طلاق کی قسم اٹھانے یا اس کو کسی شرط کے ساتھ معلق کرنے کا حکم

 

فتویٰ علمائے حرمین

طلاق کی قسم اٹھانے یا اس کو کسی شرط کے ساتھ معلق کرنے کا حکم
سوال: ایک شخص نے اپنی بیوی کو کہا: مجھ پر تمہیں طلاق دینا واجب ہو گا ، اگر تم فلاں جگہ جاؤ گی ، تو جب بیوی اس جگہ جائے گی تو اس پر کیا حکم لگے گا؟ واضح ہو کہ اس کی نیت لفظ کے ساتھ وارد ہوئی ہے ؟
جواب: مذکورہ شخص کا یہ کہنا: علي الطلاق (مجھ پر طلاق دینا واجب ہے ) یہ طلاق دینے کی قسم ہے اور طلاق دینے کی قسم اٹھنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی ، الا یہ کہ وہ طلاق کا قصد و ارادہ بھی کرے ، پس جب وہ طلاق کی نیت سے یہ الفاظ بولے: گا تو طلاق واقع ہو جائے گی ۔
بلاشبہ علماء نے طلاق کی دوقسمیں بنائی ہیں:
➊ طلاق سنی ۔
➋ طلاق بدی ۔
چنانچہ طلاق سنی وہ ہے جو سنت کے مطابق دی گئی ہو ، اور طلاق بدی وہ ہے جو سنت کے خلاف ہو ۔ اور علماء کا اس پر تو اتفاق ہے کہ مسلمان کے لیے طلاق بدعی دیناجائز نہیں ہے ، مگر طلاق بدی کے واقع ہونے میں انہوں نے اختلاف کیا ہے ۔ اور گواہی قائم کرنا بھی طلاق سنی کی شرطوں میں شامل ہے ۔ (محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ )

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!