انبیاء کرام علیہ السلام وہ عظیم ، پاک باز اور پارسا ہستیاں ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ اپنی رشد و ہدایت کے لیے مبعوث فرماتا ہے، اور انھیں ان صفات حمیدہ سے متصف فرماتا ہے جو ان کے شایان شان ہوتے ہیں۔ ان کا تقدس و حرمت بیان کرتا ہے۔ ان کی شانِ اقدس میں ادنیٰ سی گستاخی کو بھی کفر قرار دیتا ہے۔ چہ جائیکہ انھیں عیسائیت کی بائبل مقدس، ڈاکو، زانی، شرابی ، بت پوجنے والے قرار دے۔ العياذ بالله !
ذیل کی سطور میں ہم ایسے واقعات کو زیر قلم بحث لائیں گے کہ جن میں بائبل مقدس نے انبیاء کرام علیہ السلام کی عظیم ہستیوں کی شان میں گستاخی کی ہے اور ساتھ میں فلسفہ اسلام بھی ذکر کردیں گے۔ تا کہ اسلام اور عیسائیت کی تعلیمات کا تقابل بھی ہو جائے۔ یہ تمام حوالہ جات پاکستان بائبل سوسائٹی (لاہور) کی شائع کردہ بائبل مقدس ( Revised version 2000) سے ماخوذ ہیں۔ عیسائیت کی تعلیمات انبیاء کرام علیہ السلام کی عزت و احترام کی حفاظت نہیں کر سکتیں وہ پوری دنیا کو کیا اخلاقیات سکھا سکتی ہے۔
مضمون کے اہم نکات:
خدا کا پچھتاوا:
کتاب ”پیدائش“ باب نمبر 6، آیت نمبر 6۔ 5 میں ہے کہ:
”اور خداوند نے دیکھا کہ زمین پر انسان کی بدی بہت بڑھ گئی اور اس کے دل کے تصور اور خیال سدا بُرے ہی ہوتے ہیں۔ تب خداوند زمین پر انسان کو پیدا کرنے سے ملول ہوا اور دل میں غم کیا۔ “
اسی طرح کتاب ”سموئیل “اول باب نمبر 15 آیت نمبر 11 میں ہے کہ:
” مجھے افسوس ہے کہ میں نے ساول کو بادشاہ ہونے کے لیے مقرر کیا کیونکہ وہ میری پیروی سے پھر گیا اور اُس نے میرے حکم نہیں مانے۔“
اس کے علاوہ اسی کتاب ”سموئیل“ اول باب 15 آیت نمبر 35 میں بھی ہے کہ ”اور خداوند ساؤل کو بنی اسرائیل کا بادشاہ کر کے ملول ہوا۔“
اسلام :
بائبل کی ان خود ساختہ آیات میں جو تصور اور عقیدہ بیان ہوا ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے کیے پر پچھتاتا ہے، افسوس کرتا ہے بعض دفعہ جیسا کہ اُس نے ساؤل کو بادشاہ بنانے پر کیا۔ جبکہ قرآنِ مقدس میں ہے:
قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
(3-آل عمران:26)
”آپ کہہ دیجیے کہ اے میرے اللہ! حقیقی بادشاہی کے مالک! تو جسے چاہتا ہے بادشاہی عطا کرتا ہے، اور جس سے چاہتا ہے، بادشاہی چھین لیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے ذلیل بنا دیتا ہے، تمام بھلائیاں تیرے ہاتھ میں ہیں، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔“
یعنی اللہ تعالیٰ مالک کل، مالک مطلق اور مالک حقیقی ہے۔ اپنے ملک میں جسے چاہتا ہے تصرف کرتا ہے، ایجاد کرتا ہے، ختم کرتا ہے، مارتا ہے، زندہ کرتا ہے، عذاب یا ثواب دیتا ہے، کوئی اس کا شریک نہیں اور نہ کوئی اُسے روک سکتا ہے، وہ جسے چاہتا ہے، بادشاہ بنا دیتا ہے، اس لیے کہ حقیقی بادشاہت اسی کے ہاتھ میں عزت و ذلت ہے، اور اسی کے ہاتھ میں تمام بھلائیاں ہیں۔
اللہ تعالیٰ کمزور ہے:
کتاب ”قضاۃ“ باب نمبر 1 آیت نمبر 19 میں ہے کہ:
”اور خداوند یہوداہ کے ساتھ تھا۔ سو اس نے کو ہستانیوں کو نکال دیا پر وادی کے باشندوں کو نکال نہ سکا کیونکہ ان کے پاس لوہے کے رتھ تھے ۔ “
اسلام :
بائبل کی نظر میں اللہ تعالیٰ اتنا کمزور ہے کہ وہ لوہے کے رتھوں پر غالب نہیں آسکتا یا اس کے چاہنے والوں کو ان کے مخالفین پر غالب نہیں کر سکتا۔
جبکہ اسلام کی نظر میں اللہ تعالیٰ بڑا قوی اور غالب آنے والا ہے۔ اصحاب فیل کی ہلاکت کا واقعہ اس کا بین ثبوت ہے۔ چنانچہ جب ابرہہ حبشی اپنی طاقت کے نشے میں چور خانہ کعبہ کو گرانے کے لیے آگے بڑھا، تو اللہ کے حکم سے چھوٹی چھوٹی ابابیل چڑیاں اپنی چونچوں میں اور پنجوں میں کنکر لیے آئیں ، اور اس کو اور اس کی فوج کو مارنے لگیں۔ روایات میں آیا ہے کہ ان کی کنکروں کی چوٹ سے ان کے جسم میں کھجلی ہونے لگی، اور کھجلاتے ہی ان کے جسموں کا گوشت گرنے لگا اور سب وادی محسر اور اس کے آس پاس ہلاک ہو گئے۔ ابرہہ جان بچا کر بھا گا مگروہ یمن پہنچنے کے بعد مر گیا۔
أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ ﴿١﴾ أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ ﴿٢﴾ وَأَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا أَبَابِيلَ ﴿٣﴾ تَرْمِيهِم بِحِجَارَةٍ مِّن سِجِّيلٍ ﴿٤﴾ فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّأْكُولٍ ﴿٥﴾
(105-الفيل)
”اے پیغمبر! کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ تمہارے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا۔ کیا اس نے (خانہ کعبہ کے خلاف) ان کی سازش کو ناکام نہیں بنادیا۔ اور ان پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیے، جو ان پر پتھریلی مٹی کی کنکریاں برساتے تھے۔ پس اللہ نے انھیں کھاتے ہوئے بھس کے مانند بنادیا ۔“
اس سورۃ مبارکہ میں اللہ رب العزت نے اہل قریش پر احسان جتاتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کیا آپ نے اللہ کی قدرت ، اس کی عظمت شان، بندوں پر اس کی رحمت اور اس کی توحید اور اس کے پیغمبر کی صداقت کے دلائل کا اصحاب فیل کے واقعے میں نظارہ نہیں کیا، کہ اس نے خانہ کعبہ کے خلاف اصحاب فیل کی سازش کو کس طرح ناکام بنادیا، اور ان کو ہلاک و برباد کرنے کے لیے پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیے جو سمندر کی طرف سے آئے تھے، اہل مکہ نے (جو پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ گئے تھے ) انھیں اپنی آنکھوں سے نظارہ کیا کہ ابرہہ کی فوج پر آئے اور اپنی چونچوں اور پنجوں میں موجود کنکریوں کو ان پر برسانے لگے ، اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی لاشوں کے ڈھیر لگ گئے اور وہ کھائے ہوئے بھوسے کی مانند ہو گئے۔
آدم و حوا علیہ السلام کی شان میں گستاخی :
کتاب ”پیدائش“ باب نمبر 2 آیت نمبر 25 میں ہے کہ:
” اور آدم اور اس کی بیوی دونوں ننگے تھے اور شرماتے نہ تھے۔“
اسلام :
بائبل کی اس آیت میں آدم وحوا علیہ السلام کی شان میں گستاخی کی گئی ہے۔ جبکہ قرآن مجید کی روشنی میں ہے کہ اللہ نے ابلیس کو جنت سے یا فرشتوں کے زمرے سے نکال دیا، اور آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی حوا کے لیے جنت کی تمام نعمتوں اور پھلوں کو حلال بنادیا، صرف ایک درخت کے کھانے سے انھیں روک دیا، اور تنبیہ کر دی کہ دیکھو اگر اس کے قریب جاؤ گے تو اپنے آپ پر ظلم کرنے والے ہو جاؤ گے۔ شیطان نے جب انھیں اس حال میں دیکھا تو اس کے حسد کی آگ بھڑک اٹھی اور ان کے ساتھ مکر و فریب کی سوچ لی، تا کہ وہ جن نعمتوں سے بہرہ مند ہورہے ہیں، اور جو خوبصورت لباس زیب تن کیے ہوئے ہیں ان سے چھن جائے ، چنانچہ اس نے اللہ کے خلاف افتراء پردازی کرتے ہوئے کہا کہ تمہارے رب نے تمہیں اس درخت سے اس لیے روکا ہے کہ اگر ان سے کھا لو گے تو تم فرشتے بن جاؤ گے، پھر کھانے پینے کی محتاجی نہیں رہے گی یا تمہیں موت نہیں آئے گی اور جنت خلد میں رہو گے اور ابلیس مردود نے انہیں اپنی صداقت کا یقین دلانے کے لیے ذات باری تعالیٰ کی قسم کھا کر کہا کہ میں تم دونوں کا انتہائی خیر خواہ ہوں، اسی لیے تو یہ راز الہی تم پر فاش کر دیا ہے۔
شیطان مردود نے دونوں کو دھوکہ دے کر بلندی سے پستی میں پہنچادیا۔ چنانچہ جب ان دونوں نے اس شجر ممنوعہ کو شیطان کے دھوکے میں آ کر کھالیا، تو اس نافرمانی کا انجام فورا ہی ان کے سامنے آ گیا کہ ان کے لباس ان کے جسموں سے الگ ہو گئے ، تو جنت کے درختوں کے پتے لے لے کر اپنے جسموں پر چپکانے لگے تا کہ اپنی پردہ پوشی کریں۔
وَيَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ ﴿١٩﴾ فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَانُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَا وُورِيَ عَنْهُمَا مِن سَوْآتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَٰذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا أَن تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ ﴿٢٠﴾ وَقَاسَمَهُمَا إِنِّي لَكُمَا لَمِنَ النَّاصِحِينَ ﴿٢١﴾ فَدَلَّاهُمَا بِغُرُورٍ ۚ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ
(7-الأعراف:19تا 22)
”اور اے آدم! تو اور تیری بیوی جنت میں اقامت پذیر ہو جاؤ اور جہاں سے چاہو کھاؤ، اور اس درخت کے قریب نہ جاؤ، ورنہ ظالموں میں سے ہو جاؤ گے تو شیطان نے ان دونوں کے دل میں وسوسہ پیدا کیا، تاکہ ان کے بدن کا جو حصہ (شرمگاہ) ایک دوسرے سے پوشیدہ تھا اسے دونوں کے سامنے ظاہر کر دے، اور کہا کہ تمہارے رب نے تمہیں اس درخت سے اس لیے روکا ہے کہ کہیں تم دونوں فرشتہ نہ بن جاؤ، یا جنت میں ہمیشہ رہنے والوں میں سے نہ بن جاؤ اور ان دونوں کے سامنے خوب قسمیں کھائی کہ میں تم دونوں کا بے حد خیر خواہ ہوں۔ چنانچہ اُس نے دونوں کو دھوکہ دے کر اپنے جال میں پھانس لیا ، پس جب دونوں نے اس درخت کو چکھا تو ان کی شرمگا ہیں دکھائی دینے لگیں اور دونوں اپنے جسموں پر جنت کے پتے چسپاں کرنے لگے۔“
سیدنا نوح علیہ السلام شراب پیتے تھے :
کتاب ”پیدائش“ باب نمبر 9 آیت نمبر 20 تا 25 میں ہے کہ:
”اور نوح کا شتکاری کرنے لگا اور اس نے ایک انگور کا باغ لگایا اور اس نے اس کی مے پی اور اسے نشہ آیا اور وہ اپنے ڈیرے میں برہنہ ہو گیا اور کنعان کے باپ حام نے اپنے باپ کو برہنہ دیکھا اور اپنے دونوں بھائیوں کو باہر آ کر خبر دی ۔ تب سم اور یافت نے ایک کپٹرا لیا اور اسے اپنے کندھوں پر دھرا اور پیچھے کوالٹے چل کر گئے اور اپنے باپ کی برہنگی ڈھانکی۔ سو ان کے منہ اُلٹی طرف تھے اور انھوں نے اپنے باپ کی برہنگی نہ دیکھی۔ جب نوح اپنی مے کے نشہ سے ہوش میں آیا تو جو اس کے چھوٹے بیٹے نے اس کے ساتھ کیا تھا اسے معلوم ہوا اور اس نے کہا کہ کنعان ملعون ہو۔ وہ اپنے بھائیوں کے غلاموں کا غلام ہوگا۔“
اسلام :
بائبل میں ہے کہ نوح علیہ السلام جیسے اولو العزم پیغمبر نے شراب پی لی اور انھیں نشہ ہو گیا۔ حالانکہ قرآنِ مقدس کی تعلیم ہے کہ:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿٩٠﴾ إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ ۖ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ ﴿٩١﴾
(5-المائدة:90، 91)
”اے اہل ایمان! بے شک شراب اور جوا، اور وہ پتھر جن پر بتوں کے نام سے جانور ذبح کیے جاتے ہیں، اور فال نکالنے کے تیر نا پاک ہیں، اور شیطان کے کام ہیں، پس تم ان سے بچو شاید کہ تم کامیاب ہو جاؤ۔ بے شک شیطان شراب اور جوا کی راہ سے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض پیدا کرنا چاہتا ہے، اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روک دینا چاہتا ہے، تو کیا تم لوگ اب باز آ جاؤ گے۔“
فائدہ :
مذکورہ بالا آیت کریمہ شراب اور جوا کی حرمت کو بطور تاکید بیان کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے کئی اسالیب اختیار کیے ہیں:
إِنَّمَا : کا لفظ ابتدائے جملہ میں استعمال کیا، بتوں کی پرستش کے ساتھ دونوں کا ذکر کیا، دونوں کو رجس یعنی گندی چیز قرار دیا، دونوں کے استعمال کو شیطانی عمل قرار دیا ، ان سے اجتناب کرنے کا حکم دیا اور آخر میں دونوں کے استعمال کے بدترین نتائج کا ذکر کیا۔ اور سورہ البقرہ کی آیت (219) میں ارشادفرمایا:
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۖ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا ۗ وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ
(2-البقرة:219)
”لوگ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں سوال کرتے ہیں، آپ کہہ دیجیے کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے، اور لوگوں کے لیے کچھ منافع بھی ہیں، اور اُن کے گناہ اُن کے نفع سے زیادہ بڑے ہیں اور آپ سے لوگ پوچھتے ہیں کہ وہ کیا خرچ کریں، آپ کہہ دیجیے کہ جو تمہاری ضروری اخراجات سے زیادہ ہو۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح اپنی آیتوں کو تمہارے لیے کھول کھول کر بیان کرتا ہے، تا کہ تم غورو فکر کرسکو۔ “
اس آیت میں بیان ہوا کہ شراب تین مراحل سے گزر کر سورہ مائدہ کی اس آیت کے نزول کے بعد قطعی طور پر حرام ہوگئی ۔ وہاں شراب اور جوا کی خرابیاں بھی بیان کر دی گئی ہیں ۔ اس آیت میں شراب اور جوا کے ساتھ ساتھ بتوں کی پرستش اور قرعہ کے تیروں کے ذریعہ قسمت معلوم کرنے کے عمل کو بھی حرام قرار دیا گیا۔ آیت میں شراب اور جوا کے ساتھ ساتھ بتوں کی پرستش اور قرعہ کے تیروں کے ذریعہ قسمت معلوم کرنے کے عمل کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے۔ آیت میں شراب اور جوا کے دینی اور دنیوی مفاسد کو بھی بیان کر دیا گیا ہے، کہ یہ دونوں چیزیں مسلمانوں کے درمیان عداوت پیدا کرتی ہیں اور نماز اور ذکر الہی سے روکتی ہیں ، پھر آخر میں فَهَلْ أَنتُم مُّنْتَهُونَ کے ذریعہ زجر و توبیخ کی انتہا کر دی گئی ہے، کہ اب بھی تم لوگ ان کے استعمال سے رُک جاؤ گے، یا کسی اور حکم کا انتظار کرو گے۔ چنانچہ سید نا عمر اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا کہ : ”اے اللہ ہم رک گئے ۔ “
(مسند احمد: 351 – 2/2.)
حضرت ہارون علیہ السلام نے سونے کا بچھڑا بنایا اور اسے معبود قرار دیا:
کتاب ”خروج “ باب نمبر 32 آیت نمبر 1 تا 6 میں ہے کہ:
”اور جب لوگوں نے دیکھا کہ موسیٰ نے پہاڑ سے اترنے میں دیر لگائی تو وہ ہارون کے پاس جمع ہو کر اس سے کہنے لگے کہ اٹھ ہمارے لیے دیوتا بنادے جو ہمارے آگے آگے چلے کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ اس مرد موسیٰ کو جو ہم کو ملک مصر سے نکل کر لایا کیا ہو گیا۔ ہارون نے ان سے کہا تمہاری بیویوں اور لڑکوں اور لڑکیوں کے کانوں میں جو سونے کی بالیاں ہیں ان کو اتار کر میرے پاس لے آؤ۔ چنانچہ سب لوگ ان کے کانوں سے سونے کی بالیاں اتار اتار کر ان کو ہارون کے پاس لے آئے اور اس نے اُن کو اُن کے ہاتھوں سے لے کر ایک ڈھالا ہوا بچھڑا بنایا جس کی صورت چھینی سے ٹھیک کی ۔ تب وہ کہنے لگے اے اسرائیل یہی تیرا وہ دیوتا ہے جو تجھ کو ملک مصر سے نکال کر لایا۔ یہ دیکھ کر ہارون نے اس کے آگے ایک قربان گاہ بنائی اور اُس نے اعلان کر دیا کہ کل خداوند کے لیے عید ہوگی اور دوسرے دن صبح سویرے اٹھ کر انھوں نے قربانیاں چڑھائیں اور سلامتی کی قربانیاں گزرائیں ۔ پھر ان لوگوں نے بیٹھ کر کھایا پیا اور اُٹھ کر کھیل کود میں لگ گئے۔“
ایک جگہ لکھا ہے کہ ہارون پر خدا کا عذاب آنے والا تھا:
”اور خداوند ہارون سے ایسا غصہ تھا کہ اسے ہلاک کرنا چاہا پر میں نے اُس وقت ہارون کے لیے بھی دعا کی۔ اور میں نے تمہارے گناہ کو یعنی اس بچھڑے کو جو تم نے بنایا تھا لے کر آگ میں جلایا۔ پھر اسے کوٹ کوٹ کر ایسا پیسا کہ وہ گرد کی مانند باریک ہو گیا اور اُس کی اُس راکھ کو ندی میں جو پہاڑ سے نکل کر نیچے بہتی تھی ڈال دیا۔“
(استثناء باب نمبر 9 آیت نمبر 21 – 22)
اسلام :
معاذ الله جو انبیاء کرام توحید کی دعوت دینے اور بت پرستی سے منع کرنے آئے تھے بائبل میں انھیں بت بنانے والا بتلایا جارہا ہے۔ حالانکہ بات اس کے برعکس ہے۔ چنانچہ جب موسی علیہ السلام باذن اللہ چالیس دنوں کے لیے کوہ طور پر چلے گئے تو شیطان نے بنی اسرائیل کو شرک میں مبتلا کر دیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ مصر کے دور غلامی میں غیر اللہ کی عبادت اور شرکیہ اعمال کے ایسے عادی بن گئے تھے کہ فرعون سے نجات حاصل کرنے کے بعد بھی جب بھی کوئی موقع میسر آتا تو فوراً ہی شرکیہ امور کی طرف لپکتے تھے جبھی تو انھوں نے کوہ سینا کی طرف آتے ہوئے راستہ میں ایک قوم کو بت پرستی کرتے دیکھا تو موسیٰ علیہ السلام سے مطالبہ کیا کہ ہمارے لیے بھی کوئی معبود بنا دو۔
اور جب موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے لگے تو شیطان کے بہکاوے میں آگئے اور اس بچھڑے کی پرستش شروع کر دی جو سامری نے قبطیوں کے زیورات سے ان کے لیے بنایا تھا۔ یہ زیورات بنی اسرائیل کے پاس عاریتہ آگئے تھے لیکن قبطیوں کے ہلاک ہونے کے بعد ان کے مالک بن گئے تھے۔ سامری نے اس بچھڑے میں وہ مٹی ڈال دی جو جبرائیل کے گھوڑے کے گھر کے نیچے سے اس نے لی تھی۔ چنانچہ سامری نے انھیں دھوکہ دیا اور کہا کہ یہی ہمارا وہ معبود ہے جس نے ہمیں فرعون سے نجات دلائی تھی ۔ چنانچہ اُن سب نے اس کی یہ بات مان لی، اور ہارون علیہ السلام کے لاکھ سمجھانے کے باوجود اس بچھڑے کی عبادت کرنے لگے۔
اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو اس بت پرستی کی خبر کوہ طور پر ہی دے دی تھی ۔ جب مدت پوری ہونے کے بعد واپس آئے تو مارے غصہ کے اللہ کی طرف سے دی گئی تختیوں کو زمین پر ڈال دیا، اور ہارون علیہ السلام کے سر کے بال پکڑ کر اپنی طرف کھینچنے لگے اور ان کی زجر و توبیخ کرنے لگے کہ آپ کے رہتے ہوئے ایسا کیوں ہوا؟ تو انھوں نے اپنی مجبوری بتائی کہ ان کی ہزار کوششوں کے باوجود بنی اسرائیل کے لوگ شرک پر جمے رہے، بلکہ ان کی سرکشی کا عالم یہ ہوگیا کہ قریب تھا سب مل کر مجھے قتل کر دیتے۔ جب موسی علیہ السلام کو ہارون علیہ السلام کی براءت کا یقین ہو گیا تو اللہ سے اپنی اور اپنے بھائی کی مغفرت کے لیے دعا کی:
وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَىٰ مِن بَعْدِهِ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهُ خُوَارٌ ۚ أَلَمْ يَرَوْا أَنَّهُ لَا يُكَلِّمُهُمْ وَلَا يَهْدِيهِمْ سَبِيلًا ۘ اتَّخَذُوهُ وَكَانُوا ظَالِمِينَ ﴿١٤٨﴾ وَلَمَّا سُقِطَ فِي أَيْدِيهِمْ وَرَأَوْا أَنَّهُمْ قَدْ ضَلُّوا قَالُوا لَئِن لَّمْ يَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَيَغْفِرْ لَنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴿١٤٩﴾ وَلَمَّا رَجَعَ مُوسَىٰ إِلَىٰ قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفًا قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُونِي مِن بَعْدِي ۖ أَعَجِلْتُمْ أَمْرَ رَبِّكُمْ ۖ وَأَلْقَى الْأَلْوَاحَ وَأَخَذَ بِرَأْسِ أَخِيهِ يَجُرُّهُ إِلَيْهِ ۚ قَالَ ابْنَ أُمَّ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي وَكَادُوا يَقْتُلُونَنِي فَلَا تُشْمِتْ بِيَ الْأَعْدَاءَ وَلَا تَجْعَلْنِي مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴿١٥٠﴾ قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِأَخِي وَأَدْخِلْنَا فِي رَحْمَتِكَ ۖ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ ﴿١٥١﴾
(7-الأعراف:148تا151)
”اور موسیٰ کی قوم نے ان کے کوہ طور پر چلے جانے کے بعد اپنے زیورات سے بچھڑے کا جسم بنایا جس سے ایک آواز نکلتی تھی ، کیا ان لوگوں نے غور نہیں کیا کہ وہ ان سے نہ باتیں کرتا ہے اور نہ ہی ان کی رہنمائی کرتا ہے، انھوں نے اسے اپنا معبود بنالیا، اور وہ سراسر ظالم تھے۔ اور جب وہ اپنے گناہ پر پشیمان ہوئے اور انھیں معلوم ہو گیا کہ وہ تو گمراہ ہو گئے، تو کہا کہ اگر ہمارے رب نے ہم پر رحم نہ کیا اور ہمیں معاف نہ کر دیا تو ہم یقینا خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔ اور جب موسیٰ اپنی قوم کی طرف غصہ کی حالت میں افسوس کرتے ہوئے واپس ہوئے ، تو کہا کہ تم لوگوں نے میرے جانے کے بعد میری بڑی بڑی نیابت کی ہے، اپنے رب کا حکم (تورات) آنے سے پہلے تم یہ حرکت کر بیٹھے، اور انھوں نے تختیوں کو ایک طرف ڈال دیا، اور اپنے بھائی کے سر کے بال پکڑ کر اپنی طرف کھینچنے لگے، ان کے بھائی نے کہا، اے میرے بھائی ! لوگوں نے مجھے کمزور سمجھ لیا تھا اور قریب تھا کہ مجھے قتل کر دیتے ، پس دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دو، اور مجھے ظالموں میں سے نہ بناؤ، موسیٰ نے کہا: اے میرے رب ! مجھے اور میرے بھائی کو معاف کر دے اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل کر دے، اور تو سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے۔“
سیدنا یعقوب علیہ السلام پر ایک وقت میں دوسگی بہنوں سے شادی کا الزام :
کتاب ”پیدائش“ باب نمبر 29 آیت نمبر 15 تا 30 میں ہے کہ :
”تب لابن نے یعقوب سے کہا چونکہ تو میرا رشتہ دار ہے تو کیا اس لیے لازم ہے کہ تو میری خدمت مفت کرے؟ سو مجھے بتا کہ تیری اجرت کیا ہوگی اور لابن کی دو بیٹیاں تھیں بڑی کا نام لیاہ اور چھوٹی کا نام راخل تھا۔ لیاہ کی آنکھیں چندھی تھیں پر راخل حسین اور خوبصورت تھی اور یعقوب راخل پر فریفتہ تھا۔ سو اس نے کہا کہ تیری چھوٹی بیٹی راخل کی خاطر میں سات برس تیری خدمت کروں گا۔ لابن نے کہا اسے غیر آدمی کو دینے کی جگہ تو تجھی کو دینا بہتر ہے۔ تو میرے پاس رہ۔ چنانچہ یعقوب سات برس تک راخل کی خاطر خدمت کرتا رہا پر وہ اسے راخل کی محبت کے سبب سے چند دنوں کے برابر معلوم ہوئے اور یعقوب نے لابن سے کہا کہ میری مدت پوری ہوگئی ۔ سو میری بیوی مجھے دے تاکہ میں اس کے پاس جاؤں تب لابن نے اس جگہ کے سب لوگوں کو بلا کر جمع کیا اور ان کی ضیافت کی اور جب شام ہوئی تو اپنی بیٹی لیاہ کو اس کے پاس لے آیا اور یعقوب اس سے ہم آغوش ہوا اور لابن نے اپنی لونڈی زلفہ اپنی بیٹی لیاہ کے ساتھ کر دی کہ اس کی لونڈی ہو۔ جب صبح کو معلوم ہوا کہ یہ تو لیاہ ہے تب اس نے لابن سے کہا کہ تو نے مجھ سے یہ کیا کیا؟ کیا میں نے جو تیری خدمت کی وہ راحل کی خاطر نہ تھی ؟ پھر تو نے کیوں مجھے دھوکہ دیا۔ لابن نے کہا ہمارے ملک میں یہ دستور نہیں کہ پہلوٹھی سے پہلے چھوٹی کو بیاہ دیں تو اس کا ہفتہ پورا کر دے پھر ہم دوسری بھی تجھے دے دیں گے جس کی خاطر تجھے سات برس اور میری خدمت کرنی ہوگی۔ یعقوب نے ایسا ہی کیا کہ لیاہ کا ہفتہ پورا کیا تب لابن نے اپنی بیٹی راخل بھی اسے بیاہ دی اور اپنی لونڈی بلہاہ اپنی بیٹی راخل کے ساتھ کردی کہ اس کی لونڈی ہو۔ سو وہ راخل سے بھی ہم آغوش ہوا اور وہ لیاہ سے زیادہ راحل کو چاہتا تھا اور سات برس اور ساتھ رہ کر لابن کی خدمت کی ۔“
اسلام میں ایک وقت میں دو سگی بہنوں سے شادی کرنا نا جائز وحرام ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اسلام:
وَأَن تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا
(4-النساء:23)
”اور دو بہنوں کو جمع کرنا ، الا یہ کہ جو ( عہد جاہلیت میں ) گزر چکا، بے شک اللہ مغفرت کرنے والا، بے حد رحم کرنے والا ہے۔ “
اور بائبل میں بھی دوسرے مقام پر دوسگی بہنوں کے ساتھ نکاح حرام قراردیا گیا ہے۔ جیسا کہ لکھا ہے:
”تو اپنی سالی سے بیاہ کر کے اسے اپنی بیوی کی سوکن نہ بنانا کہ دوسری جیتے جی اس کے بدن کو بھی بے پردہ کرے ۔ “
( احبار باب نمبر 18 آیت نمبر 18)
سیدنا یعقوب کے بیٹے یہوداہ کا اپنی ماں سے زنا کرنا:
کتاب ”پیدائش“ باب 35 آیت 22 میں ہے کہ:
”اور اسرائیل کے اس ملک میں رہتے ہوئے یوں ہوا کہ روبن(روبن یعقوب کا بڑا بیٹا تھا جو اس کی بیوی لیاہ سے پیدا ہوا۔) نے جا کر اپنے باپ کی حرم بلہاہ (بلہاہ یعقوب کی بیوی راخل کی لونڈی تھی اور جس سے یعقوب نے اپنی بیوی راخل کے کہنے پر شادی کر لی تھی اور اس سے دو بیٹے پیدا ہوئے تھے۔ جس کی تصریح کتاب ”پیدائش“ باب 30 آیت 1تا7 میں موجود ہے۔ ) سے مباشرت کی اور اسرائیل (اسرائیل یعقوب کا لقب تھا۔ دیکھئے: کتاب ”پیدائش“ باب 35 آیت 10) کو یہ معلوم ہو گیا ۔“
اسلام :
یہاں اس آیت کا بائیل سے پتا چلا کہ یعقوب علیہ السلام کے بیٹے نے اپنی ماں سے مباشرت کی اور یعقوب علیہ السلام کو پتا بھی چل گیا لیکن انھوں نے اپنے بیٹے روبن کو کسی قسم کی سرزنش نہ کی اور نہ ہی اپنی بیوی کو ۔ حالانکہ بظاہر اس شریعت کی رو سے زنا کی سزا آگ میں جلایا جائے ۔جیسا کہ لکھا ہے:
” اور قریباً تین مہینے کے بعد یہوداہ کو یہ خبر ملی کہ تیری بہو تمر نے زنا کیا اور اسے چھنالے کا حمل بھی ہے۔ یہوداہ نے کہا کہ اسے باہر نکال لاؤ کہ وہ جلائی جائے۔“
(”کتاب پیدائش“ باب 38 آیت 24)
فائدہ :
یہاں یہ علیحدہ بات ہے کہ یہوداہ نے اپنی بہو کو جلا یا نہیں۔ کیونکہ وہ زنا خود یہوداہ نے کیا تھا۔
اس کے علاوہ باپ کی بیوی سے مباشرت کرنے والے پر لعنت کی گئی ہے۔
جیسا کہ لکھا ہے کہ:
”لعنت اس پر جو اپنے باپ کی بیوی سے مباشرت کرے۔ کیونکہ وہ اپنے باپ کے دامن کو بے پردہ کرتا ہے اور سب لوگ کہیں آمین ۔“
(استثناء باب 27 آیت 20)
البتہ آخری وقت میں اپنے اس بیٹے کے لیے بددعا کرتے ہیں جس کی تصریح کتاب ”پیدائش“ باب 49 آیت 2 تا 4 میں موجود ہے، جیسا کہ لکھا ہے کہ:
”اے یعقوب کے بیٹو جمع ہوکر سنو اور اپنے اسرائیل کی طرف کان لگاؤ۔ اے رو بن تو میرا پہلوٹھا میری قوت اور میری شہزوری کا پہلا پھل ہے۔ تو میرے رعب کی اور میری طاقت کی شان ہے تو پانی کی طرح بے ثبات ہے۔ اس لیے تجھے فضیلت نہیں ملے گی کیونکہ تو اپنے باپ کے بستر پر چڑھا تو نے اسے نجس کیا۔ روبن میرے بچھونے پر چڑھ گیا۔ “
سیدنا داؤد علیہ السلام کا بت سبع سے زنا کرنا :
کتاب ”سموئیل“ دوم باب 11 آیت 2 تا 5 میں ہے کہ :
”اور شام کے وقت داؤد اپنے پلنگ پر سے اٹھ کر بادشاہی محل کی چھت پر ٹہلنے لگا اور چھت پر سے اس نے ایک عورت کو دیکھا جو نہا رہی تھی اور وہ عورت نہایت خوبصورت تھی ۔ تب داؤد نے لوگ بھیج کر اس عورت کا حال دریافت کیا اور کسی نے کہا کیا وہ العام کی بیٹی بت سبع نہیں جو حتی اور یاہ کی بیوی ہے اور داؤد نے لوگ بھیج کر اسے بلالیا۔ وہ اس کے پاس آئی اور اس نے اس سے صحبت کی (کیونکہ وہ اپنی ناپاکی سے پاک ہو چکی تھی ) پھر وہ اپنے گھر چلی گئی اور وہ عورت حاملہ ہوگئی۔ سو اس نے داؤد کے پاس خبر بھیجی کہ میں حاملہ ہوں۔“
اسلام :
بائبل کی تعلیم یہ ہے کہ سیدنا داؤد علیہ السلام زانی تھے، معاذ الله ! جبکہ قرآن کریم کی روشنی میں سید نا داؤد علیہ السلام بڑے نیک، پارسا، اللہ کے پیغمبر تھے۔ چھوٹی لغزش پر بھی اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ داؤد علیہ السلام کے پاس دو آدمی دروازے سے داخل ہونے کے بجائے دیوار پر چڑھ کر اس محراب میں داخل ہو گئے جس میں وہ اللہ کی عبادت کرتے تھے، ان دونوں کو اچانک اپنے سامنے دیکھ کر گھبرا گئے تو انھوں نے کہا کہ گھبرایئے نہیں، ہمارے درمیان جھگڑا ہے، ہم میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے، آپ کے پاس آئے ہیں تا کہ عدل و انصاف کے مطابق ہمارے درمیان فیصلہ کر دیجیے کسی پر زیادتی نہ کیجیےاور صحیح راستے کی طرف ہماری رہنمائی کیجیے۔ پھر وہ شخص جو اپنے آپ کو مظلوم سمجھتا تھا، کہنے لگا کہ میرے اس مسلمان بھائی کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں، اور میرے پاس صرف ایک دنبی ہے یہ کہتا ہے کہ تم مجھے اپنی دنبی دے دو تا کہ اپنی دنبی کے ساتھ اسے ملالوں، اور اپنی چرب زبانی کی وجہ سے مجھے پر غالب آکر دنبی لے لی ہے۔ سید نا داؤد علیہ السلام نے کہا : اس نے تمہاری دنبی مانگ کر تم پر زیادتی کی ہے، اس لیے نانوے دنبوں کے رہتے ہوئے تمہاری دنبی زبر دستی لینے کی اسے ضرورت نہیں تھی۔ مزید کہا کہ بہت سے شرکاء اسی طرح اخوت و صداقت کا پاس نہیں رکھتے ، اور زیادتی کر بیٹھتے ہیں۔ حالانکہ برادری کا تقاضا تو یہ ہے کہ اپنے بھائی کو اپنے آپ پر ترجیح دیں۔ البتہ جولوگ ایمان و تقویٰ والے ہوتے ہیں وہ ایسی زیادتی نہیں کرتے ہیں، اور ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔ دونوں کے واپس چلے جانے کے بعد داؤد علیہ السلام کے ذہن میں یہ بات آئی کہ یہ قضیہ اللہ کی طرف سے ان کا امتحان تھا، اس لیے اپنے رب سے مغفرت طلب کرنے لگے اور ان کے دل پر خشیت کا ایسا غلبہ ہوا کہ سجدے میں گر کر رونے لگے اور پوری طرح اپنے رب کی طرف متوجہ ہو گئے، تو اللہ نے انھیں معاف کردیا۔ مزید فرمایا کہ داؤد کو ہم سے بہت قربت تھی، اور وہ جنت میں اونچے درجات پر فائز ہوں گے۔
وَهَلْ أَتَاكَ نَبَأُ الْخَصْمِ إِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ ﴿٢١﴾ إِذْ دَخَلُوا عَلَىٰ دَاوُودَ فَفَزِعَ مِنْهُمْ ۖ قَالُوا لَا تَخَفْ ۖ خَصْمَانِ بَغَىٰ بَعْضُنَا عَلَىٰ بَعْضٍ فَاحْكُم بَيْنَنَا بِالْحَقِّ وَلَا تُشْطِطْ وَاهْدِنَا إِلَىٰ سَوَاءِ الصِّرَاطِ ﴿٢٢﴾ إِنَّ هَٰذَا أَخِي لَهُ تِسْعٌ وَتِسْعُونَ نَعْجَةً وَلِيَ نَعْجَةٌ وَاحِدَةٌ فَقَالَ أَكْفِلْنِيهَا وَعَزَّنِي فِي الْخِطَابِ ﴿٢٣﴾ قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ إِلَىٰ نِعَاجِهِ ۖ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْخُلَطَاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَقَلِيلٌ مَّا هُمْ ۗ وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ ﴿٢٤﴾ فَغَفَرْنَا لَهُ ذَٰلِكَ ۖ وَإِنَّ لَهُ عِندَنَا لَزُلْفَىٰ وَحُسْنَ مَآبٍ ﴿٢٥﴾
(38-ص:21تا25)
سیدنا سلیمان علیہ السلام کی والدہ زانیہ تھیں :
یادر ہے کہ بائبل کے مطابق یہی بت سبع جس سے داؤد نے زنا کیا حضرت سلیمان کی والدہ ہیں۔ جیسا کہ لکھا ہے کہ:
” پھر داؤد نے اپنی بیوی بت سبع کو تسلی دی اور اس کے پاس گیا اور اس سے صحبت کی اور اس کے ایک بیٹا ہوا اور داؤد نے اس کا نام سلیمان رکھا اور وہ خداوند کا پیارا ہوا۔ “
(کتاب سموئیل 2- باب 12 آیت 24)
اس کے علاوہ ”انجیل متی“ باب ا آیت 6 میں ہے کہ:
” اور داؤد سے سلیمان اس عورت سے پیدا ہوا جو پہلے اور یاہ کی بیوی تھی ۔“
اسلام :
یعنی نعوذ بالله سلیمان جیسے پیغمبر کی والدہ زانیہ تھیں ۔ حالانکہ پیغمبر کی عزت و ناموس بیوی زانیہ نہیں ہوئی، اور یہ ہرگز مناسب نہیں تھا کہ کسی نبی کی بیوی زانیہ ہوتی ۔ جیسا کہ بائبل نے بیان کیا ہے، نعوذ بالله !
الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ ۖ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ ۚ أُولَٰئِكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا يَقُولُونَ ۖ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ
(24-النور:26)
”خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے ہیں، پاک باز عورتیں پاک باز مردوں کے لیے اور پاک باز مرد پاک باز عورتوں کے لیے ہیں، وہ پاک باز مرد اور عورتیں، ان خبیث مردوں اور عورتوں کی بہتان تراشی سے بالکل ہی بری ہیں، ان کے لیے (اللہ کی) مغفرت اور عزت کی روزی ہے۔ “
سید نا داؤد علیہ السلام کی شان میں مزید گستاخی :
کتاب ”سلاطین اول“ باب آیت 1 تا 4 میں ہے کہ :
”اور داؤد بادشاہ بڈھا اور کہن سال ہوا اور وہ اسے کپڑے اڑھاتے پر وہ گرم نہ ہوتا تھا۔ سو اس کے خادموں نے اس سے کہا کہ ہمارے مالک بادشاہ کے لیے ایک جوان کنواری ڈھونڈی جائے جو بادشاہ کے حضور کھڑی رہے اور اس کی خبر گیری کیا کرے اور تیرے پہلو میں لیٹی رہا کرے تا کہ ہمارے مالک بادشاہ کو گرمی پہنچے۔ چنانچہ انھوں نے اسرائیل کی ساری مملکت میں ایک خوبصورت لڑکی تلاش کرتے کرتے شونمیت ابی شاگ کو پایا اور اسے بادشاہ کے پاس لائے اور وہ لڑکی بہت شکیل تھی۔ سو وہ بادشاہ کی خبر گیری اور اس کی خدمت کرنے لگی لیکن بادشاہ اس سے واقف نہ ہوا۔ “
اسلام :
زنا کی تہمت اور پھر ایک پیغمبر کی ذات اقدس پر بہت بڑی گستاخی ہے، بعض لوگوں نے نبی داؤد علیہ السلام کے متعلق ایک غلطی بیان کی ہے کہ ان کی ننانوے بیویاں تھیں، اور ایک آدمی کے پاس صرف ایک بیوی تھی جس پر داؤد علیہ السلام کی نگاہ پڑگئی ، اس کا شوہر میدان جنگ میں مارا گیا تو آپ نے اس عورت سے نکاح کر لیا۔ اس روایت میں حالانکہ صرف ایک نظر پڑ جانے کی وجہ سے اس سے نکاح کا ذکر ہے، مگر یہ بھی ان کی شان میں گستاخی ہے، کجا یہ کہ زنا کا ذکر کیا جائے۔
چنانچہ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ اپنی کتاب الفصل میں رقمطراز ہیں کہ یہ یہود و نصاریٰ کا قول ہے جو داؤد علیہ السلام پر سراسر بہتان ہے اور منصب رسالت کے بالکل خلاف ہے۔ پھر انھوں نے اس کی بھر پور تردید کی ہے۔ حافظ ابن حزم کے اس قول کی تائید حافظ ابن کثیر کے قول سے بھی ہوتی ہے، وہ لکھتے ہیں کہ مفسرین نے یہاں ایک قصہ بیان کیا ہے جس کا اکثر حصہ اسرائیلیات سے ماخوذ ہے۔ اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث بھی ثابت نہیں۔
سید نا داؤد علیہ السلام کی بیوی کا مہر 100 سو عضو تناسل کی کھالیں :
ساؤل بادشاہ کی بیٹی میکل جب داؤد کی بیوی بنی تو ساؤل نے جو دراصل داؤد کو مروانا چاہتا تھا، نے اپنی بیٹی کا مہر اپنے دشمن فلستیوں کے عضو تناسل کی سوکھلڑیاں (یعنی عضو تناسل کی کھالیں ۔ اس کے علاوہ ”کتاب پیدائش“ باب 17 آیت 10۔ میں بھی کھلڑی سے مراد عضوتناسل کی کھال ہے۔ جیسا کہ لکھا ہے کہ ”اور میر اعہد ہے جو میرے اور تیرے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ہے اور جسے تم مانو گے سو یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک فرزند نرینہ کا ختنہ کیا جائے اور تم اپنے بدن کی کھلڑی کا ختنہ کیا کرنا ۔ اور یہ اس عہد کا نشان ہوگا جو میرے اور تمہارے درمیان ہے۔ ) مقرر کیا۔ لیکن داؤد نے دوسو کھلڑیاں اسے لاکر دیں۔ جس کی تصریح ”سموئیل اول“ باب 18 آیت 25 تا 27 میں موجود ہے۔
جیسا کہ لکھا ہے:
”تب ساؤل نے کہا تم داؤد سے کہنا کہ بادشاہ مہر نہیں مانگتا۔ وہ فقط فلستیوں کی سو کھلڑیاں چاہتا ہے۔ تا کہ بادشاہ کے دشمنوں سے انتقام لیا جائے۔ ساؤل کا یہ ارادہ تھا کہ داؤد کو فلستیوں کے ہاتھ سے مروا ڈالے۔ جب اس کے خادموں نے یہ باتیں داؤد سے کہیں تو داؤد بادشاہ کا داماد بننے کو راضی ہو گیا اور ہنوز دن پورے بھی نہیں ہوئے تھے کہ داؤد اٹھا اور اپنے لوگوں کو لے کر گیا اور اور دوسوفلستی قتل کر ڈالے اور داؤد ان کی کھلڑیاں لایا اور انھوں نے ان کی پوری تعداد میں بادشاہ کو دیا تا کہ وہ بادشاہ کا داماد ہو اور ساؤل نے اپنی بیٹی میکل اسے بیاہ دی۔“
اسلام :
اسلام کی رو سے، دولت، سونا، چاندی، زمین اور دیگر چیزیں مہر تو دی جاسکتی ہیں، پر ایسے مہر کا نہ اسلام میں تصور ہے اور نہ عقل سلیم اس کو مانتی ہے۔ بائبل میں انبیاء علیہ السلام کی کردار کشی کے ایسے سینکڑوں واقعات موجود ہیں ۔
سید نا عیسی علیہ السلام کی نسبی تو ہین اور گستاخی :
”انجیل لوقا“ باب 3 آیت 23 تا 38 میں یسوع مسیح کے نسب کو نوح سے بھی ملایا گیا ہےیعنی نوح یسوع مسیح کے اجداد میں سے ہیں۔
عہد نامہ قدیم کی کتاب ” پیدائش“ کے باب 9 آیت 20۔21 میں لکھا ہے کہ :
” اور نوح کا شتکاری کرنے لگا اور اس نے ایک انگور کا باغ لگایا اور اس نے اس کی مے پی اور اسے نشہ آیا اور وہ اپنے ڈیرے میں برہنہ ہو گیا ۔“
یعنی نوح شرابی تھے اور ایک بار تو نشہ میں ایسے مست ہو گئے کہ اپنے کپڑے بھی اتار دیے۔ ”انجیل متی“ باب آیت 1 تا 16 میں یسوع مسیح کا نسب نامہ بیان کیا گیا ہے۔ جسے ہم یہاں مختصر بیان کریں گے۔
”یعقوب سے یہوداہ اور اس کے بھائی پیدا ہوئے اور یہوداہ سے فارص اور زراح تمر سے پیدا ہوئے اور اور سلمون سے بوعز را حب سے پیدا ہوا اور بوعز سے عوبید روت سے پیدا ہوا اور عوبید سے یسی پیدا ہوا اور میسی سے داؤ د بادشاہ پیدا ہوا اور داؤد سے سلیمان اس عورت سے پیدا ہوا جو پہلے اور یاہ کی بیوی تھی اور سلیمان سے رجعام پیدا ہوا اور یعقوب سے یوسف پیدا ہوا۔ یہ اس مریم کا شوہر تھا جس سے یسوع پیدا ہوا جو مسیح کہلاتا ہے۔“
یعقوب نے ایک وقت میں دو بہنوں سے بیاہ کیا۔ جن میں ایک کا نام لیاہ اور دوسری کا نام راخل تھا۔ حالانکہ ”کتاب احبار“ باب 18 آیت 18 میں ایک وقت میں دو بہنوں سے شادی کرنے سے منع کیا ہے۔ لہذا زنا کا ارتکاب لازم آئے گا۔ یہوداہ جو کہ یسوع مسیح کے اجداد میں سے ہیں ۔ وہ لیاہ کی اولاد ہیں۔
اسی طرح یعقوب پر زنا کا الزام آتا ہے اور یہوداہ پر زنا کی پیداوار کا الزام لازم آتا ہے۔ غور فرما ئیں اس نبی کی کردار کشی پر ۔ یہوداہ نے اپنی بہوتمر سے زنا کیا اور فارص اور زارح پیدا ہوئے۔
(تفصیل کے لیے ”کتاب پیدائش“ باب 38 آیت 6 تا 30 دیکھیں۔)
جس کی تفصیل پہلے گزرچکی ہے۔ حالانکہ شریعت میں بہو سے صحبت کرنے پر دونوں کو قتل کرنے کا حکم ہے۔
(”احبار“ باب 20 آیت ۔ 12)
لہذا زنا کا ارتکاب لازم آئے گا لہذا یہوداہ زانی قرار پاتے ہیں اور فارص اور زارح دونوں زنا کی پیداوار اور فارص یسوع مسیح کے اجداد میں سے ہیں۔
بوعز بھی یسوع مسیح کے اجداد میں سے ہیں اور بوعز کی ماں کا نام را حب تھا جو کہ ایک کسبی (فاحشہ جسم فروش طوائف۔ ) عورت تھی جس کی تصریح کتاب ”یشوع“ باب 2 آیت 1 میں موجود ہے۔ جیسا کہ لکھا ہے کہ:
تب نون کے بیٹے یشوع نے شیطم سے دو مردوں کو چپکے سے جاسوس کے طور پر بھیجا اور ان سے کہا کہ جا کر اس ملک کو اور پر یحو کو دیکھو بھالو۔ چنانچہ وہ روانہ ہوئے اور ایک کسی کے گھر میں جس کا نام را حب تھا آئے اور وہیں سوئے۔
اس کے علاوہ اسی کتاب ”یشوع “باب 6 آیت 25 میں بھی اس کی تصریح موجود ہے۔ یعنی بوعز جو کہ یسوع مسیح کے اجداد میں سے ہیں ایک فاحشہ جسم فروش کے بیٹے تھے۔
عوبید کی ماں رُوت شادی سے پہلے بوعز کے ساتھ رات بھر لیٹی رہی۔
(کتاب روت باب 3 آیت 7۔ )
پھر بعد میں دونوں کی شادی ہو جاتی ہے حالانکہ شادی سے پہلے وہ اسے بیٹی بھی کہتا تھا۔
(کتاب روت باب 2 آیت 8 اور باب 3 آیت 10۔ )
اور پھر عوبید پیدا ہوا۔ جس کی ”تصریح روت “ باب 4 آیت 17میں موجود ہے کہ :
” سوانھوں نے اس کا نام عوبید رکھا۔ وہ یسی کا باپ تھا جو داؤد کا باپ ہے۔ “
عوبید بھی یسوع مسیح کے اجداد میں سے ہیں ۔
داؤد نے اپنی فوج کے جرنیل حتی اور یاہ کی بیوی بت سبع کو اپنے محل کی چھت سے ننگے نہاتے ہوئے دیکھ لیا تھا سو داؤد نے اپنے پاس بلوالیا اور اس سے زنا کیا اور پھر بعد میں اس کے شوہر کو دھو کے سے قتل کرا دیا اور پھر اسی عورت سے سلیمان پیدا ہوا۔
متی کی انجیل کے مطابق یسوع مسیح سلیمان بن داؤد کی نسل سے ہیں۔
(انجیل متی باب آیت 1 تا 16 ۔ )
اسلام :
بائبل کی ان روایات کی روشنی میں داؤد علیہ السلام زانی ہیں، بت سبع زانیہ اور سلیمان علیہ السلام ان کی اولاد۔ معاذ الله
یہ ہے یسوع مسیح علیہ السلام کا نسب نامہ جو کہ بزعم نصاری اللہ کا بیٹا ہے۔ یہ اختلاف انجیل متی اور لوقا کی روشنی میں اکیس تک پہنچ جاتے ہیں۔
قرآن مجید کی روشنی میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام روح اللہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے بذریعہ جبریل علیہ السلام کے رحم میں عیسی علیہ السلام کی روح پھونک دی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ التحریم آیت (12) میں ارشاد فرمایا:
وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِن رُّوحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمَاتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهِ وَكَانَتْ مِنَ الْقَانِتِينَ
(66-التحريم:12)
”اور مریم بنت عمران کی مثال دی ہے جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی تو ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی، اور مریم نے اپنے رب کی شریعت اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی، اور وہ طاعت گزار بندوں میں سے تھی ۔ “
اور سورۃ الانبیاء میں ارشاد فرمایا:
وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهَا مِن رُّوحِنَا وَجَعَلْنَاهَا وَابْنَهَا آيَةً لِّلْعَالَمِينَ
(21-الأنبياء:91)
” اور وہ عورت جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی تو ہم نے اس کے بطن سے اپنی روح کو پھونک کے ذریعہ پہنچا دیا، اور اسے اور اس کے بیٹے کو جہان والوں کے لیے نشانی بنادی ۔ “
جب مریم علیہ السلام اپنے بچے عیسی علیہ السلام کو گود میں اٹھائے اپنی قوم کے پاس آئیں ۔ لوگوں نے ان کی گود میں بچہ دیکھ کر غم و حیرت سے ملے جلے جذبہ کا اظہار کیا، کیونکہ مریم بہت ہی بڑے خاندان کی بیٹی تھیں ۔ لوگوں نے ان پر نکیر کرتے ہوئے کہا، اے مریم! تو نے بہت برا کیا ہے کہ نا جائز بچہ اٹھائے چلی آرہی ہو۔ مزید ڈانٹتے ہوئے کہا، اے ہارون کی بہن! تیرا باپ تو کوئی بد کار آدمی نہ تھا اور نہ تیری ماں زانیہ عورت تھی۔ یعنی مراد موسی علیہ السلام کے بھائی ہارون ہیں، اس لیے کہ مریم ان ہی کی نسل سے تھیں یا اس لیے کہ لوگ مریم کو ہارون علیہ السلام کی طرح عابدہ اور صالحہ سمجھتے تھے، اسی لیے ان کا نام لے کر انھیں عار دلایا۔
سیدہ مریم علیہ السلام نے بچے کی طرف اشارہ کر کے لوگوں سے کہا کہ اس سے پوچھ لو، تو لوگوں نے کہا کہ ہم لوگ گود کے بچہ سے کیسے بات کریں؟ عیسی علیہ السلام ان کی بات سن کر بول پڑے، اور کہا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے ازل میں فیصلہ کیا ہے کہ وہ انجیل دے گا اور مجھے نبی بنائے گا اور میں جہاں بھی رہوں گا اس نے مجھے صاحب خیر و برکت اور صاحب دعوت بنایا ہے، میں اپنے رب کا پیغام لوگوں تک پہنچاتا رہوں گا۔
فَأَتَتْ بِهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ ۖ قَالُوا يَا مَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا ﴿٢٧﴾ يَا أُخْتَ هَارُونَ مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا كَانَتْ أُمُّكِ بَغِيًّا ﴿٢٨﴾ فَأَشَارَتْ إِلَيْهِ ۖ قَالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَن كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا ﴿٢٩﴾ قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا ﴿٣٠﴾ وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا ﴿٣١﴾ وَبَرًّا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيًّا ﴿٣٢﴾ وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا ﴿٣٣﴾
(19-مريم:27تا33)
مفسرین لکھتے ہیں کہ جب عیسی علیہ السلام نے پہلی مرتبہ بات کی تو اپنے آپ کو اللہ کا بندہ بتایا، اور اس کا بیٹا ہونے کا انکار کیا۔
عیسی علیہ السلام کا اپنے حواری پطرس کو شیطان کہنا:
کتاب ”انجیل متی“ باب 16 آیت 21 تا 23 میں ہے کہ :
”اس وقت سے یسوع اپنے شاگردوں پر ظاہر کرنے لگا کہ اسے ضرور ہے کہ یروشلم کو جائے اور بزرگوں اور سردار کاہنوں اور فقیہوں کی طرف سے بہت دکھ اٹھائے اور قتل کیا جائے اور تیسرے دن جی اٹھے۔ اس پر پطرس اس کو الگ لے جا کر ملامت کرنے لگا کہ اے خداوند خدا نہ کرے۔ یہ تجھ پر ہرگز نہیں آنے کا۔ اس نے پھر کر پطرس سے کہا اے شیطان میرے سامنے سے دور ہو تو میرے لیے ٹھوکر کا باعث ہے کیونکہ تو خدا کی باتوں کا نہیں بلکہ آدمیوں کی باتوں کا خیال رکھتا ہے۔ “
سمجھ میں نہیں آتا کہ کبھی یسوع مسیح کا حواری (شاگرد) یسوع پر لعنت و ملامت کرتا ہے اور کہیں یسوع اپنے شاگر د پطرس کو شیطان کہہ رہے ہیں۔ حالانکہ پطرس کا شمار یسوع کے بارہ شاگردوں میں ہوتا ہے اور یہ بارہ شاگرد یسوع کی آمد ثانی کے وقت میں بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کا انصار کریں گے جس کی تصریح انجی لمتی باب 19 آیت 28 میں موجود ہے۔
جیسا کہ لکھا ہے:
”یسوع نے ان سے کہا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب ابن آدم نئی پیدائش میں اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا تو تم بھی جو میرے پیچھے ہو لیے ہو بارہ تختوں پر بیٹھ کر اسرائیل کے بارہ قبیلوں کا انصاف کرو گے۔“
گویا ان بارہ شاگردوں (حواریوں) کے حق میں کامیابی اور نجات کی گواہی دی جارہی ہے۔ جن میں پطرس بھی شامل ہے۔ گویا یسوع کے نزدیک کامل ترین اور کامیاب بس یہی لوگ تھے۔ جنھیں یسوع نے بشارت دی اور ان کا حال یہ ہے کہ یسوع کی گرفتاری کے وقت یسوع کا ساتھی ہونے سے ہی انکار کر دیا اور یسوع پر لعنت و ملامت تک کی اور درجہ بالا عبارت میں یسوع پطرس کو شیطان کہہ کر دھتکار رہے ہیں ۔ کامیابی اور نجات کا کیا اعلیٰ معیار ہے۔
پطرس حواری کا یسوع مسیح پر لعنت کرنا :
کتاب ”انجیل متی“ باب 26 آیت 57 تا 58 میں لکھا ہے کہ:
”اور یسوع کے پکڑنے والے اس کو کائفا نام سردار کا ہن کے پاس لے گئے جہاں فقیہ اور بزرگ جمع ہو گئے تھے اور پطرس دور دور اس کے پیچھے پیچھے سردار کاہن کے دیوان خانہ تک گیا اور اندر جا کر پیادوں کے ساتھ نتیجہ دیکھنے کو بیٹھ گیا۔ “
پھر اسی کتاب ”انجیل متی“ باب 26 آیت 69 تا 74 میں لکھا ہے کہ :
”اور پطرس باہر صحن میں بیٹھا تھا کہ ایک لونڈی نے اس کے پاس آ کر کہا تو بھی یسوع گلیلی کے ساتھ تھا۔ اس نے سب کے سامنے یہ کہہ کر انکار کیا کہ میں نہیں جانتا تو کیا کہتی ہے اور جب وہ ڈیوڑھی میں چلا گیا تو دوسری نے اسے دیکھا اور جو وہاں تھے ان سے کہا یہ بھی یسوع ناصری کے ساتھ تھا۔ اس نے قسم کھا کر پھر انکار کیا کہ میں اس آدمی کو نہیں جانتا۔ تھوڑی دیر کے بعد جو وہاں کھڑے تھے انھوں نے پطرس کے پاس آ کر کہا بے شک تو بھی ان میں سے ہے کیونکہ تیری بولی سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ اس پر وہ لعنت کرنے اور قسم کھانے لگا کہ میں اس آدمی کو نہیں جانتا اور فی الفور مرغ نے بانگ دی۔“
اسلام :
اب ایک طرف تو پطرس کو کامیابی اور نجات کی گارنٹی دی جارہی ہے تو دوسری طرف اسے شیطان کہہ کر دھتکارا جا رہا ہے۔ جب کامل ترین شاگردوں کے ایمان اور کردار کی یہ حالت ہے تو پھر باقی قوم کے ایمان کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔
ذراغور کیجیے کہ جب یہودی یسوع کو پکڑ کر سردار کاہن کی عدالت میں لے جاتے ہیں تا کہ یسوع کو سزا دلوائیں تو یہی پطرس جس کا شمار یسوع مسیح کے بارہ حواریوں میں ہوتا ہے یہ بھی سردار کاہن کے دیوان خانہ تک جاتے ہیں تا کہ عدالت کا فیصلہ سن سکے۔ لیکن افسوس کہ جب یہودی پطرس کو پہچان کر اس سے پوچھتے ہیں کہ کیا تو بھی یسوع کا ساتھی ہے تو وہ انکار کر دیتا ہے کہ میرا یسوع سے کوئی تعلق نہیں ہے اور پھر دوبارہ پوچھنے پر وہ قسم کھا کر انکار بھی کرتا ہے اور یسوع مسیح پر لعنت بھی کرتا ہے۔ افسوس کہ اتنے قریبی حواری کا یسوع سے محبت وعقیدت کا یہ حال ہے تو باقی قوم کی عقیدت محبت اور ایمان کا آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت و محبت کی مثال دینے سے دنیا ہمیشہ قاصر رہے گی۔ اللہ کی قسم ! ان کی عقیدت و محبت کے واقعات سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ مزید برآں قرآن مجید کی رو سے عیسی علیہ السلام کے حواریوں نے ان کی آواز پر لبیک کہا، دعوت الی اللہ کے کام میں ان کا ساتھ دیا، اور اُن سے اپنی جانوں کی قربانی دینے کا وعدہ کیا، اسی طرح وہ بھی اللہ اور اس کے رسول کا ہر طرح کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنصَارَ اللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللَّهِ ۖ فَآمَنَت طَّائِفَةٌ مِّن بَنِي إِسْرَائِيلَ وَكَفَرَت طَّائِفَةٌ ۖ فَأَيَّدْنَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَىٰ عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُوا ظَاهِرِينَ
(61-الصف:14)
”اے ایمان والو! اللہ کے مددگار بن جاؤ ، جیسا کہ عیسی بن مریم نے حواریوں سے کہا کہ دعوت الی اللہ کی راہ میں میری کون مدد کرے گا، حواریوں نے کہا، ہم اللہ کے دین کی مدد کرنے والے ہیں، پس بنی اسرائیل کی ایک جماعت ایمان لے آئی اور دوسری جماعت کافر ہوگئی ، تو ہم نے ایمان والوں کی اُن کے دشمنوں کے مقابلہ میں مدد کی ، پس وہ غالب ہو گئے۔“
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
” کہ جب حواریوں نے عیسی علیہ السلام سے کہا کہ آپ کی دعوت لوگوں تک پہنچانے کے لیے ہم آپ کی مدد کریں گے تو انھوں نے انھیں اسرائیلیوں اور یونانیوں کے پاس دعوت توحید کے ساتھ بھیجا۔
( تفسیر ابن کثیر، تحت الآیة )
قارئین کرام ! اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اسلام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہم گوشوں کو واضح کر دیا گیا ہے، اس کے امتیازات کو بیان کر دیا گیا ہے کہ اسلام ہی انسانیت کا حل ہے اور اس کے مقابلے میں ادیان و فرق اور خاص کر عیسائیت کے خود ساختہ عقائد اور نا پائیدار دستور میں تغیر و تبدل کو بھی بیان کر دیا گیا ہے، جو کہ اس کے نقص کی دلیل ہے جس کی بناء پر وہ تمام بنی نوع انسان کے لیے قابل عمل نہیں ہو سکتا۔
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد و آله صحبه وسلم