صوفیوں کا عقیدہ حلول: کفر و شرک کا پلندہ
یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی اور حافظ محمود الخضری کی کتاب شرک کے چور دروازے سے ماخوذ ہے۔

نظریہ حلول: حلول کیا ہے؟

((الْحُلُولُ الْجَوَارِى عِبَارَةٌ عَنْ كَوْنِ أَحَدِ الْحِسْمَيْنِ طَرُفًا لِلْآخَرِ كَحُلُولِ الْمَاءِ فِي الْكُوزِ .))

’’حلول جواری یہ ہے کہ دو جسم اس طرح ایک ہو جائیں کہ وہ ایک دوسرے کا محل و ظرف بن جائیں، جس طرح کہ پانی لوٹے میں حلول کر جاتا ہے۔“

(( الْحُلُولُ السَّريَانِي عِبَارَةٌ عَنْ إِلْحَادِ الْحِسْمَيْنِ بِحَيْثُ تَكُونُ الْإِشَارَةُ إِلَى أَحَدِهِمَا إِشَارَةٌ إِلَى الْآخَرِ كَحُلُولٍ مَاءِ الْوَرْدِ فِي الْوَرْدِ فَيُسَمَّى السَّارِى حَالًا ، وَالْمَسْرِي فِيْهِ مَحَلَّا ))
كتاب تعريفات للجرجانی، ص: ۹۷ (۱۱۱۰۱۰۰).

’’ حلول سریانی کا معنی یہ ہے کہ دو جسم اس اعتبار سے ایک ہو جائیں (دو قالب یک جسم) کہ ایک کی طرف اشارہ کیا جائے تو وہ خود بخود دوسرے کی طرف اشارہ ہو، جیسا کہ پھول کا پانی پھول کے پانی میں حل ہو جاتا ہے، پس جب وہ پانی چل کر دوسرے پانی میں داخل ہو جاتا ہے تو چلنے والے کو حال: حلول کرنے والا ، اور جس میں داخل ہوا وہ محل ، حلول کا محل کہلائے گا۔‘‘

تاریخ عقیده حلول :

اس عقیدہ کی تاریخ حتمی اور بالجزم طور پر بتانا تو مشکل ہے، ہاں البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ عقیدہ یہودیوں اور عیسائیوں اور عقائد ہندومت کا اہم جزء ہے۔

ہاں البتہ یہ بات حتمی ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اس عقیدہ کا پرچار کرنے والا پہلا شخص عبد اللہ بن سبا یہودی ہے۔ (جس نے خلافت عثمانؓ میں منافقانہ طور پر اسلام قبول کیا)

اس نے دعویٰ کیا تھا کہ اللہ علیؓ کے اندر حلول ( داخل ہو گیا ) کر گیا ہے .
الفرق بين الفرق ، ص : ٢٢٥.

اس کے بعد بہت سارے لوگوں نے اپنے اپنے مقتداء کے بارے دعوی کیا کہ اس میں اللہ داخل ہو گیا ہے اور کچھ نے کہا اللہ خود ہمارے اندر داخل ہو گیا ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھئے: الفرق بين الفرق، ص: ۲۲۵ تا ۲۳۸.

پھر حاجی بیکتاشی ۱۲۸۱م / ۶۸۰ ھ تا ۱۳۳۷م / ۶۳۸ ھ نے اس کو سلسلہ کے طور پر چلایا۔

اور پھر کچھ لوگوں نے دعویٰ کیا کہ اللہ ہر خوبصورت جسم میں داخل ہو جاتا ہے اور وہ ان کو سجدہ کرنے لگتے ہیں۔
دیکھئے الفرق بين الفرق، ص: ٢٢٦.

اور کچھ نے بعض عورتوں کے بارے دعوی کیا ان میں اللہ حلول کر گیا ہے، اس عقیدہ کے حامل لوگوں کے اقوال و اسماء افقی احمد ندوی نے اپنی کتاب ’’تصوف کو پہچانیے“ کے صفحہ ۲۵ تا ۵۸ پر تفصیل سے ذکر کیا ہے۔

اور پھر کچھ لوگوں نے دعویٰ کیا کہ کائنات کی ہر چیز میں (معاذ اللہ) اللہ حلول کیسے ہوئے ہے۔ جس طرح کہ حسن رضوان سنہ ۱۳۱۰ھ متوفی اپنے دیوان روض القلوب میں یہ اشعار لکھتا ہے:

فَلَيْسَ فِي الْوُجُودِ شَيْءٌ يُشْهَدُ
سوَاهُ فَالْأَشْيَاء بِهِ تَوَخَدَ

’’ موجودات میں کوئی شئے نہیں ہے، جس کا مشاہدہ کیا جا سکے، مگر وہی ذات الہی ساری اشیاء کے اندر وہی مضمر ہے۔ ( یعنی حلول کیے ہوئے ہے۔ )‘‘
تصوف کو پیچانیے ، ازنقی احمد ندوی، ص: ۲۸.

اس طرح کے مزید عقائد کے لیے مذکورہ کتاب کا صفحہ نمبر ۶۲ تا اے کا مطالعہ کیجیے۔

حلول کب ہوتا ہے؟

اس نظریہ کے حامل لوگوں کا یہ ذہن ہے کہ اگر کوئی شخص غیر معمولی ریاضتوں کے ذریعہ نفس کی صفائی اور روح کی بالیدگی پیدا کرے یا کسی کو ورثہ میں یہ چیزیں ملی ہوں تو ذات خداوندی اس کے اندر حلول کر جاتی ہے یعنی لاہوت ناسوت میں اور موجد موجود میں اتر آتا ہے اس لیے ہندوؤں کے رہی منی اور بدھ مت کے بھکشو و پیر جنگلوں اور پہاڑوں میں گوشہ نشین ہو کر سخت ریاختیں کرتے ہیں۔

یہی نظریہ عیسائیوں کا بھی ہے اور ان کی غیر معمولی ریاضتیں تاریخ کا جز بن چکی ہیں ان کے ریاضت کرنے والے اپنے بدن کو رسیوں کے ذریعہ ستون سے باندھ کر ایک ہی حالت میں قائم رہنے کی کوشش کرتے تھے، یہاں تک کہ دن گزرتے جاتے اور رسی ان کے گوشت کو کاٹ کر اندر اترتی چلی جاتی اور زخم پیدا ہو کر ان میں کیڑے پڑ جاتے لیکن یہ لوگ اپنی یہ ریاضت ختم نہ کرتے ، بلکہ اس میں اضافہ کے لیے برابر کوشاں رہتے ۔ زخم کے کیٹروں میں سے کوئی کیڑا اگر گر کر الگ ہو جاتا تو وہ اس کو پھر اٹھا کر زخم پر ڈال دیتے اور کہتے کہ کھا جو تجھ کو تیرے مالک نے دیا ہے۔ (اس کی تفصیل کے لیے مولانا ابو الکلام آزادؒ کی تفسیر ترجمان سورہ کہف کا مطالعہ فرمائیے ۔)

یہی حالت ہے آج، آپ پاکستان ملک کے بعض جنگلوں اور پہاڑوں پر مشاہدہ کر سکتے ہیں۔

شریعت اسلامیہ اور عقیدہ حلول :

شرعیت اسلامیہ اس عقیدہ کا سختی سے رد کرتی ہے سلف صالحین اس سے نالاں اور ہم اس سے اظہار برات کرتے ہیں۔

اس بات کا رو کہ اللہ آدم میں حلول کر گیا تھا۔

شیطان نے آدمؑ کو یوں بہکایا تھا:

((مَا نَهٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هٰذِهِ الشَّجَرَةِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَیْنِ اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِیْنَ(20)وَ قَاسَمَهُمَاۤ اِنِّیْ لَكُمَا لَمِنَ النّٰصِحِیْنَ(21) فَدَلَّاهُمَا بِغُرُورٍ ۚ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ))

(الاعراف: ۲۰ تا۲۲)

’’( اور شیطان نے ان دونوں سے کہا ) تمہارے رب نے تمہیں اس درخت سے اس لیے روکا ہے کہ کہیں تم دونوں فرشتہ نہ بن جاؤ یا جنت میں ہمیشہ رہنے والوں میں سے نہ بن جاؤ اور ان دونوں کے سامنے خوب قسمیں کھائیں کہ میں تم دونوں کا بے حد خیر خواہ ہوں چنانچہ اس نے ان دونوں کو دھوکہ دے کر اپنے جال میں پھانس لیا، پس جب دونوں نے اس درخت کو چکھا .‘‘

استدلال:

ثابت ہوا کہ ان دونوں نے اس درخت کو اس لیے کھایا کہ وہ ملک (فرشتے) بن جائیں یا خلود حاصل کریں، اگر آدمؑ کے اندر (معاذ اللہ) اللہ خود موجود ہوتا تو ہرگز وہ ایسی تمنا نہ کرتے کیونکہ کون ایسا بیوقوف ہے، جس کے اندر اللہ جل شانہ موجود ہو وہ پھر بھی اس سے گھٹیا صفت کی خواہش کرے کہ میں فرشتہ بنوں یا کچھ اور ۔

اس بات کا رد کہ اللہ نبیﷺ میں حلول کر گیا تھا۔

( وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبُ )

(العلق : ١٩)

’’اور اپنے رب کے سامنے سجدہ کیجیے اور اس کا قرب حاصل کیجیے ۔“

استدلال:

➊ اگر اللہ آپ ﷺ کے اندر ہوتا تو یہ حکم کس نے دیا اور کیسے دیا؟

➋ اگر اللہ آپ ﷺ کے اندر ہوتا تو نبی ﷺ اس عورت کو مومنہ نہ کہتے ، جس سے آپ ﷺ نے سوال فرمایا تھا کہ؛

(( أينَ اللهُ؟ قَالَتْ فِي السَّمَاءِ. قَالَ مَنْ آنَا ؟ قَالَك أَنتَ رَسُولُ اللهِ. قَالَ اعْتِقُهَا فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ ))
مسلم ،كتاب المساجد باب تحريم الكلام في الصلاة ونسخ ما كان من اباحته : ۱۱۹۹۔

اللہ کہاں ہے؟ اس عورت نے کہا آسمان میں ۔ فرمایا میں کون ہوں؟ اس نے کہا آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا اس کو آزاد کردو یہ مومنہ ہے۔‘‘

اگر اس کی یہ بات غلط ہوتی اور اللہ (معاذ اللہ) آپ ﷺ میں موجود ہوتا تو آپ ﷺ فرماتے تو مومنہ نہیں ہے، بلکہ اللہ تو میرے اندر موجود ہے اور تو کہتی ہے کہ وہ آسمان میں ہے۔ (تعالی اللہ عنہ ذلک و تقدس )

جب اللہ آپ ﷺ میں نہیں ہو سکتا تو پھر علیؓ اور دیگر انسانوں میں تو بالا ولیٰ نہیں ہے۔

➌ کیا اللہ ہر انسان کے روپ میں ہے؟

یہ عقیدہ بھی سراسر غلط ہے، کیونکہ حدیث میں آتا ہے:

(( إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِى مِنَ الْإِنْسَانِ مجرى الدم. ))
مسلم، کتاب السلام باب بيان انه يستحب عن رؤى خاليا بامرأة.۲۱۷۳۔

’’کہ شیطان ابن آدم کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے ۔“

اور اس سے بڑھ کر یہ بات کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(( ذَكَرَ عِندَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ فَقِيلَ مَا زَالَ نَائِمًا حَتَّى أَصْبَحَ مَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ فَقَالَ بَالَ الشَّيْطَانُ فِي أُذُنِهِ . ))
بخاری، کتاب التهجد، باب اذا نام ولم يصل بال الشيطان في اذنه: ١١٤٤.

خلاصہ حدیث رسول ﷺ یہ کہ جب انسان سو جاتا ہے اور نماز نہیں پڑھتا تو شیطان اس کے کان میں پیشاب کر دیتا ہے۔

اگر اللہ ہر انسان میں ہو تو (معاذ اللہ)جس کے اندر اللہ ہو اور اس میں شیطان بھی دوڑے اور اس کے کان میں پیشاب بھی کر دے۔

((تَعَالَى اللهُ عَن ذَلِكَ ، نُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَنُقَدِ سُهُ .))

کیا اللہ ہر چیز میں ہے؟

عقائد میں سے یہ عقیدہ بدترین عقیدہ ہے اور نظریات میں سے بدترین نظریہ ہے اور اس کے ماننے والے بدترین انسانوں میں سے بھی بدتر ہیں۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

( اَلرَّحْمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوٰى )

(طه: ٥)

’’رحمٰن اپنے عرش پر مستویٰ ہے۔“

اور فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

(لَیْسَ كَمِثْلِهٖ شَیْءٌۚ-وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ)

(الشورى : ١١)

’’کہ اس ذات کی مانند تو کوئی بھی چیز نہیں ہے وہ تو سننے والا دیکھنے والا ہے۔“

ہمارے رب کی صفات کو اس کے اسماء حسنی میں گزر چکی ہیں۔

حلولیوں کا الٰہ :

حلولیوں کے عقیدہ کے مطابق ان کا خدا بھی بچہ ہوتا ہے، کبھی بھی کبھی شوہر کبھی بیوی اور کبھی گلی کے بچوں سے پٹتا ہے تو کبھی بچے اسے پتھر مارتے ہیں۔

(فَاعْتَبِرُوْا یٰۤاُولِی الْاَبْصَارِ)

اس عقیدہ کے متعلق فتاویٰ وآراء:

➊ علامه ابن حزم اندلسی المتوفی سنہ ۴۵۶ ھ فرماتے ہیں:

((وَأَمَّا مَنْ قَالَ إِنَّ اللهَ عَزَّ وجَلَّ هُوَ فُلَانٌ لَا نِسَانٌ بِعَيْنِهِ أَوْ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَحِلُّ فِى جِسْمِ مِنْ أَجْسَامٍ خَلْقِهِ أَوْ أَنَّ بَعْدَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَمَ نَبِيًّا غَيْرَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ فَإِنَّهُ لَا يَخْتَلِفُ اثْنَانَ فِي تكفيره.))
الفصل في الملل والأهواء والنحل، باب الكلام فيمن يكفر ولا يكفر ٢٦٩/٢.

’’جو شخص کسی معین انسان کے متعلق یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ تعالیٰ وہی انسان ہے یا یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے مخلوق میں سے کسی کے جسم میں حلول کر گیا ہے تو اس کی تفکیر میں آج تک دو آدمیوں نے بھی اختلاف نہیں کیا۔“

➋ سید محمد نعیم الدین مراد آبادی لکھتے ہیں:

اس میں نصاریٰ کا رد کہ الٰہ غذا کامحتاج نہیں ہو سکتا تو جو غذا کھائے جسم رکھے اس جسم میں تحلیل واقع ہو۔ غذا اس کا بدل بنے وہ کیسے الٰہ ہو سکتا ہے ۔
تفسير خزائن العرفان مع كنز الايمان، تفسير سورة المائده آیت : ۷۵، حاشیه نمبر : ۱۹۳-

➌ مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی فنافی اللہ اور فنافی الرسول کے متعلق جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

ان کلمات کا ایک اور معنی بھی ہو سکتا ہے یعنی یہ کہ اللہ تعالی کی ذات والا میں نزول مانے اور اسے مخلوق کی سطح پر لے آئے یا مخلوق کو اس کے جائز منصب سے بڑھائے اور خدائی درجے پر پہنچادے۔ پھر ان دونوں میں اتحاد و حلول مانے کبھی خدا کو رسول کہے اور کبھی رسول کو خدا کہے، یہ عقیدہ خالصتاً کفر و شرک ہے۔

’’یہ کہنا کہ فنافی اللہ ہو کر بندہ خدا کے برابر ہو جاتا ہے خالص شرک ہے، ایسے جاہل کو فورا تو بہ کرنا لازم ہے ورنہ اسے چھوڑ دیں اس سے تعلق اس طرح رکھیں جیسے مسلمان اور مشرک کا تعلق ۔ “
منهاج الفتاوىٰ: ١/ ٤٩٢.

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!