عہدِ الست کیا ہے؟
عہدِ الست کا مفہوم قرآن مجید کی سورہ الاعراف کی آیت نمبر 172 سے اخذ کیا جاتا ہے، جہاں اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کے وقت ان کی روحوں سے یہ سوال کیا:
"اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ” (کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا: کیوں نہیں؟)
یہ وہ عہد ہے جو ہر انسان کی روح نے اپنی تخلیق کے وقت اللہ تعالیٰ سے کیا۔ یہ اقرار انسان کے وجود کا حصہ بن گیا اور اس کی روح میں "بائے ڈیفالٹ” (by default) نصب کر دیا گیا۔
عہدِ الست اور انسانی شعور
یادداشت کا معاملہ:
یہ عہد کوئی ایسا واقعہ نہیں جو انسان کی ظاہری یادداشت سے جُڑا ہو یا کسی خارجی علم پر منحصر ہو۔ بلکہ یہ انسانی وجود کا لازمی حصہ ہے۔
انسانی وجود کا دائمی حال:
یہ شعور کہ "میں کسی خالق کی مخلوق ہوں”، انسان کی تخلیق کے ساتھ جُڑا ہوا ہے۔ اسے محو یا ختم نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ یہ انسان کے قلب و شعور کا لازمی پہلو ہے۔
خالق کے شعور کی موجودگی:
قرآن اس حقیقت کی وضاحت کرتا ہے کہ انسان کے دل میں خالق کے وجود کا شعور ایک ازلی حقیقت ہے، جو عہدِ الست کی بازگشت ہے۔
مذہب اور عہدِ الست کا مقدمہ
- مذہب کے مطابق، عہدِ الست کی حقیقت انسان کے قلب و شعور میں ہمیشہ موجود رہتی ہے۔
- اگر کوئی شخص اس شعور کا انکار کرتا ہے، تو یہ انکار یا تو جہالت کی بنا پر ہوتا ہے یا سرکشی کی وجہ سے۔
سوشل سائنسز کی توجیہات
کچھ ماہرین کا نظریہ:
کچھ ماہرینِ سماجیات کے مطابق، خدا کا تصور انسان کی کائنات کے سامنے بے بسی کا نتیجہ ہے، یعنی انسان نے مظاہرِ قدرت کے خوف سے کسی اعلیٰ قوت کو خدا تسلیم کر لیا۔
مذہب کا جواب:
مذہب اس خیال کو رد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ خالق کا شعور انسان کی تخلیق کا لازمی حصہ ہے اور اسے گڑھا نہیں گیا بلکہ یہ انسان کی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے۔
تاریخ، تہذیب اور خالق کا شعور
ہر تہذیب میں خدا کا تصور:
دنیا کی کسی بھی تاریخ یا تہذیب میں ایسے انسانوں یا معاشروں کا وجود نہیں ملتا جہاں خالق کے تصور کو کلی طور پر رد کیا گیا ہو۔
خالق کے شعور کی تسلسل:
یہ حقیقت اس بات کا ثبوت ہے کہ عہدِ الست کا شعور تمام انسانوں میں موجود رہا ہے، چاہے وقت گزرنے کے ساتھ مختلف تہذیبوں نے اس تصور کو بگاڑ دیا ہو۔
انسان کی فطرت میں خالق کا شعور
- ہر انسان، چاہے وہ دہریہ ہی کیوں نہ ہو، خالق کے وجود کے سوال کا شعور رکھتا ہے۔
- سوال کی موجودگی: یہ سوال کہ "میرا خالق کون ہے؟” خود اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان کے دل میں خالق کا شعور موجود ہے۔
عہدِ الست کے بعد رسولوں کی بعثت
رسولوں کی ضرورت کیوں؟
- عہدِ الست کے باوجود رسولوں کو بھیجنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی تاکہ:
- انسان کو اس کے عہد کی یاد دہانی کروائی جا سکے۔
- عہد کے عملی تقاضے بتائے جا سکیں۔
- خالق کی تفصیلات، اس کی صفات اور اس کے احکامات واضح کیے جا سکیں۔
عہدِ الست اور قیامت کا محاسبہ
- عہدِ الست کے انکار پر کوئی عذر قابل قبول نہیں: بروزِ قیامت انسان کے پاس یہ عذر نہیں ہوگا کہ وہ اللہ کو نہیں پہچان سکا۔
- رسولوں کی بعثت سے ذمہ داری کا اضافہ: جن تک رسول کی دعوت پہنچی، ان کا محاسبہ زیادہ سخت ہوگا، جبکہ جن تک رسولوں کی دعوت نہیں پہنچی، ان کا محاسبہ محدود سوالات پر ہوگا۔
توحید اور شرک کے درمیان فرق
- توحید کا اقرار: وہ لوگ جو توحید کے قائل تھے لیکن تفصیلات میں غلطی کر بیٹھے، ان کے معاملے میں اللہ تعالیٰ کا عدل فیصلہ کرے گا۔
- شرک اور انکارِ خالق: جو لوگ عہدِ الست کے باوجود شرک کرتے ہیں یا اللہ کے وجود کا انکار کرتے ہیں، ان کا کوئی عذر قابل قبول نہیں ہوگا۔
اخلاقیات، الہام اور عہدِ الست کا تعلق
اخلاقی شعور اور عہدِ الست:
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ عہدِ الست انسان کے لیے کوئی قطعی حجت نہیں بلکہ ایک مبہم احساس ہے۔
اخلاقی معاملات کی مثال:
غامدی صاحب کے بقول، جیسے انسان کو قتل کی برائی کا الہامی شعور حاصل ہے، ویسے ہی عہدِ الست بھی انسان کے شعور میں حجت ہے۔
اگر قتل کی برائی کو شعوری طور پر واضح مانا جاتا ہے، تو عہدِ الست کے شعور کو کیوں نہیں؟
تقویٰ و فجور اور عہدِ الست:
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انسان کے نفس میں تقویٰ (نیکی) اور فجور (برائی) کا الہام موجود ہے۔
عہدِ الست اور تقویٰ کا تعلق:
اگر انسان کے لیے الہامی تقویٰ حجت ہے، تو عہدِ الست کے شعور کو بھی ویسے ہی حجت ماننا چاہیے۔
خلاصہ: عہدِ الست اور اس کی اہمیت
- عہدِ الست ہر انسان کی روح میں پیوست ایک شعوری حقیقت ہے۔
- خالق کا شعور انسانی وجود کا حصہ ہے اور اسے کسی خارجی ذریعہ سے حاصل کرنے کی ضرورت نہیں۔
- رسولوں کی بعثت کا مقصد عہدِ الست کی یاد دہانی اور اس کے عملی تقاضے واضح کرنا تھا۔
- انسان کے پاس خالق کے وجود کے انکار کا کوئی عذر قیامت کے دن قبول نہیں ہوگا۔
- اخلاقیات اور الہام کی طرح عہدِ الست بھی انسان کے لیے قطعی حجت ہے۔