طاقت سے بڑھ کر مشقت کی ممانعت
اسلام میں عبادات کی کثرت ضرور پسند کی گئی ہے، لیکن طاقت سے بڑھ کر مشقت ڈالنے کی ممانعت بھی واضح انداز میں کی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد مواقع پر ایسے اعمال کی رہنمائی فرمائی جو انسان کی استطاعت کے مطابق ہوں، تاکہ انسان اپنی عبادات میں اعتدال اور تسلسل برقرار رکھ سکے۔ درج ذیل احادیث اس بات کی واضح مثال ہیں:
قرآن پاک کی تلاوت میں اعتدال
سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ایک ماہ میں ایک بار قرآن پاک ختم کر لیا کرو۔”
انہوں نے عرض کیا:
"میں اس سے زیادہ تلاوت کرنے کی طاقت رکھتا ہوں۔”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تو بیس دن میں ختم کر لیا کرو۔”
انہوں نے عرض کیا:
"میں اس سے بھی زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تو دس دن میں ختم کر لیا کرو۔‘‘
انہوں نے پھر کہا:
"میں اس سے بھی زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔”
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’سات دن میں ختم کر لیا کرو۔ اس سے زیادہ کی اجازت نہیں۔ کیونکہ تمہاری بیوی کا تم پر حق ہے، تمہارے ملاقاتیوں کا تم پر حق ہے، تمہارے بدن کا تم پر حق ہے، اور شاید تمہاری عمر زیادہ ہو (اور تم یہ کام بڑھاپے میں نہ کر سکو)۔‘‘
سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ جب بوڑھے ہوئے تو آرزو کرتے تھے:
"کاش میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رخصت قبول کر لیتا۔”
(بخاری: فضائل قرآن، باب في کم یقرا القرآن ۴۵۰۵۔ مسلم، الصیام، باب النھی عن صوم الدھر۔۔۔ ۹۵۱۱)
تین دن سے کم میں قرآن ختم کرنے کی ممانعت
بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کو قرآن تین دن میں ختم کرنے کی اجازت دے دی اور فرمایا:
’’قرآن پاک سے اس شخص کو کچھ سمجھ حاصل نہیں ہو سکتی جو تین دن سے کم مدت میں قرآن پاک ختم کرتا ہے۔‘‘
(ترمذی، القراء ات، ۹۴۹۲، وسنن ابی داود، شہر رمضان، باب: فی کم یقرا القرآن؟ ۰۹۳۱۔ امام ترمذی نے اسے حسن صحیح کہا۔)
نوافل میں مشقت پر ممانعت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں دو ستونوں کے درمیان بندھی ہوئی رسی دیکھی تو پوچھا:
"یہ کیا ہے؟”
لوگوں نے بتایا:
"یہ ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا کی رسی ہے۔ وہ (رات کو نفل) نماز پڑھتی رہتی ہیں، پھر جب سست یا تھک جاتی ہیں تو اس رسی کو پکڑ لیتی ہیں۔”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اس کو کھول ڈالو، ہر شخص اپنی خوشی کے موافق نماز پڑھے، پھر جب سست ہو جائے یا تھک جائے تو آرام کرے۔‘‘
(مسلم، صلاۃ المسافرین، باب امر من نفس في صلاتہ: ۴۸۷)
صوفیانہ ریاضتوں کی نفی
ان واقعات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام میں:
◈ جائز لذتوں سے کنارہ کشی کا تصور نہیں۔
◈ جسمانی تکالیف پر مبنی صوفیانہ ریاضتیں اور مجاہدات قابل قبول نہیں۔
نوافل میں اعتدال کے ساتھ فضیلت
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص رات کے نوافل میں دو سو آیات تلاوت کرتا ہے، وہ اطاعت گزار مخلص لوگوں میں شمار ہوتا ہے۔‘‘
(صحیح ابن خزیمۃ: ۳۴۱۱، اسے امام حاکم اور حافظ ذہبی نے صحیح کہا۔)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تین دعائیں
سیدنا خباب بن ارت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
ایک رات وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوری رات بیدار رہے اور نوافل ادا کرتے رہے، حتی کہ صبح صادق ہو گئی۔ نماز سے سلام پھیرنے کے بعد سیدنا خباب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
"یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان، آج رات جس طرح آپ نے نوافل پڑھے اس سے پہلے میں نے کبھی آپ کو اس طرح نماز ادا کرتے نہیں دیکھا۔”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تم نے درست کہا۔ نماز ایسی عبادت ہے جس میں اللہ کے ساتھ اشتیاق بڑھایا جاتا ہے اور اس کے عذاب سے پناہ مانگی جاتی ہے۔ چنانچہ میں نے اللہ تعالیٰ سے تین سوال کیے، جن میں سے دو قبول ہوئے:
◈ میری امت کو سابقہ امتوں کی طرح برباد نہ کرے — اللہ نے یہ قبول فرما لیا۔
◈ میری امت پر (بیک وقت) دشمنوں کو غلبہ حاصل نہ ہو — یہ بھی قبول کر لیا گیا۔
◈ میری امت میں اختلاف نہ ہو — لیکن یہ قبول نہ کیا گیا۔‘‘
(ترمذی، الفتن، باب ما جاء فی سوال النبی ثلاثا فی أمتہ ۵۷۱۲۔ ابن حبان۔ امام ترمذی نے اسے حسن صحیح غریب کہا۔)
خلاصہ
یہ تمام احادیث اور واقعات اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ:
◈ عبادات میں توازن اور اعتدال لازم ہے۔
◈ مشقت سے عبادت کی روح متاثر ہوتی ہے۔
◈ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو آسانی اور میانہ روی کی تعلیم دی ہے۔