رفع الیدین اور عیدین کی تکبیرات
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ عیدین کی تکبیرات کے دوران رفع الیدین کرتے تھے، جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتے اور ‘اللہ اکبر’ کہتے۔ پھر رکوع کا ارادہ کرتے تو بھی دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک بلند فرماتے اور اسی حالت میں ‘اللہ اکبر’ کہتے۔ رکوع فرماتے، پھر جب رکوع سے سر اٹھاتے، تو بھی ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھاتے اور ‘سمع اللہ لمن حمدہ’ کہتے۔ سجدہ کرتے وقت رفع الیدین نہ فرماتے، لیکن ہر رکوع اور رکوع سے پہلے ہر تکبیر پر رفع الیدین فرماتے، حتی کہ نماز مکمل ہو جاتی تھی۔”
(سنن أبي داوٗد: 722، المنتقٰی لابن الجارود: 178، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر رکوع سے پہلے کہی جانے والی تکبیرات پر رفع الیدین کیا کرتے تھے۔ چونکہ عیدین کی تکبیرات بھی رکوع سے پہلے ہوتی ہیں، اس لیے ان میں بھی رفع الیدین کرنا سنت نبوی سے ثابت ہے۔
ائمہ حدیث کا مؤقف
ائمہ حدیث نے بھی اس حدیث کو تکبیراتِ عیدین میں رفع الیدین پر دلیل بنایا ہے:
امام شافعی رحمہ اللہ (204-150ھ) فرماتے ہیں: "نماز جنازہ اور عیدین کی ہر تکبیر پر رفع الیدین کیا جائے گا، حدیثِ نبوی کی بنا پر اور قیاس کرتے ہوئے کہ قیام کی تکبیر پر رفع الیدین کیا جاتا ہے۔”
(الأمّ: 127/1)
امام ابن منذر رحمہ اللہ (319-242ھ) فرماتے ہیں: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام کی ہر تکبیر پر رفع الیدین کا حکم دیا ہے اور عیدین و جنازہ کی تکبیرات بھی قیام میں ہوتی ہیں، لہٰذا ان میں رفع الیدین ثابت ہے۔”
(الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف: 428/5)
نیز مزید فرماتے ہیں: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز شروع کرتے وقت، رکوع جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرنے کو سنت بنایا ہے۔ یہ تمام صورتیں قیام کی حالت میں تکبیر کی ہیں، لہٰذا جو بھی قیام کی حالت میں تکبیر کہے، وہ سنت نبوی کے مطابق رفع الیدین کرے گا۔”
(الأوسط: 282/4)
امام بیہقی رحمہ اللہ (458-384ھ) نے مذکورہ بالا حدیث پر ایک باب باندھا:
"باب رفع الیدین فی تکبیر العید” یعنی "عید کی تکبیرات میں رفع الیدین کا بیان”
(السنن الکبرٰی: 411/3)
مختلف ائمہ کے اقوال
امام اوزاعی رحمہ اللہ (م: 157ھ) سے جب عیدین کی تکبیرات میں رفع الیدین کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا:
"ہاں، تمام تکبیرات کے ساتھ رفع الیدین کرو۔”
(أحکام العیدین للفریابی: 136، وسندہٗ صحیحٌ)
امام مالک رحمہ اللہ (179-93ھ) سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:
"ہاں، ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرو، اور میں نے اس میں کوئی اختلاف نہیں سنا۔”
(أحکام العیدین للفریابی: 137، وسندہٗ صحیحٌ)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (241-164ھ) فرماتے ہیں:
"ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کیا جائے گا۔”
(مسائل الإمام أحمد بروایۃ أبي داوٗد: 87)
امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ (238-161ھ) کا بھی یہی موقف ہے۔
(مسائل الإمام أحمد وإسحاق: 4054/8، م: 2890)
احناف کا موقف
احناف مقلدین بھی عیدین کی زائد تکبیروں میں رفع الیدین کے قائل ہیں، لیکن ان کی دلیل امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کی طرف منسوب ایک ضعیف قول ہے:
"سات مواقع پر رفع الیدین کیا جائے گا: نماز کے شروع میں، وتروں میں قنوت کی تکبیرات میں، عیدین میں…”
(شرح معاني الآثار للطحاوي: 178/2)
یہ قول ضعیف ہے کیونکہ:
اس کے راوی شعیب بن سلیمان بن سلیم کیسانی کی توثیق نہیں مل سکی۔
اس کا دوسرا راوی قاضی ابو یوسف، جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"محدثین نے اسے ترک کر دیا تھا۔”
(التاریخ الکبیر: 397/8، ت: 3463)
اس کے تیسرے راوی نعمان بن ثابت باتفاق محدثین ضعیف ہیں۔
نتیجہ
احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رکوع اور رکوع سے پہلے تکبیر پر رفع الیدین کرتے تھے۔ عیدین کی تکبیرات جو کہ رکوع سے پہلے ہوتی ہیں، ان میں بھی رفع الیدین سنت نبوی سے ثابت ہے۔ احناف کے پاس اس کے برعکس کوئی مضبوط دلیل نہیں ہے۔ اگر وہ حدیث پر عمل کریں تو رکوع جاتے اور سر اٹھاتے وقت رفع الیدین بھی ان پر واجب ہو جائے گا، جس سے وہ خود کو دور رکھتے ہیں۔ الحمد للہ، اہل حدیث ہر حدیث کے ایک ایک جز پر عمل کرتے ہیں۔
اس کے برعکس، احناف ایک طرف رکوع جاتے اور سر اٹھاتے وقت کے رفع الیدین کو ترک کرتے ہیں، تو دوسری طرف عیدین کی زائد تکبیرات میں رفع الیدین کے قائل ہیں اور جنازے کی تکبیرات میں رفع الیدین کے قائل نہیں ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں تمام عبادات میں سنتِ رسول کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!