عید اور جمعہ کے اجتماع کی صورت میں جمعہ کی رخصت
تحریر: عمران ایوب لاہوری

اور عید کے دن جمعہ (آجائے تو اس) کی رخصت ہے

➊ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
ان النبى صلى الله عليه وسلم صلى العيد فى يوم جمعة ثم رخص من الجمعة فقال من شاء أن يجمع فليجمع
”بلاشبه نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بروز جمعہ نماز عید پڑھائی پھر جمعہ کی رخصت دیتے ہوئے فرمایا کہ جو جمعہ بھی پڑھنا چاہے وہ پڑھ لے ۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 945 ، كتاب الصلاة: باب إذا وافق يوم الجمعة يوم عید ، أحمد: 372 ، أبو داود: 1070 ، ابن ماجة: 131 ، نسائي: 1591 ، حاكم: 288/1 ، بيهقي: 417/3]
➋ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قد اجتمع فى يومكم هذا عيدان فمن شاء أجزأه من الجمعة وإنا مجمعون
”يقيناً تمہارے اس دن میں دو عیدیں اکٹھی ہو گئی ہیں پس جو چاہے اسے (نماز عید ہی) نمازِ جمعہ سے کفایت کر جائے گی لیکن ہم تو جمعہ ادا کریں گے ۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 948 أيضا ، أبو داود: 1073 ، ابن ماجة: 1311 ، بيهقي: 318/3]
یاد رہے کہ انا مجمعون سے یہ مراد نہیں ہے کہ یہ رخصت محض عوام کے لیے ہے امام کے لیے نہیں بلکہ یہاں صرف یہی منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رخصت نہیں بلکہ عزیمت کو اختیار کیا اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ رخصت موجود ہی نہیں تھی جیسا کہ اس کی وضاحت اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے جس میں ہے کہ حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں نماز عید پڑھائی لیکن نماز جمعہ نہیں پڑھائی بلکہ لوگ انتظار ہی کرتے رہے حتٰی کہ انہوں نے اکیلے نماز پڑھ لی۔ پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو جب اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ :
أصاب السنة
”ابن زبیر رضی اللہ عنہ سنت کو پہنچ گئے ہیں ۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 946 أيضا ، أبو داود: 1071 ، نسائي: 194/3]
(ابن حزمؒ ) عید بھی پڑھی جائے اور جمعہ بھی کیونکہ جمعہ فرض ہے اور عید نفل اور نفل فرض کو ساقط نہیں کر سکتے ۔
[المحلى بالآثار: 303/3 – 304]یہ قول گذشته صحیح احادیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے درست نہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1