عبد الحنان نام رکھنے کی شرعی حیثیت اور وضاحت

سوال

بعض لوگ "عبد الحنان” نام رکھتے ہیں، کیا "حَنان” اسمائے حسنی میں سے ہے؟

جواب از فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ

"حَنان” کے بارے میں درج ذیل نکات قابل غور ہیں:

1. حَنَانٌ (ن پر شد کے بغیر)

معنی: شفقت و رحمت۔

صفت کے طور پر ثبوت: یہ صفت اللہ رب العالمین کے لیے ثابت ہے، جیسا کہ قرآن اور حدیث میں آیا ہے:

  • قرآن کریم:
    "وَ حَنَانًا مِّن لَّدُنَّا وَ زَکَاۃً”
    (مریم: 13)
    ’’ہم نے یحییٰ کو اپنی طرف سے رحمت و شفقت اور پاکیزگی عطا فرمائی‘‘۔
  • حدیث مبارکہ:
    "ثم يتحنَّن الله برحمته على مَن فيها…”
    (مسند احمد: 11081)
    ’’اللہ تعالی اہل جہنم پر شفقت فرمائے گا اور جس کے دل میں ایک ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا، انہیں جہنم سے نکال لے گا‘‘۔

2. حَنّان (ن پر شد کے ساتھ)

معنی: شفقت و رحمت کرنے والا۔

بطور اسم: یہ اللہ کی ذات کے لیے ثابت نہیں۔

اصول: ہر اسم صفت پر دلالت کرتا ہے، لیکن ہر صفت سے اسم نکالنا درست نہیں۔

    • اسمائے حسنی: عظیم، رحیم، کریم وغیرہ۔
    • صفات: عظمت، رحمت، کرم وغیرہ۔
    • غلط مثال: ارادہ، مشیئت، غضب وغیرہ سے نام بنانا درست نہیں، حالانکہ یہ صفات اللہ کے لیے ثابت ہیں۔

3. عبد الحنان نام کے بارے میں

صحیح موقف: "الحنان” بطور نام اللہ کے لیے ثابت نہیں، اس لیے "عبد الحنان” نام رکھنا درست نہیں۔

اختلافی مسئلہ: بعض اہل علم "الحنان” کو اسمائے حسنی میں شمار کرتے ہیں، اور اسی بنیاد پر اگر کوئی یہ نام رکھ لے تو اسے معذور سمجھا جائے گا۔

    • مثال: جامعہ سلفیہ کے معروف استاذ کا نام "عبد الحنان” ہے، جنہیں "مفتی عبد الحنان حفظہ اللہ” کے نام سے جانا جاتا ہے۔

امام خطابی رحمہ اللہ کا قول:
"ومما يدعو به الناس خاصُّهم وعامُّهم، وإن لم تثبت به الرواية عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: الحنَّان”
(کتاب الدعاء، ص: 105)
’’اگرچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ثابت نہیں، لیکن خاص و عام "الحنان” نام کے وسیلے سے دعا کرتے ہیں‘‘۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1