عقل اور وحی کی روشنی میں عبادت کا فہم

عبادت کی بنیاد: معرفتِ الٰہی

اللہ تعالیٰ کی عبادت اس کی معرفت پر منحصر ہے۔ انسان کائنات کے حسین مناظر اور اس کے نظم و نسق کو دیکھ کر اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اس کائنات کا ہر نظام کسی خالق کے تحت چل رہا ہے۔ کائنات کا مشاہدہ یہ واضح کرتا ہے کہ یہاں ہر شے ترتیب کے ساتھ اور مقصد کے تحت پیدا کی گئی ہے، اور یہ سب کچھ انسان کو یہ سکھاتا ہے کہ اسے بھی اپنی زندگی ایک منظم طریقے سے گزارنی چاہیے۔

کائنات میں اللہ کی نشانیاں

انسان زمین و آسمان اور ستاروں کے حسین مناظر دیکھ کر یہ یقین کرتا ہے کہ ان سب کے پیچھے ایک عظیم خالق موجود ہے۔ خوبصورت شاہکاروں اور نعمتوں کو دیکھ کر انسان اس بات کو محسوس کرتا ہے کہ یہ سب کچھ کسی مہربان ذات کی طرف سے انسان کی سہولت کے لیے فراہم کیا گیا ہے۔ کائنات کی ہر نعمت انسان کو اس کے خالق کی طرف متوجہ کرتی ہے اور اس کا دل محبت و تعظیم سے سرشار ہو جاتا ہے۔

فطرت کی گواہی

انسان کے لیے قدرت نے بے شمار نعمتیں تیار کی ہیں۔ مثلاً مختلف قسم کے پھل محفوظ پیکنگ کے ساتھ پیش کیے جاتے ہیں، اور یہ زمین گویا انسان کے لیے ایک دستر خوان کا منظر پیش کرتی ہے۔ یہ سب چیزیں اللہ کی ذات کی موجودگی اور اس کی رحمتوں کی گواہ ہیں۔ اگر بچے کو شعور ہوتا کہ ماں کے دودھ کا ذریعہ کسی مہربان خالق کا انتظام ہے، تو وہ بھی اپنی تعظیم کا اظہار کرتا۔

عقل کی حدود اور وحی کی ضرورت

عبادت کے طریقے: صرف وحی کے ذریعے ممکن

اگرچہ اللہ کی معرفت عقل کے ذریعے ممکن ہے، لیکن عبادت کے صحیح طریقے صرف وحی سے معلوم ہو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر وحی نازل ہوئی تاکہ انسان کو بندگی کے درست اصول و ضوابط معلوم ہوں۔ جیسا کہ حضرت زید بن عمرو، جو عبادت کی خواہش رکھتے تھے لیکن اس کے صحیح طریقے سے ناواقف تھے، یہ دعا کیا کرتے تھے:

"اے عظیم خالق! اگر میں آپ کو پہچان سکتا تو آپ کی کماحقہ عبادت کرتا۔”

عقل اور وحی کا تعلق

عقل اللہ کی ایک بڑی نعمت ہے، لیکن اس کا دائرہ محدود ہے۔ عقل بصیرت دیتی ہے، لیکن بصیرت کو مکمل رہنمائی کے لیے وحی کے نور کی ضرورت ہے۔ جیسے آنکھوں کو دیکھنے کے لیے روشنی چاہیے، ویسے ہی عقل کو صحیح فیصلہ کرنے کے لیے وحی کی ضرورت ہے۔ عقل، تجربے اور مشاہدے کی مدد سے مادی علوم میں کامیاب ہو سکتی ہے، لیکن عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاق جیسے امور میں عقل اکیلے قابلِ بھروسہ نہیں۔

اختلافات کی وجوہات

دنیا میں موجود مختلف مذاہب، عقائد اور رویے اس بات کی دلیل ہیں کہ عقل کے فیصلے ہمیشہ درست نہیں ہوتے۔

  • کوئی توحید کا داعی ہے، تو کوئی شرک پر کاربند۔
  • کوئی خنزیر کو حرام سمجھتا ہے، تو کوئی اسے شوق سے کھاتا ہے۔
  • کوئی جھوٹ کو برا سمجھتا ہے، تو کوئی قومی مفادات کی آڑ میں اسے جائز قرار دیتا ہے۔

وحی: ایک معیار

وحی انسان کو ایک ایسا معیار فراہم کرتی ہے جو ہر قسم کی خطا اور غلطی سے محفوظ ہے۔ جیسا کہ سورہ فاتحہ میں دعا کی گئی:

"اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم…”

"ہمیں سیدھا راستہ دکھا، ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا…”
یعنی اللہ تعالیٰ ہمیں ان لوگوں کے راستے پر چلائے جنہیں اس نے انعام سے نوازا۔ یہ راستہ عقل سے معلوم نہیں ہو سکتا بلکہ انبیاء، صدیقین، شہداء، اور صالحین کے ذریعے دکھایا گیا ہے۔

ناپسندیدہ راستے: مغضوب اور ضالین

سورہ فاتحہ میں ان لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جو اللہ کے ناپسندیدہ بندے ہیں:

  • مغضوب علیھم: وہ لوگ جو حق کو پہچان کر بھی اسے قبول نہیں کرتے۔
  • ضالین: وہ لوگ جو جہالت اور آباؤ اجداد کی اندھی تقلید کی وجہ سے گمراہ ہو جاتے ہیں۔

عقل اور وحی کی ہم آہنگی

عقل کا بہترین استعمال وہی ہے جو وحی کی رہنمائی کے تحت ہو۔ عقل ایک قیمتی نعمت ہے، لیکن اس کے فیصلے جذبات یا محدود معلومات کی بنیاد پر غلط ہو سکتے ہیں۔ اسی لیے وحی کا سہارا لینا ضروری ہے، جیسا کہ سورہ فاتحہ ہمیں ہدایت کے لیے اللہ کے انعام یافتہ بندوں کا راستہ اپنانے کی ترغیب دیتی ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1