غنیۃ الطالبین، شیخ عبدالقادر جیلانی بن عبد اللہ بن جنکی دوست رحمہ اللہ (488-561ھ) کی تصنیف ہے۔
اس کی سند شیخ جیلانی رحمہ اللہ تک ”صحیح“ ہے، جیسا کہ :
➊ محدث عراق عمر بن علی بن عمر قزوینی رحمہ اللہ (683-750ھ) فرماتے ہیں :
وجميع مؤلفات الإمام العارف محيي الدين ابي محمد عبد القادر ابن أبى صالح بن عبد الله الجيلي، رحمه الله تعالىٰ، ككتاب (الغنية)، وغيره، مع جميع مروياته، أرويها عن أبى عبد الله محمد بن عبد الله بن عمر بن أبى القاسم، وأبي بكر بن أبى السعادات بن منصور الأنباري الخطيب، والقاضي سليمان بن حمزة بن أحمد المقدسي وغيرهم إجازة، عن أبى العباس أحمد بن يعقوب بن عبد الله المارستاني كذلك، عن الشيخ عبدالقادر الجيلي كذلك. ح، وبرواية الأول أيضا، عن نقيب النقباء متين الدين أبى القاسم هبة الله بن أحمد بن عبد القادر ابن المنصور بالله أمير المؤمنين، وغيره، إجازة أيضا، عن الشيخ عبدالقادر كذلك .
شیخ، امام عارف، محی الدین، ابومحمد، عبدالقادر بن ابوصالح بن عبد اللہ جیلی رحمہ اللہ کی تمام تصانیف، مثلا غنیۃ الطالبین وغیرہ اور ان کی تمام روایات میں درج ذیل سند سے بیان کرتا ہوں : میں اپنے اساتذہ ابوعبد اللہ محمد بن عبد اللہ بن عمر بن ابوالقاسم، ابوبکر بن ابوالسعادات بن منصور انباری خطیب، قاضی سلیمان بن حمزہ بن احمد مقدسی وغیرہ سے اجازتاً بیان کرتا ہوں۔ وہ سب ابوالعباس احمد بن یعقوب بن عبد اللہ مارستانی سے اسی طرح اجازتاً بیان کرتے ہیں اور وہ شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ سے اسی طرح۔ دوسری سند یوں ہے کہ میرے وہی تینوں اساتذہ امیر المؤمنین نقیب النقباء متین الدین، ابوالقاسم ہبۃ اللہ بن احمد بن عبدالقادر بن منصور باللہ وغیرہ سے اجازتاً روایت کرتے ہیں اور وہ شیخ عبدالقادر رحمہ اللہ سے اس طرح بیان کرتے ہیں۔ “ [مشيخة القزويني، ص : 535]
اب اس سند کے تمام راویوں کی توثیق ملاحظہ فرمائیں :
(ا) محدث عراق علی بن عمر قزوینی کے بارے میں :
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
الحافظ الكبير، محدث العراق، سراج الدين.
’’ آپ بہت بڑے حافظ اور عراق کے محدث تھے۔ آپ کا لقب سراج الدین تھا۔ “ [الدرر الكامنة فى أعيان المائة الثامنة : 211/4]
(ب) ابوعبداللہ محمد بن عبد اللہ بن عمر بن ابوالقاسم بغدادی (623-707ھ) کے بارے میں :
◈ خود قزوینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
الشيخ، العالم، رشيد الدين، المقري. [مشيخة القزويني : 294]
ان کے بارے میں :
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
الإمام، العالم، المحدث، الصادق، الخير، بقية السلف، رشيد الدين، أبو عبد الله بن أبى القاسم، البغدادي، المقري، المحدث، شيخ المستنصرية. [معجم الشيوخ الكبير : 204/2]
(ج) خطیب ابوبکر انباری (628-710ھ) کے بارے میں :
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
الإمام، نجم الدين . [العبر فى خبر من غبر : 26/4]
◈ حافظ صفدی رحمہ اللہ (696-764 ھ) ان کے بارے میں فرماتے ہیں :
الإمام، الفاضل، نجم الدين. [الوافي بالوفيات : 99/17]
(د) اپنے شیخ سلیمان بن حمزہ بن احمد بن عمر قاضی (628-715ھ) کے بارے میں :
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وكان كيسا، متواضعا، حسن الأخلاق، وافر الجلالة، ذا تعبد، وتهجد، وإيثار.
”وہ دانا، متواضع، خوش اخلاق، جلیل القدر، عابد، تہجد گزار اور ایثار والے تھے۔ “ [المعجم المختص بالمحدثين، ص : 105، معجم الشيوخ الكبير : 268/1]
◈ حافظ صفدی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
الشيخ، الإمام، المفتي المذهب، مسند الشام.
”وہ شیخ، امام، اپنے مذہب کے مفتی اور شام کے محدث تھے۔ “ [الوافي بالوفيات : 228/15]
◈ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (701-774 ھ) فرماتے ہیں :
القاضى، المسند، المعمر، الرحلة.
’’ وہ قاضی تھے اور بڑی عمر کے محدث تھے۔ انہوں نے طلب علم میں بہت زیادہ سفر کیے۔ “ [البداية والنهاية : 185/14، طبع دار إحياء التراث العربي]
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773-852 ھ) لکھتے ہیں :
مسند المصر، وكان جيد الإيراد لدروسه.
”مصر کے محدث تھے اور اپنے اسباق بخوبی پڑھاتے تھے۔ “ [الدرر الكامنة : 241/2، وفي نسخة : 285/2، الرقم : 1837]
(ھ) ابوالعباس احمد بن یعقوب بن عبد اللہ مارستانی (45 5۔ 639 ھ) کے بارے میں :
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
الشيخ، المسند، وكان صالحا، خيرا، معمرا، وسماعه صحيح، وكان رجلا صالحا.
”وہ شیخ اور محدث تھے۔ بڑی عمر کے نیک اور دین دار شخص تھے۔ ان کا سماع صحیح تھا اور وہ پرہیزگار آدمی تھے۔ “ [سير أعلام النبلاء : 77/23-78]
◈ حافظ ابن نقطہ (579-629 ھ) فرماتے ہیں :
سمعت منه، وسماعه صحيح، وكان رجلا صالحا.
”میں نے اس سے احادیث سنی ہیں۔ اس کا سماع صحیح ہے اور یہ نیک شخص تھا۔ “ [تاريخ الإسلام للذهبي : 285/14، بتحقيق بشار]
(ر) ابوالقاسم ہبۃ اللہ بن احمد بن عبد القادر بن منصور کے بارے میں :
◈ قزوینی رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں :
نقيب النقباء، متين الدين. [مشيخة القزويني، ص : 535]
یوں یہ ساری سند بالکل صحیح ہے اور اس سند سے غنیۃ الطالبین، شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ سے ثابت ہے۔ والحمد لله
➋ حافظ ذہبی رحمہ اللہ، احمد بن مطیع بن مطیع ابوالعباس باجسرائی (م : 621 ھ) کے بارے میں لکھتے ہیں :
صحب الشيخ عبد القادر، وقرأ عليه كتاب (الغنية) تصنيفه.
”وہ شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کے پاس رہے اور ان پر ان کی تصنیف غنیۃ الطالبین پڑھی۔ “ [تاريخ الإسلام : 662/13، بتحقيق بشار، 45/45، بتحقيق التدمري]
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ بھی غنیۃ الطالبین کو شیخ جیلانی رحمہ للہ ہی کی تصنیف سمجھتے تھے۔
➌ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661-728ھ) نے بھی غنیۃ الطالبین کو شیخ جیلانی رحمہ اللہ کی تصنیف قرار دیا ہے۔ [الفتاوي الحموية : 477، بيان تلبيس الجهمية : 214/1]
➍ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (701-774 ھ) لکھتے ہیں :
وقد صنف كتاب (الغنية)، و (فتوح الغيب) .
”شیخ جیلانی رحمہ اللہ نے غنیۃ الطالبین اور فتوح الغیب نامی کتابیں تصنیف کی ہیں۔ “ [البداية والنهاية : 313/12، طبع دار إحياء التراث]
➎ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ (736-795ھ) فرماتے ہیں :
وله كتاب (الغنية لطالبي طريق الحق)، وهو معروف.
”آپ کی کتاب الغنیۃ اطالبی طریق الحق معروف ہے۔ “ [ذيل طبقات الحنابلة : 198/2 – 199]
نیز فرماتے ہیں :
وللشيخ عبدالقادر رحمه الله تعالىٰ كلام حسن فى التوحيد، والصفات، والقدر، وفي علوم المعرفة موافق۔۔۔۔۔ للسنة………. وكان متمسكا فى مسائل الصفات، والقدر، ونحوهما بالسنة، بالغا فى الرد على من خالفها، قال فى كتابه (الغنية) المشهور : وهو بجهة العلو مستو على العرش، محتو على الملك محيط علمه بالأشياء : ﴿إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ﴾ [35-فاطر:10] ﴿يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ﴾ [32-السجدة:5] ، ولا يجوز وصفهٔ بانهٔ فى كل مكان، بل يقال : انهٔ فى السماء على العرش، كما قال : ﴿الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى﴾ [طه 20 : 5] ، و ذكر آيات و احاديث، إلى أن قال : وينبغي إطلاق صفة الاستواء من غير تأويل، وأنه استواء الذات على العرش، قال : وكونه على العرش مذكور فى كل كتاب انزل على كل نبي ارسل، بلا كيف، وذكر كلاما طويلا، وذكر نخو هذا فى سائر الصفات
شیخ عبدالقادرجیلانی رحمہ اللہ نے توحید، صفات باری تعالیٰ، قضاء وقدر اور علوم معرفت کے بارے میں سنت کے موافق گفتگو فرمائی ہے۔ آپ رحمہ اللہ صفات باری تعالیٰ اور تقدیر وغیرہ کے مسائل میں سنت کو لازم پکڑتے تھے اور مخالفین سنت کا سختی سے رد فرماتے تھے۔۔۔ آپ نے اپنی مشہور کتاب غنیۃ الطالبین میں فرمایا ہے : اللہ تعالیٰ آسانوں کے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے۔ وہ تمام کائنات پر حاوی ہے اور اس کا علم تمام اشیاء کو محیط ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے : ﴿إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ﴾ [35-فاطر:10] ، نیز فرمایا ﴿يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ﴾ [32-السجدة:5] اللہ تعالیٰ کے ہر جگہ ہونے کا عقیدہ رکھنا حرام ہے، عقیدہ یہ رکھا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ آسانوں کے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے، جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے : ﴿الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى﴾ [طه 20 : 5]
شیخ رحمہ اللہ نے اس مسئلہ پر اور بھی کئی آیات و احادیث ذکر کی ہیں۔ پھر آپ رحمہ اللہ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کی صفت استواء کو بغیر تاویل کے تسلیم کیا جائے گا۔ یہ عرش پر ذات باری تعالیٰ کا استواء ہے۔ شیخ جیلانی رحمہ اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا عرش پر ہونا ہر مرسل نبی پر نازل شدہ کتاب میں درج ہے۔ اس کی کوئی کیفیت بیان نہیں کی گئی۔ پھر شیخ نے لمبی بحث کی ہے۔ اسی طرح انہوں نے باقی صفات کے بارے میں بھی کتاب و سنت کے مطابق بات کی ہے۔۔۔۔ “ [ذيل طبقات الحنابلة : 199/2-200]
➏، ➐ علامہ ابن القیم (691-751ھ) [اجتماع الجيوش الإسلامية : 227/2] اور علامہ مرداوی (م : 885 ھ) [الإنصاف فى معرفة الراجح من الخلاف : 73/3] نے بھی غنیۃ الطالبین کو شیخ رحمہ اللہ کی تصنیف تسلیم کیا ہے۔
➑ ابن مفلح مقدسی (708-763 ھ) لکھتے ہیں :
وقال الشيخ عبدالقادر فى الغنية.
”شیخ عبدالقادر رحمہ اللہ نے غنیۃ الطالبین میں فرمایا ہے۔ “ [الآداب الشرعية : 107/1]
➒ حافظ سیوطی کے استاذ سفیری (877-956ھ) کہتے ہیں :
وقد قال العارف بالله الرباني، سيدي عبدالقادر الكيلاني فى كتابه( الغنية) .
”عارف باللہ ربانی، سیدی عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب غنیۃ الطالبین میں فرمایا ہے۔ “ [شرح البخاري : 100/2]
➓ محمد بن یوسف صالحی شامی (م : 942 ھ) لکھتے ہیں :
وقال الشيخ عبد القادر الكيلاني رحمه الله تعالى، ونفع به، فى كتاب (الغنية) .
”شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب غنیۃ الطالبین میں فرمایا ہے۔ “ [سبل الهدى والرشاد فى سيرة خير العباد : 282/7]
⓫ علامہ ابن عماد (م : 1089ھ) لکھتے ہیں :
والشيخ عبد القادر الجيلي الزاهد، صاحب (الغنية) .
”شيخ عبد القادرجيلاني رحمه الله جنہوں نے غنیۃ الطالبین کتاب تصنیف کی ہے۔“ [شذرات الذهب : 45/6]
⓬ ابن حجر مکی (م : 974ھ) نے بھی غنیۃ الطالبین کو شیخ جیلانی رحمہ اللہ کی تصنیف قرار دیا ہے۔ [الفتاوي الحديثية : 145]
⓭ ملا علی قاری حنفی ماتریدی (م : 1014 ھ) لکھتے ہیں :
ووقع فى (الغنية) للقطب الرباني السيد عبد القادر الجيلاني أنه لما ذكر الفرق الضالة، قال : وأما الحنفية، ففرقة من المرجئة، وهم أصحاب أبى حنيفة نعمان بن ثابت
”قطب ربانی سید عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب غنیۃ الطالبین میں گمراہ فرقوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ احناف جو کہ ابوحنیفہ نعمان من ثابت کے اصحاب ہیں، وہ (گمراہ فرقے)] مرجیہ کا ایک گروہ ہیں۔“ [شرح مسند أبى حنيفة : 454، مرقاة المفاتيح فى شرح مشكاة المصابيح : 1501/4، ح : 2199]
اس کتاب کے کچھ اور نام بھی مذکور ہیں، جیسا کہ علامہ یوسف بن حسن بن احمد بن عبدالہادی دمشقی صالحی (م : 909ھ) [معجم الکتب : 91] ، علامہ چلپی (م : 1067 ھ) [کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون : 1211/2] ، علامہ زرکلی (م : 1396ھ) [الأعلام : 47/4] اور علامہ ابن رجب [ذیل طبقات الحنابلة : 198/2-199] نے اسے شیخ جیلانی رحمہ اللہ کی کتابوں میں ذکر کرتے ہوئے اس کا نام ”الغنیۃ لطالبی طریق الحق“ یا ”الغنیۃ لطالب طریق الحق“ ذکر کیا ہے۔ بعض اہل علم نے حافظ سخاوی رحمہ اللہ (831-902 ھ) کی کتب میں ”البغیۃ فی تخریج احادیث الغنیۃ“ کو بھی ذکر کیا ہے۔
ہم انہی حوالوں پر اکتفا کرتے ہیں۔ سمجھ دار اور منصف مزاج شخص کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ غنیۃ الطالبین، شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے۔ بعض لوگوں کی طرف سے اس کا انکار کوئی معنی نہیں رکھتا۔
ہمارے علم کے مطابق دنیا میں سب سے پہلے مشہور صوفی عبدالحق بن سیف الدین دہلوی (م : 1052ھ) نے اس کتاب کے شیخ جیلانی رحمہ اللہ کی تصنیف ہونے کا انکار کیا۔ اس کے رد میں علامہ عبدالحئی لکھنوی حنفی (1264-1304ھ) نے لکھا :
اما أولا، فلان نسبتها إليه مذكورة فى كتب ابن حجر وغيره، من الأكابر، فإنكار كونها من تصانيفها غير مقبول عند الأواخر .
”یہ دعویٰ کئی وجہ سے مردود ہے، سب سے پہلے تو اس وجہ سے کہ شیخ جیلانی رحمہ اللہ کی طرف غنیۃ الطالبین کی نسبت حافظ ابن حجر رحمہ اللہ وغیرہ جیسے اکابر اہل علم کی کتب میں مذکور ہے، لہٰذا متاخرین کی طرف سے اس کا انکار قابل التفات نہیں۔۔۔“ [الرفع والتكميل فى الجرح والتعديل، ص : 380]
جناب احمد رضا خان بریلوی (1856-1921ء) لکھتے ہیں :
”محدث دہلوی کا تو خیال ہے کہ عبدالقادر جیلانی کی تصنیف ہی نہیں مگر یہ نفی مجرد ہے۔“ [فتاوي رضويه : 222/29]
جناب احمد یار خان بدایونی بریلوی (1906-1971ء) لکھتے ہیں :
”حضور غوث پاک غنیۃ الطالبین جلد دوم، ص : 48 میں فرماتے ہیں۔۔۔“ [تفسير نعيمي، پاره سوم، ص 617، تخت آيت آل عران 55 ]