عطریات میں الکحل کے استعمال کا شرعی حکم: 5 دلائل کی روشنی میں
ماخوذ: فتاویٰ الدین الخالص، جلد 1، صفحہ 335

عطریات میں الکحل کے استعمال کا حکم اور نماز میں ایسے کپڑوں کا پہننا

سوال

 عطریات میں الکحل استعمال کی جاتی ہے، جو بعد میں کپڑوں پر لگتی ہے۔ کیا ایسے کپڑوں میں نماز پڑھنا درست ہے؟

الجواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسئلے کی بنیاد:

یہ مسئلہ اس بات پر مبنی ہے کہ شراب طاہر (پاک) ہے یا نجس (پلید)۔
راجح (قوی تر) بات یہ ہے کہ شراب کتاب و سنت اور اجماع امت کے مطابق حرام ہے،
لیکن اس کی نجاست معنوی ہے، حسی (ظاہری) نہیں۔
کیونکہ اس کے نجس ہونے پر کوئی صریح دلیل موجود نہیں ہے۔
لہٰذا شراب حرام تو ہے مگر پلید نہیں، یعنی وہ حرام ہونے کے باوجود پاک ہے۔

قدیم فقہاء و محدثین کا موقف:

➊ ربیعہ بن ابی عبد الرحمن (ربیعہ الرای):

یہ مدینہ میں صاحبِ فتویٰ تھے۔
بہت سے مدنی لوگ ان سے علم حاصل کرتے تھے۔
ان کی مجلس میں چالیس پگڑی پوش علماء بیٹھتے تھے۔
امام مالکؒ نے انہی سے علم حاصل کیا۔

➋ لیث بن سعد المصری الفقیہؒ:

ایک مشہور امام تھے۔
امام مالکؒ جیسے بڑے امام نے ان کی فضیلت کا اعتراف کیا۔
امام شافعیؒ نے فرمایا: "لیث، مالک سے بڑے فقیہ ہیں، لیکن ان کے شاگرد ان کے ساتھ قائم نہ رہ سکے۔”
ابن بکیرؒ نے بھی لیثؒ کو امام مالکؒ سے بڑا فقیہ قرار دیا۔

➌ امام نوویؒ (المجموع، 1/72):

اسماعیل بن یحییٰ المزنیؒ (امام شافعیؒ کے شاگرد) نے بھی یہی موقف اپنایا کہ شراب پاک ہے۔
امام شافعیؒ کی طرف منسوب مجتہدین نے بھی یہی کہا۔

➍ متاخرین بغدادی علماء کا قول:

ان کے نزدیک بھی شراب پاک ہے، صرف پینا حرام ہے۔
تفسیر القرطبی (6/88) میں یہی مؤقف ذکر ہوا۔

اصل قاعدہ:

"اشیاء میں اصل طہارت ہے، جب تک کوئی مانع یا معارض دلیل موجود نہ ہو۔”
لہٰذا راجح قول یہی ہے کہ شراب پاک ہے۔
فتاویٰ تمام المنہ (صفحہ 54) کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ:
اکثر علماء شراب کی نجاست کے قائل ہیں،
لیکن دلیل کے لحاظ سے پہلا قول زیادہ راجح ہے۔

احتیاط کا پہلو:

اگر کوئی شخص اپنے دین، وقار اور عزت کی حفاظت کی نیت سے احتیاط کرتا ہے تو یہ ایک الگ بات ہے۔
نیز، الکحل کا بوقتِ ضرورت زخموں میں استعمال جائز ہے، کیونکہ ضرورت کے وقت شبہ کا حکم ساقط ہو جاتا ہے۔

شراب کے حسی طور پر پاک ہونے کی چند دلائل:

➊ سورۃ المائدہ میں رجس کی قید:

﴿رِ‌جسٌ مِن عَمَلِ الشَّيطـٰنِ﴾ [سورۃ المائدہ: 90]
یہاں رجس (گندگی) سے مراد عمل کی گندگی ہے، ذاتی و عینی پلیدی نہیں۔
ساتھ یہ بھی فرمایا:
﴿إِنَّمَا الخَمرُ‌ وَالمَيسِرُ‌ وَالأَنصابُ وَالأَزلـٰمُ﴾ [سورۃ المائدہ: 90]
جوا، بت، تیر – یہ سب حسی طور پر نجس نہیں ہیں۔
لہٰذا شراب کی نجاست بھی معنوی ہے، کیونکہ یہ شیطانی عمل ہے۔

➋ بازاروں میں شراب بہانا:

جب شراب حرام ہوئی، تو مسلمانوں نے اسے بازاروں میں بہا دیا۔
اگر شراب ظاہری طور پر نجس ہوتی، تو بازاروں کو ناپاک کرنا جائز نہ ہوتا۔

➌ برتن دھونے کا حکم نہیں دیا گیا:

اگر شراب نجس ہوتی، تو رسول اللہﷺ برتن دھونے کا حکم ضرور دیتے جیسے گھر کے گدھوں کے گوشت کے وقت دیا۔

صحیح مسلم کی روایت:

ایک شخص شراب کی مشک بطور ہدیہ لایا۔
آپﷺ نے فرمایا: "کیا تمہیں معلوم نہیں شراب حرام ہو چکی؟”
ایک شخص نے کہا: "اسے بیچ دو”
آپﷺ نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ جب کوئی چیز حرام فرماتا ہے تو اس کی قیمت بھی حرام کر دیتا ہے۔”
پھر اس نے ساری شراب بہا دی۔
نبی ﷺ نے مشک کو دھونے کا حکم نہیں دیا
اور شراب بہانے سے منع نہیں کیا۔

➎ طہارت کا عمومی قاعدہ:

اشیاء اصلًا پاک ہوتی ہیں،
جب تک اس کے نجس ہونے کی واضح دلیل نہ ہو۔
مثلاً:
زہر حرام ہے، مگر نجس نہیں۔
ساری نجس چیزیں حرام ہیں، مگر ہر حرام چیز نجس نہیں ہوتی۔

نتیجہ:

لہٰذا ہم کہتے ہیں کہ کولونیا اور اس جیسی دیگر خوشبویات نجس نہیں،
کیونکہ شراب بذات خود نجس نہیں (دلائل بالا کی روشنی میں)۔
لہٰذا:

◈ کولونیا نجس نہیں
◈ اسے کپڑوں پر لگانا نماز کے لیے مانع نہیں
◈ ان کپڑوں کو پاک کرنے کی کوئی ضرورت نہیں

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1