(١) قرآنِ مجید کی روشنی میں
اگرچہ قرآنِ کریم میں صراحت کے ساتھ "محرم” کے لفظ کا استعمال اس حوالے سے نہیں آیا، مگر عورت کے سفر اور پردے سے متعلق متعدد بنیادی آیات موجود ہیں جو اس مسئلے کی اصولی بنیاد فراہم کرتی ہیں۔
متعلقہ آیت:
﴿وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ﴾
(سورۃ الأحزاب: 33)
ترجمہ: "اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو۔”
یہ آیت عمومی طور پر عورتوں کو گھروں میں رہنے کی تعلیم دیتی ہے۔ شریعتِ اسلامیہ نے عورت کے لیے گھر سے نکلنے کو چند خاص اور ضرورت کے مواقع تک محدود رکھا ہے، چہ جائیکہ وہ لمبا اور پرخطر سفر کرے۔
(٢) احادیثِ صحیحہ کی روشنی میں
رسول اللہ ﷺ نے عورت کے بغیر محرم سفر کو واضح طور پر حرام قرار دیا ہے۔ اس میں فرض حج اور عمرہ جیسے اہم عبادات بھی شامل ہیں۔
حدیث 1:
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ:
قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:
"لَا تُسَافِرِ الْمَرْأَةُ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ”
(صحيح البخاري: 1862، صحيح مسلم: 1341)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "عورت کسی محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔”
ایک واقعہ:
ایک صحابیؓ نے عرض کیا:
"میری بیوی حج کے لیے نکلی ہے اور میرا نام فلاں غزوہ میں لکھا گیا ہے۔”
آپ ﷺ نے فرمایا:
"جاؤ، اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔”
یہ واضح کرتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرض حج کے باوجود محرم کی موجودگی کو لازمی شرط قرار دیا۔
حدیث 2:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:
"لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ أَنْ تُسَافِرَ مَسِيرَةَ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ إِلَّا وَمَعَهَا ذُو مَحْرَمٍ”
(صحيح البخاري: 1038، صحيح مسلم: 1339)
ترجمہ: جو عورت اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتی ہے، اس کے لیے ایک دن اور رات کا سفر کرنا حلال نہیں، مگر اس کے ساتھ کوئی محرم ہو۔
(٣) آثارِ صحابہ کی روشنی میں
اجماع کا بیان – امام ابن المنذر رحمہ اللہ:
قال ابن المنذر:
"أجمع كل من نحفظ عنه من أهل العلم أن المرأة لا يجوز لها السفر إلا مع ذي محرم، إلا ما روي عن بعض السلف في حج الفريضة.”
(الإجماع لابن المنذر، ص: 53)
ترجمہ: ابن المنذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "جن اہلِ علم کا قول ہمیں معلوم ہے، ان سب کا اس پر اجماع ہے کہ عورت بغیر محرم کے سفر نہیں کر سکتی، سوائے چند سلف کے اقوال کے جو فرض حج میں استثناء دیتے ہیں، مگر جمہور کا یہی موقف ہے کہ محرم ضروری ہے۔”
عملِ صحابی – قولِ عمر بن الخطاب رضي الله عنه:
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر حج کے لیے جانے والی عورتوں کو بغیر محرم جانے سے روکا اور ان کے لیے محرم مہیا کیا۔
(السنن الكبرى للبيهقي: 4/347)
(٤) محدثین کے ابواب اور استدلال
صحیح بخاری کا عنوان:
بَابُ سَفَرِ الْمَرْأَةِ مَعَ ذِي مَحْرَمٍ
(صحیح البخاری، کتاب الحج، حدیث 1862)
اس باب کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے وہ حدیث ذکر کی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے ایک صحابیؓ کو جہاد میں جانے کے بجائے بیوی کے ساتھ حج کرنے کا حکم دیا۔
امام نووی رحمہ اللہ کا بیان:
"اتفقوا على أنه لا يجوز لها السفر إلا مع محرم أو زوج، إلا ما استثناه بعضهم في حج الفريضة، والجمهور على اشتراط المحرم مطلقًا.”
(شرح صحیح مسلم، 9/103)
یعنی تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ عورت کے لیے بغیر شوہر یا محرم کے سفر کرنا جائز نہیں، سوائے چند کے جنہوں نے فرض حج میں استثناء دیا، مگر جمہور کے نزدیک محرم کی شرط ہر حال میں لازم ہے۔
(٥) فقہی مذاہب کا موقف (اختصار کے ساتھ)
احناف، مالکیہ، حنابلہ:
ان تینوں مذاہب کے مطابق:
عورت کا بغیر محرم کے حج یا عمرہ کا سفر مطلقاً جائز نہیں، خواہ وہ فرض ہو یا نفل۔
شوافع:
بعض شافعی علماء نے فرض حج میں محرم کے بغیر عورتوں کی جماعت کے ساتھ سفر کی اجازت دی ہے،
لیکن جمہور علماء اس رائے کے خلاف ہیں۔
(٦) خلاصہ و نتیجہ
قرآن مجید عورت کو گھروں میں قرار کی تلقین کرتا ہے۔
احادیثِ صحیحہ عورت کے بغیر محرم سفر کو واضح طور پر حرام قرار دیتی ہیں، یہاں تک کہ فرض حج کو بھی اس سے مستثنیٰ نہیں کیا گیا۔
صحابہ کرام کے اقوال و اعمال بھی اسی موقف کی تائید کرتے ہیں۔
ائمہ و محدثین نے اپنی کتبِ حدیث میں اس مسئلے پر ابواب قائم کیے، جو اس کی حرمت کو بیان کرتے ہیں۔
جمہور فقہاء کا اجماعی فیصلہ یہی ہے کہ عورت کا حج یا عمرہ بغیر محرم کے مطلقاً ناجائز ہے۔
نتیجہ:
لہٰذا،
جو عورت بغیر محرم کے حج یا عمرہ کا سفر کرتی ہے، وہ شریعت کی صریح مخالفت کی مرتکب ہے۔
ایسی عورت فرض ادا نہیں کر رہی بلکہ گناہ کا ارتکاب کر رہی ہے۔
اس عمل پر ثواب کی امید رکھنا درست نہیں بلکہ یہ عمل معصیت کے زمرے میں آتا ہے۔