عورت کی مرد کو امامت کرانے کا حکم
فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین حفظ اللہ

سوال :

میں کلیہ شریعہ (شرعی کالج) میں زیر تعلیم ہونے کی بناء پر اپنے خاوند سے فقہ اور تعلیمی اعتبار سے فائق ہوں جبکہ میرا خاوند آدھا ان پڑھ ہے۔ کیا اس اعتبار سے میں اس کی امامت کرا سکتی ہوں ؟

جواب :

عورت مرد کی امام نہیں بن سکتی خواہ وہ اس کا خاوند ہو، بیٹا ہو یا باپ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لن يفلح قوم ولوا أمرهم امرأة [رواه البخاري فى كتاب المغازى]
”وہ قوم کبھی فلاح نہیں پا سکتی جس نے اپنا معاملہ کسی عورت کے سپرد کر دیا ہو۔“
عورت اگر مرد سے زیادہ پڑھی لکھی ہو تو بھی وہ منصب امامت کی اہل نہیں۔ باقی رہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد:
يؤم القوم أقرأهم لكتاب الله [رواه مسلم]
”لوگوں کی امامت وہ شخص کرائے (یعنی لوگوں کو وہ شخص نماز پڑھائے) جو کتاب اللہ کا زیادہ عالم ہو۔“
تو عورت مرد کے ساتھ اس خطاب کی اہل نہیں۔ ارشار باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ [49-الحجرات:11]
”اے ایمان والو! کوئی قوم دوسری قوم کا تمسخر نہ اڑائے، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ ہی عورتیں دوسری عورتوں کا تمسخر اڑائیں ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔“
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے معاشرے کو دو حصوں میں تقسیم فرمایا: یعنی مرد اور عورت۔ اس بناء پر عورت يوم القوم اقرئهم لكتاب الله کے عموم میں داخل ہی نہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے