مضمون کے اہم نکات:
عقیدہ ختم نبوت احادیث کی روشنی میں
متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ آخری نبی اور رسول ہیں ۔ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہو سکتا۔
حافظ ابن کثیرؒ (774ھ) لکھتے ہیں:
قَدْ أَخْبَرَ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ وَرَسُولُهُ فِي السُّنَّةِ الْمُتَوَاتِرَةِ عَنْهُ أَنَّهُ لا نَبِيَّ بَعْدَهُ، لِيَعْلَمُوا أَنَّ كُلَّ مَنِ ادَّعَى هَذَا الْمَقَامَ بَعْدَهُ، فَهُوَ كَذَّابٌ ، أَفَّاكٌ، دَجَالٌ، ضَالٌ، مُضِلٌ.
’’اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اور رسول اللہ ﷺ نے متواتر احادیث میں بتلایا ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں، مقصد ہمیں یہ سمجھانا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے بعد نبوت کا دعوی کرنے والا، جھوٹا، مفتری اور دجال ہے، وہ خود گمراہ ہے اور دوسروں کو گمراہ کرتا ہے۔‘‘
(تفسیر ابن کثیر:430/6)
➊ سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمُ الْأَنْبِيَاءُ، كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٍّ خَلَفَهُ نَبِيٍّ، وَإِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي، وَسَيَكُونُ خُلَفَاءُ، فَيَكْثُرُونَ.
’’بنی اسرائیل کی سیاست انبیاؑ کرتے تھے، جب کوئی نبی فوت ہوتا، تو دوسرا نبی اس کا خلیفہ ہوتا، مگر (سن لیجئے) میرے بعد کوئی نبی نہیں، البتہ خلفا ہوں گے اور بکثرت ہوں گے۔“
(صحيح البخاري : 3455، صحیح مسلم : 1842)
➋ سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
إِنَّ مَثَلِي وَمَثَلَ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِي كَمَثَلِ رَجُلٍ بَّنَى بَيْتًا، فَأَحْسَنَهُ وَأَجْمَلَهُ إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِّنْ زَاوِيَةٍ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ بِهِ وَيُعْجِبُونَ لَهُ، وَيَقُولُونَ : هَلَّا وُضِعَتْ هَذِهِ اللَّبِنَةُ؟ قَالَ : فَأَنَا اللَّبِنَةُ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ.
’’کسی نے ایک حسین و جمیل گھر بنایا، لیکن ایک کھدرے میں اینٹ بھر جگہ چھوڑ دی ، لوگ اس عمارت کے ارد گرد گھومتے ، اس کی عمدگی پر حیرت کا اظہار کرتے اور کہتے کہ اینٹ کی جگہ پر کیوں نہ کر دی گئی؟ یہی مثال قصر نبوت کی ہے، اس کی آخری اینٹ میں ہوں اور پہلی اینٹیں سابقہ انبیا ہیں، میرے بعد نبوت کا سلسلہ ختم اور میں خاتم النبیین ہوں۔“
(صحيح البخاري : 3535، صحیح مسلم:22/2286)
➌ سیدنا جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
أَنَا مَوْضِعُ اللَّبِنَةِ، جِنْتُ فَخَتَمْتُ الْأَنْبِيَاءَ عَلَيْهِمُ السَّلَامُ.
’’وہ اینٹ کی جگہ میں ہوں، میں نے آکر انبیا کی بعثت کا سلسلہ ختم کر دیا۔‘‘
(صحیح مسلم:2287)
ایک روایت میں ہے:
أَنَا مَوْضِعُ اللَّبِنَةِ، خُتِمَ بِي الأَنْبِيَاءُ.
’’وہ اینٹ کی جگہ میں ہوں، انبیاء کا سلسلہ مجھ پر ختم ہو گیا ہے۔“
(مسند الطيالسي : 1894، وسنده صحيح كالشمس وضوحاً)
حافظ عراقیؒ (806ھ) لکھتے ہیں :
أَمَّا كَوْنُهُ خُتِمَ بِهِ النَّبِيُّونَ فَمَعْنَاهُ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَا يَبْعَثُ بَعْدَهُ
’’نبی کریم ﷺ کے بعد سلسلہ نبوت ختم ہونے کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں کرے گا۔“
(طرح التشريب:112/2)
علامہ احمد قسطلانیؒ (923ھ) لکھتے ہیں :
مِنْ تَشْرِيفِ اللَّهِ تَعَالَى لَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَتْمُ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِينَ بِهِ، وَإِكْمَالِ الدِّينِ الْحَنِيفِ لَهُ، وَقَدْ أَخْبَرَ اللهُ فِي كِتَابِهِ، وَرَسُولُهُ فِي السُّنَّةِ الْمُتَوَاتِرَةِ عَنْهُ، أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ، لِيَعْلَمُوا أَنَّ كُلَّ مَنِ ادَّعَى هَذَا الْمَقَامَ بَعْدَهُ فَهُوَ كَذَّابٌ أَفَّاكُ دَجَالٌ صَالٌ مُّضِلٌ، وَلَوْ تَحَذَّقَ وَتَشَعْبَدَ، وَأَنِّى بِأَنْوَاعِ السِّحْرِ وَالطَّلَاسِمِ وَالنِّيْرَنْجِيَاتِ، فَكُلُّهَا مُحَالٌ وَضَلَالَةٌ عِنْدَ أُولِى الْأَلْبَابِ، وَلَا يَقْدَحُ فِي هَذَا نُزُولُ عِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ بَعْدَهُ، لأَنَّهُ إِذَا نَزَلَ كَانَ عَلَى دِيْنِ نَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمِنْهَاجِه ، مَعَ أَنَّ الْمُرَادَ : أَنَّهُ آخِرُ مَنْ نَبَى . قَالَ أَبُو حَيَّانَ:وَمَنْ ذَهَبَ إِلى أَنَّ النُّبُوَّةَ مُكْتَسَبَةٌ لَّا تَنْقَطِعُ، أَوْ إِلَى أَنَّ الْوَلِيُّ أَفْضَلُ مِنَ النَّبِيِّ، فَهُوَ زِنْدِيقٌ يَجِبُ قَتْلُهُ، وَاللهُ أَعْلَمُ.
اللہ نے آپ ﷺ کو خاتم النبیین بنایا، یہ اللہ کی طرف سے آپ کے لئے اعزاز ہے اور دین حنیف کی تکمیل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اور رسول اللہ ﷺ نے متواتر احادیث میں بتلایا ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں، مقصد ہمیں یہ سمجھانا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے بعد نبوت کا دعوی کرنے والا، جھوٹا، مفتری اور دجال ہے، وہ خود گمراہ ہے اور دوسروں کو گمراہ کرتا ہے۔ اب وہ ہزار شعبدہ بازیاں کرے، قسم ہا قسم کے جادو، طلسم اور جھاڑ پھونک کرے، اسے کذاب و دجال ہی سمجھا جائے گا۔ کیونکہ اہل عقل وخرد کے نزدیک محمد ﷺ کے بعد نبوت کا وجود ناممکن ہے۔ ختم نبوت کا معنی یہ ہے کہ آپ ﷺ سب سے آخری انسان ہیں جن پر وحی نازل ہوئی۔ اور ہاں ! سیدنا عیسیٰؑ کے نزول سے ختم نبوت کے عقیدے پر زد نہیں آتی، کیوں کہ وہ آپ ﷺ کے دین اور منہج پر نازل ہوں گے۔ ابو حیانؒ کہتے ہیں کہ جو شخص نبوت کو ایک کسی امر قرار دے کر جاری سمجھتا ہے یا ولی کو نبی سے افضل سمجھتا ہے، وہ زندیق واجب القتل ہے، وَاللهُ أَعْلَمُ.
(المواهب اللدنية:546/2)
➍ سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
فُضّلْتُ عَلَى الأَنْبِيَاءِ بِسِيّ، أُعْطِيتُ جَوَامِعَ الكَلِمِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَأُحِلَّتْ لِي الْغَنَائِمُ، وَجُعِلَتْ لِي الْأَرْضُ طَهُورًا وَمَسْجِدًا وَأُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةٌ، وَخُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ.
” مجھے چھ چیزوں میں انبیاؑ پر فضیلت دی گئی ہے۔ جامع کلمات عطا کیے گئے ہیں، رعب کے ساتھ میری نصرت کی گئی ہے، میں (اور میری امت) ساری زمین پر کہیں بھی نماز ادا کر سکتے ہیں اور اس سے تمیم کر سکتے، میں پوری دنیا کے لیے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں اور مجھ پر انبیا کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے۔
(صحیح مسلم:522)
➎ سیدنا جبیر بن مطعمؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
أَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَنَا أَحْمَدُ، وَأَنَا المَاحِي الَّذِي يُمحى بِي الكُفْرُ، وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى عَقِبِي، وَأَنَا الْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِي.
’’میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں ماحی ہوں کہ میرے ذریعے کفر کو ختم کیا جائے گا، میں حاشر ہوں کہ میرے بعد حشر برپا ہوگا، میں عاقب ہوں کہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں۔“
(صحيح البخاري : 3532 ، صحيح مسلم : 2354)
امام سفیان بن عیینہ کی متابعت صحیح بخاری (4896) میں شعیب بن ابی حمزہ صحیح مسلم (2354) میں یونس بن یزید ایلی اور امام مالک(140012، صحیح بخاری:3532) نے کی ہے، نیز امام سفیان بن عیینہ نے مسند حمیدی (565) اور امام زہریؒ نے صحیح بخاری (4896) میں سماع کی تصریح کی ہے۔
دوسرے یہ کہ بخاری ومسلم کی تمام مدلس روایات سماع پر محمول ہیں۔
➏ سیدنا ابوموسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں :
كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَمِّي لَنَا نَفْسَهُ أَسْمَاءَ، فَقَالَ : أَنَا مُحَمَّدٌ ، وَأَحْمَدُ، وَالْمُقَفِّي ، وَالحَاشِرُ، وَنَبِيُّ التَّوْبَةِ، وَنَبِيُّ الرَّحْمَةِ.
’’رسول اللہ ﷺ اپنے مبارک نام ہمیں بتایا کرتے تھے، فرماتے : میں محمد ہوں، میں مقفی (سب سے پیچھے آنے والا، جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو) ہوں، میں حاشر ہوں، میں توبہ اور رحمت والا نبی ہوں۔‘‘
(صحیح مسلم : 126/1355)
یہ حدیث اس عقیدے پر دلیل ہے کہ محمد ﷺ کے آخری نبی ہیں۔ آپ ﷺ کے بعد قیامت برپا ہو جائے گی لیکن آپ کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا۔
حافظ ابن حجرؒ (852ھ) لکھتے ہیں :
إِشَارَةٌ إِلى أَنَّهُ لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ وَلَا شَرِيعَةٌ فَلَمَّا كَانَ لَا أُمَّةَ بَعْدَ أُمَّتِهِ لأَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ نُسِبَ الْحَشْرُ إِلَيْهِ لِأَنَّهُ يَقَعُ عَقِبَهُ.
’’اس حدیث میں اشارہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد کوئی نبی یا شریعت نہیں، آپ کے بعد کوئی نبی نہیں تو ظاہر ہے کہ آپ کے بعد کوئی امت بھی نہیں ہوگی، آپ کے بعد تو حشر برپا ہوگا، اسی لئے حشر کی نسبت آپ کی طرف کی گئی ہے۔‘‘
(فتح الباري شرح صحيح البخاري:557/6)
➐ سیدنا ثوبانؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
إِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي كَذَّابُونَ ثَلَاثُونَ، كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٍّ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ، لَا نَبِيَّ بَعْدِي.
”میری امت میں تیس بڑے کذاب پیدا ہوں گے اور وہ سب نبوت کا دعوی کریں گے لیکن میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 278/5، سنن أبي داود : 4252، سنن الترمذي : 2219، سنن ابن ماجه : 3952، المستدرك للحاكم : 450/4، وسنده صحيح، وأصله في مسلم 2889:1920)
اس حدیث کو امام ترمذیؒ نے حسن صحیح اور امام حاکمؒ نے بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے۔ حافظ ذہبیؒ نے ان کی موافقت کی ہے۔
یہ حدیث نص صریح ہے کہ خاتم النبيين لا نَبِيٌّ بَعْدِي کے معنی میں ہے۔
➑ سیدنا جابر بن سمرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
إِنَّ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ كَذَّابِينَ فَاحْذَرُوهُمْ.
’’قیامت سے قبل کذاب لوگ آئیں گے، ان سے بچ رہیے گا۔“
(صحیح مسلم : 1822)
➒ سیدنا ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُبْعَثَ دَجَالُونَ كَذَّابُونَ، قَرِيبًا مِّنْ ثَلَاثِينَ، كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ رَسُولُ الله.
”جب تک تیس بڑے دجال اور کذاب نبوت کا دعوی نہیں کریں گے، قیامت قائم نہیں ہوگی۔“
(صحيح البخاري : 3609)
➓ سیدنا حذیفہ بن یمانؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
إِنَّ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ كَذَّابِينَ.
’’قیامت سے پہلے کذاب آئیں گے۔‘‘
(كشف الأستار: 3374، وسنده حسن)
⓫ سیدنا انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ، فَلَا رَسُولَ بَعْدِي وَلَا نَبِيَّ.
”یقینا رسالت و نبوت کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے، اب میرے بعد کوئی رسول ہے، نہ ہی کوئی نبی۔“
(مصنف ابن أبي شيبة : 53/11، مسند الإمام أحمد : 268/3، ح : 13860، سنن الترمذي : 2272 مسند أبي يعلى نقلا عن تخريج أحاديث الكشاف للزيلعي : 136/2، المستدرك للحاكم : 391/3 ، اتحاف المهرة لابن حجر: 1809 وسنده صحيح)
امام ترمذیؒ نے اس حدیث کو ’’صحیح غریب‘‘ اور امام حاکمؒ نے امام مسلم کی شرط پر’’صحیح الاسناد‘‘ کہا ہے۔ امام ابو عوانہؒ امام ابن خزیمہؒ وغیرہ نے ان کی احادیث کی تصحیح کر کے توثیق ضمنی کر دی ہے۔
امام ابن حبانؒ کی ان پر يُخْطِئُ كَثِیرا کی جرح اس حدیث پر منطبق نہیں کی جا سکتی، کیوں کہ جمہور نے اس سند کی توثیق کی ہے، امام مسلمؒ مختارعن انس کی سند سے اپنی صحیح میں روایات لائے ہیں، کسی ثقہ امام نے اس حدیث پر کلام نہیں کیا اور اس حدیث کا مضمون دوسری بیسیوں احادیث سے ثابت ہے۔
حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں :
تَكَلَّمَ فِيهِ السُّلَيْمَانِيُّ فَعَدَّهُ فِي رُوَاةِ الْمَنَاكِيرِ عَنْ أَنَسٍ.
’’حافظ سلیمانیؒ نے مختار بن فلفل پر جرح کی ہے اور انہیں سیدنا انسؓ سے منکر روایات بیان کرنے والوں میں شمار کیا ہے۔“
(تهذيب التهذيب : 609/10)
لیکن کبار ائمہ متقدمین نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے، ان پر تضعیف کا ادنی کلمہ بھی ثابت نہیں، حافظ سلیمانی متاخر ہیں اور ان کی جرح جمہور ائمہ متقدمین کے فیصلے سے ہٹ کر ہے، لہذا غیر مسموع ہے۔
حافظ ذہبیؒ لکھتے ہیں :
رَأَيْتُ لِلسُّلَيْمَانِي كِتاباً فِيهِ حَطَّ عَلَى كِبَارٍ، فَلَا يُسْمَعُ مِنْهُ مَا شَدَّ فِيهِ.
’’میں نے سلیمانیؒ کی کتاب دیکھی، اس میں کبار ائمہ پر بھی جرح کی گئی ہے، لہذا ان کی شاذ جرح کا اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔“
(سير أعلام النبلاء:202/17)
امام ابن حبانؒ فرماتے ہیں :
كَانَ مُتْقِنا ضَابطًا.
’’یہ متقن اور ضابط تھا۔‘‘
(مشاهير علماء الأمصار:252/1)
حافظ ابن عبدالبرؒ (463 ھ) فرماتے ہیں :
أَجْمَعُوا لَا خِلَافَ بَيْنَهُمْ أَنَّ عَبْدَ الْوَاحِدِ بْنَ زِيَادٍ ثِقَةٌ.
’’محدثین کا اجماع ہے کہ عبد الواحد بن زیاد ثقہ تھا۔“
(تهذيب التهذيب لابن حجر : 435/6)
حافظ ابن قطان فاسیؒ لکھتے ہیں :
عَبْدُ الْوَاحِدِ ثِقَةٌ، وَلَمْ يُعْتَلَّ عَلَيْهِ بِقَادِحٍ.
’’عبدالواحد ثقہ ہیں، کسی علت کی بنا پر انہیں مجروح قرار نہیں دیا گیا۔“
(بيان الوهم والإيهام : 328/5)
عفان بن مسلم صحاح ستہ کے راوی ہیں ، بالاتفاق ثقہ ہیں۔ امام ابو خیثمہ زہیر بن حرب اور امام یحییٰ بن معینؒ کا ان کے متعلق انکرنا کہنا مضر نہیں۔
حافظ ذہبیؒ لکھتے ہیں :
قَدْ قَالَ أَبُو خَيْثَمَةَ : أَنْكَرْنَا عَفَّانَ قَبْلَ مَوْتِهِ بِأَيَّامٍ . قُلْتُ : هَذَا التَّغَيُّرُ هُوَ مِنْ تَغَيْرِ مَرَضِ الْمَوْتِ، وَمَا ضَرَّهُ، لأَنَّهُ مَا حَدَّثَ فِيهِ بِخَطَأَ.
’’ابو خیثمہؒ کہتے ہیں کہ ہم نے عفان بن مسلمؒ کی موت سے کچھ دن پہلے ان سے روایت لینا ترک کر دی تھی۔ میں کہتا ہوں کہ انہوں نے مرض الموت کی وجہ سے عفان سے روایت لینا چھوڑ دی تھی، یہ جرح عفان کے لئے مضر نہیں، کیوں کہ انہوں نے مرض الموت میں روایت بیان ہی نہیں کی کہ اس سے خطا کا احتمال ہوتا۔‘‘
(میزان الاعتدال:82/3)
اس روایت میں عفان بن مسلم کی متابعت امام ابن ابی شیبہ اور امام وکیع بن جراحؒ (امالی ابن بشران : 223) نے کی ہے۔ لہذا نکارت کی جرح عبث ہے۔
⓬ سیدنا ابوامامہ باہلیؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :
أَيُّهَا النَّاسُ! إِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي، وَلَا أُمَّةً بَعْدَكُمْ.
’’لوگو! میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں۔“
(المعجم الكبير للطبراني : 115/8 ، ح : 7535 ، السنة لابن أبي عاصم : 1095، وسنده صحيح)
⓭ سیدنا ابوامامہ باہلیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں دجال کے بارے میں خطبہ دیا اور فرمایا :
أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ لَمْ تَكُنْ فِتْنَةٌ عَلَى الْأَرْضِ أَعْظَمَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ، وَإِنَّ اللهَ لَمْ يَبْعَثُ نَبِيًّا إِلَّا حَذَرَهُ أُمَّتَهُ، وَأَنَا آخِرُ الْأَنْبِيَاءِ وَأَنْتُمْ آخِرُ الأُمَمِ، وَهُوَ خَارِجٌ فِيكُمْ لَا مَحَالَةَ، فَإِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا فِيكُمْ فَأَنَا حَجِيجُ كُلَّ مُسْلِمٍ، وَإِنْ يَخْرُجْ بَعْدِي فَكُلُّ امْرِءٍ حَجِيجُ نَفْسِهِ، وَاللَّهُ خَلِيفَتِي عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ وَإِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ قِلَّةٍ بَيْنَ الشَّامِ وَالْعِرَاقِ فَيَعِيثُ يَمِينًا وَيَعِيتُ شِمَالاً، فَيَا عِبَادَ اللهِ، اثْبُتُوا فَإِنَّهُ يَبْدَأُ فَيَقُولُ : أَنَا نَبِيٍّ، وَلَا نَبِيَّ بَعْدِي، ثُمَّ يُتَنِي فَيَقُولُ : أَنَا رَبُّكُمْ، وَلَنْ تَرَوْا رَبَّكُمْ حَتَّى تَمُوتُوا، وَإِنَّهُ أَعْوَرُ، وَإِنَّ رَبَّكُمْ لَيْسَ بِأَعْوَرَ، وَإِنَّهُ مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ كَافِرٌ، يَقْرَؤُهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ، فَمَنْ لَقِيَهُ مِنْكُمْ فَلْيَتْفُلْ فِي وَجْهِه.
’’لوگو! روئے زمین پر فتنہ دجال سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں۔ ہر نبی نے اپنی امت کو اس فتنہ سے ڈرایا ہے۔ میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو، وہ ضرور آئے گا، اگر وہ میری زندگی میں آگیا، تو میں ہر مسلمان کی طرف سے اس کا حریف ہوں گا اور اگر میرے بعد آئے، تو ہر آدمی اپنے تئیں اس کا حریف ہے۔ اللہ میری طرف سے ہر مسلمان پر نگہبان ہے۔ وہ شام اور عراق کے درمیان سے نکلے گا اور چہار سو فساد برپا کر دے گا، اللہ کے بندو! ثابت قدم رہنا، وہ سب سے پہلے نبوت کا دعویٰ کرے گا، حالانکہ میرے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوسکتا۔ پھر وہ کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں، جبکہ آپ مرنے سے پہلے اپنے رب کو نہیں دیکھ سکتے، دجال کا نا ہوگا، جب کہ آپ کا رب ایسا نہیں ہے، اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ’’کافر‘‘ لکھا ہوگا، جسے ہر مومن پڑھ لے گا۔ آپ میں سے جو بھی اسے ملے ، اس کے منہ پر تھوک دے۔“
(السنة لابن أبي عاصم : 391، وسنده حسن)
⓮ سیدنا عرباض بن ساریہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
إِنِّي عِنْدَ اللهِ مَكْتُوبٌ لَّخَاتَمُ النَّبِيِّينَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِيئَتِهِ، وَسَأَخْبِرُكُمْ بِأَوَّلِ ذَلِكَ دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِيمَ، وَبِشَارَةُ عِيسَى بِي، وَالرُّؤْيَا الَّتِي رَأَتْ أُمِّي، وَكَذَلِكَ أُمَّهَاتُ النَّبِيِّينَ يَرَيْنَ، أَنَّهَا رَأَتْ حِينَ وَضَعَتْنِي أَنَّهُ خَرَجَ مِنْهَا نُورٌ أَضَاءَتْ مِنْهُ قُصُورُ الشَّامِ.
’’آدمؑ ابھی اپنی مٹی میں پروئے گئے تھے کہ مجھے اللہ نے خاتم النبین لکھ دیا تھا، میں ابراہیمؑ کی دعا ہوں، عیسیؑ کی بشارت ہوں اور اپنی والدہ کا خواب ہوں، میری پیدائش کے ایام میں انہوں نے خواب دیکھا کہ ان سے ایک روشنی پھوٹی ہے اور اس نے شام کے محلات کو منور کر دیا ہے، انبیاء کی مائیں ایسے ہی خواب دیکھتی ہیں۔“
(مسند الإمام أحمد : 4/ 127 ، تفسير الطبري : 566/1، 87/28، واللفظ له، تفسير ابن أبي حاتم : 1264 ، طبقات ابن سعد : 148/1-149، تاريخ المدينة لعمر بن شبة : 636/2 المعرفة والتاريخ ليعقوب بن سفيان : 345/2، المعجم الكبير للطبراني : 252/18، مسند الشاميين للطبراني : 1939، المستدرك للحاكم : 418/2، دلائل النبوة للبيهقي : 80/1، 390389، 2 /130، وسنده حسن)
اس حدیث کو امام ابن حبانؒ (6404) نے صحیح اور امام حاکمؒ نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے، حافظ ذہبیؒ نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے ، حافظ ذہبیؒ نے اس کی سند کو حسن بھی کہا ہے۔
(سیر أعلام النبلاء : 47/1)
⓯ سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
إِنِّي آخِرُ الْأَنْبِيَاءِ، وَإِنَّ مَسْجِدِي آخِرُ الْمَسَاجِدِ.
’’میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد(نبوی)آخری مسجد ہے۔“
(صحیح مسلم : 507/1394)
⓰ سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ بیان کرتے ہیں :
خَلَّفَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللهِ تُخَلِفُنِي فِي النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ؟ فَقَالَ : أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسى؟ غَيْرَ أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي.
’’غزوہ تبوک کے موقع پر نبی اکرم ﷺ نے سیدنا علی بن ابی طالبؓ کو (مدینہ میں) اپنا جانشین مقرر کیا، انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول! آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ کر جارہے ہیں؟ فرمایا : کیا آپ کو یہ امتیاز خوش نہیں آتا کہ میرے ساتھ آپ کی وہی نسبت ہو، جو ہارونؑ کو موسیٰؑ سے تھی، البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔“
(صحيح البخاري : 3706 ، صحيح مسلم : 2404، واللفظ له)
صحیح مسلم میں یہ الفاظ بھی ہیں:
أَنَّهُ لَا نُبُوَّةَ بَعْدِي.
’’میرے بعد کوئی نبوت نہیں۔‘‘
⓱ سیدہ اسماء بنت عمیسؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سیدنا علیؓ سے فرمایا :
أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى، إِلَّا أَنَّهُ لَيْسَ نَبِيٍّ بَعْدِي.
’’آپ کو میرے ساتھ وہی نسبت ہے، جو ہارونؑ کو موسیٰؑ سے تھی، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔“
(مسند الإمام أحمد : 369/6 ،438، السنن الكبرى للنسائي : 8143، مسند إسحاق : 2139، السنة لابن أبي عاصم : 1346 ، المعجم الكبير للطبراني : 146/24، مصنف ابن أبي شيبة : 6160/12، وسنده صحيح)
حافظ ہیشمیؒ فرماتے ہیں:
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِي، وَرِجَالُ أَحْمَدَ رِجَالُ الصَّحِيحِ غَيْرُ فَاطِمَةَ بِنْتِ عَلِي، وَهِيَ ثِقَةٌ.
’’اس حدیث کو امام احمد اور امام طبرانیؒ نے بیان کیا ہے اور امام احمد والی روایت کے سارے راوی صحیح بخاری کے ہیں ،سوائے فاطمہ بنت علی کے اور وہ ثقہ ہیں۔‘‘
(مجمع الزوائد : 109/9)
⓲ سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
لَا يَبْقَى بَعْدِي مِنَ النُّبُوَّةِ شَيْءٌ إِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ، قَالُوا : يَا رَسُولَ اللهِ! وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ : الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ يَرَاهَا الرَّجُلُ أَوْ تُرَى لَهُ.
’’میرے بعد نبوت ختم ہو جائے گی اور مبشرات باقی رہیں گے صحابہؓ نے عرض کیا : اللہ کے رسول! مبشرات کیا ہیں؟ فرمایا : نیک خواب، جو آدمی خود دیکھتا ہے یا اس کے بارے میں کوئی اور آدمی دیکھتا ہے۔‘‘
(زوائد مسند أحمد : 129/6، مسند البزار : 2118، وسنده حسن)
⓳ سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
لَمْ يَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ، قَالُوا : وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ:الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ.
’’نبوت ختم ہو چکی اب صرف مبشرات باقی ہیں، صحابہ نے عرض کیا : مبشرات کیا ہیں؟ فرمایا: نیک خواب۔‘‘
(صحيح البخاري : 6990)
⓴ سیدنا حذیفہ بن اسیدؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
ذَهَبَتِ النُّبُوَّةُ، فَلَا نُبُوَّةَ بَعْدِي إِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ، قِيلَ : وَمَا المُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ : الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ يَرَاهَا الرَّجُلُ أَوْ تُرَى لَهُ.
’’نبوت ختم ہوگئی ہے، میرے بعد نبوت نہیں مبشرات ہیں، پوچھا گیا: مبشرات کیا ہیں؟ فرمایا: نیک خواب، جو آدمی خود دیکھتا ہے یا اس کے بارے میں کوئی اور آدمی دیکھتا ہے۔‘‘
(مسند البزار : 2121 ، المعجم الكبير للطبراني : 3051، وسنده صحيح)
حافظ پیشمیؒ لکھتے ہیں :
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَزَّارُ، وَرِجَالُ الطَّبَرَانِي ثِقَاتٌ.
’’اسے طبرانی اور ہزار بخش نے بیان کیا ہے، طبرانی کے راوی ثقہ ہیں۔“
(مجمع الزوائد : 173/7)
اس حدیث کو امام بزارؒ نے مسند حذیفہ بن یمانؓ میں ذکر کیا ہے۔
شیخ عبد الرحمن معلمیؒ (1386ھ) لکھتے ہیں :
اِتَّفَقَ أَهْلُ الْعِلْمِ عَلَى أَنَّ الرُّؤْيَا لَا تَصْلُحُ لِلْحُجَّةِ، وَإِنَّمَا هِيَ تَبْشِيرٌ وَتَنْبِيهُ، وَتَصْلُحُ لِلاِسْتَتْنَاسِ بِهَا إِذَا وَافَقَتْ حُجَّةٌ شَرْعِيَّةٌ صَحِيحَةٌ.
’’اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ (امتی کا) خواب حجت (شرعی) نہیں ہوتا، وہ محض بشارت اور تنبیہ ہوتا ہے، لیکن اگر وہ خواب دلائل شرعیہ کی موافقت میں آئے تو اطمینان قلب کا فائدہ دیتا ہے۔“
(التنكميل بما في تأنيب الكوثري من الأباطيل:242/2)
۲۱ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
أَيُّهَا النَّاسُ! إِنَّهُ لَمْ يَبْقَ مِنْ مُبَشِّرَاتِ النُّبُوَّةِ إِلَّا الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ، يَرَاهَا الْمُسْلِمُ، أَوْ تُرى لَهُ.
’’لوگو! مبشرات نبوت ختم ہو چکے، ان میں سے بھی صرف نیک خواب باقی ہیں، جو ایک مسلمان خود دیکھتا ہے یا کوئی دوسرا اس کے بارے میں دیکھتا ہے۔“
(صحیح مسلم : 479)
۲۲ سیدہ ام کرزؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
ذَهَبَتِ النُّبُوَّةُ، وَبَقِيَتِ المُبَشِّرَاتُ.
’’نبوت ختم ہو گئی ہے اور مبشرات باقی ہیں۔“
(مسند الإمام أحمد : 381/6، مسند الحميدي : 351، سنن ابن ماجه : 3896، وسنده حسن)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہؒ (فتح الباری لابن حجر : 375/12) اور امام ابن حبانؒ (6047) نے صحیح کہا ہے۔
حافظ بوصیریؒ فرماتے ہیں :
هذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ، رِجَالُهُ ثِقَاتٌ.
’’یہ سند صحیح ہے، اس کے راوی ثقہ ہیں۔‘‘
(مصباح الزجاجة : 154/4)
ابو یزید مکی ’’حسن الحدیث‘‘ ہیں۔ امام ابن حبانؒ، امام عجلیؒ نے ان کی توثیق کی ہے۔
۲۳ سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نماز فجر کے بعد پوچھا کرتے تھے۔ کسی نے آج رات کوئی خواب دیکھا ہے؟ اور پھر فرماتے :
إِنَّهُ لَيْسَ يَبْقَى بَعْدِي مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ.
”یقینا میرے بعد نبوت باقی نہیں، البتہ نیک خواب باقی ہیں۔“
(موطأ الإمام مالك : 956/2، مسند الإمام أحمد : 325/2، سنن أبي داود:5017، المستدرك للحاكم : 391390/4، وسنده صحيح)
اس حدیث کو امام ابن حبانؒ (6048) اور امام حاکمؒ نے ’’صحیح‘‘،حافظ ذہبیؒ نے ان کی موافقت کی ہے۔
۲۴ ابوطفیل عامر بن واثلہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
لا نُبُوَّةَ بَعْدِي إِلَّا المُبَشِّرَاتِ، قَالَ : قِيلَ : وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ يَا رَسُولَ اللهِ ، قَالَ : الرُّؤْيَا الْحَسَنَةُ، أَوْ قَالَ : الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ.
’’میرے بعد نبوت باقی نہیں رہی ، صرف مبشرات باقی ہیں ، عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! مبشرات سے کیا مراد ہے؟ فرمایا : اچھے خواب، یا فرمایا : نیک خواب۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 454/5، وسنده صحيح)
ان احادیث سے ثابت ہوا کہ نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے۔ صرف مبشرات باقی رہیں گے ،مبشرات مسلمانوں کے نیک خوابوں کو کہتے ہیں۔
۲۵ سیدنا عقبہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :
لَوْ كَانَ بَعْدِي نَبِي لَكَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ.
”اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا، تو وہ عمر بن خطاب ہوتے۔“
(سنن الترمذي : 3686، مسند الإمام أحمد : 154/4، المعجم الكبير للطبراني : 180/17، المستدرك للحاكم : 85/3، وسنده حسن)
اس حدیث کو امام ترمذیؒ نے ’’حسن غریب‘‘ امام حاکمؒ نے صحیح الاسناد اور حافظ ذہبیؒ نے صحیح کہا ہے۔ امام ابن حبانؒ نے صحیح قرار دیا ہے۔
(إتحاف المهرة لابن حجر : 224/11، ح : 13924)
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں :
هُوَ ثَابِتٌ عَنْهُ.
’’یہ مشرح بن ہاعان سے ثابت ہے۔‘‘
(منهاج السنة : 69/6)
مشرح بن ہاعان کو امام یحییٰ بن معین، امام یعقوب بن سفیان فسوی، امام عجلی، امام ابن عدی اور امام ابن حبان سمیت جمہور محدثین کرامؒ نے ثقہ کہا ہے۔
انہیں حافظ ذہبیؒ (الکاشف : 3 / 129) نے ثقہ کہا ہے۔ نیز صدوق بھی کہا ہے۔
(میزان الاعتدال : 4 / 117)
امام احمد بن حنبلؒ سے اس حدیث کے بارے پوچھا گیا، تو فرمایا :
اضْرِبْ عَلَيْهِ؛ فَإِنَّهُ عِنْدِي مُنْكَرُ.
’’اسے چھوڑیے، میرے نزدیک یہ منکر ہے۔‘‘
(المنتخب من علل الخلال، ص 189)
امام ابن حبانؒ فرماتے ہیں :
يَرْوِي عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ أَحَادِيْثَ مَنَاكِيرَ لَا يُتَابَعُ عَلَيْهَا وَالصَّوَابُ فِي أَمْرِهِ تَرْكُ مَا انْفَرَدَ مِنَ الرِّوَايَاتِ وَالِاعْتِبَارُ بِمَا وَافَقَ الثّقات.
’’مشرح نے عقبہ بن عامرؓ سے (چند) منکر روایات بیان کی ہیں، جن کی متابعت نہیں ہوئی۔ راجح یہ ہے کہ اس کی منفرد روایات چھوڑ دی جائیں اور ثقات کے موافق روایات لے لی جائیں۔‘‘
(کتاب المجروحین : 28/3)
اس روایت میں مشرح بن ہاعان اگرچہ منفرد ہے لیکن ثقات کی مخالفت نہیں کی، لہذا اس کی یہ روایت قبول کی جائے گی، یہ بھی ملحوظ رہے کہ مشرع کی منفرد روایات پر نکارت کی جرح امام ابن حبان نے کی ہے اور انہوں نے ہی مشرع کی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کی یہ روایت منکر نہیں۔
امام احمد بن حنبل سے اس پر منکر کی جرح ملتی ہے، تو گزارش ہے کہ :
◈ ممکن ہے، انہوں نے اس کی کسی خاص سند کو منکر کہا ہو، کیوں کہ اس کی بعض ضعیف سندیں بھی موجود ہیں۔
◈ اگر اسی سند کو منکر کہا ہے تو جمہور محدثین اور ثقہ دلائل کے مخالف ان کا یہ موقف درست نہیں۔ واللہ اعلم!
حافظ عراقیؒ (806ھ) فرماتے ہیں :
حديث : لَوْ لَمْ أُبْعَثْ لَبُعِثْتَ يَا عُمَرُ منکر ہے۔
جب کہ حدیث : لَوْ كَانَ بعدِي نَبِيٌّ لَكَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ معروف ہے۔
(المغني عن حمل الأسفار في الأسفار، ص 1054)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نبی اکرم ﷺ کے بعد کوئی تشریعی یا غیر تشریعی نبی نہیں آئے گا۔ اگر سیدنا عمرؓ نبی نہیں ہوئے تو اور کون ہو سکتا ہے؟
۲۶ سیدنا ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
لَقَدْ كَانَ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ مِّنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ رِجَالٌ ، يُكَلَّمُونَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَكُونُوا أَنْبِيَاءَ، فَإِنْ يَكُنْ مِنْ أُمَّتِي مِنْهُمْ أَحَدٌ فَعُمَرُ.
’’بنی اسرائیل میں ایسے لوگ بھی گزرے ہیں، جن سے کلام کیا جاتا تھا، حالانکہ وہ نبی نہ تھے۔ اگر میری امت میں سے ایسا کوئی ہوا، تو وہ عمر بن خطاب ہوں گے۔“
(صحيح البخاري : 3689)
ایک روایت کے الفاظ ہیں :
لَقَدْ كَانَ فِيمَا قَبْلَكُمْ مِنَ الْأُمَمِ مُحَدَّثُونَ، فَإِنْ يَّكُ فِي أُمَّتِي أَحَدٌ، فَإِنَّهُ عُمَرُ.
’’ پہلی امتوں میں محدث ہو گزرے ہیں، اگر میری امت میں ایسا کوئی ہوا، تو عمر ہوں گے۔“
(صحيح البخاري : 3689 ، ورواه مسلم : 2398 وغيره من حديث عائشة)
سیدہ عائشہؓ کی ایک روایت کے الفاظ ہیں :
مَا كَانَ مِنْ نَبِي إِلَّا وَفِي أُمَّتِهِ مُعَلَّمٌ أَوْ مُعَلَّمَانِ، فَإِنْ يَكُنْ فِي أُمَّتِي أَحَدٌ مِنْهُمْ، فَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ.
’’ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا، جس کی امت میں ایک دو معلم نہ ہوئے ہوں۔ اگر میری امت میں کوئی معلم ہوا، تو وہ عمر بن خطاب ہوں گے۔‘‘
(السنة لابن أبي عاصم : 1297، وسنده حسن)
عبد الرحمن بن ابی الزناد ’’موثق حسن الحدیث‘‘ ہیں، حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں :
وَهُوَ ثِقَةٌ عِنْدَ الجُمْهُورِ، وَتَكَلَّمَ فِيهِ بَعْضُهُمْ بِمَا لَا يَقْدَحُ فيه.
’’یہ جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں، بعض نے ان پر کلام کیا ہے، جو موجب قدح نہیں۔‘‘
(نتائج الأفكار : 304)
یادرہے کہ ’’محدث‘‘، ’’مکلم‘‘ اور ’’معلم‘‘ کا ایک ہی مطلب ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر اس امت میں کوئی ’’محدث‘‘، ’’متکلم‘‘ اور ’’معلم‘‘ ہوتا، تو سیدنا عمر بن خطابؓ ہوتے ، اس کا مفہوم مخالف یہ ہوا کہ جب سیدنا عمرؓ محدث ہونے کا شرف حاصل نہ کر سکے، تو پھر کوئی اور بھی حاصل نہیں کر سکتا۔
۲۷ اسماعیل بن عبدالرحمن سدیؒ کہتے ہیں :
سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكِ، قُلْتُ : صَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ابْنِهِ إِبْرَاهِيمَ؟ قَالَ : لَا أَدْرِي، رَحْمَةُ اللهِ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، لَوْ عَاشَ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا.
’’ دو میں نے سیدنا انس بن مالکؓ سے پوچھا کہ کیا نبی اکرم ﷺ نے اپنے بیٹے ابراہیم کا جنازہ پڑھا تھا ؟ فرمایا : معلوم نہیں، ابراہیم پر اللہ کی رحمت ہو۔ وہ اگر زندہ ہوتے تو سچے نبی ہوتے۔“
(مسند الإمام أحمد : 281280/3، طبقات ابن سعد : 140/1، وسنده حسن)
۲۸ اسماعیل بن ابی خالدؒ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفیؓ سے عرض کیا :
رَأَيْتَ إِبْرَاهِيمَ بْنَ النبي صَلَّى اللهُ وَسَلَّمَ؟ قَالَ : مَاتَ صَغِيرًا، وَلَوْ قُضِيَ أَن يَكُونَ بَعْدَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِي عَاشَ ابْنُهُ، وَلكِنْ لَّا نَبِيَّ بَعْدَهُ.
’’ کیا آپ نے نبی اکرم ﷺ کے بیٹے ابراہیم کو دیکھا ہے؟ فرمایا : وہ بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے۔ اگر نبی کریم ﷺ کے بعد کسی نبی کے آنے کی گنجائش ہوتی ، تو آپ کا وہ صاحبزادہ زندہ رہتا لیکن آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں۔“
(صحيح البخاري : 6194، سنن ابن ماجه : 1510، المعجم الأوسط للطبراني : 6638، تاریخ ابن عساکر : 135/3)
’’ یہ روایات کھلے لفظوں بتا رہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی کو نبوت ملنا ہوتی تو ابراہیم بن محمد ﷺ زندہ رہتے، ان کی فوتیدگی بتاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی کو نبوت مل ہی نہیں سکتی۔ نبی اکرم ﷺ کے بعد جو بھی مدعی نبوت ہوگا، وہ مفتری اور کذاب و دجال ہوگا، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
إِنَّ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ ثَلَاثِينَ كَذَّابًا دَجَالًا، كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ.
’’ قیامت سے قبل تیس کذاب اور دجال پیدا ہوں گے، ہر ایک نبوت کا دعویدار ہوگا۔‘‘
(دلائل النبوة للبيهقي : 480/6، صحيح)
نیز فرمایا :
لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَخْرُجَ ثَلَاثُونَ كَذَّابًا، دَجَالًا، كُلُّهُمْ يَكْذِبُ عَلَى اللهِ وَعَلَى رَسُولِه.
”جب تک تیس (نامور) کذاب اور دجال پیدا نہیں ہوں گے، قیامت قائم نہیں ہوگی، ان میں سے ہر ایک اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹ باندھے گا۔“
(سنن أبي داود : 4334، وسنده حسن)
۲۹ سیدنا انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ قیامت کے دن لوگ شفاعت کبری کے لئے انبیاء کے پاس جائیں، عیسیؑ کے پاس بھی جائیں گے، ان سے کہیں گے عیسٰی ! اپنے رب سے ہمارے فیصلے کی سفارش کریں، وہ فرمائیں گے کہ اس وقت میں آپ کے کام نہیں آسکتا، ایسا کریں کہ
لكن ائتوا مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّهُ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ.
’’محمد ﷺ کے پاس جائیں، وہ آخری نبی ہیں۔“
وہ آج موجود ہیں، ان کے پہلے اور بعد کے گناہ معاف کر دیئے گئے ہیں۔ عیسیؑ پوچھیں گے، ایک برتن میں سامان رکھ کر اس پہ مہر لگا دی گئی ہو، تو کیا مہر توڑے بغیر برتن کے سامان تک رسائی ممکن ہے؟ لوگ کہیں گے نہیں، تو عیسیؑ فرمائیں گے :
إِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ۔
’’یقینا محمد ﷺ آخری نبی ہیں۔“
(مسند الإمام أحمد : 248/3، وسنده صحيح)
سیدنا عیسیؑ نے بڑی پیاری مثال دے کر بات سمجھاتی ہے کہ جس طرح مہر توڑے بغیر سامان کا حصول ممکن نہیں، اسی طرح اس کام کے لیے مہر والی ہستی کے پاس جانا ہوگا، جو کہ آخری نبی ہیں۔
دوسری روایت میں ہے:
يَأْتُونَ مُحَمَّدًا فَيَقُولُونَ : يَا مُحَمَّدُ، أَنْتَ رَسُولُ اللهِ وَخَاتِمُ الأنبياء.
’’لوگ محمد رسول اللہ ﷺ کے پاس جائیں گے اور کہیں گے: اے محمد ﷺ ! آپ اللہ کے رسول اور خاتم الانبیا ہیں۔“
(صحيح البخاري : 4712، صحیح مسلم : 194)
۳۰ سیدنا عوف بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا :
أَبَيْتُمْ، فَوَاللَّهِ! إِنِّي لَأَنَا الْحَاشِرُ، وَأَنَا الْعَاقِبُ، وَأَنَا النَّبِيُّ المُصْطَفَى آمَنْتُمْ أَوْ كَذَبْتُمْ.
’’یہودیو! تم نے (لا الہ الا اللہ) کا انکار کیا ہے۔ اللہ کی قسم ! تم مجھ پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ، میں حاشر ہوں(یعنی میرے بعد حشر برپا ہوگا)، میں عاقب ہوں (میرے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا)، میں نبی مصطفی ہوں۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 25/6، ح : 24484، وسنده حسن)
۳۱ سیدنا سمرہ بن جندبؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
إِنَّهُ وَاللهِ! لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَخْرُجَ ثَلَاثُونَ كَذَّابًا، آخِرُهُمُ الْأَعْوَرُ الدَّجَّالُ.
’’اللہ کی قسم! اس وقت تک قیامت قائم نہ ہوگی، جب تک تیس کذاب پیدا نہیں ہوں گے، ان میں آخری کذاب کانا دجال ہوگا۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 16/5، العجم الكبير للطبراني المستدرك للحاكم 3323، وسنده حسن)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہؒ (1397)، امام ابن حبانؒ (2856) نے صحیح اور امام حاکمؒ نے بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے، حافظ ذہبیؒ نے ان کی موافقت کی ہے۔
اس حدیث کو امام ابوداؤدؒ (1184)، امام نسائیؒ (1484) اور امام ترمذیؒ (562) نے اسی سند سے مختصر روایت کیا ہے۔ امام ترمذیؒ نے اسے حسن صحیح بھی کہا ہے۔
ثعلبہ بن عباد ’’حسن الحدیث‘‘ ہیں۔ امام ابن خزیمہ، امام ابن حبان، امام ترمذی اور امام حاکمؒ نے حدیث کی تصیح کر کے اس کی توثیق کی ہے، لہذا اسے ’’مجہول‘‘ کہنا درست نہیں۔
۳۲ سیدنا جابر بن عبداللهؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
كَانَ النَّبِيُّ يُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةٌ، وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ عَامَّةٌ.
’’پہلے انبیاء صرف اپنی قوم کی طرف بھیجے جاتے تھے، لیکن مجھے تمام انسانوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہے۔‘‘
(صحيح البخاري : 335، صحیح مسلم : 521)
صحیح مسلم (3/521) میں ہے:
كَانَ كُلُّ نَبِي يُبْعَثُ إِلى قَوْمِهِ خَاصَّةٌ، وَبُعِثْتُ إِلى كُلّ أَحْمَرَ واسود.
’’پہلے انبیاء کو ان کی قوموں کی طرف بھیجا جاتا تھا، لیکن مجھے ہر سرخ و سیاہ کی طرف مبعوث کیا گیا ہے۔“
۳۳ سیدنا ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَا يَسْمَعُ بِي أَحَدٌ مِّنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ يَهُودِي وَلَا نَصْرَانِي ، ثُمَّ يَمُوتُ وَلَمْ يُؤْمِنُ بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ؛ إِلَّا كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ.
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس امت کا جو بھی یہودی و نصرانی میرا پیغام سنے اور میری تعلیمات پر ایمان لائے بغیر مر جائے،وہ جہنمی ہے۔“
(صحیح مسلم : 153)
حافظ نوویؒ (676 ھ) لکھتے ہیں :
قَوْلُهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَا يَسْمَعُ بِي أَحَدٌ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ، أَي مَنْ هُوَ مَوْجُودٌ فِي زَمَنِي وَبَعْدِي إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، فَكُلُّهُمْ يَجِبُ عَلَيْهِمُ الدُّخُولُ فِي طَاعَتِهِ، وَإِنَّمَا ذَكَرَ الْيَهُودِي وَالنَّصْرَانِي تنبيها عَلى مَنْ سِوَاهُمَا، وَذَلِكَ لأنَّ اليَهُودَ وَالنَّصَارَى لَهُمْ كِتَابٌ، فَإِذَا كَانَ هَذَا شَأْنَهُمْ مَّعَ أَنَّ لَهُمْ كِتَابًا؛ فَغَيْرُهُمْ مِّمَّنْ لَّا كِتَابَ لَهُ أَوْلى.
’’فرمان رسول ﷺ ’’اس امت کا جو بھی فرد میرا پیغام سنے گا۔“ سے مراد یہ ہے کہ میری اطاعت قیامت تک کے لئے سب پر واجب ہے، وہ میرے زمانے کے لوگ ہوں یا میرے بعد آئیں۔ پھر آپ ﷺ نے یہود و نصاری کا ذکر کیا، حالاں کہ یہود و نصاری کے پاس اپنی کتاب موجود ہے، دراصل آپ سمجھانا چاہتے تھے کہ اگر یہود و نصاری اہل کتاب ہونے کے باوجود رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کے مکلف ہیں تو وہ لوگ جن کے پاس کتابیں نہیں ہیں ، بالا ولی آپ ﷺ پر ایمان لانے کے مکلف ہوں گے۔‘‘
(شرح صحیح مسلم : 188/2-189)
۳۴ جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ فرمایا کرتے تھے :
بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ.
”میری بعثت اور قیامت کے درمیان اتنا فاصلہ ہے، جتنا ان دو انگلیوں میں ہے۔“
(صحیح مسلم:867)
۳۵ سیدنا انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
لَسْتُ مِنَ الدُّنْيَا وَلَيْسَتْ مِنِّي إِنِّي بُعِثْتُ وَالسَّاعَةُ نَسْتَبِقُ.
”میرا اور دنیا کا باہمی ربط کچھ ایسا ہے کہ ادھر میری بعثت ہوئی اور ادھر قیامت قائم ہوئی۔‘‘
(تاریخ ابن عساكر : 334/9 ، المختارة للضّياء : 1542، وسنده صحيح)
مقصود یہ ہے کہ میرے اور قیامت کے درمیان اب اور کوئی نبی نہیں آئے گا۔
امام ابن حبانؒ (354ھ) فرماتے ہیں :
أَرَادَ بِهِ أَنِّي بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ كَالسَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى مِنْ غَيْرِ أَن يَكُونَ بَيْنَنَا نَبِيٍّ آخَرُ، لأنّي آخِرُ الأَنْبِيَاءِ وَعَلَى أُمَّتِي تَقُومُ السَّاعَةُ.
’’رسول اللہ ﷺ کی مراد یہ ہے کہ میری بعثت اور قیامت ایسے ہی ہے، جیسے انگشت شہادت اور بڑی انگلی۔ چنانچہ میرے اور قیامت کے درمیان کوئی نبی نہیں، میں آخری نبی ہوں اور میری امت پر ہی قیامت قائم ہوگی۔‘‘
(صحيح ابن حبان : 11/15)
علامہ قرطبیؒ (671 ھ) لکھتے ہیں :
أَمَّا قَوْلُهُ : بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ، فَمَعْنَاهُ أَنَا النَّبِيُّ الْأَخِيرُ فَلَا يَلِينِي نَبِيٍّ آخَرُ، وَإِنَّمَا تَلِينِي الْقِيَامَةُ كَمَا تَلِي السَّبَّابَةُ الوسطى وَلَيْسَ بَيْنَهُمَا إِصْبَعِ أُخْرَى، وَهَذَا لَا يُوجِبُ أَن يَكُونَ لَهُ عِلْمٌ بِالسَّاعَةِ نَفْسِهَا وَهِيَ مَعَ ذَلِكَ كَائِنَةٌ لِأَنَّ أَشْرَاطَهَا مُتَتَابِعَةٌ، وَقَدْ ذَكَرَ اللهُ الْأَشْرَاطَ فِي الْقُرْآنِ، فَقَالَ: ﴿فَقَدْ جَاءَ أَشْرَاطُهَا﴾ (محمد:18) أَي دَنَتْ، وَأَوَّلُهَا النَّبِيُّ : صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَنَّهُ نَبِيُّ آخِرِ الزَّمَانِ، وَقَدْ بُعِثَ وَلَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِيَامَةِ نَبِي.
’’ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں ’’میری بعثت اور قیامت کے درمیان اتنا سا فاصلہ باقی ہے، جتنا ان دو انگلیوں میں ہے۔‘‘ یعنی میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ میرے بعد قیامت ہی آئے گی، جیسے انگشت شہادت اور بڑی انگلی کے درمیان کوئی انگلی نہیں ہوتی اسی طرح میرے اور قیامت کے درمیان کوئی نبی نہیں۔ قیامت کی خبر دینے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ ﷺ کے پاس قیامت کا علم تھا، مطلب یہ ہے کہ قیامت نے تو آنا ہی ہے اور اس کی نشانیاں لا محالہ ظاہر ہوتی ہیں، جیسا کہ اللہ نے فرمایا : ”قیامت کی نشانیاں قریب ہیں۔‘‘ تو ان میں سے پہلی نشانی آخر الزماں نبی ﷺ ہیں۔ اب آپ کی بعثت ہو چکی، اس کے بعد قیامت تو آئے گی، کوئی نبی نہیں۔“
(التذكرة في أحوال الموتى وأمور الآخرة : 1219)
علامہ ابن رجبؒ (795ھ) لکھتے ہیں :
قَدْ فُسِّرَ قَوْلُهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ، وَقَرَنَ بَيْنَ السَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى بِقُرْبِ زَمَانِهِ مِنَ السَّاعَةِ، كَقُرْبِ السَّبَّابَةِ مِنَ الْوُسْطى، وَبِأَنَّ زَمَنَ بِعْتَتِهِ تَعَقَّبَهُ السَّاعَةُ مِنْ غَيْرِ تَخَلَّلِ نَبِي آخَرَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّاعَةِ.
’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”میری بعثت اور قیامت میں اتنا سا فاصلہ باقی ہے، جتنا ان دو انگلیوں کے درمیان ہے۔‘‘ اس کی مراد یہ ہے کہ میرا زمانہ قیامت سے اتنی قربت رکھتا ہے، جیسے انگشت شہادت اور بڑی انگلی اور نبی کریم ﷺ کی بعثت کے بعد قیامت ہی آئے گی، درمیان میں کوئی نبی نہیں پیدا نہیں ہوگا.‘‘
(فتح الباري شرح صحيح البخاري : 355/4)
۳۶ سیدنا سائب بن یزیدؓ بیان کرتے ہیں :
نَظَرْتُ إِلى خَاتَمِ النُّبُوَّةِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ، مِثْلَ زِرِّ الْحَجَلَةِ.
’’میں نے نبی کریم ﷺ کے کندھوں کے درمیان مہر نبوت کو دیکھا، وہ کبوتر کے انڈے کی مانند تھی۔“
(صحيح البخاری:5670، صحیح مسلم:2345)
۳۷ سیدنا جبیر بن مطعمؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
إِنَّ لِي أَسْمَاء أَنَا مُحَمَّدٌ وَأَحْمَدُ وَالْعَاقِبُ وَالْمَاحِي وَالْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى عَقِبِي، وَالْعَاقِبُ آخِرَ الْأَنْبِيَاءِ.
”میرے کئی نام ہیں، میں محمد، احمد، عاقب، ماحی، حاشر ﷺ ہوں، حاشر اسے کہتے ہیں، جس کے بعد حشر قائم ہو اور عاقب کا معنی آخری نبی ہے۔“
(مسند البزار : 3413، وسنده صحيح)
امام بزارؒ نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔
۳۸ سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
بُعِثْتُ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ بِالسَّيْفِ حَتَّى يُعْبَدَ اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَجُعِلَ رِزْقِي تَحْتَ ظِلِ رُمْحِي، وَجُعِلَ الذِلَّةُ وَالصَّغَارُ عَلَى مَنْ خَالَفَ أَمْرِي، وَمَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنهم.
’’قیامت سے ذرا پہلے مجھے تلوار دے کر بھیجا گیا ہے، جب تک صرف اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت نہ ہونے لگے، تلوار چلتی رہے گی۔ میرا رزق نیزوں کے سائے میں رکھا گیا ہے۔ ذلت اور رسوائی میری شریعت کے مخالف کا مقدر ہے، جو جس قوم کے ساتھ مشابہت رکھتا ہے، وہ ان میں سے ہوتا ہے۔“
(مسند الإمام أحمد : 50/2، وسنده حسن)
۳۹ سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
إِنِّي خَاتَمُ النَّبيِّينَ، وَلَا نَبِي بَعدِي
’’میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔“
(التاريخ الكبير للبخاري : 4/2، وسنده حسن)
۴۰ سیدنا جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
أَنَا سَيِّدُ الْمُرْسَلِينَ، وَلَا فَخَرَ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ وَلَا فَخَرَ وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعِ وَمُشَفَّعٍ وَّلَا فَخَرَ.
’’میں سید المرسلین، خاتم النبیین اور پہلا شافع مشفع ہوں، یہ بات میں از روئے فخر نہیں کہتا (بلکہ تحدیث نعمت کے طور پر کہتا ہوں)‘‘
(الأوائل لابن أبي عاصم : 87 ، واللفظ له، المعجم الأوسط للطبراني : 170 التاريخ الكبير للبخاري : 286/4 دلائل النبوة للبيهقي : 480/5، وسنده صحيح)
آثار صحابہؓ
ضروری ہے کہ رازدانان رموز شریعت اور عارفان علوم نبوت، صحابہ کرام ؓ کی آرا اور ان کا عقیدہ بیان کر دیا جائے، وہ لوگ جنہوں نے شریعت کا جام جہاں نما صاحب شریعت کے ہاتھوں سے لے کر غٹک لیا تھا، شریعت کی چاندی جن کے سراپوں میں اتر کر انہیں کافوری کر گئی تھی۔ وہ لوگ جورسول اللہ کے براہ راست شاگرد رہے، رسول خدا نے انہیں اسلام کے چمن کا گلچیں نامزد کیا، انہیں تبلیغ شریعت کا چارج دیا گیا، یہ چارج اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اسلام کا ہر عقیدہ و عمل انہیں ذی حشم ہستیوں سے لیا جائے گا، کسی دوسرے سے نہیں۔ ان سے پوچھا جائے گا کہ رسول اللہ ﷺ کی کس بات کا کیا معنی اور کیا مفہوم ہے۔ ان کی آرا ملاحظہ ہوں:
❀ سیدنا ابوبكر صديقؓ
ختم نبوت کے حوالے سے نبوت کے ان وارثین نے کیا کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں اور اس کے بارے میں ان کا عقیدہ کیا تھا؟ اس پر سیدنا صدیق اکبرؓ کا وہ فیصلہ پڑھ لیجئے، جو انہوں نے مسیلمہ کذاب اور اس کے پیروں کے متعلق کیا۔ مسیلمہ کی طرف فوج روانہ کی گئی، اس سے جنگ ہوئی اور بالاخر مسیلمہ کو قتل کر دیا گیا، جھوٹے مدعی نبوت کو قتل کرنے کا یہ فیصلہ صحابہ کے اجماع نے کیا تھا، کوئی صحابی اس فیصلے کی مخالفت کرتا نظر نہیں آیا، سیدنا وحشی بن حربؓ بیان کرتے ہیں :
خَرَجَ مُسَيْلِمَةُ الكَذَّابُ، قُلْتُ : لَأَخْرُجَنَّ إِلَى مُسَيْلِمَةَ، لَعَلِّي أَقْتُلَهُ فَأُكَافِى بِهِ حَمْزَةَ، قَالَ : فَخَرَجْتُ مَعَ النَّاسِ، فَكَانَ مِنْ أَمْرِهِ مَا كَانَ، قَالَ : فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ فِي ثَلْمَةِ جِدَارٍ، كَأَنَّهُ جَمَلٌ أَوْرَقُ نَائِرُ الرَّأْسِ ، قَالَ : فَرَمَيْتُهُ بِحَرْبَتِي، فَأَضَعُهَا بَيْنَ ثَدْيَيْهِ حَتَّى خَرَجَتْ مِنْ بَيْنِ كَيْفَيْهِ، قَالَ : وَوَثَبَ إِلَيْهِ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فَضَرَبَهُ بِالسَّيْفِ عَلَى هَامَتِه.
’’مسیلمہ کذاب کے فتنہ نے زور پکڑا، تو میرے دل میں خیال آیا کہ مسیلمہ کو میں قتل کر دوں گا، تا کہ سیدنا حمزہؓ کے قتل کا بوجھ میرے سر سے اتر جائے۔ میں اس سے جنگ کرنے والے لشکر میں شامل ہو گیا، کیا دیکھتا ہوں کہ ایک آدمی دیوار کے شگاف میں کھڑا ہے، یہ خاکستری اونٹ کی طرح گندم گوں تھا اور اس کے بال پراگندہ تھے۔ میں نے نیزہ اس کے سینے کے پار کر دیا، پھر ایک انصاری نے تلوار سے اس کا سر قلم کر دیا۔‘‘
(صحيح البخاري : 4072)
اس واقعہ پر تدبر کیجئے، تو سمجھ آتی ہے کہ ختم نبوت کے عقیدہ پر اختلاف کی گنجائش ہی موجود نہیں، چہ جائیکہ کسی نبی کی آمد کا امکان ہو۔
صحابہ کے مجموعی تعامل کے بعد بعض صحابہ کے اقوال بھی نقل کئے جاتے ہیں تا کہ کسی قسم کا ابہام باقی نہ رہے۔
❀ سیدنا عمر بن خطابؓ
سیدنا عمر بن خطابؓ نے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا :
يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَلَا إِنَّا إِنَّمَا كُنَّا نَعْرِفُكُمْ إِذْ بَيْنَ ظَهْرَانَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِذْ يَنْزِلُ الْوَحْيُّ، وَإِذْ يُنْبِتُنَا اللهُ مِنْ أَخْبَارِكُمْ، أَلَا وَإِنَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِ انْطَلَقَ وَقَدِ انْقَطَعَ الْوَحْيُ.
”لوگو! نبی ﷺ کے ہوتے ہم آپ کی کیفیت جان لیتے تھے، کیوں کہ تب وحی نازل ہوتی تھی اور اللہ ہمیں آپ کی خبر دے دیا کرتا تھا۔ خبردار! نبی ﷺ دنیا سے چلے گئے اور وحی کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے۔“
(مسند الإمام أحمد : 41/1، وسنده حسن)
ایک دفعہ فرمایا:
إِنَّ أُنَاسًا كَانُوا يُؤْخَذُونَ بِالْوَحْيِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّ الْوَحْيَ قَدِ انْقَطَعَ.
’’رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں انسانوں کے معاملات بذریعہ وحی کھول دیئے جاتے تھے مگر اب وحی منقطع ہو چکی ہے۔“
(صحيح البخاري : 2641)
❀ سیدہ ام ایمنؓ
نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد سیدنا ابوبکرؓ نے سیدنا عمرؓ سے کہا :
اِنْطَلِقْ بِنَا إِلَى أُمِّ أَيْمَنَ نَزُورُهَا، كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزُورُهَا ، فَلَمَّا انْتَهَيْنَا إِلَيْهَا بَكَتْ، فَقَالَا لَهَا : مَا يُبْكِيكِ ؟ مَا عِنْدَ اللهِ خَيْرٌ لِرَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ : مَا أَبْكِي أَن لَّا أَكُونَ أَعْلَمُ أَنَّ مَا عِنْدَ اللهِ خَيْرٌ لِرَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَكِنْ أَبْكِي أَنَّ الْوَحْيَ قَدِ انْقَطَعَ مِنَ السَّمَاءِ، فَهَيَّجَتْهُمَا عَلَى البُكَاءِ، فَجَعَلا يَبْكِيَان مَعَهَا.
’’ام ایمنؓ کے پاس چلتے ہیں، رسول اللہ ﷺ میں بھی ان کے پاس جایا کرتے تھے، جب ام ایمنؓ کے پاس گئے، تو وہ رونے لگیں : عرض کیا : روتی کیوں ہیں؟ اللہ کے ہاں جو ہے، وہ رسول اللہ ﷺ کے لئے بہتر ہے، کہنے لگیں : جانتی ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کے لئے اللہ کے ہاں بہت بہتر ہے، روتی مگر اس لئے ہوں کہ آسمان سے وحی کا سلسلہ منقطع ہو چکا، یہ سن کر سیدنا عمر اور سیدنا ابوبکرؓ کے دیدے بھی نم ہو گئے۔‘‘
(صحیح مسلم : 2454)
❀ سیدنا ابو ہریرہؓ
سیدنا ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں :
إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آخِرُ الْأَنْبِيَاءِ.
’’بے شک رسول اللہ ﷺ آخری نبی ہیں۔“
(صحیح مسلم : 1394)
❀ سیدنا انس بن مالکؓ
سیدنا انسؓ فرماتے ہیں :
لَوْ بَقِيَ لَكَانَ نَبِيًّا وَلكِنْ لَّمْ يَكُنْ لِيَبْقَى لِأَنَّ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آخِرُ الْأَنْبِيَاءِ.
’’ابراہیمؓ اگر زندہ رہتے، تو نبی ہوتے لیکن انہیں زندہ رہنا ہی نہیں تھا، کیوں کہ آپ ﷺ آخر الزمان پیغمبر ہیں۔“
(تاریخ ابن عساکر : 135/3، وسنده حسن)
❀ سیدنا عبداللہ بن ابی اوفیؓ
اسماعیل بن ابی خالد شاہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفیؓ سے عرض کیا :
رَأَيْتَ إِبْرَاهِيمَ بْنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ : مَاتَ صَغِيرًا، وَلَوْ قُضِيَ أَن يَكُونَ بَعْدَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِي عَاشَ ابْنُهُ، وَلكِنْ لَّا نَبِيَّ بَعْدَهُ.
’’کیا آپ نے نبی اکرم ﷺ کے بیٹے ابراہیم کو دیکھا ہے؟ فرمایا : وہ بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے۔ اگر نبی کریم ﷺ کے بعد کسی نبی کے آنے کی گنجائش ہوتی، تو آپ کا وہ صاحبزادہ زندہ رہتا، لیکن آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں۔“
(صحيح البخاري:6194، سنن ابن ماجه:1510، المعجم الأوسط للطبراني:6638، تاریخ ابن عساکر:135/3)
❀ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ
آپ فرمایا کرتے تھے :
”درود میں اچھے الفاظ کا انتخاب کریں، کیا معلوم وہ نبی ﷺ پر پیش کیا جائے۔ لوگوں نے کہا: آپ ہمیں وہ الفاظ سکھا دیجیے۔ فرمایا: تو پڑھیں:
اللهُمَّ اجْعَلْ صَلَاتَكَ، وَرَحْمَتَكَ، وَبَرَكَاتِكَ عَلَى سَيِّدِ الْمُرْسَلِينَ، وَإِمَامِ الْمُتَّقِينَ، وَخَاتَمِ النَّبِيِّينَ، مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَرَسُولِكَ، إِمَامٍ الخَيْرِ، وَقَائِدِ الخَيْرِ، وَرَسُولِ الرَّحْمَةِ، اللهُمَّ ابْعَثْهُ مَقَامًا مَّحْمُودًا، يَغْبِطُهُ بِهِ الْأَوَّلُونَ وَالْآخِرُونَ، اللهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللهُمَّ بَارِكْ عَلى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ.
اے اللہ ! تو سید المرسلین، اما المتقین او خاتم النبین، جناب محمد ﷺ پر رحمتیں اور برکتیں نازل فرما، جو تیرے بندے، رسول، امام الخیر، قائد الخیر اور رسول رحمت ہیں۔ یا اللہ! انہیں مقام محمود پر فائز فرما، جس پر اولین و آخرین رشک کریں۔ اے اللہ! محمد ﷺ اور آپ کی آل پر اس طرح رحمت فرما، جس طرح ابراہیمؑ اور ان کی آل پر فرمائی تھی، بلاشبہ تو ہی قابل تعریف اور بزرگی والا ہے۔ اللہ! محمد ﷺ اور ان کی آل کو اس طرح برکت دے، جیسے تو نے ابراہیمؑ اور ان کی آل کو برکت دی، بلاشبہ تو ہی قابل تعریف اور بزرگی والا ہے۔“
(سنن ابن ماجه : 906 المعجم الكبير للطبراني : 115/9؛ ح : 8594، مسند الشّاشي : 611 ؛ الدعوات الكبير للبيهقي : 177، وسنده صحيح)
❀ سیدنا عتبہ بن غزوانؓ
سید نا عتبہ بن غزوانؓ نے خطبہ میں فرمایا :
إِنَّهَا لَمْ تَكُنْ نُبُوَّةٌ قَط إِلَّا تَنَاسَخَتْ.
سلسلہ نبوت اب ختم ہو چکا ہے۔
(صحیح مسلم : 2967)
فہم امت
قرآن وسنت کی نصوص سے علمائے امت نے کیا سمجھا ہے، ملاحظہ کیجئے :
❀ امام آجریؒ (360ھ)
امام ابوبکر محمد بن حسین آجریؒ لکھتے ہیں :
بَابُ ذِكْرِ مَا خَتَمَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَنْبِيَاءَ وَجَعَلَهُ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ.
’’محمد ﷺ کی ختم نبوت یعنی آپ کے سب سے آخری نبی ہونے کا بیان۔“
(الشريعة : 1471/3)
❀ علامہ ابن حزمؒ (456)
علامہ ابن حزمؒ لکھتے ہیں :
قَدْ صَحَ عَنْ رَّسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَقْلِ الْكَوَاتِ الَّتِي نَقَلَتْ نَبُوَّتَهُ وَأَعْلَامَهُ وَكِتَابَهُ أَنَّهُ أَخْبَرَ أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ إِلَّا مَا جَاءَتِ الْأَخْبَارُ الصِّحَاحُ مِنْ نُّزُولِ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ الَّذِي بُعِثَ إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ وَادَّعَى الْيَهُودُ قَتْلَهُ وَصَلْبَهُ فَوَجَبَ الإِقْرَارُ بِهَذِهِ الْجُمْلَةِ وَصَحٌ أَنَّ وُجُودَ النُّبُوَّةِ بَعْدَة علَيْهِ السَّلَامُ بَاطِلٌ.
’’ جس طرح نبی کریم ﷺ کی نبوت، آپ ﷺ کا نام اور آپ ﷺ کی کتاب تواتر سے ثابت ہے، اسی طرح آپ ﷺ کا آخری نبی ہونا بھی تو اتر سے ثابت ہے۔ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں، البتہ سیدنا عیسیؑ کے نزول کی احادیث ثابت ہیں، یہ بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے تھے اور یہود کا دعوی ہے کہ انہوں نے عیسیؑ کو قتل کر دیا تھا۔ ان تمام باتوں کا اقرار واجب ہے اور رسول اللہ ﷺ کے بعد نبوت کا وجود باطل ہے۔“
(الفصل في الملل والأهواء والنحل : 68/1)
مزید فرماتے ہیں:
هذَا مَعَ سَمَاعِهِمْ قَوْلَ اللَّهِ تَعَالَى : ﴿وَلكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ﴾ وَقَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَا نَبِيَّ بَعْدِي، فَكَيْفَ يَسْتَجِيزُهُ مُسْلِمٌ أَنْ يُثْبِتَ بَعْدَهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ نَبِيًّا فِي الْأَرْضِ، حَاشَا مَا اسْتَتْنَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْآثَارِ الْمُسْنَدَةِ الثَّابِتَةِ فِي نُزُولِ عِيسَى بنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ.
’’اللہ فرماتے ہیں : ﴿وَلكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ﴾ ’’لیکن آپ اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں۔‘‘ اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”میرے بعد کوئی نبی نہیں‘‘ بعض لوگ یہ فرامین سننے کے باوجود عقیدہ ختم نبوت کے منافی باتیں کرتے ہیں، کوئی مسلمان بھلا کیسے رسول اللہ ﷺ کے بعد روئے زمین پر کسی نبی کا اثبات کر سکتا ہے، البتہ سیدنا عیسیؑ نازل ہوں گے، ان کا استثناء رسول اللہ ﷺ نے صحیح احادیث میں فرما دیا ہے۔“
(الفصل في الملل والأهواء والنحل : 138/4)
نیز فرماتے ہیں:
قَالَ تَعَالَى: قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ ﴿٦٥﴾ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ (التوبة:65-66)، فَهُؤُلَاءِ كُلُّهُمْ كُفَّارٌ بِالنَّصِ، وَصَحَ الْإِجْمَاعُ عَلَى أَنَّ كُلَّ مَنْ جَحَدَ شَيْئًا صَحَ عِنْدَنَا بِالْإِجْمَاعِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتى بِهِ؛ فَقَدْ كَفَرَ، وَصَحَ بِالنَّصِ أَنَّ كُلَّ مَنِ اسْتَهْزَاً بِاللهِ تَعَالَى، أَوْ بِمَلَكِ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ، أَوْ بِنَبِي مِنَ الْأَنْبِيَاءِ عَلَيْهِمُ السَّلَامُ، أَو بِآيَةٍ مِّنَ الْقُرْآنِ، أَوْ بِفَرِيضَةٍ مِّنْ فَرَائِضِ الدِّينِ، فَهِيَ كُلُّهَا آيَاتُ اللهِ تَعَالَى، بَعْدَ بُلُوغِ الْحُجَّةِ إِلَيْهِ؛ فَهُوَ كَافِرٌ، وَمَنْ قَالَ بِنَبِي بَعْدَ النَّبِي عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ، أَوْ جَحَدَ شَيْئًا صَحَ عِنْدَهُ بِأَنَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَهُ، فَهُوَ كَافِرٌ، إِنَّهُ لَمْ يَحْكُم النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ خَصْمِه.
’’ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : قَالَ تَعَالَى: قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ ﴿٦٥﴾ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ (التوبة:65-66) (اے پیغمبر!) کہہ دیجیے کہ کیا اللہ، اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ تم استہزا کرتے ہو؟ عذر پیش نہ کرو، یقینا تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا ہے۔ یہ سب لوگ نص کی بنا پر کافر ہیں۔ جس نے رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کا انکار کیا، جن پر امت کا اجماع ہے، تو وہ شخص بالاتفاق کافر ہے۔ اسی طرح نص سے یہ بات ثابت ہے کہ جس شخص پر حجت قائم ہو چکی ہو، وہ اللہ کا کسی فرشتے کا کسی نبی، آیت یا دین کے کسی فریضہ کا مذاق اڑاتا ہے، تو کافر ہے۔ کیونکہ یہ تمام شعائر اللہ اور دین کی علامات ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی کو نبی ماننا بھی کفر ہے اور کسی حدیث کو رسول اللہ ﷺ سے ثابت مان کر اس کا انکار کرنے والا بھی کافر ہے۔ کیوں کہ اس نے اپنے اور مخالف کے مابین نبی ﷺ کو فیصل و حاکم تسلیم نہیں کیا۔‘‘
(الفصل في الملل والأهواء والنحل: 142/3)
واضح رہے کہ سیدنا عیسی بن مریمؑ کی بعثت بحیثیت ”نبی‘‘ صرف بنی اسرائیل کی طرف ہوئی ہے، البتہ ہماری امت میں وہ بحیثیت ’’مجدد دین‘‘ آئیں گے اور شریعت محمدیہ ﷺ کا اتباع کریں گے۔
❀ قاضی عیاضؒ (544ھ)
آپ لکھتے ہیں :
أَمَكُمْ بِكِتَابِ اللهِ وَسُنَّةِ نَبِيِّكُمْ وَهَذَا كَلَامٌ حَسَنٌ؛ لأنَّ عِيسَى لَيْسَ يَأْتِي لِأَهْلِ الْأَرْضِ رَسُولًا وَّلَا نَبِيًّا مَّبْعُونًا، وَلَا بِشَرِيعَةٍ جَدِيدَةٍ؛ لأنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ، وَشَرِيعَتَهُ نَاسِخَةٌ لِجَمِيعِ الشَّرَائِعِ رَاسِخَةُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَإِنَّمَا يَحْكُمُ عِيسَى بِهَا.
’’سیدنا عیسیؑ کتاب اللہ اور سنت مصطفی ﷺ کے مطابق امامت کروائیں گے، یہ ایک خوب صورت کلام ہے، سیدنا عیسیؑ اہل زمین کے لئے نبی یا رسول کی حیثیت سے نہیں آئیں گے، نہ ہی وہ کوئی نئی شریعت لائیں گے، وہ شریعت محمدی ﷺ پر عمل پیرا ہوں گے کہ محمد ﷺ خاتم النبین ہیں اور آپ کی شریعت قیامت تک کے لئے تمام شریعتوں کی ناسخ ہے۔“
(إكمال المُعلم بفوائد صحيح مسلم : 473/1)
❀ علامہ قرطبیؒ (671ھ)
علامہ قرطبیؒ لکھتے ہیں :
ذَهَبَ قَوْمٌ إِلَى أَنَّ بِنُزُولِ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ يَرْتَفِعُ التَّكْلِيفُ، لِئَلَّا يَكُونَ رَسُولًا إِلَى أَهْلِ ذَلِكَ الزَّمَانِ، يَأْمُرُهُمْ عَنِ اللَّهِ تَعَالَى وَيَنْهَاهُمْ، وَهَذَا أَمْرٌ مَّرْدُودُ بِالْأَخْبَارِ الَّتِي ذَكَرْنَاهُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَبِقَوْلِهِ تَعَالَى: ﴿وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ﴾ ، وَقَوْلِهِ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ : ﴿لَا نَبِيَّ بَعْدِي﴾ وَقَوْله : ﴿وَأَنَا الْعَاقِبُ﴾ (صحيح البخاري :3532، صحيح مسلم : 2354)، يُرِيدُ آخِرَ الْأَنْبِيَاءِ وَخَاتِمَهُمْ، وَإِذَا كَانَ ذَلِكَ فَلَا يَجُوزُ أَنْ يُتَوَهَّمَ أَنَّ عِيسَى يَنْزِلُ نَبِيًّا بِشَرِيعَةٍ مُتَجَدِّدَةٍ، وَغَيْرِ شَرِيعَةٍ مُحَمَّدٍ نَّبِيِّنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَلْ إِذَا نَزَلَ؛ فَإِنَّهُ يَكُونُ يَوْمَئِذٍ مِّنْ أَتْبَاعِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
’’بعض لوگ کہتے ہیں عیسیؑ کی آمد کے بعد لوگ شریعت کے مکلف نہیں رہیں گے، اس زمانے کے لوگ شریعت پر عمل کریں گے تو اس سے لازم آئے گا کہ سیدنا عیسیؑ ان کی طرف مبعوث کئے گئے ہیں اور انہیں اللہ کے او امرو نواہی سے خبردار کرتے ہیں۔ لیکن یہ ایک مردود اور باطل نظریہ ہے، عیسیؑ کو ایک نئی شریعت کا پیشرو سمجھنا ہی غلط ہے۔ سیدنا ابو ہریرہؓ کی حدیث پڑھیں، اللہ کا فرمان ملاحظہ ہو : وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ اسی طرح رسول الله ﷺ نے فرمایا : ’’میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ نیز فرمایا میں سب سے آخر میں آنے والا نبی ہوں۔‘‘ ان احادیث کے ہوتے یہ خیال ہی نہیں کیا جا سکتا کہ سیدنا عیسیؑ کوئی نئی شریعت لے کر نازل ہوں گے، بلکہ وہ تو محمد رسول الله ﷺ کے پیروکار بن کر نازل ہوں گے۔“
(التذكرة بأحوال الموتى وأمور الآخرة : 792/2)