عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی اور قرب قیامت انکا دنیا میں نزول

 

حیات سیدنا مسیح علیہ السلام

مسیح ہدایت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو جسد عنصری کے ساتھ آسمان کی طرف اٹھائے جانے اور قیامت کے قریب ان کے زمین پر نزول فرما ہونے کی تحقیق و تفصیل۔

امت مسلمہ کا مسلمه عقیده

امت مسلمہ کے بنیادی عقائد میں سے ایک مسلمہ عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سید نا عیسیٰ علیہ السلام کو جسد عنصری کے ساتھ زندہ حالت میں آسمانوں کی طرف اٹھالیا تھا۔ وہ چوتھے آسمان پر اس حالت و کیفیت میں موجود ہیں۔ قیامت سے پہلے جب اللہ تعالٰی کو منظور ہو گا آپ زمین پر ایک عادل حاکم کی حیثیت سے نازل ہوں گے۔

پس منظر

سید نا عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان کی طرف اٹھائے جانے کی وجہ معلوم کرنے کے لیے ہمیں بالا ختصار ان کی زندگی کا جائزہ لینا ہو گا۔ تا کہ ساری بات خوب ذہن نشین ہو سکے۔

مختصر احوال

سید نا عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالی کے جلیل القدر اور اولوالعزم رسولوں میں سے ہیں۔ جس طرح ہمارے رسول محمد ﷺ پوری انسانیت کیلئے خاتم النبین ہیں اسی طرح سید نا عیسیٰ علیہ السلام انبیائے بنی اسرائیل کے خاتم النبیین یعنی آخری نبی ہیں۔

خصوصیت

آپ کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے اپنی قدرت کاملہ سے معجزانہ طور پر آپ کو والد کے بغیر صرف بطن مادر سے پیدا فرمایا۔

حليه مباركه

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ معراج کے موقعہ پر میری عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ ان کا قد در میانہ اور رنگت سرخ و سفید تھی۔ بدن اس قدر صاف اور اجلا تھا معلوم ہوتا تھا کہ ابھی نہا کر فارغ ہوئے ہیں۔ آپ کی زلفیں کندھوں تک دراز تھیں۔

د ین کی تبلیغ و اشاعت میں انہماک

آپ نے نہ شادی کی اور نہ بود وماند کے لیے گھر بنایا۔ قریہ قریہ، گاؤں گاؤں گھومتے پھرتے، اللہ کا دین پھیلاتے اور دین حق کی دعوت و تبلیغ کا فریضہ سر انجام دیتے۔ جہاں رات ہو جاتی وہیں کسی سامان راحت کے بغیر شب بسر کر لیتے۔
چونکہ ذات اقدس سے اللہ کی مخلوق کی جسمانی و روحانی شفا یابی ہوتی تھی۔ اس لیئے آپ جدھر جاتے لوگوں کا انبوہ عقیدت سے جمع ہو جاتا اور وہ والہانہ محبت کے ساتھ ان پر نار ہونے کو تیار رہتا۔

یہود کی عداوت اور سازش

بہبود کو اس دعوت حق کے ساتھ جو عناد تھا اس نے آپ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو انتہائی حسد اور سخت خطرے کی نگاہ سے دیکھا۔
جب ان کے مسخ شدہ قلوب کسی بھی طرح اسے برداشت نہ کر سکے تو ان کے سرداروں اور مذ ہبی پیشوائوں نے ان کے خلاف سازشیں شروع کر دیں۔ طے پایا کہ ان کے خلاف جیسے بھی ممکن ہو کامیابی حاصل کی جائے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ بادشاہ وقت کو ان کے خلاف مشتعل کر کے ان کو تختہ دار پر لٹکا دیا جائے۔
چنانچہ انہوں نے بادشاہ کے حضور شکایت کی کہ عالی جاہ!
یہ شخص نہ صرف ہمارے مذہب کے لیے بلکہ آپ کی حکومت و اقتدار کے لئے بھی خطرے کا نشان ہے۔ انہوں نے بہت سی باتیں بنا کر بادشاہ کو آمادہ کر لیا کہ مسیح علیہ السلام کو گرفتار کر کے شاہی دربار میں مجرم کی حیثیت سے پیش کیا جائے۔
اب وہ کسی ایسے مناسب موقع کی تاک میں رہنے لگے کہ ان کو کسی خلوت و تنہائی کے ایسے موقع پر گرفتار کیا جائے کہ عام لوگوں میں ہیجاں پیدا نہ ہو ۔ ادھر سید نا عیسیٰ علیہ السلام کو یہود کی مخالفت اور ریشہ دوانیوں کا احساس ہوا اور انہیں یقین ہو گیا کہ اب بنی اسرائیل کے کفر و عناد اور مخالفت کی سر گرمیاں اس حد تک بڑھ گئی ہیں کہ وہ میرے قتل کے درپے ہیں۔ تو انہوں نے اپنے حواریوں کو ایک مکان میں جمع کیا اور ساری صورت حال ان کے سامنے رکھی اور ان کو بتلایا کہ امتحان کی گھڑی سر پر ہے۔ کڑی آزمائش کا وقت ہے ۔ حق کو مٹانے کی سازشیں عروج پر ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اب میں تمہارے درمیان زیادہ عرصہ نہیں رہ سکوں گا۔
اس لئے میرے بعد دین حق پر استقامت، اس کی نشر و اشاعت اور نصرت کی ذمہ داری تم لوگوں کے ساتھ وابستہ ہونے والی ہے۔ بتلاؤ کہ اللہ کی راہ میں تم میں سے کون کون وفادار مددگار ہے۔ سب حواریوں نے ایمانی جوش و صداقت سے جواب دیا کہ ہم سب اللہ کے دین کے وفادار و مددگار ہیں۔ ہم دل کی گہرائیوں سے اللہ تعالی پر ایمان لائے اور اپنی ایمانی صداقت پر آپ کو گواہ ٹھہراتے ہیں اور یہ کہنے کے بعد اپنی بات کو یہیں ختم نہیں کر دیا بلکہ اللہ تعالی سے بھی دعا کی کہ یا اللہ ! ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں تو ہمیں اس پر استقامت عطا فرما، اور ہمیں اپنے دین کے مددگاروں میں شامل کرلے۔ انہی حالات کی طرف قرآن مجید کی درج ذیل آیات میں اشارہ کیا گیا ہے:
فَلَمَّآ أَحَسَّ عِيسَىٰ مِنْهُمُ ٱلْكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنصَارِىٓ إِلَى ٱللَّهِ قَالَ ٱلْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ ٱللَّهِ ءَامَنَّا بِٱللَّهِ وَٱشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ (52) رَبَّنَآ ءَامَنَّا بِمَآ أَنزَلْتَ وَٱتَّبَعْنَا ٱلرَّسُولَ فَٱكْتُبْنَا مَعَ ٱلشَّٰهِدِينَ (53)(آل عمران)
جب عیسیٰ علیہ السلام نے محسوس کیا کہ بنی اسرائیل کفر و انکار پر آمادہ ہیں تو انہوں نے کہا اللہ کی راہ میں کون میرا مددگار ہو گا ؟ حواریوں نے جواب دیا کہ ہم ہیں اللہ کے دین کے مددگار۔ ہم اللہ پر ایمان لائے۔ آپ گواہ رہیں کہ ہم اللہ کے آگے سر جھکانے والے ہیں اے ہمارے رب! تو نے جو فرمان نازل کیا ہم نے اسے مان لیا اور رسول کی پیروی کی۔ تو ہمارے نام گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔
نیزار شاد ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنصَارَ اللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللَّهِ ۖ فَآمَنَت طَّائِفَةٌ مِّن بَنِي إِسْرَائِيلَ وَكَفَرَت طَّائِفَةٌ ۖ فَأَيَّدْنَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَىٰ عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُوا ظَاهِرِينَآ (14) (الصف)
ترجمہ: ایمان والو! اللہ کے دین کے مددگار بن جاؤ جس طرح عیسیٰ بن مریم نے اپنے حواریوں سے کہا تھا: کون ہے اللہ کی طرف بلانے میں میرا مددگار ؟ حواریوں نے جواب دیا تھا ہم ہیں اللہ کے دین کے مددگار بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان نے آیا اور دوسرے گروہ نے انکار کر دیا تھا۔ پھر ہم نے ایمان لانے والوں کی ان کے دشمن کے مقابلے میں مدد کی اور وہی غالب رہے۔
اللہ تعالی نے واضح کیا کہ جب یہ لوگ اپنی خفیہ تدبیروں میں سرگرم عمل تھے تب ہم نے بھی اپنی قدرت کا ملہ سے فیصلہ کر لیا کہ عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق ان مخالفین کی کوئی تدبیر کامیاب نہ ہونے دی جائے گی۔
جیسا کہ ارشاد ہے:
وَمَكَرُوا۟ وَمَكَرَ ٱللَّهُ وَٱللَّهُ خَيْرُ ٱلْمَٰكِرِينَ (54) (آل عمران)
اور بنی اسرائیل نے عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف خفیہ تدبیریں کیں۔ ان کے بالمقابل اللہ تعالیٰ نے بھنی اپنی خفیہ تدبیر کی اور ایسی تدبیروں میں اللہ سب سے بڑھ کر ہے۔
آخربنی اسرائیل کے کاہنوں اور سرداروں نے عیسیٰ علیہ السلام کا ایک بند مکان میں محاصرہ کر لیا۔ اس موقع پر اللہ تعالٰی نے عیسیٰ علیہ السلام کو بشارت دی کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں میں آپ کو پوری طرح اپنی حفاظت میں لے لوں گا۔ اور آپ پوری عمر پائیں گے اور یہ لوگ آپ کو قتل نہیں کر سکیں گے اور میں آپ کو کافروں (بنی اسرائیل) کے شر سے محفوظ رکھوں گا اور آپ کی پیروی کرنے والوں کو آپ کے معاندین و مخالفین پر قیامت تک کے لئے غلبہ دوں گا پھر سب کو میری طرف ہی آنا ہے۔ پھر میں ان سب باتوں کے بارے میں فیصلے کر دوں گا جن میں آج تم جھگڑ رہے ہو۔
جیسا کہ ارشاد ہے:۔
إِذْ قَالَ ٱللَّهُ يَٰعِيسَىٰٓ إِنِّى مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَىَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ وَجَاعِلُ ٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُوكَ فَوْقَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوٓا۟ إِلَىٰ يَوْمِ ٱلْقِيَٰمَةِ ثُمَّ إِلَىَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ (55) (آل عمران)
اور جب اللہ تعالی نے کہا اے عیسیٰ ! میں آپ کو پوری طرح اپنی حفاظت میں لینے والا اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور جن لوگوں نے آپ کا انکار کیا ہے میں آپ کو ان کی معیت اور ان کے گندے ماحول سے آپ کو پاک کرنے والا ہوں۔ اور آپ کی پیروی کرنے والوں کو قیامت تک ان لوگوں پر بالا دست رکھوں گا جنہوں نے آپ کا انکار کیا ہے پھر آخر کار تم سب نے میری طرف ہی آنا ہے اس وقت میں ان باتوں کا فیصلہ کروں گا جن کے متعلق تمہارے درمیان اختلاف رہا۔
حوارمیین عیسیٰ علیہ السلام کے ان پیروکاروں کو کہا جاتا ہے جو ان پر ایمان لائے اور ان کے ساتھی اور مددگار بنے۔ ان کی تعداد ۱۲ بیان کی جاتی ہے
(احسن البیان ص: ۳۳۶)

یہود کی سازش، اس کی ناکامی اور اللہ تعالی کی خفیہ حفاظتی تدبیر

جب سید نا عیسیٰ علیہ السلام کو یہود کی سازش کا پتہ چلا تو انہوں نے اپنے حواریوں کو جن کی تعداد ۱۲ یا سترہ تھی جمع کیا اور فرمایا کہ کیا تم میں سے کوئی میری جگہ قتل ہونے کے لئے تیار ہے تاکہ اللہ تعالی کی طرف سے اس کی شکل و صورت مجھ جیسی بنادی جائے۔ ایک نوجوان اس کے لیے تیار ہو گیا۔ چنانچہ عیسیٰ علیہ السلام کو وہاں سے اٹھا لیا گیا۔ بعد میں یہودی آئے اور انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے ہم شکل اس نوجوان کو لے جا کر سولی پر چڑھادیا۔
یہودی یہ سمجھتے رہے کہ ہم نے عیسیٰ علیہ السلام کو سولی چڑھا دیا ہے۔ در آں حالیکہ عیسیٰ علیہ السلام وہاں موجود ہی نہ تھے۔ وہ جسم عنصری کے ساتھ آسمان کی طرف اٹھالئے گئے۔
(تفسیر ابن کثیر ، تفسیر فتح القدیر، تفسیر احسن البیان ص: ۲۷۲ حاشیه ۲)
قرآن مجید میں ارشاد ہے:
وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا ٱلْمَسِيحَ عِيسَى ٱبْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ ٱللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ ٱلَّذِينَ ٱخْتَلَفُوا۟ فِيهِ لَفِى شَكٍّ مِّنْهُ مَا لَهُم بِهِۦ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا ٱتِّبَاعَ ٱلظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينَۢا ‎﴿١٥٧﴾‏ بَل رَّفَعَهُ ٱللَّهُ إِلَيْهِ وَكَانَ ٱللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا ‎﴿١٥٨﴾‏ وَإِن مِّنْ أَهْلِ ٱلْكِتَٰبِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِۦ قَبْلَ مَوْتِهِۦ وَيَوْمَ ٱلْقِيَٰمَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا (159) (النساء)
(اور ہم نے بنی اسرائیل پر اس لئے بھی لعنت کی کہ) انہوں نے کہا کہ ہم نے مسیح‘ اللہ کے رسول عیسیٰ بن مریم کو قتل کر دیا ہے۔ حالانکہ فی الواقع انہوں نے نہ تو اس کو قتل کیا اور نہ صلیب پر چڑھایا بلکہ ان پر معاملہ مشتبہ کر دیا گیا تھا اور جن لوگوں نے ان کے بارے میں اختلاف کیا ہے وہ بھی در اصل شک میں مبتلا ہیں۔ اس کے بارے میں ان کے پاس کوئی حتمی علم نہیں ہے بلکہ وہ محض گمان کی پیروی کر رہے ہیں۔ یقینا انہوں نے صحیح کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے اس کو اپنی طرف اٹھالیا۔ اللہ زبر دست طاقت رکھنے والا اور صاحب حکمت ہے اور اہل کتاب میں سے کوئی بھی ایسا نہ ہو گا جو اس کی یعنی مسیح علیہ السلام کی وفات سے پہلے پہلے ان پر ایمان نہ لے آئے گا اور وہ (صحیح) قیامت کے دن ان لوگوں کے خلاف گواہ ہو گا۔
مولانا مودوددی صاحب رقم طراز ہیں:
کہ ان آیات میں اختلاف کرنے والوں سے عیسائی مراد ہیں۔ ان میں مسیح علیہ السلام کے مصلوب ہونے پر کوئی ایک متفق علیہ قول نہیں ہے بلکہ بیسیوں اقوال ہیں۔ جن کی کثرت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اصل حقیقت ان کے لئے مشتبہ ہی رہی۔
ان میں سے کوئی کہتا ہے کہ صلیب پر جسے چڑھایا گیا وہ مسیح نہ تھا بلکہ مسیح کی شکل میں کوئی اور تھا جسے یہودی اور رومی سپاہی ذلت کے ساتھ صلیب دے رہے تھے اور مسیح وہیں کہیں کھڑا ان کی حماقت پرہنس رہا تھا۔
کوئی کہتا ہے کہ صلیب پر چڑھایا تو مسیح ہی کو گیا تھا مگر ان کی وفات صلیب پر نہیں ہوئی بلکہ ان کو صلیب سے اتارے جانے کے بعد ان میں جان باقی تھی۔
کوئی کہتا ہے کہ انہوں نے صلیب پر وفات پائی۔ پھر وہ جی اٹھے اور کم و بیش دس مرتبہ اپنے مختلف حواریوں سے ملے اور باتیں کیں۔
کوئی کہتا ہے کہ صلیب والی موت مسیح کے جسم پر واقع ہوئی اور وہ دفن ہوا مگر الوہیت کی روح جو اس میں تھی وہ اٹھالی گئی۔
کوئی کہتا ہے کہ مرنے کے بعد مسیح علیہ السلام جسم سمیت زند ہ ہوئے اور جسم سمیت اٹھالئے گئے۔ ظاہر ہے کہ ان لوگوں کے پاس حقیقت کا علم ہوتا تو اتنی مختلف باتیں ان میں مشہور نہ ہو تیں۔
(تفہیم القرآن سورۃ النساء حاشیہ نمبر ۱۹۴)
حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
عیسی علیہ السلام کے ہم شکل کو قتل کرنے کے بعد ایک گروہ تو یہ کہتا رہا کہ عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کر دیا گیا جب کہ دوسرا گروہ جیسے یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ مصلوب شخص عیسیٰ علیہ السلام نہیں بلکہ کوئی اور ہے۔ وہ ان کے قتل اور مصلوب ہونے کا انکار کرتارہا۔‘‘
بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو اوپر جاتے ہوئے دیکھا بھی تھا۔
بعض کہتے ہیں کہ ان کے اس اختلاف سے وہ اختلاف مراد ہے جو خود عیسائیوں کے نسطورہ فرقے نے کیا کہ عیسیٰ علیہ السلام جسم کے لحاظ سے تو سولی دے دیئے گئے لیکن لاہوتی (خدائی) اعتبار سے نہیں۔
ملکانیہ فرقے نے کہا کہ یہ قتل و صلب، ناسوت (انسانی اور جسمانی) اور لاہوت (خدائی) دونوں اعتبار سے مکمل ہوا ہے۔ (فتح القدیر) بہر حال وہ لوگ اختلاف ، تردد اور ملک کے شکار رہے۔
( احسن البیان ص: ۲۷۲، حاشیه ۳)
اس ساری تفصیل سے واضح ہو گیا کہ یہودی، عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے یا سولی چڑھانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔
(احسن البیان ص: ۲۷۲ حاشیہ ۱)
یہ آیات نص صریح ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنی قدرت کاملہ سے عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ حالت میں آسمان پر اٹھالیا تھا۔
(احسن البیان ص: ۲۷۲ حاشیہ ۴)
ابور جاء رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ حسن رحمہ اللہ نے :
وَإِن مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلا لَیؤْمِننَ بہ الخ
کی تفسیر میں فرمایا کہ : ’’عیسیٰ علیہ السلام کی وفات سے پہلے پہلے تمام اہل کتاب ان پر ایمان لے آئیں گے اور وہ اس وقت ار تعالٰی کے ہاں (آسمانوں پر ) زندہ موجود ہیں۔ جب وہ زمین پر نزول ہوں گے تو سب لوگ ان پر ایمان لے آئیں گے۔‘‘
(تفسیر ابن کثیر ، جلد ا، ص: ۵۷۶)
ایک شخص نے حسن بصری رحمہ اللہ سے دریافت کیا کہ :
وإِن مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ اإِلا لَیؤْمِننَ بہ الخ
کی تفسیر کیا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی طرف اٹھا لیا تھا وہ قیامت سے پہلے ان کو زمین پر بھیجے گا اور پھر سب مومن و فاجران پر ایمان لے آئیں گے۔
(تفسیر ابن کثیر، جلد اص: ۵۷۶)
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا ہے کہ اگر کسی یہودی پر تلوار کا وار بھی کیا گیا تو جب تک وہ ایمان نہ لائے گا اس کی روح نہ نکلے گی۔
(تفسیر ابن کثیر ، جلداص : ۵۷۶)
نیز سید نا عیسیٰ علیہ السلام پر اللہ تعالی نے جو انعامات کئے ان کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالی ان سے یہ بھی فرمائے گا:
وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا
تو لوگوں سے گہوارے میں بھی بات کرتا تھا اور بڑی عمر کو پہنچ کر بھی۔
گہوارے میں آپ کا لوگوں سے بات کرنا خرق عادت اور آپ کا معجزہ تھا۔ کسی کا بڑی عمر میں بات کرنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام کا بڑی عمر میں لوگوں سے ہم کلام ہونا اور باتیں کرنا اسی صورت میں مختلف ہو سکتا ہے کہ آپ مدت مدید کے بعد تشریف لا کر لوگوں سے باتیں کریں۔
عیسیٰ علیہ السلام پر کئے گئے انعامات کے ضمن میں ہی اللہ تعالی قیامت کے دن ان سے یہ بھی فرمائے گا:
وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَنكَ إِذْ جِئْتَهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ (110) (المائده)
اور یاد کرو جب میں نے بنی اسرائیل کے شر سے اور برے ارادوں سے آپ کو محفوظ رکھا جب آپ ان کے پاس واضح دلائل لے کر آئے تھے تو ان میں سے منکرین حق نے کہا تھا کہ یہ سب جادو گری کے سوا کچھ نہیں۔
خلاصة المرام ایں کہ اس پوری تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہودنے اللہ کے جلیل القدر رسول، روح اللہ نہیں المسیح عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے اپنے رسول کو زندہ حالت میں جسد عنصری کے ساتھ آسمان کی طرف اٹھا کر ان کو بچا لیا اور ان کے دشمن ناکام و نامراد رہے۔ عیسیٰ علیہ السلام سے متعلقہ مذکورۃ الصدر آیات کے مندرجہ ذیل فقرات قابل ملاحظہ ہیں۔
مكرواومکراللہ ۔ لوگوں نے ان کے خلاف سازشیں کیں اور ان کے بالمقابل اللہ نے بھی اپنی خفیہ تدبیر کی۔
انی المتوفیک اے عیسیٰ میں آپ کو پوری طرح اپنی حفاظت میں لینے والا ہوں۔
ورافعک الی ۔ اور آپ کو اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔
والمطہرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُو ۔ آپ کو ان لوگوں کی معیت اور ان کے گندے ماحول سے پاک کرنے والا ہوں۔
وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ
(اور ہم نے بنی اسرائیل پر اس لئے بھی لعنت کی کہ) انہوں نے کہا کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح، عیسیٰ بن مریم‘ کو قتل کر دیا ہے حالانکہ فی الواقع انہوں نے نہ ان کو قتل کیا اور نہ صلیب پر چڑھایا بلکہ ان پر معاملہ مشتبہ کر دیا گیا تھا۔
وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا ٭ بَل رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ ۚ
ان لوگوں نے یقینا ان کو قتل نہیں کیا بلکہ ان کو تو اللہ نے اپنی طرف اٹھا لیا تھا۔
وکان الله عَزِيزاً حكيماً ۔
اور اللہ زبر دست غالب حکمت والا ہے۔
عیسیٰ علیہ السلام کا واقعہ ذکر کرنے کے بعد ان الفاظ کاذکر کرنا واضح ثبوت ہے کہ اس واقعہ سے اللہ تعالی کی قدرت قاہرہ اور حکمت بالغہ کا غیر معمولی ظہور ہوا۔
إِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ – الخ
اور تمام اہل کتاب مسیح کی وفات سے پہلے پہلے ان پر ایمان لے آئیں گے۔
تكلم الناس في المَهْدَ وکھلا ۔
تو لوگوں سے گہوارے میں اور بڑی عمر میں پہنچ کر بھی باتیں کرتا تھا۔
إِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَنكَ
اور یاد کرو جب میں نے آپ کو بنی اسرائیل کے شر سے بچایا۔
نیز قران کریم میں ارشاد ہے:
وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُونِ ۚ هَٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ (61)
اور یقینا عیسیٰ علیہ السلام (کا نزول فرما ہونا ) علامات قیامت میں سے ہے تم اس (قیامت) کے بارے میں تردد نہ کرو اور میری پیروی کرو۔ یہی سیدھا (صحیح ) راستہ ہے۔ اکثر مفسرین کے نزدیک اس کا مطلب ہے کہ قیامت کے قریب ان کا آسمان سے نزول ہو گا۔ جیسا کہ صحیح اور متواتر احادیث سے حیثیت ہے۔ ان کا یہ نزول اس بات کی علامت ہوگا کہ اب قیامت قریب ہے۔
(احسن البیان۔ ص: ۱۳۹ ، حاشیه ۱)
قرآن کریم کی یہ تمام آیات نص صریح ہیں کہ اللہ تعالٰی نے سید نا عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ حالت میں آسمان پر اٹھا لیا تھا۔

سید نا عیسیٰ علیہ السلام اور محمد ﷺ کے احوال میں مناسبت و مشابہت

(1) عیسیٰ علیہ السلام کی قوم نے ان کی مخالفت اور تکذیب کی۔
(۲) عیسیٰ علیہ السلام کے معاندین نے ان کو قتل کرنے کی سازش کی اور مکان کا محاصرہ کیا۔
(۳) اللہ تعالٰی نے عیسیٰ علیہ السلام کو دشمن کے شر سے محفوظ رکھا۔
(۴) عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالی کے حکم سے زمین سے آسمان کی طرف ہجرت کر گئے۔
(۵) عیسیٰ علیہ السلام اپنی دعوت دنیا تک پہنچا چکے تھے ۔ اس لئے ان کو ہجرت ارضی کے بجائے سماوی ہجرت پیش آئی۔
(۶)عیسی علیہ السلام اپنے دور کے مسیح ظلالت (د جال) کو قتل کریں گے۔
(۷) عیسی علیہ السلام کا نزول اسی شہر دمشق میں ہو گا جہاں سے اپنی قوم کی سازشوں کے نتیجے میں ان کو سماوی ہجرت پیش آئی تھی۔

محمد رسول الله ﷺ

(۱) محمد ﷺ کی قوم نے بھی ان کی تکذیب کی اور مخالفت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
(۲) محمد ﷺ کے ساتھ بھی بعینہ یہی صورت حال پیش آئی۔
(۳) اللہ تعالی نے محمد میں کام کی بھی مکمل حفاظت فرمائی۔
(۴) محمد ﷺ نے بھی اللہ کے حکم سے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی۔
(۵) آپ ﷺ کی بعثت عامہ تھی۔ دین کی تبلیغ کے سلسلہ میں آپ کا کام ابھی باقی تھا اور کرہ ارض پر آپ کا قیام ضروری تھا اس لئے آپ کو مدینہ منورہ کی طرف ارضی ہجرت پیش آئی۔
(۶) آپ نے اپنے مخالف امیہ بن خلف کو اپنے نیزے کے وار سے جہنم رسید کیا۔
(۷) محمد ﷺ کو بھی ہجرت کے بعد فتح مکہ کی صورت میں اپنے وطن پر قدرت و غلبہ عطا فر ما یا گیا تھا۔
نزول عیسی علیہ السلام ، احادیث کی روشنی میں
(۱) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، عنقریب عیسیٰ بن مریم علیہ السلام تمہارے در میان ایک عادل حکمران کی حیثیت سے نزول فرما ہوں گے۔ وہ صلیب کو توڑ کر (اس کا خاتمہ کر) ڈالیں گے۔ خنزیر کو قتل کر دیں گے۔ جزیہ کو ختم کر دیں گے۔ اور مال و دولت کی اس قدر ریل پیل ہو جائے گی کہ کوئی اسے لینے کو تیار نہ ہو گا۔
سید نا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم چاہو تو یہ آیت پڑھ کر دیکھ لو :
إِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا (159) (النساء)
اور اھل کتاب میں سے کوئی بھی ایسانہ ہو گا جو اس کی یعنی مسیح علیہ السلام کی وفات سے پہلے پہلے ان پر ایمان نہ لے آئے گا اور وہ (مسیح) قیامت کے دن ان لوگوں کے خلاف گواہ ہو گا۔
(صحیح بخاری، کتاب الانبیاء ، حدیث : ۳۴۴۸ باب نزول عیسی بن مریم صحیح مسلم، باب بیان نزول عیسی بن مریم حاکما)
(۲) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’اللہ کی قسم عیسیٰ بن مریم ایک عادل حکمران کی حیثیت سے تشریف لائیں گے ۔ وہ صلیب کو توڑ کراس کا خاتمہ کر دیں گے۔ خنزیر کو قتل کر ڈالیں گے ، جزیہ کا خاتمہ کر دیں گے۔ اونٹوں کا استعمال متروک ہو جائے گا، اور ان پر سواری یا بار برداری نہ ہو گی، لوگوں کا آپس میں غصہ ، ناراضگی اور بغض و عناد بالکل ختم ہو جائے گا۔ وہ مال ودولت کے لئے لوگوں کو اپنی طرف بلائیں گے تو دولت کی کثرت کی وجہ سے کوئی آدمی دولت لینے کے لئے آمادہ نہ ہو گا۔‘‘
( صحیح مسلم، باب بیان نزول عیسی بن مریم حاکماً )
(۳) سید نا حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک دن ہم آپس میں قیامت کے متعلق گفتگو کر رہے تھے کہ نبی ﷺ تشریف لائے آپ نے دریافت فرمایا: کیسا مذاکرہ ہورہا ہے ؟ ہم نے عرض کیا کہ ہم قیامت کے متعلق گفتگو کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: قیامت اس وقت تک بپانہ ہو گی جب تک تم اس سے پہلے دس بڑی بڑی نشانیاں نہ دیکھ لوگے ۔ آپ نے ان میں سے ایک نشانی ’’ نزول عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام ‘‘ بیان فرمائی۔
( صحیح مسلم ،کتاب الفتن)
(۴) سید نانواس ابن سمعان رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی ہے کہ دجال کا فتنہ ظہور پذیر ہو چکا ہوگا اور وہ لوگوں کو شعبدے دکھا دکھا کر اپنی طرف مائل اور کفر میں لے جار ہا ہو گا۔ اسی دوران اللہ تعالی مسیح ابن مریم علیہما السلام کو بھیجے گا۔ وہ دمشق کے مشرق میں سفید منار و پر نزول فرما ہوں گے، زرد رنگ کے دو کپڑوں (چادروں) میں ملبوس ہوں گے ، اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے کاندھوں پر رکھے ہوں گے۔ سر کو جھکائیں گے تو پانی کے قطرے گریں گے۔ اور جب سر کو اوپر کی طرف اٹھائیں گے تو اس سے صاف شفاف پانی کے قطرے سفید موتیوں کی طرح نظر آئیں گے۔ ان کی سانس جس کافرتک جائے گی وہ مرتا چلا جائے گا اور ان کی سانس کی ہو اوہاں تک جائے گا جہاں تک ان کی نگاہ جائے گی۔ وہ دجال کا پیچھا کرتے ہوئے اسے (دمشق کی فصیل کے ) ’’باب لد‘‘ کے قریب جاکر قابو کر کے اسے قتل کر ڈالیں گے ۔
( صحیح مسلم، باب ذکر الدجال)
(۵) سید نا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت سے پہلے پہلے دجال کا ظہور ہو گا۔ وہ چالیس (سال، مہینے یادن کا وضاحت نہیں) کا عرصہ گزارے گا۔ اس کے بعد اللہ تعالٰی عیسیٰ علیہ السلام کو بھیجے گا۔ ان کا حلیہ عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا سا ہو گا۔ وہ (عیسیٰ علیہ السلام ) اس (دجال) کا پیچھا کر کے اسے قتل کر دیں گے۔ اس کے بعد لوگ سات سال کا عرصہ اس قدر خوشی سے گزاریں گے کہ دو آدمیوں کے درمیان بغض و عداوت نہ ہو گی۔
( صحیح مسلم، باب ذکر الدجال)
(۶) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی ﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، عیسیٰ بن مریم علیہما السلام ’’فج الروحاء‘‘ کے مقام پر حج (افراد) یا عمرہ یادونوں ( یعنی حج تمتع ) کا تلبیہ پکاریں گے۔
(صحیح مسلم، الحج، باب جواز التمتع فی الج والقران)
سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم اس وقت کس حال میں ہو گے جب عیسیٰ بن مریم تمہارے درمیان (آسمان) سے نزول فرما ہوں گے اور تمہار امام تم ہی میں سے (یعنی اسی امت کا ایک فرد) ہو گا۔
(صحیح مسلم، باب بیان نزول عیسیٰ بن مریم حاکماً)
(۸) سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نبی ﷺ کو فرماتے سنا کہ میری امت میں قیامت تک ایک ایسا گروہ موجود رہے گا جو حق کی خاطر قتال کرتا رہے گا۔ قیامت تک غالب رہے گا۔ تا آنکہ عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام (آسمان سے) نزول فرما ہوں گے تو مسلمانوں کا امیر (امام مہدی) ان سے کہے گا کہ آئیں نماز پڑھائیں۔ تو وہ فرما ئیں گے کہ نہیں۔ تم ہی میں سے کوئی لوگوں پر امیر (امام) ہوگا۔ یہ اللہ تعالی کی طرف سے اس امت کو اعزاز دیا جائے گا۔
( صحیح مسلم ، بیان نزول عیسی بن مریم حاکماً )
(۹) سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث میں مروی ہے (کہ قیامت سے پہلے ایک ایسا وقت آئے گا) کہ لوگ نماز کی صفیں درست کر رہے ہوں گے ۔ نماز کے لئے اقامت کہی جائے گی۔ اسی دوران عیسیٰ بن مریم علیہما السلام آسمان سے نزول فرما ہوں گے۔ اس وقت امت محمدیہ کے ایک فرد (امام مهدی) نماز پڑھائیں گے اور عیسیٰ بن مریم علیہما السلام امت کی قیادت فرمائیں گے۔ انہی دنوں دجال کا ظہور ہو گا۔ اللہ کا دشمن (دجال) انہیں دیکھے گاتو وہ اس طرح پگھلنے لگے گا جیسے پانی میں نمک پگھل جاتا ہے۔ اگر عیسیٰ علیہ السلام اسے یونہی چھوڑ دیں گے تب بھی وہ ہلاک ہو جائے گا۔ تاہم اللہ تعالی عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں دجال کو قتل کرائے گا۔
( صحیح مسلم ،کتاب الفتن)
(۱۰) سید نا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کا بیان ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عیسیٰ بن مریم علیہما السلام زمین پر نزول فرما ہوں گے ، نکاح کریں گے ، ان کے ہاں اولاد ہو گی وہ (کل) پنتالیس سال عمر پائیں گے۔ بعد ازاں ان کی وفات ہو گی۔ اور وہ میرے ساتھ میری قبر میں مدفون ہوں گے۔ قیامت کے دن میں اور عیسیٰ علیہ السلام ایک ہی قبر سے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان اٹھیں گے۔
(الوفاء لابن الجوزی – مشکوۃ المصابیح، باب نزول عیسیٰ علیہ السلام۔ حدیث نمبر ۵۵۰۸)
(11) ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے ، میں نے عرض کیا اللہ کے رسول ! میر اخیال ہے کہ میں آپ کے بعد کچھ عرصہ زندہ رہوں گی تو کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ مجھے آپ کے پہلو میں دفن کر دیا جائے ؟ آپ نے فرمایا میں تمہیں اس کی اجازت کیسے دے سکتا ہوں۔ وہاں تو میری، ابو بکر، عمر، عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کی قبورہی کی جگہ ہو گی۔
(منتخب کنز العمال بر حاشیہ مسند احمد جلد ۶ ص ۵۷)
(۱۲) سید نا عبد الله بن سلام رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ تورات میں محمد ﷺ کی صفات کے ضمن میں یہ بھی مکتوب ہے کہ عیسیٰ بن مریم علیہما السلام ان کے قریب مدفون ہوں گے۔
ابومودود (راوی) نے بیان کیا کہ بیت عائشہ رضی اللہ عنہا میں ایک قبر کی جگہ اب بھی باقی ہے۔
(جامع ترمذی مع تحفۃ الاحوذی جلد ۴ ص: ۲۹۵ کتاب المناقب باب ۳)
(۱۳) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی ﷺ نے فرمایا: انبیاء ان بھائیوں کی طرح ہیں جن کے باپ ایک اور مائیں مختلف ہوں۔ بنیادی طور پر ان سب کا دین ایک ہی ہے۔ میں باقی لوگوں کی نسبت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے قریب تر ہوں۔ کیونکہ ان کے اور میرے درمیان کوئی نبی نہیں۔ وہ (دوبارہ) دنیا میں آنے والے ہیں۔ تم انہیں دیکھتے ہی پہچان لوگے۔ ان کا قد در میانہ ، رنگ سرخی مائل گورا ہوگا، وہ زرد لباس میں ملبوس ہوں گے‘ یوں محسوس ہو گا کہ ان کے سر سے پانی کے قطرے گر رہے ہیں اگرچہ اسے پانی نہ لگا ہو گا، وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے ، خنزیر کو قتل کر دیں گے ، جزیہ کا خاتمہ کر دیں گے اور لوگوں کو حقیقی دین اسلام کی طرف بلائیں گے اللہ تعالی ان کے زمانے میں (ان ہی کے ہاتھوں ) دجال کا خاتمہ کرے گا۔ زمین پر مکمل امن، سکون ہو گا اور اس قدر آسودگی ہو گی کہ شیر اور اونٹ، چیتے اور گائے، بھیڑ اور بکریاں بے خوف و خطر اکٹھے چرتے ہوں گے ، بچے سانپوں کے ساتھ کھیلتے ہوں گے اور سانپ ان کو کچھ بھی نہ کہیں گے۔ عیسیٰ علیہ السلام زمین پر چالیس برس گزاریں گے اس کے بعد ان کی وفات ہو گی، مسلمان ان کی نماز جنازہ ادا کریں گے اور پھر ان کی تدفین عمل میں آئے گی۔
(تفسیر ابن کثیر خلد اص: ۸ ۵۷۔ سنن ابی داؤد ، الفتح الربانی ترتیب مسند احمد جلد 19 ص: ۱۴۳ مسند احمد جلد ۲ ص: ۴۳۷)
خلاصه:
علامات قیامت میں سے ایک بڑی علامت مسیح ہدایت سید نا عیسیٰ مسیح علیہ السلام کا ملا اعلیٰ سے نزول ہے جس کی تفصیلات یہ ہیں
۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان سخت معرکہ جنگ بپا ہو گا۔ مسلمانوں کی قیادت و امامت رسول ﷺ کی امت میں سے محمد بن عبداللہ نامی ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں ہو گی جس کا لقب (مہدی) ہوگا۔ اس معرکہ آرائی کے دوران ہی مسیح ظلالت (دجال) کا خروج ہو گا۔ یہ نسلاً یہودی اور شکلاً ایک چشم ہوگا۔ کرشمہ قدرت سے اس کی پیشانی پر کفر’’ یعنی کافر لکھا ہوا ہو گا جسے اہل ایمان اپنی ایمانی فراست سے پڑھیں گے اور اس کے دجل و فریب سے آگاہ ہو کر اس سے محتاط رہیں گے۔ وہ اولاً خدائی کا دعویٰ کرے گا اور شعبدہ بازوں کی طرح شعبدے دکھا کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرے گا مگر اس سلسلہ کو کامیاب نہ دیکھ کر کچھ عرصہ بعد مسیح ہدایت (عیسیٰ علیہ السلام) ہونے کا مدعی ہوگا۔ یہ دیکھ کر یہودی تو بکثرت بلکہ قومی حیثیت سے اس کے پیروکار ہو جائیں گے۔ اور اس کی وجہ یہ ہو گی کہ یہودی مسیح ہدایت عیسیٰ علیہ السلام کا انکار کر کے ان کے قتل کا ادعا کر چکے ہیں اور مسیح ہدایت کی آمد کے آج تک منتظر ہیں۔ اسی حالت میں ایک روزد مشق (شام) کی جامع مسجد میں مسلمان منہ اندھیرے یعنی نماز فجر کے وقت نماز کے لئے جمع ہوں گے ، نماز کی اقامت ہو رہی ہو گی۔ اور امام مہدی موعود امامت کے لئے مصلی پر پہنچ چکے ہوں گے کہ اچانک ایک آواز سب کو اپنی طرف متوجہ کرے گی۔ مسلمان دیکھیں گے کہ سفید بادل چھایا ہوا نظر آئے گا اور عیسیٰ علیہ السلام دو زرد چادروں میں ملبوس فرشتوں کے بازوؤں پر سہارا دیئے ہوئے ملا اعلیٰ (آسمان) سے اترتے نظر آئیں گے۔ فرشتے ان کو مسجد کے شرقی منارہ پر اتار کر واپس چلے جائیں گے اور عیسیٰ علیہ السلام کا اس زمین کے ساتھ تعلق دوبارہ قائم ہو جائے گا۔ وہ مینار سے صحن مسجد میں اترنے کے لیے سیڑھی طلب فرما ئیں گے۔ تعمیل ہو گی اور وہ مسلمانوں کے ساتھ صف میں آکھڑے ہوں گے۔
مسلمانوں کا امام (مہدی) از راہ تعظیم پیچھے ہٹ کر ان سے امامت کی درخواست کرے گا۔ آپ فرمائیں گے کہ یہ اقامت آپ کے لئے کہی گئی ہے اس لئے آپ ہی نماز پڑھائیں۔ اس کے بعد مسلمانوں کی سیاسی قیادت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کے ہاتھ آجائے گی اور وہ ہتھیار لے کر صبیح ضلالت (دجال) کا پیچھا کریں گے اور شہر کی فصیل کے باہر باب لد (لد گیٹ) پر اسے مقابل پائیں گے۔ دجال سمجھ جائے گا کہ اس کے دجل و فریب اور زندگی کے خاتمہ کا وقت آپہنچا۔ اس لئے خوف سے وہ رانگ ( قلعی) کی طرح گھنے لگے گا۔ عیسی علیہ السلام آگے بڑھ کر اسے قتل کر دیں گے اور پھر جو یہود دجال کی رفاقت میں قتل سے بچ جائیں گے وہ، اور سب عیسائی اسلام قبول کر لیں گے اور مسیح ہدایت (عیسیٰ علیہ السلام) کی سچی پیروی کرتے ہوئے مسلمانوں کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آئیں گے۔ اس کا اثر مشرک جماعتوں پر بھی پڑے گا اور اس طرح روئے زمین پر اسلام کے سوا دوسرا کوئی مذہب باقی نہیں رہے گا۔ ان واقعات کے کچھ عرصہ بعد یا جوج ماجوج کا خروج ہوگا ۔ اور اللہ کی ہدایت کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام مسلمانوں کو اس فتنہ سے محفوظ رکھیں گے۔ مسیح علیہ السلام کا دور حکومت چالیس سال رہے گا۔ صحیح مسلم میں ہے کہ ان کا دور حکومت سات سال رہے گا۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ان دو مختلف روایات میں تطبیق یوں دی ہے کہ جب ان کا رفع سماوی ہوا اس وقت ان کی عمر ۳۳ سال تھی۔ اور آسمان سے نزول کے بعد وہ سات سال مزید بقید حیات رہیں گے۔ اس طرح زمین پر ان کی کل عمر چالیس برس ہو جائے گی۔ واللہ اعلم ۔ بہر حال وہ اس دوران ازدواجی زندگی بسر کریں گے اور ان کے دور حکومت میں خوش حالی، عدل و انصاف اور خیر و برکت کا عالم یہ ہو گا کہ بکری اور شیر ایک گھاٹ پر بے خوف و خطر پانی پیئیں گے۔ چالیس سالہ دور پورا ہونے کے بعد عیسیٰ علیہ السلام اس دار فانی سے رخصت ہو کر نبی ﷺ کے پہلو میں مدفون ہوں گے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!