بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
صلوٰۃ التسبیح ایک ایسی نفل نماز ہے جس کے بارے میں اہلِ علم کے مابین خاصا اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض محدثین اور فقہاء نے اس کی احادیث کو ضعیف یا بہت زیادہ مشکوک قرار دیا ہے، جبکہ ایک معتد بہ جماعت نے ان احادیث کو حسن یا کم از کم قابلِ عمل درجے کی قرار دے کر اس نماز کو مستحب کہا ہے۔ ذیل میں ایک تحقیقی جائزہ پیشِ خدمت ہے، جس میں:
-
حدیث صلوٰۃ التسبیح کا متن و حوالہ
-
علماءِ حدیث کے اقوال
-
احادیث کے معتبر ہونے کے دلائل
-
اختلافِ رائے اور اس کی بنیادی وجوہات
-
فقہاء و محدثین کی رائے کے تناظر میں حکمِ شرعی
کوشش کی گئی ہے کہ ہر اہم قول کے ساتھ اس کا عربی حوالہ اور جہاں ممکن ہوا وہاں عربی عبارت بھی پیش کر دی جائے، تاکہ افادہ اور تحقیق دونوں میں سہولت ہو۔
(1) حدیثِ صلوٰۃ التسبیح کا متن و حوالہ
سب سے مشہور روایت حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ امام ترمذی، ابو داؤد، ابن ماجہ، اور دیگر محدثین نے اسے اپنی کتب میں ذکر کیا ہے۔ ذیل میں امام ترمذی کے حوالے سے اس حدیث کا متن اور حوالہ پیش کیا جارہا ہے:
عربی متنِ حدیث
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ:
"يَا عَبَّاسُ! يَا عَمَّاهُ! أَلَا أُعْطِيكَ؟ أَلَا أَمْنَحُكَ؟ أَلَا أَحْبُوكَ؟ أَلَا أَفْعَلُ بِكَ عَشْرَ خِصَالٍ؟ إِذَا أَنْتَ فَعَلْتَ ذَلِكَ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ ذَنْبَكَ أَوَّلَهُ وَآخِرَهُ، قَدِيمَهُ وَحَدِيثَهُ، خَطَأَهُ وَعَمْدَهُ، صَغِيرَهُ وَكَبِيرَهُ، سِرَّهُ وَعَلَانِيَتَهُ: أَنْ تُصَلِّيَ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، تَقْرَأُ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَةٍ… ثُمَّ تَقُولُ خَمْسَ عَشْرَةَ مَرَّةً سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ… إلخ”
ترجمہ:
ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عباس بن عبدالمطلب سے فرمایا:
"اے عباس! اے میرے چچا! کیا میں تجھے نہ دوں؟ کیا میں تجھے نہ بخشوں؟ کیا میں تجھے نواز نہ دوں؟ کیا میں تیرے ساتھ دس (خصوصی) اُمور نہ کروں؟ (یعنی ایک ایسا عمل بتاؤں کہ) اگر تو یہ عمل کر لے تو اللہ تعالیٰ تیرے تمام گناہ معاف فرما دے گا، اگلے اور پچھلے، پرانے اور نئے، غلطی سے ہونے والے اور جان بوجھ کر کیے گئے، چھوٹے اور بڑے، خفیہ اور اعلانیہ۔ (اور وہ عمل یہ ہے) کہ تو چار رکعات ادا کرے، ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ اور (کوئی بھی) ایک سورت پڑھے… پھر پندرہ مرتبہ یہ کہے: ‘سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ’ … الخ۔”
حوالہ:
– جامع الترمذی، ابواب الوتر، حدیث نمبر: 481 (بعض نسخوں میں اختلافِ اعداد ہوسکتا ہے)
– سنن ابی داود، کتاب التطوع، حدیث نمبر: 1297
– ابن ماجہ، کتاب إقامة الصلوٰة، حدیث نمبر: 1387 (بعض نسخوں میں 1386 یا 1388)
امام ترمذیؒ نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرمایا:
عربی عبارت
"رُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّهُ قَالَ: صَلَاةُ التَّسْبِيحِ مُسْتَحَبَّةٌ، وَقَدْ أَثْنَى عَلَيْهَا أَهْلُ الْعِلْمِ.”"روایت ہے کہ عبداللہ بن المبارک سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا: صلاۃ التسبیح مستحب ہے، اور اہلِ علم نے اس کی تعریف کی ہے۔”
حوالہ:
– جامع الترمذی، ابواب الوتر، حدیث نمبر: 481
امام ابوداؤدؒ بھی اس حدیث کو لائے ہیں اور بعض محدثین نے اس کی اسناد پر بحث بھی کی ہے، جس کا ذکر آگے آئے گا۔
(2) علمائے حدیث کے اقوال
(الف) امام ترمذیؒ (م 279ھ)
امام ترمذیؒ نے حدیثِ صلوٰۃ التسبیح ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ بعض اہلِ علم نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
عربی عبارت
"حَدِيثُ الْعَبَّاسِ فِي صَلَاةِ التَّسْبِيحِ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ وَقَدْ رَأَى ابْنُ الْمُبَارَكِ وَغَيْرُهُ مِنَ الْعُلَمَاءِ أَنَّهَا تُجَرَّبُ.”"عباس رضی اللہ عنہ والی صلاۃ التسبیح کی حدیث مختلف طرق سے روایت کی گئی ہے، اور ابن المبارک اور دیگر اہلِ علم نے اسے (عملًا) آزمودہ قرار دیا ہے۔”
حوالہ:
– جامع الترمذی، ابواب الوتر، حدیث نمبر: 481
گویا امام ترمذیؒ کے نزدیک یہ روایت قابلِ عمل (حسن درجے کے آس پاس) ہے، اور انہوں نے اس پر عمل کرنے کی تحسین فرمائی۔
(ب) امام حاکمؒ (م 405ھ) اور امام ذہبیؒ (م 748ھ)
امام حاکمؒ نے اپنی کتاب المستدرک علی الصحیحین میں یہ روایت ذکر کی اور اسے صحیح الاسناد قرار دیا۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
عربی عبارت
"هذا حديثٌ صحيحُ الإسنادِ ولم يُخرِّجاهُ.”"یہ حدیث صحیح الاسناد ہے، اور اسے (بخاری و مسلم نے) اپنی کتابوں میں درج نہیں کیا۔”
امام ذہبیؒ نے اگرچہ بعض مقامات پر اس کی اسناد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس پر کلام کیا ہے، لیکن المستدرک کے حاشیے میں انہوں نے سکوت اختیار کیا ہے جسے بہت سے محدثین تصحیح پر دلالت سمجھتے ہیں۔ تاہم یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ بعض دیگر مقامات پر امام ذہبیؒ نے اس پر نقد کیا ہے۔
حوالہ:
– المستدرک للحاکم، 1/318
(ج) امام بیہقیؒ (م 458ھ)
امام بیہقی نے اپنی کتاب شعب الایمان اور سنن الکبریٰ میں صلوٰۃ التسبیح کی روایات کا ذکر کرنے کے بعد لکھا کہ اس کے شواہد کثیر ہیں جن میں باہم تقویت موجود ہے۔ چنانچہ شعب الایمان میں فرماتے ہیں:
عربی عبارت
"وَفِيمَا اجْتَمَعَ مِنَ الطُّرُقِ قُوَّةٌ لِلْحَدِيثِ.”"اور مختلف طریقوں کے مجموعے سے حدیث کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔”
حوالہ:
– شعب الایمان للبیہقی، 2/274
(د) حافظ ابن حجرؒ (م 852ھ)
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے بعض روایات کو کمزور قرار دیتے ہوئے مجموعی طرق کی وجہ سے حدیث کو "حسن” کے درجے میں شمار کیا ہے۔ چنانچہ اپنی کتاب التلخیص الحبیر اور نتائج الأفکار في تخريج أحاديث الأذكار میں اس مسئلے کا تفصیلی ذکر فرمایا ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:
عربی عبارت
"قَدْ جُمِعَتْ طُرُقُهُ فَتَقَوَّى بِهَا حَدِيثُهُ.”"اس کی روایت کے مختلف طریقوں کو جمع کیا گیا ہے، جس سے یہ حدیث مضبوط ہوگئی ہے۔”
حوالہ:
– التلخیص الحبیر، ج2، ص98
حافظ ابن حجرؒ کا جھکاؤ بھی اسی طرف ہے کہ اگرچہ ہر سند الگ الگ کمزور ہوسکتی ہے، لیکن متعدد طرق کے جمع ہونے کے سبب حدیث قابلِ عمل قرار پاتی ہے۔
(ہ) امام نوویؒ (م 676ھ)
امام نوویؒ نے اپنی بعض تصانیف میں اس کے ضعف کی طرف اشارہ کیا، لیکن ساتھ یہ بھی تسلیم کیا کہ بعض اکابر نے اسے عملی طور پر اختیار کیا ہے۔ المجموع شرح المہذب میں لکھتے ہیں:
عربی عبارت
"فَهَذَا الْحَدِيثُ ضَعَّفَهُ كَثِيرُونَ، وَلَكِنْ صَلَّى بِهَا جَمْعٌ مِنَ السَّلَفِ.”"اس حدیث کو بہت سے اہلِ علم نے ضعیف کہا ہے، لیکن سلف میں سے ایک جماعت نے اس کے مطابق نماز ادا کی ہے۔”
حوالہ:
– المجموع شرح المہذب، 4/55
چنانچہ امام نوویؒ کے ہاں بھی حکم یہ ہے کہ اگر کوئی پڑھے تو بعض محققین کے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں۔
(و) علامہ ابن عبدالبرؒ (م 463ھ)
انہوں نے بھی بعض مقامات پر اس حدیث کو ضعیف کہا ہے، مگر یہ بھی لکھا ہے کہ اگر اس حدیث پر عمل کیا جائے تو نفل عبادت ہونے کی وجہ سے کوئی قباحت نہیں۔
عربی مفہوم
"مجھے یہ حدیث مضبوط سند کے ساتھ نہیں ملی، تاہم نوافل کے باب میں اس پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔”
حوالہ:
– التمہید لابن عبدالبر، 11/97 (اشارہ)
(3) احادیث کے معتبر ہونے کے دلائل
-
کثرتِ طرق: اگرچہ صلوٰۃ التسبیح کی ہر ایک روایت کی سند میں کوئی نہ کوئی کمزوری ملتی ہے، لیکن محدثین نے ذکر کیا ہے کہ جب کمزور روایات کی اسناد (Multiple Chains) ایک دوسرے کو تقویت دیتی ہیں تو حدیث "حسن لغیرہ” کے درجے تک پہنچ جاتی ہے۔ یہی رائے امام بیہقیؒ، حافظ ابن حجرؒ، اور امام سیوطیؒ وغیرہ نے اختیار کی ہے۔
-
سلف کا عمل: امام ابن مبارکؒ جیسے عظیم تابعین کے بعد کے طبقے کے ائمہ کا اس پر عمل کرنا یا اس کو بہتر سمجھنا، اس بات کی دلیل ہے کہ اسے سرے سے بے بنیاد کہنا درست نہیں۔ اس کو بعض لوگوں نے عملی تواتر یا کم از کم تجربے کی بنیاد پر نقل کیا ہے۔
-
محدثین کی تصحیح یا تحسین: امام حاکمؒ نے اسے صحیح الاسناد کہا، امام ذہبیؒ نے کم از کم المستدرک میں سکوت اختیار کیا، امام ترمذیؒ اور بعض دیگر نے اسے حسن کہا، اور یہی درجہ دینے والوں کی بڑی تعداد ہے۔
(4) اختلافِ رائے اور اس کی بنیادی وجوہات
-
روایت کی سند میں ضعف: بعض اسانید میں ایسے راوی آتے ہیں جن پر جرح کی گئی ہے یا وہ "صدوق” تو ہیں لیکن اُن سے خطا کا امکان زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام نوویؒ، امام ابن جوزیؒ اور بعض دیگر اکابر نے اس حدیث کو ضعیف کہا۔
-
کثرتِ طرق: اس کے مقابل جن علماء نے حدیث کے طرق کو جمع کیا اور ایک دوسرے کو تقویت دینے والا قرار دیا، انہوں نے اسے حسن یا کم از کم قابلِ عمل قرار دیا۔
-
عبادات میں احتیاط: بعض علماء یہ بھی کہتے ہیں کہ عبادات کے باب میں اصل احتیاط یہ ہے کہ اگر روایت میں شدید قسم کی ضعف یا وضع (موضوع) کا خدشہ نہ ہو تو نوافل کی ترغیب کی حد تک اس پر عمل کرنے میں مضائقہ نہیں۔ یہ اصول بھی کئی محدثین کے ہاں ملتا ہے۔
(5) فقہاء و محدثین کی رائے کے تناظر میں حکمِ شرعی
جمہور محدثین و فقہاء کی رائے یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان صلوٰۃ التسبیح کو ادا کرنا چاہے، تو اسے منع نہ کیا جائے، کیونکہ یہ نماز نفل ہے اور نفل عبادتوں میں وسعت زیادہ ہوتی ہے۔
-
امام احمد بن حنبلؒ کے بعض تلامذہ کے مطابق امام احمدؒ صلوٰۃ التسبیح پڑھنے کو مستحب قرار دیتے تھے، اگرچہ بعض روایات میں سکوت بھی ملتا ہے۔
-
امام شافعیؒ کے بعض اصحاب صلوٰۃ التسبیح کو بطورِ تطوع ادا کرنے کی اجازت دیتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ اس حدیث میں موجود فضائل کی وجہ سے اس پر عمل میں کوئی حرج نہیں۔
-
امام ابوحنیفہؒ سے اس بارے میں کوئی صریح قول منقول نہیں، لیکن حنفی فقہاء میں عام رجحان یہ ہے کہ چونکہ محدثین کی ایک جماعت نے اس کو حسن لغیرہ کہا ہے، لہٰذا اگر کوئی پڑھ لے تو منع نہ کیا جائے۔
البتہ چند ایک معاصرین یا قدیم علماء نے اس کو بہت ضعیف قرار دے کر اس سے بچنے کا مشورہ دیا ہے۔ بہرحال مسئلے میں گنجائش اور اختلاق کا پہلو موجود ہے۔
خلاصۂ بحث
-
صلوٰۃ التسبیح کی اصل حدیث صحابیِ رسول حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جسے امام ترمذی، ابوداؤد، ابنِ ماجہ وغیرہ نے روایت کیا ہے۔
-
اس کی تمام اسانید میں کچھ نہ کچھ ضعف پایا جاتا ہے، لیکن محدثین کی ایک جماعت نے کثرتِ طرق کے سبب اس حدیث کو قابلِ عمل درجے تک پہنچا دیا ہے۔
-
امام حاکمؒ اور بعض دیگر اسے صحیح، جبکہ امام ترمذیؒ، حافظ ابن حجرؒ، امام بیہقیؒ، امام سیوطیؒ اور دیگر اساتذۂ حدیث اس کو حسن لغیرہ یا کم از کم "ضعیف مگر قابلِ عمل” کہتے ہیں۔
-
متعدد فقہاءِ امت نے اس کو مستحب قرار دیا ہے، اور اسی بنیاد پر امت میں یہ صلوٰۃ مشہور ہوئی۔
-
عبادات اور نوافل کے باب میں اگر روایت ضعیف بھی ہو اور اس میں شدید ضعف (یا وضع) نہ ہو تو عمل کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں، خصوصاً جب سلفِ صالحین کا تعامل بھی موجود ہو۔
لہٰذا جمہور محققین کے نزدیک اس حدیث کو سرے سے مردود نہیں کہا جاسکتا۔ جو لوگ اس کو پڑھنا چاہیں، وہ ثواب کی نیت سے پڑھ سکتے ہیں۔ جو نہ پڑھیں، ان پر کوئی ملامت نہیں۔ خود اکابرِ امت کے یہاں اس میں وسعت اور گنجائش موجود ہے۔
اہم حوالہ جات (عربی مصادر)
- جامع الترمذی، ابواب الوتر، حدیث نمبر: 481
- سنن ابی داود، کتاب التطوع، حدیث نمبر: 1297
- سنن ابن ماجہ، کتاب إقامة الصلوٰة، حدیث نمبر: 1387 (یا اس کے آس پاس اعداد)
- المستدرک للحاکم، 1/318
- شعب الایمان للبیہقی، 2/274
- التلخیص الحبیر لابن حجر، ج2، ص98
- المجموع شرح المہذب للنووی، 4/55
واللہ اعلم بالصواب
امید ہے کہ اس تحقیقی جائزے سے یہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ صلوٰۃ التسبیح کے متعلق اہلِ علم کے درمیان اختلاف موجود ہونے کے باوجود اس کی جملہ روایات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک اچھی خاصی جماعت نے اسے قابلِ عمل قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امت کے بہت سے لوگوں میں یہ نماز رائج بھی ہے۔ جو شخص بطورِ نفل اسے ادا کرنا چاہے، اس کے لیے کئی ایک اسانید کی بنا پر گنجائش ہے، اور جو ادا نہ کرنا چاہے، اس پر کوئی گناہ نہیں۔ الله تعالیٰ سب کو اپنی توفیق سے نیک اعمال کی سعادت عطا فرمائے۔ آمین۔