غلے کی اسی کی جنس کے بدلے اضافے کے ساتھ خرید و فروخت کا حکم
سوال: ہمارے علاقوں میں غلہ پیدا ہوتا ہے اور نقدی کے کم ہونے کے باعث ہمارے ہاں کرنسی بھی غلہ ہی ہوتا ہے، جب بونے کا وقت آتا ہے، ہم تاجروں سے ایک ریال کے بدلے ایک صاع خریدتے ہیں، جب کٹائی کا وقت آتا ہے اور دانے صاف کیے جاتے ہیں، ہم تاجروں کو مثال کے طور پر ہر ریال کے بدلے دو صاع دیتے ہیں کیونکہ کٹائی کے وقت ریٹ بویائی کے وقت کے ریٹ سے کم ہوتا ہے۔ کیا یہ معاملہ جائز ہے؟
جواب: اس معاملے میں علما کے ہاں اختلاف ہے اور اکثریت اس کے عدم جواز کی قائل ہے کیونکہ یہ گندم وغیرہ کی اسی کی جنس کے بدلے زائد اور ادھار بیع کا وسیلہ ہے، اور یہ دو اطراف سے بالکل سود ہے، اضافے کی طرف سے، اور مہارت کی طرف سے، جبکہ اہل علم کی ایک جماعت اس وقت اس کے جواز کی قائل ہے، جب بائع اور مشتری نے کرنسی کے بدلے گندم دینے پر اتفاق کیا ہو، نہ عقد کے وقت اس کی شرط ہی لگائی ہو۔
یہ تو تھی اس مسئلے میں اہل علم کی گفتگو، جبکہ آپ کے اس معاملے میں تھوڑے دانوں کے بدلے زیادہ دانے دینے پر اتفاق ظاہر ہوتا ہے کیونکہ کرنسی تھوڑی ہے اور یہ جائز نہیں۔
اس جیسی حالت میں کسان کا فرض بنتا ہے کہ وہ دانے کسی دوسرے تاجر کو بیچیں، اس کو نہ بیچیں جس سے بویائی کے وقت دانے خریدے تھے، پھر ان کا حق نقدی سے ادا کریں، یہی ایک ایسی راہ ہے جو سلامتی، احتیاط اور سود سے دوری کی راہ ہے، اگر کسان اور تاجر کے درمیان بیع نقدی ہی پر طے ہو، لیکن پھر کسان سابقہ کسی اتفاق اور شرط کے بغیر دانوں سے ادا کر دے تو اس کا صحیح ہونا ہی قرین قیاس ہے، جس طرح علما کی ایک جماعت کا یہ قول ہے، خصوصاً جب کسان فقیر ہو اور تاجر کو خدشہ ہو کہ اگر اس نے قیمت کے بدلے دانے نہ لیے تو اس کا حق مر جائے گا اور اسے کچھ بھی نہیں مل سکے گا، کیونکہ کسان کسی دوسرے کو دے دے گا اور اس کو چھوڑ دے گا یا وہ دانے کسی دوسری ضرورت میں صرف کر دے گا، اکثر غریب کسانوں سے ایسے ہو جاتا ہے اور تاجر کا حق ضائع ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر تاجر اور کسان دونوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہو کہ کٹائی کے بعد نقدی کے بدلے دانے ہی دینے ہیں، تو پہلی بیع اس مذکور اتفاق کی بنا پر صحیح نہیں، اور تاجر صرف اتنے ہی دانے لے سکتا ہے، جتنے اس نے کسان کو دیے تھے کیونکہ زیادہ دانے دینے پر اتفاق کر لینے کی وجہ سے یہ بیع صحیح نہیں، لہٰذا اسے قرض کے قائم مقام بنا لیا جائے اور زیادہ دانے نہ لیے جائیں۔
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 252/19]