اسلام کی بنیاد: وحی نبوت پر
اسلام کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس کے عقائد اور دینی حقائق کسی قیاس، تجربے یا انسانی ذہانت کے بجائے اللہ تعالیٰ کی وحی اور رسول اللہ ﷺ کی تبلیغ پر مبنی ہیں۔ ان عقائد میں اللہ کی ذات، صفات، افعال، دنیا کی ابتدا اور انتہا، معاد، اعمال کے نتائج اور دیگر ماورائے طبیعات مسائل شامل ہیں۔ یہ سب امور وحی سے ہی معلوم کیے جا سکتے ہیں کیونکہ انسانی عقل ان مسائل کے بنیادی حقائق تک پہنچنے سے قاصر ہے۔ قرآن پاک نے اس حقیقت کو یوں بیان کیا:
"قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللَّهِ وَقَدْ هَدَانِ”
"کہا: کیا تم مجھ سے اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہو جبکہ اس نے مجھے ہدایت دی ہے؟”
(البقرہ: 80)
فلسفہ کی لاحاصل کوششیں
یہ حقیقت واضح ہونے کے باوجود فلسفہ نے صدیوں تک اللہ کی ذات و صفات پر بحث کی۔ باوجود اس کے کہ فلسفی خود اعتراف کرتے ہیں کہ وہ ان موضوعات پر کسی یقینی نتیجے تک نہیں پہنچ سکتے، انہوں نے ان پر بے شمار نظریات گھڑ لیے۔ ان مباحث میں فلسفیوں نے اس انداز سے تفصیل و تحقیق کی گویا اللہ تعالیٰ ان کے سامنے کوئی مرئی ہستی ہو۔
قرونِ متاخرہ میں مسلم مفکرین کا رجحان
فلسفہ اور کلام کا غلبہ
قرونِ متاخرہ میں مسلمانوں کے علمی انحطاط کے دور میں عقائد کی بنیاد فلسفیانہ اصولوں پر رکھ دی گئی۔ متکلمین اور نظار کی عقل پر انحصار کرتے ہوئے کتاب و سنت کو ثانوی حیثیت دی گئی۔ نتیجتاً، آیات و احادیث کی ایسی تاویلات کی گئیں جو فلسفی اصولوں سے مطابقت رکھتی ہوں۔
امام ابن تیمیہؒ کا نظریہ
امام ابن تیمیہؒ نے اس رجحان کی سختی سے مخالفت کی۔ انہوں نے واضح کیا کہ عقائد اور دینی حقائق کی بنیاد وحی و نبوت اور کتاب و سنت پر ہے، نہ کہ فلسفیانہ اصولوں پر۔ ان کے مطابق عقل وحی کی مؤید ہو سکتی ہے، لیکن حقائق کا اصل ماخذ نہیں۔
عقل کا مقام اور اس کی حدود
عقل کا کردار
امام ابن تیمیہؒ کے مطابق عقل کا کردار یہ ہے کہ وہ رسول کی صداقت تک رہنمائی کرے اور اس کے بعد وحی کی اتباع کرے۔ جیسے ایک عام شخص کسی مفتی تک پہنچنے کا ذریعہ بنتا ہے لیکن فتوے کے معاملے میں مفتی کی بات حتمی ہوتی ہے، ویسے ہی عقل بھی وحی کے تابع ہے۔
عقل کی عظمت میں مبالغہ
فلاسفہ اور متکلمین نے عقل کو اس قدر فوقیت دی کہ وہ شریعت کے ہر حکم اور عقیدے کو عقل پر پرکھنے لگے۔ امام ابن تیمیہؒ نے اس بات کی سختی سے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ رسول پر ایمان غیر مشروط ہونا چاہیے۔ اگر کسی انسان کا ایمان رسول کی بات کو اپنی عقل سے مشروط کر دے، تو وہ حقیقی مومن نہیں رہتا۔
عقل و نقل میں مطابقت
عقل و نقل میں تضاد کا انکار
امام ابن تیمیہؒ نے اپنی مشہور کتاب "بیان موافقۃ صریح المعقول الصحیح المنقول” میں مدلل طور پر ثابت کیا کہ عقلِ سلیم اور صحیح نقل میں کبھی تضاد نہیں ہوتا۔ اگر کہیں اختلاف دکھائی دے تو یا تو عقل ناقص ہے یا نقل صحیح نہیں۔
فلسفیانہ دلائل کا جائزہ
امام ابن تیمیہؒ کے مطابق فلسفیوں کے بہت سے دلائل محض ظاہری الفاظ کا کھیل ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کے مطابق قرآن مجید کے دلائل زیادہ مضبوط، فطری اور جامع ہیں اور ان میں وہ پیچیدگی نہیں جو فلسفیانہ مباحث میں پائی جاتی ہے۔
قرآن کا طرز استدلال اور فلسفہ کا فرق
اثبات اور نفی کا توازن
قرآن مجید ذات و صفاتِ الٰہی کے اثبات میں تفصیل سے کام لیتا ہے اور نفی کو مختصر رکھتا ہے:
"لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ”
"اس جیسی کوئی چیز نہیں۔”
(الشوریٰ: 11)
اس کے برعکس فلسفہ میں اثبات کو چھوڑ کر زیادہ زور نفی پر دیا جاتا ہے، جو اللہ کی ذات کے بارے میں ایک غیر واضح تصور پیدا کرتا ہے۔
خلاصہ: عقائد کا ماخذ اور امام ابن تیمیہؒ کی خدمات
امام ابن تیمیہؒ نے اسلامی عقائد کو فلسفہ اور علمِ کلام کے اثرات سے پاک کرنے کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔ انہوں نے وحی و نبوت کو اصل ماخذ قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ عقل، دینی مسائل میں معاون ہو سکتی ہے، لیکن فیصلے کا اختیار صرف وحی کو ہے۔