عید کے دن مبارک باد دینا اور مصافحہ و معانقہ: شرعی رہنمائی
سوال
عید کے دن ایک دوسرے کو مبارک باد دینا اور نماز کے بعد معانقہ و مصافحہ کرنا کیسا ہے؟ اس بارے میں واضح رہنمائی درکار ہے۔ جزاکم اللہ خیراً۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
➊ نبی کریم ﷺ کا طریقہ اور بدعت کا مفہوم
ہمیں جاننا چاہیے کہ سب سے بہتر طریقہ طریقہ محمدی ﷺ ہے۔
عید کے دن مصافحہ، معانقہ اور مبارکباد دینا نبی اکرم ﷺ کا معمول نہ تھا۔
ہمارے معاشروں میں جو یہ طریقہ عام ہو گیا ہے، یہ بدعت کے زمرے میں آتا ہے۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
"من عمل عملاً ليس عليه أمرنا فهو رد”
ہر وہ عمل جس پر ہمارا امر نہیں وہ مردود ہے
(صحیح مسلم)
➋ صحابہ کرامؓ کا معمول: "تقبل الله منا ومنكم”
الجوهر النقى (3/319) باب قول الناس في العيد تقبل الله منا ومنك میں محمد بن زیادؒ کی روایت ہے:
وہ کہتے ہیں: "میں ابو امامہ باہلیؓ اور دیگر صحابہؓ کے ساتھ تھا، جب وہ عید کی نماز کے بعد واپس آتے تو ایک دوسرے کو کہتے:
"تقبل الله منا ومنكم”
اللہ تعالی ہم سے بھی قبول کرے اور آپ سے بھی۔
(اللہ تعالیٰ ہم سے اور آپ سے قبول فرمائے)
➌ امام احمد بن حنبلؒ کا موقف
امام احمد بن حنبلؒ نے اس روایت کی سند کو عمدہ کہا۔
امام بیہقیؒ نے بھی اپنی سنن میں اس مضمون کی ضعیف حدیثیں ذکر کی ہیں۔
ہیثمیؒ نے مجمع الزوائد (2/206) باب التهنئة بالعيد میں ایک حدیث ذکر کی اور اس کی سند کو ضعیف کہا ہے۔
امام ابن قدامہؒ نے المغنی (2/250) میں نقل کیا:
امام احمدؒ فرماتے ہیں:
"اگر کوئی شخص دوسرے کو عید کے دن ‘تقبل الله منا ومنكم’ کہے تو اس میں کوئی حرج نہیں”
➍ حربؒ کی روایت اور امام احمدؒ سے سوال و جواب
حربؒ کہتے ہیں: امام احمدؒ سے پوچھا گیا:
عیدین میں لوگوں کا ‘تقبل الله منا ومنكم’ کہنا کیسا ہے؟
امام احمدؒ نے فرمایا:
"کوئی حرج نہیں”
مزید کہا گیا: کیا واثلہ بن اسقعؓ سے بھی یہ منقول ہے؟
فرمایا: "ہاں”
پوچھا گیا: کیا یہ کہنا مکروہ ہے؟
فرمایا:
"نہیں”
➎ ابن عقیلؒ کی روایت اور اہل مدینہ کا عمل
ابن عقیلؒ نے عید کی مبارک باد سے متعلق احادیث ذکر کی ہیں۔
ان میں محمد بن زیاد کی روایت بھی شامل ہے، جس میں ذکر ہے:
"میں ابو امامہ الباہلیؓ اور دیگر صحابہؓ کے ساتھ تھا، جب وہ عید کے بعد واپس ہوتے تو کہتے ‘تقبل الله منا ومنك’”
امام احمدؒ اس حدیث کی سند کو جید قرار دیتے ہیں۔
علی بن ثابت کہتے ہیں:
میں نے امام مالک بن انسؒ سے پینتیس سال تک یہ پوچھا:
وہ فرماتے تھے:
"یہ عمل مدینہ میں معروف ہے”
➏ مبارک باد کی ابتدا: امام احمدؒ کا رویہ
امام احمدؒ سے روایت ہے:
وہ کہتے تھے:
"میں کسی کو ابتداءً نہیں کہوں گا، لیکن اگر کوئی مجھے کہے تو جواب دوں گا”
➐ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ کا فتویٰ
ان سے پوچھا گیا:
"عید کی مبارک باد، جیسے ‘عید مبارک’ کہنا، کیا شریعت میں اس کی اصل ہے؟”
جواب میں فرمایا:
عید کے دن مبارکباد کے طور پر نماز عید کے بعد ملاقات کے وقت:
"تقبل الله منا ومنكم”
(اللہ تعالیٰ ہم سے اور آپ سے قبول فرمائے)
یا
"أحاله الله عليك”
(اللہ تعالیٰ اسے تم پر دوبارہ لائے)
یہ بعض صحابہؓ سے منقول ہے۔
امام احمدؒ جیسے فقہاء نے اس کی رخصت دی ہے۔
امام احمدؒ کہتے تھے:
"میں ابتدا نہیں کروں گا، اگر کسی نے مجھ سے کہا تو میں جواب دوں گا کیونکہ جواب دینا فرض ہے، جبکہ ابتدا کرنا سنت نہیں، نہ اس سے روکا گیا ہے”
فرمایا:
"کرنے والے کے بھی مقتدا ہیں اور چھوڑنے والے کے بھی مقتدا”
➑ معانقہ اور مسجد میں شور مچانے کا حکم
آخر میں مصنف لکھتے ہیں:
"میں کہتا ہوں: مسجد میں شور مچانا اور معانقہ کرنا جبکہ وہیں اکھٹے رہنے والے ہوں، تو یہ بدعت و معصیت ہے، اس سے اجتناب ضروری ہے”
❀ ماحصل:
عید کے دن "تقبل الله منا ومنكم” کہنا صحابہؓ سے منقول ہے اور علما نے اس کی اجازت دی ہے۔
مصافحہ اور معانقہ کا باقاعدہ رواج، جیسا کہ ہمارے ہاں ہے، بدعت شمار ہوتا ہے۔
ابتدا نہ کرنا بہتر ہے، لیکن اگر کوئی کہے تو جواب دینا درست ہے۔
مساجد میں شور اور غیر ضروری معانقہ و ازدحام قابلِ اجتناب ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب