فجر کی اذان میں اضافہ
فجر کی اذان میں مخصوص الفاظ کا اضافہ
سیدنا ابو محذورہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اذان کے کلمات سکھائے اور یہ ارشاد فرمایا:
’’فجر کی اذان میں
حَیَّ عَلَی الْفَلَاح
کے بعد دو مرتبہ یہ الفاظ کہو:
الصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ
یعنی نماز نیند سے بہتر ہے۔‘‘
(ابو داؤد، الاذان باب الاذان فی السفر: ۵۰۰۔ نسائی ۴۳۶۔ اسے ابن خزیمہ، ابن حبان اور نووی نے صحیح کہا۔)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’صبح کی اذان میں
حَیَّ عَلَی الْفَلَاح
کے بعد
الصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ
دو مرتبہ کہنا سنت ہے۔‘‘
(ابن خزیمہ حدیث ۶۸۳، السنن الکبریٰ للبیہقی ۱/۳۲۴، اسے ابن خزیمہ نے صحیح کہا۔)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان:
’’فجر کی پہلی اذان میں
الصلاۃ خیر من النوم
دو بار کہا جائے۔‘‘
(السنن الکبریٰ للبیہقی ۱/۳۲۴، اسے ابن حجر نے حسن کہا۔)
نوٹ:
الصَّلوٰۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ
کے الفاظ صرف اذان فجر میں کہنے چاہئیں، کسی اور اذان میں نہیں۔
اذان کی تعداد پر عمل کا تضاد
صحیح مسلم کی روایت میں اذان کے شروع میں
اللہ اکبر
دو بار ہے، جبکہ ابو داود کی روایت میں
اللہ اکبر
چار بار ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوہری اذان اور دوہری اقامت دونوں سکھائیں، لیکن افسوس ہے کہ بعض لوگ صرف اقامت میں دوہرائی کرتے ہیں اور اذان میں ہمیشہ یکسانی اختیار کرتے ہیں، حالانکہ دونوں طریقے سنت سے ثابت ہیں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک کوئی مسلمان تقلیدی فقہی پابندیوں سے آزاد نہیں ہوتا، وہ صحیح معنوں میں اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں کر سکتا۔
بہتر یہ ہے کہ مختلف ائمہ کے دلائل کا موازنہ کر کے رائے قائم کی جائے۔
اگرچہ عام طلبہ کے لیے یہ مشکل ہو سکتا ہے، مگر علماء کرام کا کام ہے کہ پورا حقائق بیان کریں، نہ کہ صرف ایک پہلو دکھائیں۔
بارش کے موقع پر اذان میں اضافہ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بارش کے دن اپنے مؤذن سے کہا:
’’(
حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ
) کی جگہ کہو:
اَلصَّلٰوۃُ فِی الرِّحَال
یا
صَلُّوْا فِیْ بُیُوْتِکمْ
یعنی ’اپنے گھروں میں نماز پڑھو‘۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح کیا اور فرمایا:
’’اگرچہ جمعہ فرض ہے، لیکن مجھے پسند نہیں کہ تم کیچڑ اور مٹی میں (مسجد کی طرف) چلو۔‘‘
(بخاری، الاذان، باب ھل یصلی الامام بمن حضر؟ ۸۶۶۔ مسلم، صلاۃ المسافرین، باب الصلوٰۃ فی الرحال فی المطر، ۹۹۶)
اذان کے دوران
الصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ
یا
الصَّلٰوۃُ فِی الرِّحَالِ
کہنا کوئی اضافہ نہیں بلکہ عہدِ نبوت کی سنت ہے، اس لیے ان کو اذان میں خودساختہ اضافہ کہنا درست نہیں۔
اذان کے شروع یا آخر میں خود ساختہ اضافہ کرنا
ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔
مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’میں سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا۔ ایک شخص نے ظہر یا عصر کی اذان میں کہا:
الصلاۃ خیر من النوم۔
تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
’مجھے یہاں سے لے چلو، بلاشبہ یہ بدعت ہے۔‘‘‘
(ابو داود، الصلاۃ، باب فی التثویب، ۸۳۵)
اذان کا جواب دینا
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب مؤذن
ﷲُ اَکْبَرُ
کہے، تم بھی یہی کہو۔
پھر جب وہ
اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا ﷲُ
کہے، تم بھی یہی کہو۔
جب وہ
اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ ﷲِ
کہے، تم بھی یہی کہو۔
جب وہ
حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ
کہے، تم کہو:
لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاﷲِ
جب وہ
حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ
کہے، تم یہی کہو۔
پھر جب وہ
ﷲُ اَکْبَرُ
کہے، تم بھی یہی کہو۔
جب وہ کہے:
لَا اِلٰہَ اِلَّا ﷲُ، تم بھی یہی کہو۔
جو شخص دل سے ان کلمات کا جواب دے گا، وہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔‘‘
(مسلم، الصلاۃ، باب استحباب القول مثل قول المؤذن لمن سمعہ، ۵۸۳)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
الصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ
کے جواب میں
صَدَقْتَ وَبَرَرْتَ
کہنا غیر ثابت ہے۔
درست جواب یہی ہے کہ ان الفاظ کو دہرایا جائے:
الصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ
اذان کے دوران یا بعد میں
اَقَامَہَا ﷲُ وَاَدَامَہَا
کہنا جس روایت میں آیا ہے، اسے امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہما اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔
(المجموع)
اذان کے بعد کی مسنون دعائیں
1. درود شریف پڑھنا
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تم مؤذن کی آواز سنو تو مؤذن کے کلمات کا جواب دو، اور اذان مکمل ہونے کے بعد مجھ پر درود بھیجو۔ جو ایک بار درود بھیجے، اللہ اس پر دس بار رحمت بھیجتا ہے۔‘‘
(مسلم، الصلاۃ، باب استحباب القول مثل قول الموذن، ۴۸۳)
اذان کے بعد یہ درود پڑھنا چاہیے:
اللّٰہُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاہِیْمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ،
اللّٰہُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی إِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاہِیْمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ
(بخاری: أحادیث الانبیاء: ۷۰۳۳، مسلم: الصلاۃ، باب الصلاۃ علی النبی، ۶۰۴)
2. ایمان کی تجدید پر مشتمل دعا
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
’’جو شخص مؤذن کی اذان سن کر یہ دعا پڑھ لے، اس کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں:
اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا ﷲُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ، رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبًّا، وَبِمُحَمَّدٍ رَسُوْلًا، وَبِالْاِسْلَامِ دِیْنًا
(مسلم، الصلاۃ، باب استحباب القول مثل قول الموذن۔۔۔ حدیث ۶۸۳)
3. شفاعت کی دعا
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
’’جو شخص اذان کا جواب دے کر یہ دعا پڑھے، اس کے لیے قیامت کے دن میری شفاعت واجب ہو جاتی ہے:
اللّٰہُمَّ رَبَّ ہٰذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ، وَالصَّلٰوۃِ الْقَاءِمَۃِ، آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ، وَابْعَثْہُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِیْ وَعَدْتَّہُ
(بخاری، الاذان، باب الدعاء عند النداء، ۴۱۶)
وسیلہ کی وضاحت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا:
’’وسیلہ جنت میں ایک درجہ ہے جو صرف ایک بندے کے لیے مخصوص ہے، اور میں امید رکھتا ہوں کہ وہ بندہ میں ہی ہوں۔
پس جس نے میرے لیے اللہ سے وسیلہ مانگا، اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو گئی۔‘‘
(مسلم، الصلاۃ، باب استحباب القول مثل قول الموذن، ۴۸۳)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وسیلہ جنت میں ایک بلند مقام کا نام ہے۔