وہ کہنے لگے: "دیکھو بھئی، یہ جو سارے عقائد ہیں، ان کی جڑیں اسی بات میں ہیں کہ بچے کو پیدائش کے بعد سے ہی خدا کی عبادت سکھائی جاتی ہے، اس کے وجود پر یقین دلایا جاتا ہے اور یہ باور کروایا جاتا ہے کہ خدا ہی اس کائنات کا خالق و مالک ہے۔ اگر یہ تعلیم نہ دی گئی ہوتی، تو بچہ کبھی خدا پر یقین نہ کرتا۔ حقیقت میں، ہر بچے کی پیدائش پر سرپرستوں کی طرف سے خدا کا تصور تخلیق کیا جاتا ہے، حالانکہ اس کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہوتا۔”
ہم نے عرض کی: "جناب، آپ نے بالکل درست بات کی ہے۔ یہ صرف خدا کے تصور تک محدود نہیں بلکہ بہت سے دوسرے معاملات میں بھی یہی مسئلہ موجود ہے۔ مثال کے طور پر، جب بطخ کا بچہ انڈے سے نکلتا ہے، تو وہ فوراً اپنی ماں کے پیچھے چل پڑتا ہے۔ لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ بچہ اپنی ماں کے ساتھ جذباتی وابستگی کی وجہ سے اس کے پیچھے چلتا ہے۔ لیکن لارنز نے یہ دکھا دیا کہ اگر انڈے سے نکلتے ہی بچہ ماں کی بجائے کسی گیند کو چلتا ہوا دیکھ لے، تو وہ بھی اسی کے پیچھے چل پڑے گا۔ یعنی یہ ماں اور بچے کی محبت وغیرہ کا تعلق خود ساختہ ہے۔”
اسی طرح، ایک بچہ جسے شعور کی عمر تک اپنے باپ کے بارے میں کوئی علم نہ ہو، اس کے لیے باپ کے جذبات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ تب یہ واضح ہوتا ہے کہ دراصل باپ کا تصور بھی محض تربیت کا نتیجہ ہے۔ یعنی جو تعلیم دی جائے گی، اسی کے مطابق احساسات پیدا ہوں گے۔
مگر ان دونوں مثالوں سے ایک اور حقیقت سامنے آتی ہے: یہ کہ جو بھی سبق پڑھا دیا جائے، اس سے کسی وجود کا انکار ممکن نہیں ہوتا۔ جس طرح، باپ کے بارے میں آگاہی نہ ہونے سے باپ کا وجود ختم نہیں ہوجاتا اور بطخ کے بچے کا گیند کے پیچھے چلنا ماں کی حقیقت کا انکار نہیں کرتا، اسی طرح خدا کا سبق سکھانے یا نہ سکھانے سے خدا کے وجود کا انکار نہیں ہوتا۔ یہ بات بحث کا موضوع بن سکتی ہے کہ کسی کے دل میں خدا کا احساس موجود ہے یا نہیں، مگر اس سے خدا کے وجود پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ خدا ہمیشہ سے موجود تھا اور موجود رہے گا، چاہے بندہ اسے پہچانے یا نہ پہچانے۔”