غسل کی حاجت والے شخص کا قرآن پڑھانے سے متعلق حدیث کی تحقیق
ماخوذ: فتاوی علمیہ، جلد 1، كتاب العقائد، صفحہ 199

سوال:

کیا یہ حدیث صحیح ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تک غسل کی حاجت والے نہ ہوتے، ہمیں قرآن پڑھاتے تھے”؟

الجواب:

الحمدللہ، والصلاة والسلام علی رسول اللہ، أما بعد!

 حدیث کی سند

یہ حدیث
ابوداود (حدیث: 229)،
نسائی (حدیث: 267)،
ابن ماجہ (حدیث: 594)
نے شعبہ سے اور
ترمذی (حدیث: 146)
نے اعمش اور محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے، ان تینوں نے عمرو بن مرہ عن عبداللہ بن سلمہ عن علی رضی اللہ عنہ کی سند سے بیان کی ہے۔

 حدیث کے بارے میں محدثین کی آراء

● امام ترمذی نے اسے "حسن صحیح” قرار دیا۔
ابن خزیمہ (حدیث: 208)،
ابن حبان (المورد: 192، 193)،
ابن الجارود (حدیث: 94)،
حاکم (4/107) اور
ذہبی نے بھی صحیح کہا ہے۔
● حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"والحق أنه من قبيل الحسن يصلح للحجة”

(فتح الباری، ج1، ص 408، حدیث 305)
"حق بات یہ ہے کہ یہ حدیث حسن کے درجے میں ہے اور حجت کے قابل ہے”۔

 حدیث پر اعتراضات اور جوابات

اعتراض 1: عبداللہ بن سلمہ کا تفرد

● بعض لوگوں نے اس حدیث کو عبداللہ بن سلمہ کے تفرد کی وجہ سے ضعیف کہا ہے۔
● لیکن یعقوب بن شیبہ، العجلی، ابن عدی اور دیگر جمہور محدثین نے عبداللہ بن سلمہ کو ثقہ اور صدوق قرار دیا ہے۔
● لہٰذا ابو حاتم اور الحاکم الکبیر کی جرح مردود ہے۔

اعتراض 2: عبداللہ بن سلمہ کا اختلاط

● عبداللہ بن سلمہ اختلاط کا شکار ہوئے تھے، لیکن اس روایت کے راوی عمرو بن مرہ ہیں جو ثقہ اور ثبت ہیں، اور انہوں نے یہ روایت اختلاط سے پہلے ہی سنی تھی۔
● اس پر محدثین کا حدیث کو صحیح یا حسن کہنا بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ روایت اختلاط سے پہلے کی ہے۔

اعتراض 3: شعبہ کا قول کہ عبداللہ بن سلمہ نے یہ حدیث بڑھاپے میں بیان کی

ابن عدی نے الکامل میں لکھا ہے کہ شعبہ رحمہ اللہ نے کہا:
"عبداللہ بن سلمہ نے یہ حدیث بوڑھا ہونے کے بعد بیان کی”
(الکامل لابن عدی، 4/1487)
● لیکن یہ قول بے سند ہے اور اگر احمد بن حنبل رحمہ اللہ عن سفیان بن عیینہ کی سند سے منسوب کیا جائے، تو اس میں تصریح سماع درکار ہوگی۔
● مزید یہ کہ شعبہ سے اس کے برعکس بھی منقول ہے، جیسے کہ
ابن خزیمہ (1/104) میں صحیح سند سے نقل ہوا ہے کہ شعبہ نے کہا:
"یہ حدیث میرے سرمائے کا ایک تہائی حصہ ہے”۔
دارقطنی (حدیث: 423) نے بھی حسن سند کے ساتھ شعبہ سے نقل کیا:
"میں اس حدیث سے بہتر کوئی حدیث بیان نہیں کرتا”۔

 علی رضی اللہ عنہ سے موقوف روایت

دارقطنی (1/118، حدیث: 419) اور
السنن الکبریٰ للبیہقی (1/89)
میں ابوالغریف عن علی کی موقوف روایت موجود ہے:
"جنبی شخص قرآن سے ایک حرف بھی نہ پڑھے”۔
● دارقطنی رحمہ اللہ نے فرمایا:
"یہ علی رضی اللہ عنہ سے صحیح مروی ہے”۔
● ابوالغریف عبیداللہ بن خلیفہ الہمدانی کو ابن حبان اور دارقطنی نے موثق قرار دیا ہے، لہٰذا یہ موقوف اثر بھی اس حدیث کی تائید کرتا ہے۔

 خلاصہ

◄ عبداللہ بن سلمہ کی روایت "حسن لذاتہ” ہے۔
◄ ابوالغریف اور دیگر شواہد کی بنا پر یہ حدیث "صحیح لغیرہ” کے درجے میں آ جاتی ہے۔
◄ لہٰذا، یہ حدیث قابل قبول اور حجت کے لائق ہے۔

 تنبیہ

● راقم الحروف کی صرف وہ کتاب معتبر ہے جس کے آخر میں میرے دستخط ہیں یا
مکتبۃ الحدیث حضرو / مکتبہ اسلامیہ لاہور، فیصل آباد سے شائع شدہ ہو۔
(شہادت، مئی 2003ء)
واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1