صف کے پیچھے اکیلے نمازی کی نماز: کتاب و سنت کی روشنی میں مکمل رہنمائی
سوال کا پس منظر:
ماہنامہ شہادت میں شائع ہونے والے ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ صف میں پیچھے رہ جانے والے اکیلے شخص کی نماز نہیں ہوتی اور اسے نماز دوبارہ پڑھنی چاہیے۔ جبکہ دوسرے محقق مبشر احمد ربانی صاحب نے اسی سوال کے جواب میں اضطراری حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے فرمایا کہ ایسے شخص کی نماز ہو جاتی ہے، اور صف سے کسی کو کھینچنا بھی مناسب نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"جو صف کو ملاتا ہے اللہ اسے ملاتا ہے اور جو صف کو توڑتا ہے اللہ اسے توڑتا ہے۔”
سوال یہ ہے کہ ان دونوں آراء میں طلباء اور عوام کس پر عمل کریں؟ اس حوالے سے کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت درکار ہے۔
دلائل و اقوال:
➊ حدیثِ وابصہ بن معبد رضی اللہ عنہ:
"أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى رجلاً يصلي خلف الصف وحده، فأمره أن يعيد”
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو صف کے پیچھے اکیلا نماز پڑھتے دیکھا تو آپ نے اسے نماز لوٹانے کا حکم دیا۔”
(سنن ابی داود: 682، الترمذی: 230، ابن ماجہ: 1004، ابن حبان: الموارد: 403، ابن خزیمہ: 1569)
اس روایت کی سند صحیح ہے۔
شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے "صحیح” قرار دیا ہے (تحقیق سنن ابی داود ص110)۔
➋ علی بن شیبان رضی اللہ عنہ کی روایت:
"بے شک صف کے پیچھے اکیلے آدمی کی نماز نہیں ہوتی۔”
(مسند احمد 4/23 ح1640، ابن ماجہ: 1003، ابن خزیمہ: 1569، ابن حبان: 401)
اس روایت کی سند بھی صحیح ہے۔
بوصیری نے اس کے رجال کو ثقہ قرار دیا ہے (زوائد ابن ماجہ ص159)۔
➌ محدثین و فقہاء کے اقوال:
امام احمد، امام اسحاق بن راہویہ، حماد بن ابی سلیمان، محمد بن ابی لیلیٰ اور وکیع کا موقف ہے کہ صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنے والے کو نماز دوبارہ پڑھنی چاہیے۔
(سنن الترمذی: 230)
ابن ابی شیبہ نے روایت نقل کی کہ "بعید” یعنی نماز دوبارہ پڑھے گا۔
(مصنف ابن ابی شیبہ 2/193 ح5888)
لیکن یہ روایت تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔
ابن حزم کے مطابق صف کے پیچھے اکیلے مقتدی کی نماز باطل ہے۔
(المحلیٰ 4/52 مسئلہ 514)
عبداللہ بن احمد بن حنبل فرماتے ہیں:
"وكان أبي يقول بهذا الحديث”
"میرے والد (امام احمد) اس حدیث کے مطابق فتویٰ دیتے تھے۔”
(مسند احمد 4/228 ح18170)
ابراہیم النخعی کا قول:
صف کے پیچھے اکیلا آدمی رکوع نہ کرے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ 1/257، ح2635)
ابو بکر محمد بن المنذر کا موقف:
"صلاة الفرد خلف الصف باطل لثبوت خبر وابصة”
"صف کے پیچھے اکیلے کی نماز وابصہ کی حدیث کی بنیاد پر باطل ہے۔”
(الاوسط 4/184 ت1994)
مولانا عبدالجبار کھنڈیلوی رحمہ اللہ:
"صف میں جگہ نہ ہو تو اکیلے نماز نہ پڑھے، بلکہ صف کے کنارے سے کسی کو کھینچ کر ساتھ ملالے۔”
(فتاوی علمائے حدیث ج3 ص77–78)
➍ جمہور علماء کی رائے:
جمہور کا کہنا ہے کہ اضطراری کیفیت میں صف کے پیچھے اکیلے کی نماز ہو جاتی ہے۔
(صلوٰۃ الجماعۃ از صالح بن غانم السدلان، ص112)
عطاء بن رباح کے مطابق نماز دوبارہ نہیں پڑھی جائے گی۔
(مصنف عبدالرزاق 2/59 ح2486)
لیکن یہ روایت عبدالرزاق کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔
اہل علم کا اصول ہے:
"الْحَقِّ أَحَقُّ أَنْ يُتَّبَعَ”
"حق وہی ہے جس کی پیروی کی جائے۔”
اگرچہ جمہور کی رائے اضطراری کیفیت میں نماز کے درست ہونے کی ہے، مگر صف کے پیچھے اکیلے کی نماز نہ ہونے والا قول ہی راجح ہے۔
صف سے پیچھے آدمی کھینچنے کی دلیل:
حدیث: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے، جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ آئے، آپ نے ان کو دائیں طرف کر دیا۔ پھر جبار بن صخر رضی اللہ عنہ آئے، آپ نے دونوں کو پیچھے کر دیا۔
(صحیح مسلم 3010، دارالسلام: 7516)
باب: حدیث جابر الطویل و قصۃ ابی الیسر
چند اہم تنبیہات:
✿ عورت اگر صف کے پیچھے اکیلی ہو تو اس کی نماز ہو جاتی ہے، وہ اس حکم سے مستثنیٰ ہے۔
✿ ایک حدیث:
"وسطوا الإمام”
"امام کو درمیان رکھو”
(سنن ابی داود: 681)
لیکن یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس میں "امۃ الواحد” مجہولہ ہے
(تقریب التہذیب: 8534، انوار الصحیفۃ فی الاحادیث الضعیفۃ ص20)
علماء کے اقوال کی تین اقسام:
➊ نماز نہیں ہوتی۔
➋ نماز ہو جاتی ہے۔
➌ عذر کی صورت میں نماز ہو جاتی ہے۔
ان میں سے پہلا قول راجح ہے، جبکہ مبشر احمد ربانی صاحب کے اجتہاد کے مطابق تیسرا قول راجح ہے۔
اجتہادی مسائل میں اختلاف کی صورت میں راجح قول اختیار کریں اور مرجوح کو چھوڑ دیں۔ ساتھ ہی علمائے کرام کا مکمل احترام بھی ضروری ہے۔
نتیجہ:
کتاب و سنت کی روشنی میں صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنے والے کی نماز درست نہیں ہوتی، اور ایسی صورت میں نماز کا اعادہ ضروری ہے۔ اگر صف مکمل ہو چکی ہو، تو بہتر یہ ہے کہ صف کے کنارے سے کسی کو اپنے ساتھ ملا لیا جائے تاکہ جماعت کی سنت مکمل طور پر ادا ہو۔
ھذا ما عندي، واللہ أعلم بالصواب