عورت کے ایام مخصوصہ میں طلاق کا حکم
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

سوال :

ایک خاتون دو بچوں کی ماں ہے۔ جب اس کے خاوند نے اسے طلاق دی تو وہ ایام مخصوصہ گزار رہی تھی مگر اس نے خاوند کو اس سے آگاہ نہ کیا۔ وہ قاضی کے پاس کورٹ میں گئے تو وہاں بھی اس نے اس بات کو چھپائے رکھا، صرف عورت کی ماں کو اس بات کا علم تھا۔ اس نے بیٹی سے کہہ رکھا تھا کہ عدالت کو اس بات سے آگاہ نہ کرنا ورنہ طلاق قطعاً موثر نہیں ہو گی اس کے بعد عورت میکے چلی گئی۔ پھر اس نے بچوں کے ضائع ہونے کے خوف سے خاوند سے رجوع کرنا چاہا۔ اس طلاق کے متعلق شری حکم کیا ہے جو دوران حیض دی گئی ؟

جواب :

دوران حیض ہونے والی طلاق کے بارے میں علماء کا لمبا چوڑا اختلاف ہے کہ آیا یہ طلاق موثر ہو گی یا لغو قرار پائے گی ؟ جمہور علماء کا کہنا ہے کہ ایسی طلاق مؤث ہو گی اور ایک طلاق شمار ہو جائے گی، ہاں خاوند سے کہا جائے گا کہ وہ بیوی سے رجوع کر لے، پھر اسے آئندہ سے آئندہ طہر تک ایسے ہی چھوڑے رکھے، پھر اگر چاہے تو اسے طلاق دے دے چاہے تو بیوی بنا کر روک لے۔ ائمہ اربعہ امام احمد، امام شافعی امام مالک اور امام ابوحنیفہ سمیت جمہور علماء کا یہی مذہب ہے جبکہ ہمارے نزدیک شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مذہب راجح ہے۔ ان کا مذہب یہ ہے کہ ایام حیض کے دوران دی گئی طلاق غیر موثر ہو گی کیونکہ یہ طلاق اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد [ متفق عليه ]
”جو شخص کوئی ایسا عمل کرے جس کے متعلق ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ مردور ہے۔“
خاص طور پر اس مسئلے کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث دلیل ہے کہ انہوں نے دوران حیض اپنی بیوی کو طلاق دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا :
مره فليراجعها ثم ليتركها حتى تطهر ثم تحيض ثم تطهر، ثم إن شاء أمسك بعد وإن شاء طلق قبل أن يمس، فتلك العدة التى أمر الله عزوجل أن يطلق لها النساء [ متفق عليه واللفظ لمسلم، كتاب الطلاق حديث 1]
”اسے حکم دو کہ وہ بیوی سے رجوع کرے پھر اسے آئندہ سے آئندہ طہر تک اسی حالت پر چھوڑے رکھے، پھر چاہے تو اسے چھوئے بغیر طلاق دے دے اور اگر چاہے تو بیوی بنا کر روک لے اور یہ وہ مدت ہے کہ جس کے اندر عورتوں کو طلاق دینے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔“
پس وہ عدت جس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے طلاق دینے کا حکم دیا ہے یہ ہے کہ انسان اپنی بیوی کو طہر کی حالت میں بغیر جماع کئے طلاق دے۔ چنانچہ اس بنا پر اگر خاوند نے دوران حیض بیوی کو طلاق دی تو چونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق طلاق نہیں دی اس لئے وہ مردود ہو گی۔ لہٰذا یہ طلاق جو اس عورت کو دی گئی تھی ہماری رائے میں غیر موثر ہے اور عورت ابھی تک خاوند کے عقد میں ہے۔ آدمی کو طلاق دیتے وقت اس کے طاہر ہونے کا علم تھا یا نہیں، اس
سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن اگر خاوند کو اس کے غیر طاہر ہونے کا علم تھا تو گناہ گار بھی ہو گا اور طلاق بھی واقع نہیں ہو گی اور اگر اسے اس بات کا علم نہیں تھا تو نہ وہ گناہ گار ہو گا نہ طلاق نافذ ہو گی۔
( شیخ محمد بن صالح عثیمین حفظ اللہ)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے