غامدی صاحب کے نظریات پر جہاد کا تنقیدی جائزہ

غامدی صاحب کے نظریات پر تنقید: جہاد کی شرائط

جہاد کے اعلان کے لیے حکومت کی شرط

غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ کسی بھی علاقے میں جہاد کا اعلان صرف ایک مسلم حکومت ہی کر سکتی ہے۔ تاہم، تاریخی اور عملی طور پر یہ موقف مختلف وجوہات کی بنا پر ناقابلِ عمل اور غیر معقول نظر آتا ہے:

  • مسلمان حکومت کی غیر موجودگی: اگر کسی مسلم آبادی پر غیر مسلم طاقتیں قابض ہو جائیں اور وہاں مسلمان حکومت ختم ہو جائے تو غامدی صاحب کے مطابق، پہلے ایک حکومت قائم کی جائے، اور پھر جہاد کا اعلان کیا جائے۔ لیکن یہ ایک ناقابلِ عمل شرط ہے کیونکہ حکومت کے قیام کے لیے جدوجہد ہی ایک طرح کا جہاد ہوتا ہے۔
    • مثال: فلسطینی عوام کی مسلح جدوجہد نے مذاکرات کے ذریعے ایک کمزور حکومت قائم کی۔ اگر یہ جدوجہد نہ ہوتی تو حکومت کا قیام ممکن نہ تھا۔
  • برصغیر کی تحریکِ آزادی: انگریزی استعمار کے خلاف حضرت شاہ عبد العزیز دہلویؒ نے جہاد کا فتویٰ دیا، جو کسی حکومت کے اعلان پر مبنی نہیں تھا۔ اگر غامدی صاحب کے اصول پر عمل کیا جاتا تو وہ جہاد غیر شرعی قرار پاتا۔
  • افغانستان کا جہاد: روسی تسلط کے خلاف افغان علماء نے حکومت کے بغیر ہی جہاد کا اعلان کیا اور کامیاب ہوئے۔ غامدی صاحب کے اصول کے مطابق، یہ سب غیر شرعی ہوتا۔
  • الجزائر کی آزادی: الشیخ عبد الحمید بن بادیسؒ نے فرانسیسی استعمار کے خلاف جہاد کا اعلان کیا۔ اگر غامدی صاحب کے اصول کو مانا جاتا، تو یہ جہاد بھی غیر شرعی قرار پاتا۔

طاقت کے توازن کی شرط

غامدی صاحب کے نظریے کے مطابق، مجاہدین اور دشمن کے مابین طاقت کا توازن ہونا ضروری ہے۔ لیکن اس شرط کو بھی اسلامی تعلیمات اور تاریخ کے تناظر میں غیر معقول قرار دیا جا سکتا ہے:

  • سورۃ الانفال:
    وَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُواْ مِائَتَيْنِ…
    "اور اگر تم میں سے سو صبر کرنے والے ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے…”
    (الانفال 8:66)

    • غامدی صاحب اس آیت کو طاقت کے توازن کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ تاہم، علمائے امت نے وضاحت کی ہے کہ یہ حکم "جہادِ طلب” سے متعلق ہے، نہ کہ "جہادِ دفع” سے۔
  • جہادِ دفع: جب کفار مسلمانوں پر حملہ کریں، تو طاقت کے توازن کی شرط ختم ہو جاتی ہے۔ امام ابن قیمؒ کے مطابق، ایسے حالات میں جہاد ہر مسلمان پر فرضِ عین ہو جاتا ہے، خواہ طاقت کا توازن مسلمانوں کے حق میں نہ بھی ہو۔
  • غزوہ احد اور خندق: ان جنگوں میں مسلمان تعداد اور اسلحے میں کفار سے کمزور تھے، لیکن پھر بھی ان پر جہاد واجب تھا۔

مکی دور میں دفاع اور بدلے کا حق

غامدی صاحب کے نظریے کو مکی دور کی مثال سے بھی چیلنج کیا جا سکتا ہے:

  • دفاع کا حق: مکی دور میں مسلمانوں کو جنگ کی اجازت نہ ہونے کے باوجود دفاع اور بدلے کا حق دیا گیا تھا:
    وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُواْ بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِ…
    "اور اگر تم بدلہ لو تو اسی کے برابر بدلہ لو جس قدر تمہیں تکلیف دی گئی ہو…”
    (النحل 16:126)
  • اجتماعی دفاع: سورۃ الشوری میں مسلمانوں کو ظلم کے خلاف اجتماعی دفاع کی اجازت دی گئی تھی:
    وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنتَصِرُونَ…
    "اور وہ لوگ کہ جب ان پر ظلم کیا جاتا ہے تو وہ بدلہ لیتے ہیں…”
    (الشوریٰ 42:39)
  • ریاست کی عدم موجودگی: مکہ میں مسلمانوں کی تعداد کم تھی اور کوئی حکومت موجود نہیں تھی، لیکن انہیں ظلم کے خلاف جدوجہد کی اجازت دی گئی۔

اسلامی قانون اور ریاست کا تصور

  • ریاست یا حکومت؟ اسلامی قانون "ریاست” کے تصور کو نہیں جانتا بلکہ "امام” یا "حکمران” کو اہمیت دیتا ہے۔ غامدی صاحب کی طرف سے جدید ریاست کے تصور کو اسلامی قانون پر لاگو کرنا الجھن پیدا کرتا ہے۔

نتیجہ

غامدی صاحب کا نظریہ کہ جہاد کے لیے حکومت اور طاقت کے توازن جیسی شرائط ضروری ہیں، اسلامی تعلیمات، تاریخ اور عملی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔

  • یہ شرائط نہ صرف غیر معقول ہیں بلکہ عملی طور پر جہاد کو ناممکن بنا دیتی ہیں۔
  • ماضی کی مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ جہاد کا اعلان حکومت کے بغیر بھی ہو سکتا ہے اور طاقت کے توازن کی شرط ہر وقت لاگو نہیں ہوتی۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1