عمر عائشہ رضی اللہ عنہا
بوقت نکاح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر کے حوالے سے شبہات کا علمی جائزہ ملاحظہ ہو:
شبه ➊:
نکاح کے وقت آپ رضی اللہ عنہا کی عمر سولہ اور رخصتی کے وقت انیس سال تھی ، جن روایات میں چھ سال کی عمر میں نکاح اور نو سال کی عمر میں رخصتی کا ذکر ہے ، ان سے دہائی ساقط ہو گئی ہے ۔
ازالہ:
دہائی کے ساقط ہونے پر کیا دلیل ہے؟ جن متواتر روایات میں چھ سال کی عمر میں نکاح اور نو سال کی عمر میں رخصتی کا ذکر ہے ، انہیں رد نہیں کیا جا سکتا ۔
شبه ➋:
سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کی وفات 73ھ میں ہوئی ، اس وقت ان کی عمر سو سال تھی ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ان سے دس سال چھوٹی تھیں ۔ سیدہ اسماء کی عمر ہجرت کے وقت ستائیس یا اٹھائیس سال تھی اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سترہ یا اٹھارہ سال کی ہوں گی ، آپ کی رخصتی دو ہجری میں ہوئی ۔ لہٰذا نکاح کے وقت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر انیس سال تھی ۔
ازالہ: یہ بات ثابت نہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی بہن اسماء سے دس سال چھوٹی تھیں ، اس بارے میں جو عبدالرحمن بن ابی زناد کا قول ہے [تاريخ دمشق: 8/79 ، الاستيعاب لا بن عبد البر: 216/2] ، وہ منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے ، کیوں کہ عبدالرحمن بن ابی زناد نے سیدہ اسماء کا زمانہ نہیں پایا ۔
➊ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کی وفات 73ھ میں ہوئی ۔ [الطبقات لابن سعد: 200/8 ، وسنده حسن]
اور سیدہ اسما نے سو سال عمر پائی ۔ [تاريخ دمشق لابن عساكر: 27/69 ، سنده حسن]
➋ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر اٹھارہ برس تھی ۔
یوں سیدہ اسماء کی عمر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت 38 برس ہوئی ۔ تو یقیناًً سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے بیس برس چھوٹی ہوں گی ۔ اس طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے دس برس چھوٹے ہونے کا دعویٰ غلط ٹھہرا ۔ اب ذرا شادی کی عمر پر غور کیجئے:
➊ ہجرت کے وقت سیدہ اسما کی عمر 27 برس تھی ۔
➋ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے بیسں برس چھوٹی ہیں ۔
اس حساب سے ہجرت کے وقت سیدہ عائشہ علی رضی اللہ عنہا کی عمر سات برس ہوئی اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی سن 2ھ کو ہوئی ، یوں رخصتی کے وقت عمر 9 سال ہوئی اور تین برس پہلے نکاح ہوا ، یوں نکاح کے وقت عمر 6 سال ہوئی ۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
إن النبى صلى الله عليه وسلم تزوجها وهى بنت ست سنين ، وأدخلت عليه وهى بنت تسع ومكثت عنده تسعا
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا نکاح چھ برس کی عمر میں ہوا ، اور رخصتی نو برس کی عمر میں ہوئی اور نو برس آپ صلى الله عليه وسلم کی زوجیت میں رہی ۔“ [صحيح البخاري: ٥١٣٣]
نکاح کے وقت آپ رضی اللہ عنہا کی عمر انیس برس تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت اٹھارہ برس کیسے؟ جب کہ نو برس آپ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گزارے ہیں؟
شبہ ➌:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے پانچ سال چھوٹی تھیں ۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات 10 ہجری میں ہوئی ۔ وفات کے وقت عمر تیسں یا پینتیس سال تھی ۔ اس طرح ہجرت کے وقت پندرہ یا بیس سال بنتی ہے ۔ دو سال بعد رخصتی ہوئی تو اس وقت عمرسترہ یا بائیس سال ہو جاتی ہے ۔
ازالہ: یہ کہنا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے پانچ سال چھوٹی تھی ، بے حقیقت ہے ، جس پر کوئی ثابت دلیل موجود نہیں ۔
شبه ➍:
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تمام اولاد بعثت نبوی سے پہلے پیدا ہوئی ۔ [تاريخ طبري: 426/3]
ازالہ:
➊ جھوٹ ہے ، جو کلبی ، واقدی اور نامعلوم لوگوں سے صادر ہوا ہے ۔
➋ امام طبری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاں اولا د ہوئی ، ان میں محمد بن ابی بکر اور ام کلثوم رحمہ اللہ شامل ہیں ۔
➌ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو مال دیا اور کہا کہ میری وفات کے بعد اپنے بہن بھائیوں میں تقسیم کر دینا ۔ آپ کے دو بھائی اور دو بہنیں ہیں ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ میری تو ایک ہی بہن ہے ، دوسری کون؟ فرمایا:
ذو بطن بنت خارجة ، أراها جارية
”وہ جو بنت خارجہ کے بطن میں ہے ، غالب گمان ہے کہ وہ بچی ہو گی ۔“ [مؤطأ الإمام مالك: ٧٥٢/٢ ، السنن الكبرى للبيهقي: ١٧٠/٦ ، وسنده صحيح]
شبه ➎:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے دو سو سال بعد یہ روایت ہو بہو امام بخاری تک کیسے پہنچی ، صرف زبانی یا کوئی تحریری ثبوت موجود تھا؟
ازالہ:
➊ یہ اعتراض صرف امام بخاری رحمہ اللہ پر کیوں؟ یہی روایت امام بخاری رحمہ اللہ سے پہلے کئی ائمہ حدیث نے اپنی کتابوں میں اپنی سندوں سے ذکر کی ہے ، ملاحظہ ہو ۔
[مصنف ابن أبى شيبة: 33927 ، مسند الحميدي: ٢٣٣ ، سنن سعيد بن منصور: ٥١٥ ، مسند إسحاق بن راهويه: 721 ، 722 ، مسند الإمام أحمد: ٢٠٦ ، ٥٤/٦ وغيره]
➋ امام بخاری رحمہ اللہ کے علاوہ یہ حدیث امام مسلم رحمہ اللہ وغیرہ بھی اپنی اپنی سند سے لائے ہیں ۔ اس حدیث کے کسی راوی پر اعتراض کریں ، امام بخاری رحمہ اللہ پر اعتراض کی کوئی ضرورت نہیں ، ہم نے یہ آسانی کے لیے کہا ہے ، ورنہ یہ روایت متواتر ہے اور متواتر کے روات کی چھان پھٹک کی احتیاج نہیں ہوتی ۔
شبه ➏:
صحیح بخاری (3817) اور صحیح مسلم (2435) میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میرے نکاح سے تین سال قبل سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا فوت ہوئیں ، جب کہ صحیح بخاری (3896) میں عروہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
توفيت خديجة قبل مخرج النبى صلى الله عليه وسلم إلى المدينة بثلاث سنين ، فلبت سنتين أو قريبا من ذلك ، ونكح عائشة وهى بنت ست سنين ، ثم بنى بها وهى بنت تسع سنين
”ہجرت مدینہ سے تین سال قبل سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کم و پیش دو سال رکے رہے ۔ آپ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا ، وہ چھ سال کی تھیں اور رخصتی نو برس کی عمر میں ہوئی ۔ “
اعتراض یہ ہے کہ دو سال بعد چھ برس تھی اور تین سال بعد بھی چھ سال رہی؟
ازالہ:
جس روایت میں ہے کہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح سے تین برس قبل ہوئی ، تو یہ صحیح ہے ۔
جس روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کم و پیش دو سال رکے رہے ۔
➊ مرسل ہے اور صحیح بخاری کی صرف مرفوع متصل روایات ہی صحیح ہیں ۔ مرسل ضعیف ہوتی ہے ، لہٰذا کوئی تعارض نہیں ۔
➋ اگر دوسری روایت کو صحیح مان لیا جائے ، تب بھی کوئی تعارض نہیں ، کیوں کہ دوسری روایت میں دو باتوں کا ذکر ہے:
1۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد کم و پیش دو سال رکنے کا ۔
2۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا ۔
تطبیق یوں ہوں گی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا سے بھی نکاح کر چکے تھے ، سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا سے نکاح پہلے ہو چکا تھا ، دوسال رکے اور پھر تعلق قائم ہوا ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی بعد میں مدینہ جا کر ہوئی ۔ لہذا فلبث سنتين أو قريبا من ذلك کے الفاظ کا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح یا رخصتی سے کوئی تعلق نہیں ۔
شبه ➐:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ”جب میں چھوٹی تھیں اور کھیلتی تھی ، اس زمانے میں سورت قمر کی آیت نمبر 46 نازل ہوئی اور وہ مجھے یاد ہو گئی ۔“ سورت قمر کا نزول سن 5 نبوی میں ہوا ، ظاہر ہے کہ سیدہ کو اتنی سمجھ تھی کہ وہ اس آیت کو یاد رکھ سکیں ۔ اب اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح 10 یا 12 یا 13 نبوی میں 6 برس کی عمر میں مانا جائے ، تو لازم آتا ہے کہ سن 5 نبوت کو آپ پیدا بھی نہیں ہوئی ہوں گی ۔ پھر کون سی حدیث صحیح مانی جائے؟
ازالہ:
دونوں احادیث صحیح ہیں ۔
➊ سورت قمر یا مذکورہ آیت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ، جیسا کہ سیدہ عائشہ نے بیان کیا لیکن سن 5 نبوت کا تعین محتاج دلیل ہے ۔ لہٰذا اس غیر ثابت تاریخ کی بنیاد پر تشکیک پیدا کرنا نامناسب ہے ۔
➋ مذکورہ حدیث کا معنی ہے کہ یہ آیت مکہ میں تب نازل ہوئی ، جب میں چھوٹی تھی اور کھیلتی تھی ۔
➌ کسی حدیث میں ذکر نہیں کہ آیت کے نزول کے وقت ہی میں نے اسے یاد کر لیا تھا ۔ بلکہ بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یا کسی اور مقدم الاسلام صحابی نے بتایا ہو گا اور مراسیل صحابہ حجت ہیں ۔ یوں وہ تمام اعتراضات کافور ہو جاتے ہیں ، جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور دیگر صحابہ کی ان روایات پر اچھالے جاتے ہیں ، جو انہوں نے قبول اسلام یا عمر رشد سے پہلے کے واقعات میں بیان کیں ہیں ۔
شبه ➑:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
”جب سے میں نے ہوش سنبھالا ، اپنے والدین کو اسلام کا پابند پایا ، کوئی دن ایسا نہ گزرتا ، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح و شام دونوں وقت ہمارے یہاں نہ آتے ۔“ [بخاري: 3905]
ایک بچی تقریباً دس سال کی عمر میں ہوش سنبھالتی ہے ، یوں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر بوقت نکاح چھ برس کیسے؟
ازالہ:
اعتراض کئی وجوہ سے باطل ہے ۔
➊ عمر رشد (ہوش سنبھالنے کی عمر) کا تعین نہیں ۔ ہر بچے کی قابلیت پر موقوف ہے ، کئی ایسے ہیں جو چار پانچ برس میں سمجھدار ہو جاتے ہیں اور کئی ہیں کہ ساری زندگی ناسمجھ ہی رہتے ہیں ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا جیسی زیرک اور دانا کا چھوٹی عمر میں سمجھدار ہونا بعید نہیں ۔
➋ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے ہوش کی بات کرتی ہیں کہ میں نے والدین کو پابند شرع ہی پایا ، یہ مراد نہیں کہ جب وہ مشرف بہ اسلام ہوئے تو میں سمجھدار تھی ، بلکہ وہ تو اپنی یاد داشت بیان کر رہی ہیں ۔ رہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صبح و شام آنا جانا ، تو وہ ہر بچہ یاد رکھ سکتا ہے ۔
➌ محدثین نے قبول روایت کی عمر پانچ سال بتائی ہے ۔ تو سیدہ کی یاد داشت اور سمجھداری پر اعتراض کیوں؟
خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: میرے ایک استاد نے پانچ سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کر لیا تھا ۔ [تاريخ بغداد: 376/11 ، ترجمه ، عبدالله بن محمد بن عبد الرحمان بن احمد]
اس وقت بھی دنیا میں کتنے بچے ہیں ، جو تین چار سال کی عمر میں حیران کن یاد داشت رکھتے ہیں ۔
شبه ➒:
ہشام بن عروہ ”مدلس“ ہیں ۔
ازالہ:
➊ ہشام بن عروہ کے ”ثقہ“ ہونے پر اجماع ہے ، ان پر امام مالک کی جرح کا راوی ابن خراش خود ”ضعیف“ ہے ، لہٰذا وہ قول ثابت نہیں ۔ یہ تدلیس کے الزام
سے بری ہیں ، جس قول [معرفة علوم الحديث للحاكم: ص 104-105] کی وجہ سے ”مدلس“ کہا گیا ہے ، وہ ضعیف ہے ، اس کے راوی عبداللہ بن علی بن مدینی کی ”توثیق“ ثابت نہیں ہے ۔
➋ تصحیحین میں ”مدلسین“ کی روایات سماع پر محمول ہیں ۔
➌ ہشام بن عروہ کی متابعت زہری ، (صحیح مسلم: 1422) ابراہیم نخعی (صحیح مسلم: 1422) اور عبداللہ بن عروہ (صحیح مسلم: 1423) وغیرہ نے کی ہے ۔
➍ اس روایت کی بہت ساری سندیں ہیں ، جو درجہ تو اتر تک پہنچتی ہیں ، صرف ہشام پر اعتراض کیوں؟
شبه ➓:
”ہشام کا 132ھ میں دماغ جواب دے گیا تھا ، بلکہ حافظ عقیلی تو لکھتے ہیں:
قد خرف فى آخر عمره
آخر عمر میں سٹھیا گئے تھے ، تو اس کا کیا ثبوت ہے کہ یہ روایت سٹھیانے سے پہلے کی ہے؟ “
ازالہ:
➊ حافظ عقیلی رحمہ اللہ کا قول نہیں مل سکا ۔
➋ مقدمین میں کسی نے ان پر اختلاط کا الزام نہیں لگایا ، اختلاط ثابت ہو جائے ، تب بھی بخاری و مسلم میں مختلطین کی روایات سماع پر محمول ہیں ، حافظ نووی رحمہ اللہ ایک مختلط کے بارے میں لکھتے ہیں:
وما كان فى الصحيحين عنه محمول على الأخذ عنه قبل اختلاطه
”بخاری و مسلم میں ان کی روایات قبل از اختلاط پر محمول ہیں ۔ “ [تهذيب الأسماء واللغات: 221/1]
➌ ہشام بن عروہ کی متابعت زہری ، (صحیح مسلم: 1422) ابراہیم نخعی (صحیح مسلم: 1422) او عبداللہ بن عروہ (صحیح مسلم: 1423) وغیرہ نے کی ہے ۔
➍ اس روایت کی بہت ساری سندیں ہیں ، جو درجہ تواتر تک پہنچتی ہیں ، صرف ہشام پر اعتراض کیوں؟
تنبیہ:
ابن قطان فاسی رحمہ الله (م 628 ھ) نے ہشام کو ”مختلط“ کہا ہے ۔ [بيان الوهم والإيهام: 508/4 ، ح: 2726]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ولم نر له فى ذلك سلفا
”سلف میں ان کا ہمنوا نظر نہیں آتا۔“ [تهذيب التهذيب: 51/11]
حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وهشام ، فلم يختلط قط ، هذا أمر مقطوع به
”ہشام کبھی بھی مختلط نہیں ہوئے ، یہ یقینی بات ہے ۔ “ [سير أعلام النبلاء 26/6]
نیز فرماتے ہیں:
فقول ابن القطان: إنه مختلط ، قول مردود ومرذول
”ابن قطان کا انہیں مختلط قرار دینا مردود اور ناقابل التفات ہے ۔“ [سير أعلام النبلاء: 36/6]
مزید فرماتے ہیں:
ولا عبرة
”اس کا کوئی اعتبار نہیں ۔ “ [ميزان الاعتدال: 301/4]
معلوم ہوا کہ حافظ ابن قطان فاسی رحمہ اللہ کی بات ناقابل التفات ہے ۔