھر اُدھر تقسیم کر رہا ہے۔ اس نے کہا: اے اللہ کے بندے! تیرا کیا نام ہے؟ اس نے کہا: میرا نام فلاں ہے۔ یہ وہی نام تھا جسے اس نے بادل سے سنا تھا۔ اس نے اس سے دریافت کیا، اے اللہ کے بندے! تو مجھے سے یہ کیوں پوچھ رہا ہے؟ اس نے کہا: میں نے اس بادل سے آواز سنی تھی جس سے یہ پانی برسا ہے کہ فلاں نام کے آدمی کے باغیچے کو پانی سے سیراب کرو۔ ( مجھے بتاؤ) تم اس میں کیا کرتے ہو؟ اس نے کہا: جب تم کہتے ہو تو میں بتا ہی دیتا ہوں کہ میں اس کی آمدن کا جائزہ لیتا ہوں، پھر ایک تہائی صدقہ کر دیتا ہوں، ایک تہائی سے میرے اور میرے اہل وعیال کے اخراجات ہوتے ہیں اور بقیہ ایک تہائی اسی باغ میں صرف کر دیتا ہوں ۔“
غلطی سے غیر مستحق کو دیا ہوا صدقہ بھی رائیگاں نہیں جاتا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِندَ اللَّهِ ۖ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ ﴿٣٩﴾
(30-الروم:39)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور جو کوئی سودی قرض تم اس لیے دیتے ہو کہ لوگوں کے اموال میں بڑھ جائے تو وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا، اور جو کچھ تم زکوۃ سے دیتے ہو، اللہ کے چہرے کا ارادہ کرتے ہو، تو وہی لوگ کئی گنا بڑھانے والے ہیں۔“
حدیث 12
وعن أبى هريرة رضي الله عنه ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: قال رجل: لا تصدقن بصدقة ، فخرج بصدقته فوضعها فى يد سارق فأصبحوا يتحدثون: تصدق على سارق. فقال: اللهم لـ الحمد، لأتصدقن بصدقة ، فخرج بصدقته فوضعها فى يد زانية ، فأصبحوا يتحدثون: تصدق الليلة على زانية ، فقال: اللهم لك الحمد ، على زانية ، لا تصدقن بصدقة ، فخرج بصدقته فوضعها فى يد غني ، فأصبحوا يتحدثون: تصدق على غني ، فقال: اللهم لك الحمد على سارق، وعلى زانية ، وعلى غني . فأتي فقيل له: أما صدقتك على سارق، فلعله أن يستعف عن سرقته ، وأما الزانية فلعلها أن تستعف عن زناها، وأما الغني فلعله يعتبر، فينفق مما أعطاه الله
صحيح البخاري، كتاب الزكاة، باب اذا تصدق على غنى وهو لا يعلم، رقم : 1421، صحیح مسلم، رقم : 1022، مسند احمد، رقم : 8289، سنن نسائی، رقم :2522، صحیح ابن حبان، رقم : 3356 ، سنن الكبرى بيهقي : 191/4.
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (بنی اسرائیل میں سے ) ایک شخص نے کہا، آج رات میں ضرور صدقہ دوں گا چنانچہ وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا اور ( لاعلمی سے ) ایک چور کے ہاتھ میں رکھ دیا۔ صبح ہوئی تو لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ آج رات کسی نے چور کو صدقہ دے دیا۔ اس شخص نے کہا: اے اللہ ! تمام تعریف تیرے لیے ہی ہے، آج رات میں پھر ضرور صدقہ کروں گا، چنانچہ وہ دوبارہ صدقہ لے کر نکلا اور اس مرتبہ ایک فاحشہ کے ہاتھ میں دے آیا۔ جب صبح ہوئی تو پھر لوگوں میں چرچا ہوا کہ آج رات کسی نے فاحشہ عورت کو صدقہ دے دیا۔ اس شخص نے کہا کہ اے اللہ! تمام تعریف تیرے لیے ہی ہے، میں زانیہ کو اپنا صدقہ دے آیا۔ آج رات پھر ضرور صدقہ نکالوں گا ، چنانچہ اپنا صدقہ لیے ہوئے وہ پھر نکلا اور اس مرتبہ ایک مالدار کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ صبح ہوئی تو لوگوں کی زبان پر ذکر تھا کہ ایک مالدار کو کسی نے صدقہ دریا ہے۔ اس شخص نے کہا کہ اے اللہ ! حمد تیرے ہی لیے ہے میں اپنا صدقہ (لاعلمی سے ) چور، فاحشہ اور مالدار کو دے آیا ہوں۔ (اللہ تعالیٰ کی طرف سے ) بتایا گیا کہ جہاں تک چور کے ہاتھ میں صدقہ چلے جانے کا سوال ہے تو اس میں یہ امکان ہے کہ وہ چوری سے رک جائے۔ اسی طرح فاحشہ کو صدقے کا مال مل جانے سے یہ امکان ہے کہ وہ زنا سے رک جائے اور مالدار کے ہاتھ میں پڑ جانے کا یہ فائدہ ہے کہ اسے عبرت ہو اور پھر جو اللہ تعالیٰ نے اسے دیا ہے وہ اسے خرچ کرے۔“
جانوروں پر صدقہ کی فضیلت
قَالَ اللهُ تَعَالَى: مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۗ وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ﴿٢٦١﴾
(2-البقرة:261)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” ان لوگوں کی مثال جو اپنے مال اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، ایک دانے کی مثال کی طرح ہے جس نے سات خوشے اگائے ، ہر خوشے میں سو دانے ہیں اور اللہ جس کے لیے چاہتا ہے بڑھا دیتا ہے اور اللہ وسعت والا ، سب کچھ جاننے والا ہے۔“
حدیث 13
وعن أبى هريرة رضي الله عنه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: بينا رجل يمشي فاشتد عليه العطش فنزل بثرا فشرب منها ، ثم خرج فإذا هو بكلب يلهت ، يأكل الثرى من العطش ، فقال: لقد بلغ هذا مثل الذى بلغ بي ، فملا خفه ثم أمسكه بفيه ، ثم رقي فسقى الكلب ، فشكر الله له فغفر له ، قالوا يا رسول الله وإن لنا فى البهائم أجرا؟ قال: فى كل كبد رطبة اجر
صحيح البخارى، كتاب المساقة ، باب فضل سقى الماء، رقم : 2363، صحيح مسلم، رقم : 2244، سنن ابو داؤد، رقم : 2550 ۔
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک شخص جا ر ہا تھا کہ اسے سخت پیاس لگ گئی۔ اس نے ایک کنوئیں میں اُتر کر پانی پیا پھر باہر آیا تو دیکھا کہ ایک کتا ہانپ رہا ہے اور پیاس کی وجہ سے کیچڑ چاٹ رہا ہے۔ اس نے دل میں کہا کہ یہ بھی اس وقت ایسی ہی پیاس میں مبتلا ہے جیسے ابھی مجھے لگی ہوئی تھی۔ (چنانچہ وہ کنوئیں میں اترا اور ) اپنے چڑے کے موزے کو بھر کر اپنے منہ سے پکڑے ہوئے اُوپر آیا اور کتے کو پلا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کو قبول کیا اور اس کی مغفرت فرما دی۔ صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! کیا ہمارے لیے چوپایوں میں بھی اجر ہے؟ آپ صل اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر جاندار میں اجر ہے۔“
رمضان میں عمرہ کا ثواب
حدیث 14
وعن ابن عباس رضي الله عنه ، قال: لما رجع النبى صلى الله عليه وسلم من حجته قال لأم سنان الأنصارية : ما منعك من الحج؟ قالت: أبو فلان تعني زوجها كان له ناضحان حج على أحدهما ، والآخر يسقي أرضا لنا ، قال: فإن عمرة فى رمضان تقضي حجة أو حجة معى
صحيح البخاري، كتاب جزاء الصيد، باب حج النساء، النساء، رقم : 3 رقم : 1863، صحيح مسلم، رقم : 1256 ، سنن النسائی، رقم : 2109 ، سنن ابن ماجه رقم : 2993۔
”اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع سے واپس ہوئے تو آپ نے ام سنان انصاریہ رضی اللہ عنہا سے دریافت فرمایا کہ تو حج کرنے نہیں گئی؟ انہوں نے عرض کیا میرے خاوند کے پاس دو اونٹ پانی پلانے کے تھے۔ ایک پر تو وہ خود حج پر چلے گئے، اور دوسرا ہماری زمین سیراب کرتا ہے۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: رمضان میں عمرہ کرنا حج کے، یا فرمایا، میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے۔ “
روزہ کی فضیلت
حدیث 15
وعن أبى هريرة رضي الله عنه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : كل عمل ابن آدم يضاعف الحسنة عشر أمثالها إلى سبعمانة ضعف، قال الله عز وجل: إلا الصوم ، فإنه لي وأنا أجزي به ، يدع شهوته وطعامه من أجلى
صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب فضل الصيام رقم 2707 ، مسند احمد، رقم: 3493، سنن ابن ماجه رقم 1638 .
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ابن آدم کے ہر نیک عمل کا بدلہ دس سے لے کر سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ سوائے روزے کے، بلاشبہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ انسان اپنی شہوت اور کھانے پینے کو میری رضا کے لیے چھوڑتا ہے۔“
حدیث 16
وعن أبى أمامة الباهلي ، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: من صام يوما فى سبيل الله جعل الله بينه وبين النار خندقا ، كما بين السماء والأرض
سنن ترمذی ، کتاب فضائل الجهاد، باب ما جاء في فضل الصوم في سبيل الله ، رقم : 1624 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 563.
” اور حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے اللہ کے راستے میں ایک دن روزہ رکھا اللہ تعالیٰ اس کے درمیان اور جہنم کی آگ کے درمیان خندق بنا دیں گے جیسے آسمان وزمین کے درمیان ہے۔ “
حج کی فضیلت
قَالَ اللهُ تَعَالَى: إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ ﴿٩٦﴾ فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ ۖ وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا ۗ وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ ﴿٩٧﴾
(3-آل عمران:96، 97)
”اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: بے شک (اللہ کا) پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا وہی ہے جو مکہ میں ہے۔ وہ تمام دنیا کے لیے بڑی برکت اور ہدایت والا ہے۔ اس میں واضح نشانیاں ہیں (اور ) مقام ابراہیم ہے، اور جو اس میں داخل ہو جائے ، وہ امن والا ہو جاتا ہے، اللہ نے ان لوگوں پر بیت اللہ کا حج فرض کیا ہے جو اس کی طرف سفر کرنے کی طاقت رکھتے ہوں اور جس نے کفر کیا تو بے شک اللہ ساری دنیا سے بے پروا ہے۔ “
حدیث 17
وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال سمعت النبى صلى الله عليه وسلم يقول: من حج لله فلم يرفث ، ولم يفسق ، رجع كيوم ولدته أمه
صحيح البخارى، كتاب الحج، باب فضل الحج المبرور ،رقم : 1521 ، صحیح ،مسلم، رقم : 1350 ، سنن ابن ماجه رقم : 2889 سنن ترمذی، رقم :811 .
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے حج کیا ( اور اس میں ) نہ عورتوں کے قریب گیا اور نہ ہی کوئی فسق و فجور کا کام کیا تو وہ اپنے گناہوں سے (پاک صاف ہو کر ) اس دن کی طرح لوٹے گا جس دن اس کی ماں نے اس کو جنا۔ “
مسجد حرام میں نماز کی فضیلت
حدیث 18
وعن جابر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : صلاة فى مسجدي أفضل من ألف صلاة فيما سواه إلا المسجد الحرام
صحيح الجامع الصغير، رقم : 3838 ، ارواء الغليل، رقم: 1129 ۔
”اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مسجد حرام میں ایک نماز دوسری مساجد میں ایک لاکھ نماز سے افضل ہے۔ “
مسجد نبوی میں نماز کی فضیلت
حدیث 19
وعن أبى هريرة رضي الله عنه أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: صلاة فى مسجدى هذا خير من ألف صلاة فيما سواه إلا المسجد الحرام
صحيح البخارى كتاب فضل صلاة في مسجد مكة والمدينة، رقم : 1190، مسند احمد : 5/4 .
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: میری اس مسجد میں نماز ادا کرنے کا ثواب دوسری مساجد میں نماز ادا کرنے کےمقابلے میں ہزار گنا زیادہ ہے سوائے مسجد حرام کے۔ “
طاعون اور پیٹ کی بیماری کے باعث موت کی فضیلت
حدیث 20
وعن أبى هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: الشهداء خمسة : المطعون ، والمبطون، والغرق، وصاحب الهدم ، والشهيد فى سبيل الله
صحيح البخارى، كتاب الجهاد باب الشهادة سبع سوى القتل، رقم: 2829، صحیح مسلم، رقم : 1914.
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: شہید پانچ قسم کے ہوتے ہیں۔ طاعون میں ہلاک ہونے والا، پیٹ کی بیماری ، میں ہلاک ہونے والا، ڈوب کر مرنے والا، دب کر مر جانے والا اور اللہ کے راستے میں شہادت پانے والا ۔ “
مریض کی عیادت کی فضیلت
حدیث 21
وعن علي، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ما من مسلم يعود مسلما غدوة ، إلا صلى عليه سبعون ألف ملك حتى يمسي ، وإن عاده عشية ، إلا صلى عليه سبعون ألف ملك حتى يصبح ، وكان له خريف فى الجنة
سنن الترمذى، كتاب الجنائز، باب ما جاء فى عيادة المريض، رقم: 969، سنن ابوداؤد، رقم : 3098، سنن ابن ماجه ، رقم : 1442 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 1367.
” اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب کوئی مسلمان عیادت کی غرض سے اپنے مسلمان بھائی کے پاس بیٹھتا ہے، اگر وہ صبح کو عیادت کرے تو شام تک ستر ہزار فرشتے اس کے لیے مغفرت کی دعا کرتے رہتے ہیں، اور اگر شام کو عیادت کرے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اس کے لیے مغفرت کی دعا کرتے رہتے ہیں۔ اور اس کے لیے جنت میں ایک باغ لگ جاتا ہے۔“
تو بہ کی فضیلت
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ ﴿٣٣﴾
(8-الأنفال:33)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور اللہ کبھی ایسا نہیں کہ انھیں عذاب دے، جب کہ تو ان میں ہواور اللہ انھیں کبھی عذاب دینے والا نہیں جب کہ وہ بخشش مانگتے ہوں۔“
حدیث 22
وعن أبى هريرة ، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: لو أخطاتم حتى تبلغ خطاياكم السماء ، ثم تبتم لتاب الله عليكم
سنن ابن ماجه، کتاب الزهد ، باب ذكر التوبة، رقم : 4248، سلسلة الصحيحة، رقم: 903، 1951 .
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر تم اتنے گناہ کرو کہ تمہارے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں پھر تم تو بہ کر لو تو اللہ تعالیٰ تمہاری توبہ قبول کر لیں گے۔ “
حدیث 23
وعن أبى هريرة، قال : سمعت النبى صلى الله عليه وسلم قال: إن عبدا أصاب ذنبا ، وربما قال: أذنب ذنبا ، فقال: رب أذنبت ، وربما قال: أصبت ، فاغفر لي ، فقال ربه: أعلم عبدى أن له ربا يغفر الذنب ويأخذ به؟ غفرت لعبدي ، ثم مكث ما شاء الله ، ثم أصاب ذنبا ، أو أذنب ذنبا ، فقال: رب أذنبت ، أو أصبت آخر ، فاغفره، فقال: أعلم عبدى أن له ربا يغفر الذنب، ويأخذ به؟ غفرت لعبدي ، ثم مكث ما شاء الله، ثم أذنب ذنبا ، وربما قال أصاب ذنبا ، قال: قال: رب أصبت، أو قال: أذنبت آخر ، فاغفره لي ، فقال: أعلم عبدى أن له ربا يغفر الذنب ويأخذ به؟ غفرت لعبدى ثلاثا ، فليعمل ما شاء
صحيح البخارى، كتاب التوحيد ، باب قول الله تعالى( يريدون ان) ، رقم: 7507، صحیح مسلم، رقم : 2758.
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب سے بیان فرماتے ہیں کہ بندہ گناہ کر کے یوں کہے کہ اے اللہ ! میرا گناہ معاف فرما دے تو اللہ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے گناہ کیا اور وہ جانتا ہے کہ اس کا رب ہے جو گناہ معاف کرتا ہے اور گناہ کی وجہ سے گرفت کرتا ہے۔ وہ بندہ (دوبارہ) پھر گناہ کر کے کہتا ہے، اے میرے رب ! میرا گناہ معاف فرما دے، تو اللہ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے گناہ کیا اور وہ جانتا ہے کہ اس کا رب ہے جو گناہ معاف کرتا ہے اور گناہ کی وجہ سے گرفت کرتا ہے۔ پھر (سہ بارہ) وہ بندہ گناہ کر کے کہتا ہے، اے میرے رب ! میرا گناہ معاف فرما دے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، میرے بندے نے گناہ کیا اور اسے علم ہے کہ اس کا رب ہے جو گناہ معاف کرتا ہے اور گناہ کی وجہ سے گرفت کرتا ہے۔ (اس کے بعد اللہ فرماتا ہے کہ اے بندے!) تو جو چاہے کر میں نے تجھے معاف کر دیا۔ “
ستر پوشی کا ثواب
حدیث 24
وعن عبد الله بن عمر رضي الله عنه أخبره، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من ستر مسلما ستره الله يوم القيامة
صحيح البخارى، كتاب المظالم والغصب ، باب لا يظلم المسلم، رقم: 2442 ، صحیح مسلم، رقم : 2580 ۔
”اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مسلمان پر پردہ ڈالا اللہ تعالیٰ روز قیامت اس پر پردہ ڈالیں گے۔ “
نماز جنازہ میں چالیس افراد کی شرکت سے میت کی بخشش
حدیث 25
وعن عبد الله بن عباس ، قال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ما من رجل مسلم يموت فيقوم على جنازته أربعون رجلا لا يشركون بالله شيئا إلا شفعهم الله فيه
صحیح مسلم، کتاب الجنائز، باب من صلى عليه مائة شفعوا فيه، رقم: 2199، سنن ابو داؤد، رقم : 3170 ، سنن ابن ماجه، رقم : 1489.
” اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: جو مسلمان فوت ہو اور ایسے چالیس موحد افراد جو شرک نہ کرتے ہوں اس کی نماز جنازہ میں شرکت کریں تو اللہ تعالیٰ ضرور اس میت کے حق میں ان سب کی سفارش قبول فرمالیں گے۔“
رات کو نوافل پڑھنے کا ثواب
حدیث 26
وعن أبى هريرة رضی اللہ عنہ قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : من استيقظ من الليل، وأيقظ امرأته ، فصليا ركعتين جميعا ، كتبا من الذاكرين الله كثيرا والذاكرات
سنن ابو داؤد، کتاب الصلاة، باب الحث على قيام الليل، رقم : 1451۔ محدث البانی نے اسے حسن صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص رات کو بیدار ہو اور اپنی بیوی کو بھی اٹھائے ، پھر دونوں اکٹھے دو رکعت نفل نماز ادا کریں تو ان دونوں کو کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مردوں اور ذکر کرنے والی عورتوں میں لکھ دیا جاتا ہے۔ “
اللہ کا ذکر کرنے کی فضیلت
قَالَ اللهُ تَعَالَى: فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ ﴿١٥٢﴾
(2-البقرة:152)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”سو تم مجھے یاد کرو، میں تمھیں یاد کروں گا اور میرا شکر کرو اور میری ناشکری مت کرو۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللَّهِ ۗ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ ﴿٢٨﴾
(13-الرعد:28)
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”وہ جو ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کی یاد سے اطمینان پاتے ہیں ۔ سن لو! اللہ کی یاد ہی سے دل اطمینان پاتے ہیں۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ ۖ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ ۗ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ ﴿٤٥﴾
(29-العنكبوت:45)
❀اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور یقیناً اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔“
حدیث 27
وعن أبى الدرداء ، قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم : ألا أنبئكم بخير : أعمالكم ، وأزكاها عند مليككم ، وأرفعها فى درجاتكم وخير لكم من إنفاق الذهب والورق ، وخير لكم من أن تلقوا عدوكم فتضربوا أعناقهم ويضربوا أعناقكم ، قالوا: بلى قال:
ذكر الله تعالى
سنن ترمذی، ابواب الدعوات، رقم : 3377۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا میں ایسا عمل نہ بتاؤں جو بہترین ہو اور تمہارے بادشاہ ( اللہ ) کے نزدیک زیادہ اجر والا ہو اور تمہارے درجات بلند کرنے والا ہو اور تمہارے لیے سونا ، چاندی خرچ کرنے سے بہتر ہو اور تمہارے لیے اس سے بھی بہتر ہو کہ تم اپنے دشمنوں سے لڑائی کرو، تم ان کی گردنوں کو تہہ تیغ کرو اور وہ تمہاری گردنوں کو اڑا ئیں؟ صحابہ نے عرض کیا ضرور بتائیں ۔ آپ مسلم نے ارشاد فرمایا: ” ذِكْرُ اللهِ تَعَالَي“ ”وہ اللہ کا ذکر ہے۔“
ذکر کی مجالس میں بیٹھنے کی فضیلت
حدیث 28
وعن أبى هريرة ، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: إن لله تبارك وتعالى ملائكة سيارة ، فضلا يتتبعون مجالس الذكر ، فإذا وجدوا مجلسا فيه ذكر، قعدوا معهم ، وحف بعضهم بعضا بأجنحتهم ، حتى يملموا ما بينهم وبين السماء الدنيا، فإذا تفرقوا عرجوا وصعدوا إلى السماء، قال: فيسألهم الله عز وجل: وهو اعلم بهم من اين جئتم؟ فيقولون: جئنا من عند عباد لك فى الأرض ، يسبحونك ، ويكبرونك ، ويهتلونك، ويحمدونك ، ويسألونك ، قال: وماذا يسألوني؟ قالوا: يسألونك جنتك ، قال: وهل رأوا جنتي؟ قالوا: لا ، أى رب قال: فكيف لو رأوا جنتي؟ قالوا: ويستجيرونك ، قال: ومم يستجير ونني؟ قالوا: من نارك ، يا رب قال: وهل رأوا نارى؟ قالوا: لا ، قال: فكيف لو رأوا ناري؟ قالوا: ويستغفرونك ، قال: فيقول: قد غفرت لهم ، فأعطيتهم ما سالوا، واجرتهم مما استجاروا ، قال: فيقولون: رب فيهم فلان، عبد خطاء ، إنما مر فجلس معهم ، قال: فيقول: وله غفرت ، هم القوم لا يشقى بهم جليسهم
صحیح مسلم، كتاب الذكر والدعاء، باب فضل مجالس الذكر، رقم : 6839 ، صحيح البخاري، تعليقاً ، رقم 6408، سنن ترمذی، رقم : 3600 .
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ کی طرف سے کچھ زائد فرشتے مقرر ہیں جو ( زمین میں ) چلتے پھرتے رہتے ہیں، ذکر کی مجالس تلاش کرتے رہتے ہیں، جب اللہ کے ذکر کی کسی مجلس کو پاتے ہیں تو ان لوگوں کے پاس بیٹھ جاتے ہیں اور انہیں اپنے پروں کے ساتھ ڈھانپ لیتے ہیں حتی کہ ان سے لے کر آسمانِ دنیا تک کی فضا کو بھر دیتے ہیں۔ جب ذکر کرنے والے اٹھ جاتے ہیں تو فرشتے بھی آسمان کی جانب چڑھ جاتے ہیں۔ اللہ ان سے پوچھتا ہے، تم کہاں سے آئے ہو؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم زمین سے تیرے بندوں کے پاس سے آئے ہیں وہ تیری پاکیزگی بیان کرنے میں مصروف تھے۔ تیری عظمت و کبریائی کا اقرار کر رہے تھے، تیری توحید بیان کر رہے تھے، تیری بزرگی اور تیری تعریف بیان کر رہے تھے اور تجھ سے سوال کر رہے تھے۔ اللہ پوچھتا ہے کہ وہ مجھ سے کس چیز کا سوال کر رہے تھے؟ وہ جواب دیتے ہیں وہ تجھ سے تیری جنت کا سوال کر رہے تھے۔ اللہ پوچھتا ہے، کیا انہوں نے میری جنت کو دیکھا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں، نہیں اے پروردگار ! اللہ فرماتا ہے کہ اگر وہ میری جنت کو دکھ لیتے تو ان کا کیا حال ہوتا۔ پھر فرشتے کہتے ہیں کہ وہ تیری پناہ طلب کر رہے تھے۔ اللہ پوچھتا ہے وہ کس چیز سے میری پناہ طلب کر رہے تھے ؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ وہ دوزخ سے تیری پناہ طلب کر رہے تھے۔ اللہ پوچھتا ہے کہ کیا انہوں نے میری دوزخ دیکھی ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں نہیں۔ اللہ فرماتے ہیں اگر وہ میری دوزخ دیکھ لیتے تو پھر ان کا کیا حال ہوتا۔ پھر فرشتے کہتے ہیں کہ وہ تجھ سے مغفرت طلب کر رہے تھے۔ تو اللہ فرماتا ہے میں نے انہیں بخش دیا، میں نے انہیں وہ چیز عطا کر دی جس کا انہوں نے سوال کیا اور میں نے انہیں اس چیز سے پناہ دے دی، جس سے انہوں نے پناہ مانگی ، تب فرشتے کہتے ہیں ان میں تو فلاں گناہگار شخص بھی تھا جو وہاں سے بس گزر رہا تھا کہ ان کے پاس بیٹھ گیا۔ اللہ فرماتا ہے، میں نے اسے بھی معاف کر دیا۔ (اس مجلس والے) ایسے لوگ ہیں کہ ان کے پاس بیٹھنے والا بھی بدقسمت نہیں ہے۔“
سوتے وقت سُبحَانَ اللهِ، اَلحَمدُ لِلہ، الله اکبر اور لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ پڑھنے کی فضیلت
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ ﴿٤٥﴾
(29-العنكبوت:45)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور یقینا اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔“
حدیث 29
وعن على رضى الله عنه قال: شكت إلى فاطمة مجل يديها من الطحين، فقلت: لو أتيت أباك فسألته خادما ، فقال: ألا أدلكما على ما هو خير لكما من الخادم؟ إذا أخذتما مضجعكما تقولان ثلاثا وثلاثين وثلاثا وثلاثين وأربعا وثلاثين من تحميد وتسبيح وتكبير
سنن الترمذى، كتاب الدعوات، رقم : 3408 ، صحیح بخاری ، کتاب فرض الخمس، رقم : 3112 ، :3112 ، صحیح مسلم، کتاب الذكر والدعاء، رقم : 2727 ۔
” اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے آٹا پیسنے کے سبب ہاتھوں میں آبلے پڑ جانے کی شکایت کی، میں نے ان سے کہا: کاش آپ اپنے ابو جان کے پاس جاتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے لیے ایک خادم مانگ لیتیں (وہ گئیں تو ) آپ کا تم نے (جواب میں ) ارشاد فرمایا: کیا میں تم دونوں کو ایسی چیز نہ بتادوں جو تم دونوں کے لیے خادم سے زیادہ بہتر اور آرام دہ ہو، جب تم دونوں اپنے بستروں پر سونے کے لیے جاؤ تو 33 ، 33 بار الْحَمْدُ لِلَّهِ اور سُبْحَانَ اللهِ اور 34 بار الله اكبر کہہ لیا کرو “
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر درود بھیجنے کی فضیلت
قَالَ اللهُ تَعَالَى: إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴿٥٦﴾
(33-الأحزاب:56)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر صلوۃ بھیجتے ہیں، اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اس پر صلوۃ بھیجو اور سلام بھیجو، خوب سلام بھیجنا۔“
حدیث 30
وعن أبى بن كعب ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا ذهب ثلثا الليل ،قام، فقال: يا أيها الناس اذكروا الله اذكروا الله، جاءت الراحفة ، تتبعها الرادفة، جاء الموت بما فيه، جاء الموت بما فيه ، قال أبي: قلت يا رسول الله! إني أكثر الصلاة عليك ، فكم أجعل لك من صلاتي؟ فقال: ما شئت، قال: قلت : الربع ، قال: ما شئت ، فإن زدت فهو خير لك ، قلت: : النصف ، قال: ما شئت، فإن زدت فهو خير لك، قال: قلت: فالقلتين، قال: ما شئت، فإن زدت فهو خير لك ، قلت: أجعل لك صلاتي كلها؟ قال: إذا تكفى همك ، ويغفر لك ذنبك
صحيح سنن ترمذى الجزء الثاني رقم : 1999 .
” اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب دو تہائی رات ختم ہو جاتی تو رسول الل صلی اللہ علیہ وسلم تم کھڑے ہو جاتے اور فرماتے ، اے لوگو! اللہ کا ذکر کرو، اللہ کا ذکر کرو، بھونچال طاری کر دینے والی (قیامت) آگئی، اس کے پیچھے ایک اور بھونچال طاری کر دینے والی (قیامت) آرہی ہے، موت اپنی ساری بے ہوشیوں کے ساتھ آرہی ہے، موت اپنی ساری بے ہوشیوں کے ساتھ آ رہی ہے۔ اُبی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ پر کثرت کے ساتھ درود بھیجتا ہوں تو میں آپ کے لیے کتنا درود بھیجوں؟ آپ نے فرمایا: جس قدر تو چاہے، میں نے عرض کیا، چوتھا حصہ ۔ آپ نے فرمایا: جس قدر تو چاہے۔ اگر زیادہ کرے تو تیرے لیے بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا: بعد نصف ، آپ نے فرمایا : جس قدر تو چاہے اگر نصف سے بھی زیادہ کرے تو تیرے لیے بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا: دو تہائی کے برابر ۔ آپ نے فرمایا: جس قدر تو چاہے اگر ( دو تہائی سے بھی ) زیادہ کرے تو تیرے لیے بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا: میں ساری دعا کا وقت درود شریف کے لیے وقف کرتا ہوں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ تیرے سارے دُکھوں اور غموں کے لیے کافی رہے گا، تیرے گناہوں کی بخشش کا باعث ہوگا۔“
شہداء کی فضیلت
قَالَ اللهُ تَعَالَى:وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ ﴿١٥٤﴾
(2-البقرة:154)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور ان لوگوں کو جو اللہ کے راستے میں قتل کیے جائیں، مت کہو کہ مردے ہیں، بلکہ زندہ ہیں اور لیکن تم نہیں سمجھتے۔“
حدیث 31
وعن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لما أصيب إخوانكم بأحد جعل الله أرواحهم فى جوف طير خضر ترد أنهار الجنة تأكل من ثمارها ، وتأدى إلى قناديل من ذهب معلقة فى ظل العرش ، فلما وجدوا طيب مأكلهم ومشربهم ومقيلهم قالوا: من يبلغ إخواننا عنا أنا أحياء فى الجنة نرزق ، لئلا يزهدوا فى الجهاد ولا ينكلوا عند الحرب؟ فقال الله تعالى: أنا أبلغهم عنكم ، قال : فأنزل الله ولا تحسبن الذين قتلوا فى سبيل الله امواتا إلى آخر الآية
الترغيب والترهيب كتاب الجهاد باب الترغيب فى الشهادة وما جاء في فضل الشهداء ، رقم : 1379 ، سنن ابو داؤد، کتاب الجهاد، باب في فضل الشهادة ، رقم: 2520، مستدرك حاكم 88/3۔ حاکم نے اسے صحیح اور محدث البانی نے اسے حسن کہا ہے۔
” اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا: اُحد کے روز جو تمہارے بھائی شہید ہو چکے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کی روحوں کو سبز پرندوں کے پیٹ میں رکھ دیا۔ یہ پرندے جنت کی نہروں سے سیراب ہوتے ہیں، جنت کے پھل کھاتے ہیں اور عرش الہی کے سائے میں لٹکی ہوئی سنہری قندیلوں میں آرام کرتے ہیں۔ انہوں نے جب اپنا اچھا کھانا پینا اور اچھی آرام گاہیں دیکھیں تو یہ آرزو کی کہ کون ہے جو ہماری طرف سے ہمارے بھائیوں کو یہ خبر کر دے کہ ہم زندہ ہیں اور جنت میں ہیں؟ تاکہ ہمارے بھائی جنت سے نا اُمید نہ ہو جائیں اور لڑائی میں بزدلی نہ دکھائیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی خواہش کو دیکھ کر فرمایا کہ میں تمہاری طرف سے یہ پیغام اُن کو پہنچا دیتا ہوں چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی۔ ”جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے ہیں انہیں مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں۔ “
حصول علم کے لیے نکلنے کی فضیلت
قَالَ اللهُ تَعَالَى: شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ ۚ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿١٨﴾
(3-آل عمران:18)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اللہ نے گواہی دی کہ بے شک حقیقت یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور علم والوں نے بھی، اس حال میں کہ وہ انصاف پر قائم ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔ “
حدیث 32
وعن أبى الدرداء ، قال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من سلك طريقا يلتمس فيه علما ، سهل الله له طريقا إلى الجنة ، وإن الملائكة لتضع أجنحتها رضا لطالب العلم ، وإن طالب العلم يستغفر له من فى السماء والأرض حتى الحيتان فى الماء
سنن ابن ماجه ، كتاب السنة، باب فضل العلماء والحث على طالب العلم، رقم : 223، سنن ترمذی، رقم : 2682 صحيح الترغيب، رقم : 70.
”اور حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو علم حاصل کرنے کے لیے کسی راستے پر چلا اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان بنا دیتے ہیں، اور بلاشبہ فرشتے طالب علم سے خوش ہو کر اپنے پر بچھا دیتے ہیں اور طالب علم کے لیے زمین وآسمان کی ہر چیز دعائے مغفرت کرتی ہے حتی کہ پانی میں مچھلیاں بھی ۔ “
عالم دین کی عابد پر فضیلت
قَالَ اللهُ تَعَالَى: يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ ﴿١١﴾
(58-المجادلة:11)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اللہ ان لوگوں کو درجوں میں بلند کرے گا جو تم میں سے ایمان لائے اور جنھیں علم دیا گیا اور اللہ اس سے جو تم کرتے ہو، پوری طرح باخبر ہے۔“
حدیث 33
وعن أبى أمامة الباهلي ، قال: ذكر لرسول الله صلى الله عليه وسلم رجلان: أحدهما عابد والآخر عالم ، فقال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : فضل العالم على العابد كفضلى على أدناكم، ثم قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : إن اللـه وملائكته ، وأهل السموات والأرضين ، حتى النملة فى جحرها، وحتى الحوت ليصلون على معلم الناس الخير
صحيح الترغيب، رقم : 81 ، سنن ترمذی ابواب العلم، رقم : 2685 .
”اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عالم کو عبادت گزار پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسے مجھے تم میں سے کسی عام آدمی پر فضیلت حاصل ہے ۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ، اس کے فرشتے اور زمین و آسمان کی مخلوقات حتی کہ چیونٹی اپنے بل میں اور مچھلیاں (پانی میں) لوگوں کو خیر و بھلائی کی تعلیم دینے والے کے لیے رحمت کی دعائیں کرتی ہیں۔ “
حسد سے اجتناب کی فضیلت
حدیث 34
وعن أنس بن مالك ، قال : سمعت رسول الله يقول لك ثلاث مرار: يطلع عليكم الآن رجل من أهل الجنة فطلعت أنت الثلاث مرار ، فأردت أن آوى إليك ، لأنظر ما عملك ، فأقتدى به ، فلم أرك تعمل كثير عمل، فما الذى بلغ بك ما قال رسول الله ؟ فقال: ما هو إلا ما رأيت قال: فلما وليت دعاني ، فقال: ما هو إلا ما رأيت ، غير أني لا أجد فى نفسى لأحد من المسلمين غشا، ولا أحسد أحدا على خير أعطاه الله إياه
مسند احمد (الموسوعة الحديثية)، رقم : 12697 ، مصنف عبدالرزاق: 20559 شعب الإيمان بيهقي ، رقم : 6605، مسند بزار، رقم : 1981۔ شیخ شعیب ارناؤوط نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری صحابی کے متعلق تین مرتبہ فرمایا کہ وہ جنتی ہے۔ جب حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ اس انصاری صحابی کا عمل یہ ہے کہ وہ کسی مسلمان کے لیے دل میں نفرت نہیں رکھتے اور کسی بھی آدمی سے اس نعمت پر حسد نہیں کرتے جو اللہ نے اسے عطا کی ہے۔“
غیبت سے اجتناب کی فضیلت
حدیث 35
وعن أبى الدرداء ، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: من رد عن عرض أخيه رد الله عن وجهه النار يوم القيامة
سنن الترمذى كتاب البر والصلة، باب ما جاء في الذب عن عرض المسلم: 1931، مسند احمد: 449/6۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے اپنے (مسلمان) بھائی کی غیر موجودگی میں اس کی عزت کا دفاع کیا اللہ تعالیٰ روز قیامت اس کے چہرے سے آگ ہٹالیں گے ۔ “
خیر کے کام میں کسی کی رہنمائی کرنے کی فضیلت
حدیث 36
وعن أبى مسعود الأنصاري، قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : من دل على خير فله مثل أجر فاعله
صحیح مسلم کتاب الامارة، باب فضل اعانة الغازي، رقم: 1893، سنن ابوداؤد، رقم : 5129.
”اور حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی کو خیر و بھلائی کا راستہ دکھایا تو اسے بھی بھلائی کا کام کرنے والے کے برابر ثواب ملے گا۔ “
کسی مسلمان کو خوشی دینے کی فضیلت
حدیث 37
وعن عمر بن الخطاب ، يقول: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : أفضل الأعمال أن تدخل على أخيك المؤمن سرورا، أو تقضي عنه دينا ، أو تطعمه خيرا
صحيح الترغيب والترهيب رقم : 954 ، السلسلة الصحيحة، رقم: 1494، معجم اوسط للطبرانی : 202/5،5081.
”اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کسی مسلمان کو خوشی دینا افضل ترین عمل ہے۔ (تو اس سلسلے میں ) تم اُس کا قرض ادا کر دو یا یا بھوکے کا پیٹ بھر دو۔ “
مسلمان بھائیوں کے کام آنے کی فضیلت
حدیث 38
وعن أبى هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من نفس عن مؤمن كربة من كرب الدنيا، نفس الله عنه كربة من كرب يوم القيامة ، ومن يسر على معسر ، يسر الله عليه فى الدنيا والآخرة، ومن ستر مسلما ستره الله فى الدنيا والآخرة، والله فى عون العبد ما كان العبد فى عون أخيه
صحيح مسلم، كتاب الذكر والدعاء، باب فضل الاجتماع على تلاوة القرآن، رقم 6853، سنن ابو داؤد، رقم : 4946، سنن ترمذی، رقم : 1425 ، 1930، 2945، سنن ابن ماجه رقم: 225 ۔
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے کسی مسلمان سے دنیوی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کی اللہ تعالیٰ اس سے روز قیامت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کر دیں گے اور جو کسی تنگ دست پر آسانی کرے اللہ تعالیٰ اس پر دنیا وآخرت میں آسانی فرمائیں گے اور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے تو اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت میں اس کی پردہ پوشی کریں گے اور اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد کرتے رہتے ہیں جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے۔“
بیوہ اور مسکین کے کام آنے کی فضیلت
حدیث 39
وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم : الساعي على الأرملة، والمسكين ، كالمجاهد فى سبيل الله ، أو القائم الليل الصائم النهار
صحيح البخارى، كتاب النفقات، باب فضل النفقة على الأهل، رقم : 5353.
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص بیواؤں اور مساکین کا خدمت گار ہے وہ مجاہد فی سبیل اللہ یا رات کو قیام کرنے اور دن کو روزہ رکھنے والے کی طرح ہے۔ “
پڑوسیوں سے حسن سلوک کی فضیلت
حدیث 40
وعن أبى هريرة، قال: قال رجل : يارسول الله! إن فلانة تذكر من كثرة صلاتها ، وصيامها، وصدقتها، غير أنها تؤذي خيرانها بلسانها ، قال: هي فى النار، قال: يارسول الله! فإن فلانة تذكر من قلة صيامها ، وصدقتها، وصلاتها ، وإنها تصدق بالأنوار من الأقط، ولا تؤذي بلسانها حيرانها . قال: هي فى الجنة
صحيح الترغيب ، رقم : 2560 ، مسند احمد (الموسوعة الحديثية)، رقم : 9675، صحيح ابن حبان، رقم : 5764 ، الادب المفرد، رقم : 119 ، مستدرك حاكم: 166/4، مسند بزار، رقم: 1902۔ شیخ شعیب ارناؤوط نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! فلاں عورت کثرت سے نماز ، روزہ اور صدقہ وخیرات کا اہتمام کرتی ہے لیکن زبان سے اپنے پڑوسی کو ایذا پہنچاتی ہے، آپ نے فرمایا: وہ جہنمی ہے۔ اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! فلاں عورت نماز، روزہ اور صدقہ وخیرات تو کم کرتی ہے ، بس پنیر کے چند ٹکڑے صدقہ کر دیتی ہے، مگر اپنے پڑوسی کو ایذاء نہیں پہنچاتی ۔ آپ نے ارشاد فرمایا: وہ جنتی ہے۔“
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين