فاحشہ عورت کی بنائی مسجد خرید کر وقف کرنے کا حکم
ماخوذ: قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل، جلد 02

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک فاحشہ عورت نے مسجد بنائی بعد ازاں کسی مسلمان نے اس مسجد کو جلال مسجد سے خرید کر فی سبیل اللہ وقف کر دیا تو اس مسجد میں نماز جائز ہے یا نہ، اور وہ مسجد حکم مسجد رکھتی ہے ۔ یا نہ؟

الجواب

بموجب حکم حدیث شریف کہ
’’تحقیق اللہ پاک ہے نہیں قبول کرتا مگر پاک کو اور دوسری حدیث کہ کھانا اس کا حرام ہے اور پینا اس کا حرام ہے اور لباس اُس کاحرام ہے اور پالا گیا ہے حرام سے پس کیوں کر قبول کی جاوے دعا اُس کی یہ دونوں حدیثیں مسلم میں ہیں، اور بموجب حدیث عبد اللہ بن عمر کے کہ جس نے خریدا کوئی کپڑا دس درہم کو اور ان میں ایک درہم حرام کا ہے تو جب تک وہ کپڑا اس پر رہے گا، اللہ تعالیٰ اس کی نماز قبول نہیں کرے گا پھر عبد اللہ بن عمر نے اپنے کانوں میں انگلیوں کو داخل کر کے کہا کہ اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حدیث فرماتے ہوئے نہ سنا ہو تو خدا کرے یہ دونوں کان بہرے ہی ہو جاویں۔ اس حد یث کو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے۔ ۱۲ اور بموجب حدیث کہ تحقیق اللہ تعالیٰ نہیں قبول کرتا ہے نماز اس شخص کی جو نیچے لٹکانے والا ہے تہبند اپنے کو ٹخنوں سے، اس کو ابو دائود نے روایت کیا ہے۔‘‘
بموجب ان احادیث مذکورہ بالا کے، فاحشہ کی مسجد میں نماز جائز نہیں ہے، کیوں کہ وہ مال ناپاک اور حرام ہے۔ اور لباس حرام سبب نہ قبول ہونے نماز کا ہے ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے اختیارات میں لکھا ہے کہ چھینے ہوئے اور ریشم کے کپڑے اور چھینے ہوئے مکان میں نماز نہیں ہوتی یہ جب ہے کہ فرض نماز ہو اور یہی امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کی دو روایتوں میں صحیح زیادہ تر ہے۔ اور اگر نفل نماز ہو تو آمدی نے کہا ہے کہ احمد کی ایک روایت صحیح نہیں ہے اور اگر کسی نے اُس مسجد کو حلال مال کے ساتھ خریدا تو بموجب آیۃ کریمہ نہ بدلو ناپاک کے ساتھ پاک کے، حرمت اس کی نہیں جائے گی۔ اور اس حدیث سے کہ ہلاک کرے اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ کو کہ تحقیق جب اللہ تعالیٰ نے ان پر چربیین حرام کیں تو انہوں نے ان کو پگھلا کر اور بیچ کر ان کی قیمت کھائی… ثابت ہوا کہ حرام چیزوں کی حرمت بیع و فروخت کے ساتھ رفع نہیں ہوتی پس حکم مسجد مذکور کا وہی ہے جو پہلے گذرا۔
لیکن امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک کنجری کا مہر حلال ہے، حسن چلپی نے ذخیرہ عقبیٰ میں لکھا ہے کہ زانیہ جو مال پہلے مقرر کر لیوے وہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس کے لیے حلال ہے اس لیے کہ بدلہ مثل کا حلال ہوتا ہے اگرچہ سبب حرام ہی ہو، اور صاحبین کے نزدیک (یہ مال) حرام ہے، اور اگر پہلے مقرر نہ کرے تو اتفاقاً حرام ہے، محیط میں بھی اسی طرح لکھا ہے اور حنفیوں کے نزدیک مال حرام بھی اگر خریدنے والا جائز طور پر خریدے پاک ہو جاتا ہے۔ قنیہ میں لکھا ہے اگر غالب گمان یہ ہے کہ بازار والوں کے اکثر سودے فساد سے خالی نہیں ہوتے تو اگر اکثر سودے حرام میں ہوں ان کو خریدنا نہ چاہیے، لیکن باوجود صورت حرام کے اگر ان کو خرید بھی لے، تو وہ مال اس کے لیے حلال ہو گا۔ جبکہ پچھلے خریدار کی بیع جائز طور پر ہوا انتہیٰ۔ لیکن میرے نزدیک ان کے پاس قرآن و حدیث سے کوئی دلیل نہیں ہے۔ خدا جانے یہ رخصت انہوں نے کہاں سے حاصل کی۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!