صفات باری تعالیٰ اور سلف صالحین
شمارہ السنہ جہلم

صفات باری تعالیٰ اور سلف صالحین

امام شافعی رحمہ اللہ (204ھ) فرماتے ہیں:
وقد أثنى الله تبارك وتعالى على أصحاب رسول الله ، صلى الله عليه وسلم فى القرآن والتوراة والإنجيل ، وسبق لهم على لسان رسول الله ، صلى الله عليه وسلم ، من الفضل ما ليس لأحد بعدهم ، فرحمهم الله وهناهم بما آتاهم من ذلك يبلوغ أعلى منازل الصديقين والشهداء والصالحين ، هم أدوا إليناسنن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، وشاهدوه والوحي ينزل عليه ، فعلموا ما أراد رسول الله ، صلى الله عليه وسلم ، عاما وخاصا ، وعوما وإرشادا وعرفوا من سنته ما عرفنا وجهلنا ، وهم فوقنا فى كل علم واجتهاد ، وورع وعقل ، وأمر استدرك به علم واستنبط به وآراؤهم لنا أحمد وأولى بنا من آرائنا عندنا لأنفسنا
”اللہ تعالیٰ نے اصحاب رسول صلى الله عليه وسلم کی تعریف و ستائش قرآن کریم ، تورات اور انجیل میں فرمائی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی انہیں ایسی خیر سے نوازا ہے ، جو بعد والوں کو نصیب نہیں ہوئی ۔ اللہ ان پر اپنی خاص رحمت نازل کرے اور صدیقین ، شہدا اور صالحین کے اعلی مراتب پر فائز کرے ۔ یہ تو وہ ہستیاں ہیں ، جنہوں نے ہم تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری سنتیں پہنچائی ، براہ راست نزول وحی کا مشاہدہ کیا ۔ جن عام ، خاص ، فرض ، مستحب کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ فرمایا ، ان کا علم حاصل کیا ۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں سے واقف تھے ، جن سے واقف ہیں اور ہم بعض سے ناآشنا بھی ہیں ۔ وہ ہم سے علم ، اجتہاد ، تقویٰ و ورع ، عقل اور ہر فقہی و اجتہادی مسئلہ میں فوقیت رکھتے ہیں ۔ ہماری اپنی آراء ہمارے لیے اس قدر بہتر نہیں ، جس قدر ان کی آرا ہمارے لیے قابل ستائش اور اولی ہیں ۔ “ [مناقب الشّافعي للبيهقي: ٤٤٢/١]
شیخ الاسلام ، علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ) لکھتے ہیں:
كل قول ينفرد به المتأخر عن المتقدمين ولم يسبفه إليه أحد منهم فإنه يكون خطأ كما قال الإمام أحمد بن حنبل: إياك أن تتكلم فى مسألة ليس لك فيها إمام
”متاخرین کا ہر وہ قول ، جو متقدمین سے منفرد ہو ، سلف صالحین میں سے کسی نے وہ بات نہ کہی ہو ، تو وہ خطا ہے ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے (اپنے شاگرد میمونی رحمہ اللہ کو نصیحت کرتے ہوئے) فرمایا: ایسے مسئلہ میں گفتگومت کریں ، جس میں آپ کا کوئی (سلف میں) امام نہ ہو ۔ “ [مجموع الفتاوي: 291/21]
شیخ الاسلام ثانی ، عالم ربانی ، علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (751 ھ) لکھتے ہیں:
ثبت عن النبى صلى الله عليه وسلم فى الصحيح من وجوه متعددة أنه قال: خير القرون القرن الذى بعثت فيهم ، ثم الذين يلونهم ، ثم الذين يلونهم ، فأخبر النبى صلى الله عليه وسلم أن خير القرون قرنه مطلقا ، وذلك يقتضي تقديمهم فى كل باب من أبواب الخير ، إلا لو كانوا خيرا من بعض الوجوه ، فلا يكونون خير القرون مطلقا ، فلو جاز أن يخطئ الرجل منهم فى حكم وسائرهم لم يفتوا بالصواب ، وإنما ظفر بالصواب من بعدهم ، وأخطلوا هم لزم أن يكون ذلك القرن خيرا منهم من ذلك الوجه ، لأن القرن المشتمل على الصواب خير من القرن المشتمل على الخطأ فى ذلك الفن ، ثم هذا يتعدد فى مسائل عديدة؛ لأن من يقول: قول الصحابي ليس بحجة ، يجوز عنده أن يكون من بعدهم أصاب فى كل مسألة قال فيها الصحابي قولا ، ولم يخالفه صحابي آخر ، وفات هذا الصواب الصحابة ، ومعلوم أن هذا يأتى فى مسائل كثيرة تفوق العد والإحصاء ، فكيف يكونون خيرا ممن بعدهم وقد امتاز القرن الذى بعدهم بالصواب فيما يفوق العد والإحصاء مما أخطأوا فيه؟ ومعلوم أن فضيلة العلم ومعرفة الصواب أكمل الفضائل ، وأشرفها ، فيا سبحان الله ، أى وصمة أعظم من أن يكون الصديق أو الفاروق أو عثمان أو على أو ابن مسعود أو سلمان الفارسي أو عبادة بن الصامت ، وأضرابهم رضي الله عنهم ، قد أخبر عن حكم الله أنه كيت وكيت فى مسائل كثيرة ، وأخطأ فى ذلك ، ولم يشتمل قرنهم على ناطق بالصواب فى تلك المسائل حتى تبع من بعدهم فعرفوا حكم الله الذى جهله أولئك السادة ، وأصابوا الحق الذى أخطأه أولئك الأئمة؟ سبحانك هذا بهتان عظيم
یہ حدیث کئی طرق سے ثابت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”سب سے بہترین زمانہ وہ ہے ، جن میں میں مبعوث ہوا ، پھر بعد والے ، پھر ان کے بعد والے ۔“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ ان کا زمانہ مطلقاً سب سے بہتر ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے لوگ (صحابہ کرام) خیر کے ہر کام میں مقدم ہیں ، اور اگر صحابہ کا بہتر ہونا صرف چند امور میں ہوتا ، تو وہ مطلقاً خیر القرون نہ ہوتے ۔ اگر ایسا ممکن ہو کہ کسی صحابی نے کسی مسئلہ میں فتوی دیتے ہوئے غلطی کھائی ، دوسرے صحابہ نے درست فتوی بھی نہ دیا اور بعد میں آنے والے نے درستی کو پا لیا اور صحابہ غلط ہو گئے ، تو اس سے لازم آتا ہے کہ اس مسئلہ میں بعد والا زمانہ بہترین ہے ، کیوں کہ جس زمانے میں درست بات ہوئی ، وہ اس فن میں خطا والے زمانے سے افضل ہے ۔ یوں کئی مسائل میں بعد والا زمانہ افضل ٹھہرے گا ۔ کیوں کہ قول صحابی کو حجت نہ ماننے والوں کے نزدیک جائز ٹھہرے گا کہ بعد والوں کا قول ہر اس مسئلہ میں درست ہے ، جس میں کسی صحابی نے فتوی دیا ہو اور کسی دوسرے صحابی نے نکیر نہ فرمائی ہو ، نیز یہ لازم آئے گا کہ درست بات صحابہ سے چوک گئی ۔ یہ تو طے ہے کہ ایسا بے شمار مسائل میں ہوا ہے ۔ تو صحابہ بعد والوں سے افضل کیسے؟ جب کہ بعد والے بے شمار مسائل میں درست ہیں ، جن میں صحابہ غلطی کھا گئے ۔ یہ تو حقیقت ہے کہ علم ومعرفت کی فضلیت اکمل اور اشرف فضیلت ہے ۔ تعجب ہے ! اس سے بڑی رسوائی کیا ہو سکتی ہے کہ صدیق ، فاروق ، عثمان ، علی ، ابن مسعود ، سلمان فارسی ، عبادہ بن صامت یا دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کوئی حکم الہی کے متعلق خبر دے کہ یہ ایسے ایسے ہے ، تو بے شمار مسائل میں خطا کا مرتکب ٹھہرے اور ان مسائل میں ان کا زمانہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی صواب نہ ہو۔ حتی کہ ہمیں ان کے بعد ایسے لوگ ملیں ، جو حکم الہی کی اس حقیقت کو پہچان جائیں ، جس سے صحابہ کی سعادت مند جماعت ناآشنا رہ گئی اور بعد والے ان مسائل میں درستی کو پالیں ، جن میں یہ ائمہ ہدیٰ خطا کا شکار ہو گئے ۔ سبحانك هذا بهتان عظيم ! [إعلام المؤقعين عن رب العالمين: ٧٧/٤-٧٨]
علامہ ابن رجب رحمہ اللہ (795ھ) لکھتے ہیں:
وقد ابتلينا بجهلة من الناس يعتقدون فى بعض من توسع فى القول من المتأخرين أنه أعلم ممن تقدم فمنهم من يظن فى شخص أنه أعلم من كل من تقدم من الصحابة ومن بعدهم لكثرة بيانه ومقاله ، ومنهم من يقول هو أعلم من الفقهاء المشهورين المتبوعين ، وهذا يلزم منه ما قبله لان هؤلاء الفقهاء المشهورين المتبوعين أكثر قولا ممن كان قبلهم ، فإذا كان من بعدهم أعلم منهم لاتساع قوله: كان أعلم ممن كان أقل منهم قولا بطريق الأولى ، كالتوري والأوزاعى والليث ، وابن المبارك ، وطبقتهم ، وممن قبلهم، من التابعين والصحابة أيضا ، فإن هؤلاء كلهم أقل كلاما ممن جاء بعدهم ، وهذا تنقص عظيم بالسلف الصالح وإساءة ظن بهم ونسبته لهم إلى الجهل وقصور العلم ولا حول ولا قوة إلا بالله ، ولقد صدق ابن مسعود فى قوله فى الصحابة أنهم أبر الأمة قلوبا ، وأعمقها علوما ، وأقلها تكلفا ، وروي نحوه عن ابن عمر أيضا ، وفي هذا إشارة إلى أن من بعدهم أقل علوما وأكثر تكلفا ، وقال ابن مسعود أيضا: إنكم فى زمان كثير علماؤه قليل خطباؤه وسيأتي بعدكم زمان قليل علماؤه كثير خطباؤه ، فمن كثر علمه وقل قوله فهو الممدوح ، ومن كان بالعكس فهو مدموم
”ہمارا پالا ایسے جاہلوں سے پڑا ہے کہ جو بعض لمبی لمبی گفتگو کرنے والے متاخرین کو متقدمین سے افضل گردانتے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ متاخر کثرت کلام اور وضاحت کی بنا پر مطلقا متقدمین صحابہ اور تابعین سے بڑا عالم ہے ، بعض اسے مشہور متبوع ائمہ سے بڑا عالم قرار دیتے ہیں ۔ اس سے پہلی بات ہی لازم آتی ہے ، کیوں کہ متبوع ائمہ کی گفتگو پہلوں سے نسبتا طویل ہے ۔ اس قول کا تقاضا یہ ہے کہ جب متاخرین ائمہ متبوعین سے اعلم ہیں ، تو اپنے جیسے مختصر گفتگو کرنے والوں سے بطریق اولی اعلم ٹھہریں گے ، جیسے سفیان ثوری ، اوزاعی ، لیث بن سعد ، عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ اور ان کے طبقے کے دیگر محدثین ۔ اسی طرح ان سے پہلے صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین سے بھی ۔ یہ سب ہستیاں متاخرین کی بہ نسبت مختصر کلام کرتی تھیں ۔ اس بات سے سلف صالحین کی شان میں تنقیص ، سوءظنی ، جہالت اور کم علمی لازم آتی ہے ۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ ! سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کیا خوب فرمایا تھا: صحابہ امت میں سب سے زیادہ نیک دل ، گہرا علم رکھنے والے اور بے تکلف ہیں۔ تقریباًً اسی طرح کی بات سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ۔ اس اثر سے ثابت ہوتا ہے کہ متاخرین میں علم کم اور تکلف زیادہ ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہی فرماتے ہیں: آپ ایسے زمانے میں ہیں کہ جس میں علماء زیادہ اور خطبا کم ہیں ، آپ کے بعد ایسا زمانہ آنے والا ہے ، جس میں علما کم اور خطبا زیادہ ہوں گے ۔ لہٰذا جس کی گفتگو علمی اور مختصر ہو گی وہ تو قابل ستائش ہے اور جس کی ایسی نہ ہوئی ، وہ مذموم ہے ۔ “ [بيان فضل علم السلف على الخلف ، ص ٤-٥]
علامہ شاطبی رحمہ اللہ (790ھ) لکھتے ہیں:
أن يتحرى كتب المتقدمين من أهل العلم المراد ، فإنهم أقعد به من غيرهم من المتأخرين ، وأصل ذلك التجربة والخبر
أما التجربة ، فهو أمر مشاهد فى أى علم كان ، فالمتأخر لا يبلغ من الرسوخ فى علم ما يبلغه المتقدم ، وحسبك من ذلك أهل كل علم عملي أو نظري ، فأعمال المتقدمين فى إصلاح دنياهم ودينهم على خلاف أعمال المتأخرين ، وعلومهم فى التحقيق أقعد ، فتحقق الصحابة بعلوم الشريعة ليس كتحقق التابعين ، والتابعون ليسوا كتابعيهم ، وهكذا إلى الآن ، ومن طالع سيرهم ، وأقوالهم ، وحكاياتهم؛ أبصر العجب فى هذا المعنى
وأما الخبر ، ففي الحديث: خير القرون قرني ، ثم الذين يلونهم ، ثم الذين يلونهم وفي هذا إشارة إلى أن كل قرن مع ما بعده كذالك
اہل علم متقدمین کی کتب کا بغور مطالعہ کیجئے ۔ متقدمین کا علم بہ نسبت متاخرین اہل علم کے زیادہ گہرا ہے ۔ اس کی دلیل تجربہ اور حدیث ہے ۔
تجربہ علم کے ہر میدان میں یہ بات واضح ہے ، کیوں کہ متاخر علمی رسوخ کے اس مرتبہ تک نہیں پہنچ سکے ، جہاں تک متقدم پہنچ گئے تھے ۔ میدان علم کا ہو یا عمل کا آپ کو متقدمین ہی کافی ہیں ۔ دین و دنیا کی اصلاح میں متقدمین کے کارنامے متاخرین سے ہٹ کر ہیں اور تحقیق میں ان کے علوم وفنون سمندر کی گہرائی رکھتے ہیں ۔ صحابہ کی شرعی علوم میں تحقیق تابعین کی تحقیق کی طرح نہیں ہے ، تابعین کی اتباع تابعین کی تحقیق کی طرح نہیں ہے اور اسی طرح آج تک ۔ جو ان کی سیرت ، اقوال اور واقعات کا مطالعہ کر لے ، وہ تعجب کیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔
حدیث: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے بہترین زمانہ میرا ہے ، پھر بعد والوں کا ، پھر ان کے بعد والوں کا ۔“ اس حدیث میں اشارہ ہے کہ ہر زمانے کی اپنے سے بعد والے زمانے کے ساتھ یہی نسبت ہو گی ۔ [ الموافقات: ٧٤/١]
نیز فرماتے ہیں:
الحذر الحذر من مخالفة الأولين ، فلو كان ثم فضل ما لكان الأولون أحق به
پہلوں کی مخالفت سے مجتنب رہیے ، کیوں کہ ہر خیر کے اول مصداق سلف ہیں ۔ [الموافقات: ٥٦/٥]

صفاتِ باری تعالیٰ اور فرق ضالہ

صفات باری تعالیٰ میں تحریف و تعطیل ، تکییف و تمثیل اور تشبیہ ممنوع ہے ۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ (748ھ) لکھتے ہیں:
فكان الناس فى عافية وسلامة فطرة حتى نبغ جهم فتكلم فى الباري تعالى وفي صفاته بخلاف ما أتت به الرسل وأنزلت به الكتب ، نسأل الله السلامة فى الدين
”لوگ صحیح العقیدہ اور سلیم الفطرت تھے کہ جہم بن صفوان آیا ۔ اس نے اللہ اور صفات باری تعالیٰ میں ایسی گفتگو شروع کر دی ، جو رسولوں اور کتب منزلہ کی تعلیمات کے متصادم تھی ۔ ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں دین میں سلامتی سے بہرور فرمائے ۔“ [ تاريخ الإسلام: 389/3]
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ) فرماتے ہیں:
وطريقة سلف الأمة وأيمتها: أنهم يصفون الله بما وصف به نفسه وبما وصفه به رسوله ، من غير تحريف ولا تعطيل ، ولا تكبيف ولا تمثيل ، إثبات بلا تمثيل ، وتنزية بلا تعطيل ، إثبات الصفات ، ونفي مماثلة المخلوقات
” سلف صالحین اور ائمہ دین کا صفات باری تعالیٰ میں مسلک یہ ہے کہ وہ اللہ کو ان صفات سے متصف کرتے ہیں ، جن سے اللہ تعالیٰ نے خود اپنے آپ کو متصف کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلام نے متصف کیا ۔ ان صفات میں تحریف ، تعطیل ، تکییف یا تمثیل سے کام نہیں لیتے ۔ بلکہ بغیر تمثیل کے اثبات کرتے ہیں اور بغیر تعطیل کے تنزیہ کرتے ہیں ، صفات کو ثابت کرتے ہیں اور مخلوقات سے مماثلت کی نفی کرتے ہیں ۔ “ [ منهاج السنة النبوية: ٥٢٣/٢]
امام وکیع بن جراح فرماتے ہیں:
أدركنا إسماعيل بن أبى خالد وسفيان ومسعرا يحدثون بهذه الأحاديث ولا يفسرون شيئا
”میں نے اسماعیل بن ابوخالد ، سفیان اور مسعر رحمہ اللہ کو دیکھا ، وہ ان احادیث کو بیان کیا کرتے تھے ، تفسیر نہیں کرتے تھے ۔“ [ تاريخ يحيى بن معين برواية الدوري: ٢٥٤٣ ، الأسماء والصفات للبيهقي: ٧٥٩]
اشاعرہ اور ماتریدیہ ، اللہ کی صرف سات صفات مانتے ہیں ، وہ یہ ہیں ۔ سمع ، بصر علم ، کلام ، قدرت ، ارادہ اور حیات ۔ باقی سب صفات میں تاویل کرتے ہیں۔
فرمان باری تعالى: ﴿الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتوى﴾ ”رحمن اپنے عرش پر بلند ہے ۔“
ائمہ سلف نے اس آیت کی تفسیر میں اس کا ظاہری معنی لیا ہے ۔ ان سب کا اتفاق ہے کہ اللہ عرش پر بلند ہے ، ہر جگہ نہیں ۔ اللہ کو ہر جگہ ماننا جہمیہ کا عقیدہ ہے ، اہل سنت کا نہیں ۔ لیکن مفتی تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں:
اس آیت کے بارے میں تمام علما نے یہ فرمایا کہ اس کے ظاہری معنی مراد نہیں ہیں ، پھر بعض حضرات نے تو اس کو مجاز قرار دیا اور کہا اس سے مراد غلبہ اور قدرت وغیرہ ہے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ یہ آیت ان متشابہات میں سے ہے ، جن کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے کہ: ﴿وَلَا يَعْلَمُ تَاوِيلَهُ إِلَّا اللهُ﴾ ”اس کی تاویل و تفسیر اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔“ [ علوم القرآن ، ص ٤١٣۔٤١٢]
تمام علماء سے جانے کیا مراد ہے ، اگر اشاعرہ اور ماتریدیہ ہیں تو درست ، اگر سلف امت ، صحابہ و تابعین مراد ہیں تو ان کی بات درست نہیں ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فهذه التأويلات من باب تحريف الكلم عن مواضعه ، والإلحاد فى آيات الله ، وهى من باب الكذب على الله وعلى رسوله وكتابه ، ومثل هذه لا تجعل حقا حتى يقال: إن الله استأثر بعلمها ، بل هي باطل ،مثل شهادة الزور ، وكفر الكفار يعلم الله أنها باطل ، والله يعلم عباده بطلانها بالأسباب التى بها يعرف عباده من نصب الأدلة وغيرها وأصل وقوع أهل الضلال فى مثل هذا التحريف ، الإعراض عن فهم كتاب الله تعالى ، كما فهمه الصحابة والتابعون ، ومعارضة ما دل عليه بما يناقض ، وهذا هو من أعظم المحادة لله وللرسول ، لكن على وجه النفاق والخداع
”یہ تاویلات کلام اللہ کی صریح تحریف اور آیات بینات میں الحاد ہے ۔ اللہ ،اس کے رسول اور قرآن پر جھوٹ ہے ۔ آپ کو کہا جائے کہ ان صفات کے معانی اللہ نے اپنے پاس رکھے ہیں ، تو آپ اسے حق مت سمجھیں ، بلکہ یہ بالکل باطل ہے ۔ جیسے جھوٹی گواہی اور کفار کے کفر کواللہ جانتا ہے کہ یہ باطل ہے ، اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بھی کچھ اسباب کے ذریعے ان کا بطلان عیاں کر دیتا ہے ۔ مثلاًً دلائل وغیرہ ۔ گمراہوں کی تحریف میں وقوع کی اصل وجہ یہ ہے کہ انہوں نے کتاب اللہ کو ایسے نہیں سمجھا ، جیسے صحابہ کرام اور تابعین عظام نے سمجھا تھا ، دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ کتاب وسنت کے مدلولات سے معارضہ کرتا ہے ۔ یہ بھی (کفار) کی طرح اللہ اور اس کے سچے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہیں ، بس فرق یہ ہے کہ ان کی دشمنی نفاق اور دھوکہ کی بنا پر ہے ۔“ [ درء تعارض العقل والنقل: ٣٨٣/٥]
نیز فرماتے ہیں:
فتأويل هؤلاء المتأخرين عند الأئمة تحريف باطل
” ائمہ حق کے مطابق ان متاخرین کی تاویل ، باطل تحریف ہے ۔ “ [ مجموع الفتاوى: ٢٩٥/١٣]
آیات صفات کو متشابہات قرار دینا مفوضہ کا مذہب ہے ۔ وہ صفات والی نصوص کو متشابہ کہتے ہیں ان کی مراد ہوتی ہے کہ صفات باری تعالیٰ اور اسمائے حسنیٰ کا معنی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ سلف صالحین اور ائمہ حدیث اس سے بری تھے ۔ وہ ان کی کیفیت کا علم اللہ کے سپر د کرتے تھے ، وہ استواء علی العرش ، نزول وغیرہ کے معانی سے واقف تھے ۔ صفات والی آیات کو متشابہات قرار دینا ، توحید سے رو گردانی ہے اور سلف کی مخالفت ہے ۔
سلف کی مخالفت میں کوئی عقیدہ معتبر نہیں ۔ تو حید والی آیات کو متشابہات قرار دے کر قدریہ ، جبریہ ، جہمیہ ، اشاعرہ ، ماتریدہ ، رافضیہ ، مفوضہ اور خوارج نے خوب فائدہ اٹھایا ہے ۔ یوں بہت ساری آیات بینات کو مہمل (بے معنی) بنا کر معطلہ بن گئے ۔ ہر صاحب علم جانتا ہے کہ صفات باری تعالیٰ عقیدہ توحید کی اساس ہیں اور محکم آیات سے ثابت ہیں ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ومن هنا قال من قال من النفاة: إن طريقة الخلف أعلم وأحكم ، وطريقة السلف أسلم ، لأنه ظن أن طريقة الخلف فيها معرفة النفي ، الذى هو عنده الحق ، وفيها طلب التأويل لمعاني نصوص الإثبات ، فكان فى هذه عندهم علم بمعقول ، وتأويل لمنقول ، ليس فى الطريقة التى ظنها طريقة السلف ، وكان فيه أيضا رد على من يتمسك بمدلول النصوص ، وهذا عنده من إحكام تلك الطريق ، ومذهب السلف عنده عدم النظر فى فهم النصوص ، لتعارض الاحتمالات ، وهذا عنده أسلم ، لأنه إذا كان اللفظ يحتمل عدة معان ، فتفسيره ببعضها دون بعض فيه مخاطرة ، وفي الإعراض عن ذلك سلامة من هذه المخاطرة .
فلو كان قد بين وتبين لهذا وأمثاله أن طريقة السلف إنما هي إثبات ما دلت عليه النصوص من الصفات ، وفهم ما دلت عليه ، وتدبره وعقله ، وإبطال طريقة النفاة ، وبيان مخالفتها لصريح المعقول وصحيح المنقول ، علم أن طريقة السلف أعلم وأحكم وأسلم ، وأهدى إلى الطريق الأقوام ، وأنها تتضمن تصديق الرسول فيما أخبر به ، وفهم ذلك ومعرفته ، وأن ذلك هو الذى يدل عليه صريح المعقول ، ولا يناقض ذلك إلا ما هو باطل وكذب ، وأن طريقة التفاة المنافية لما أخبر به الرسول طريقة باطلة شرعا وعقلا ، وأن من جعل طريقة السلف عدم العلم بمعاني الآيات ، وعدم إثبات ما تضمنته من الصفات ، فقد قال غير الحق ، إما عمدا وإما خطأ ، كما أن من قال على الرسول: إنه لم يبعث بإثبات الصفات ، بل بعث بقول النفاة ، كان مفتريا عليه . وهؤلاء النفاة هم كذابون ، إما عمدا وإما خطأ ، على الله وعلى رسوله ، وعلى سلف الأمة وأيمتها ، كما أنهم كذابون ، إما عمدا وإما خطأ ، على عقول الناس ، وعلى مانصبه الله تعالى من الأدلة العقلية ، والبراهين اليقينية
”منکر صفات باری تعالیٰ کا کہنا ہے: ”ہمارا طریقہ احکم اور اعلم ہے ، جب کہ سلف کا طریقہ اسلم ہے ۔“ کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ خلف کے طریقہ میں نفی ”جو کہ اس کے نزدیک حق ہے ۔“ کی معرفت اور صفات کے اثبات والی آیات میں تاویل کی راہ مل جاتی ہے ۔ متاخرین کے اس طریقہ میں معقولات کا ایسا علم اور منقولات میں ایسی تاویل ہے ، جو بزعم خود ، متقدمین کے طریقہ میں نہیں ملتی ۔ اس میں ایسے شخص کا بھی رد ہے ، جو نصوص کے مدلولات کی پیروی کرتا ہے ۔ یوں وہ اس طریقہ متاخرین کو مستحکم کرتا ہے ۔ یہ سمجھتا ہے کہ مذہب سلف یہ ہے کہ نصوص کے فہم پر توجہ نہ دی جائے ، کیوں کہ احتمالات مختلف ہیں ، لہٰذا یہ طریقہ اسلم ہے ، کیوں کہ جب ایک لفظ کے کئی معانی ہوں ، تو اس صورت میں باقی سب معانی کو نظر انداز کر کے صرف ایک کے ساتھ تفسیر کر دینا ، خطرے سے خالی نہیں ہے اور تفسیر نہ کرنے میں سلامتی ہے ۔
اگر اسے یا اس جیسے دوسرے نفاۃ صفات پر عیاں ہو جاتا کہ سلف کا طریقہ یہ ہے کہ آیات صفات کے مدلولات کو ثابت کیا جائے اور ان کا فہم ، تدبر و درک حاصل کیا جائے ، صفات کی نفی کرنے والوں کے مسلک کا رد کیا جائے اور یہ واضح کیا جائے کہ ان کا طریقہ صریح معقولات اور صحیح منقولات کے مخالف ہے ، تو یہ جان لیتا کہ سلف کا طریقہ ہی اسلم ، احکم اور اعلم ہے ۔ نیز یہ سب سے زیادہ سیدھا راستہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی تصدیق ان کے فہم و معرفت کو متضمن ہے ۔ صریح عقل کے موافق یہی راستہ ہے ، جو طریقہ اس کے مخالف ہو ، وہ باطل اور غلط ہے ۔
صفات کی نفی کرنے والے باطل پر ہیں ، عقل و نقل کے مخالف ہیں ، دراصل یہ احادیث کی نفی کرتے ہیں ۔ جس نے نصوص کے معانی کے عدم علم اور اس میں موجود صفات کے عدم اثبات کو سلف کا طریقہ قرار دیا ہے ، اس نے دانستہ یا نادانستہ غلط بات کی ہے ۔ بعض نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھا ہے کہ آپ کو صفات کے اثبات کے لیے مبعوث نہیں کیا گیا ، بلکہ نفاۃ الصفات کی تائید کے لیے بھیجا گیا ہے ۔ ایسا شخص جھوٹا ہے ۔ یہ نفاة الصفات بھی دانستہ یا نادانستہ طور پر اللہ ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، اسلاف امت اور ائمہ کرام پر جھوٹ باندھ رہے ہیں ، اسی طرح یہ دانستہ یا نادانستہ طور پر لوگوں کی عقلوں اور اللہ تعالیٰ کی دیے ہوئے عقلی دلائل اور یقینی براہین پر بھی جھوٹ باندھ رہے ہیں ۔“ [ درء تعارض العقل والنقل: 378/5-379]
نیز فرماتے ہیں:
ومن آتاه الله علما وإيمانا ، علم أنه لا يكون عند المتأخرين من التحقيق ، إلا ما هو دون تحقيق السلف لا فى العلم ولا فى العمل ، ومن كان له خبرة بالنظريات والعقليات ، وبالعمليات ، علم أن مذهب الصحابة دائما أرجح من قول من بعدهم ، وأنه لا يبتدع أحد قولا فى الإسلام إلا كان خطأ ، وكان الصواب قد سبق إليه من قبله
”جسے اللہ تعالیٰ نے علم و ایمان کی دولت دے رکھی ہو ، وہ بخوبی جان جائے گا کہ علم ہو یا عمل متاخرین کی تحقیق متقدمین کی بہ نسبت بہر کیف کم ہی ہے ۔
جسے نظریات ، عقلیات اور عملیات کی ممارست ہے ، اس پر یہ بات عیاں ہے کہ صحابہ کا مؤقف بعد والوں پر راجح ہی رہا ہے ۔ درست بات کی طرف متقدمین سبقت لے جا چکے ہیں ، لہٰذا اب جو بھی اسلام میں نئی بات کرے گا ، خطا کھائے گا ۔“ [ الإيمان ، ص ٤١٧]
علامہ شنقیطی رحمہ اللہ (1393ھ) فرماتے ہیں:
لأن آيات الصفات لا يطلق عليها اسم المتشابه بهذا المعنى من غير تفصيل ، لأن معناها معلوم فى اللغة العربية وليس متشابها ، ولكن كيفية اتصافه جل وعلا بها ليست معلومة للخلق
”آیات صفات پر اس معنی میں بغیر کسی تفصیل کے متشابہ کا لفظ نہیں بولا جاتا ، کیوں کہ ان کا معنی لغت عرب میں معلوم ہوتا ہے ، متشابہ نہیں ہوتا ۔ ہاں باری تعالیٰ کی ان صفات کے ساتھ متصف ہونے کی کیفیت مخلوق کو معلوم نہیں ۔“ [ مذكّرة فى أصول الفقه ، ص ٦٥]
خلیل احمد سہارنپوری صاحب لکھتے ہیں:
”اس قسم کی آیات میں ہمارا مذہب یہ ہے کہ ان پر ایمان لاتے ہیں اور کیفیت سے بحث نہیں کرتے ۔ یقیناًً جانتے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ مخلوق کے اوصاف سے منزہ اور نقص و حدوث کی علامات سے مبرا ہے ۔ جیسا کہ ہمارے متقدمین کی رائے ہے اور ہمارے متاخرین اماموں نے ان آیات میں جو صحیح اور لغت و شرع کے اعتبار سے جائز تاویلیں فرمائی ہیں تاکہ کم فہم سمجھ لیں مثلاًً یہ کہ ممکن ہے استوا سے مراد غلبہ ہو اور ہاتھ سے مراد قدرت ۔ تو یہ بھی ہمارے نزدیک حق ہے ۔ البتہ جہت و مکان کا اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت کرنا ہم جائز نہیں سمجھتے اور یوں کہتے ہیں کہ وہ جہت و مکانیت اور جملہ علامات حدوث سے منزہ ہے۔“ [المهند على المفند ، ص ٤٨]
شیخ الاسلام ، علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ) فرماتے ہیں:
فلفظ الجهة قد يراد به شيء موجود غير الله فيكون مخلوقا ، كما إذا أريد بالجهة نفس العرش أو نفس أريد السموات ، وقد يراد به ما ليس بموجود غير الله تعالى ،كما إذا أريد بالجهة ما فوق العالم
ومعلوم أنه ليس فى النص إثبات لفظ الجهة ولانفيه ، كما فيه إثبات العلو و الاستواء والفوقية والعروج إليه ونحو ذلك . وقد علم أن ما ثم موجود إلا الخالق والمخلوق، والخالق مباين للمخلوق سبحانه وتعالى ، ليس فى مخلوقاته شيء من ذاته ، ولا فى ذاته شيء من مخلوقاته . فيقال لمن نفى الجهة: أتريد بالجهة أنها شيء موجود مخلوق ، فالله ليس داخلا فى المخلوقات ، أم تريد بالجهة ما وراء العالم ، فلا ريب أن الله فوق العالم ، بائن من المخلوقات ، وكذلك يقال لمن قال: إن الله فى جهة ، أتريد بذلك أن الله فوق العالم ، أو تريد به أن الله داخل فى شيء من المخلوقات ، فإن أردت الأول فهو حق ، وإن أردت الثاني فهو باطل
”لفظ جہت سے کبھی اللہ کے علاوہ موجود چیز مراد ہو گی ، اس صورت میں اسے مخلوق کہیں گے ، اگر جہت سے مراد عرش یا آسمان لیں (تو بھی مخلوق ہو گی) ، کبھی اس سے مراد اللہ کے علاوہ غیر موجود چیز ہوتی ہے ، جیسا کہ جہت سے مراد کائنات سے اوپر والی جانب لیں ۔ یہ بات معلوم ہے کہ نص میں لفظ جہت کا اثبات وارد ہوا ہے ، نہ نفی ۔ لیکن علو ، استواء ، فوقیت اور عروج وغیرہ کا اثبات ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کائنات میں یا خالق ہے ، یا مخلوق (تیسری چیز کوئی نہیں) ۔ خالق مخلوق سے علیحدہ ہے ، نہ مخلوق میں خالق کی ذات کا کچھ عنصر ہے اور نہ ہی خالق میں مخلوق کی ذات کا کوئی حصہ داخل ہے ۔
منکر جہت کو کہا جائے گا کہ آپ کسی موجود اور مخلوق چیز کو جہت کہتے ہیں ، تواللہ مخلوقات میں داخل نہیں ہے اور اگر آپ جہت سے مراد کائنات سے ماورا مکان لیتے ہیں ، تواللہ تعالیٰ کائنات سے اوپر ہے اور مخلوقات سے جدا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کو جہت میں ماننے والے سے بھی عرض کیا جائے گا کہ آپ کی مراد یہ ہے کہ اللہ کائنات سے اوپر ہے یا کہ کسی مخلوق میں داخل ہے؟ اگر پہلی بات مراد ہے ، تو صحیح ہے اور اگر دوسری مراد ہے ، تو باطل ہے ۔ “ [ التدمرية ، ص ٦٦-٦٧]
نیز لکھتے ہیں:
وهؤلاء أخذوا لفظ الجهة بالاشتراك وتوهموا وأوهموا أنه إذا كان فى جهة كان فى كل شيء غيره ، كما يكون الإنسان فى بيته ، وكما يكون الشمس والقمر والكواكب فى السماء ، ثم رتبوا على ذلك أنه يكون محتاجا إلى غيره ،والله تعالى غني عن كل ماسواه ، وهذه مقدمات كلها باطلة
”جہمیہ نے لفظ جہت کو (خالق ومخلوق میں) مشترک سمجھا ۔ خود بھی وہم کا شکار ہوئے اور دوسروں کو بھی و ہم ڈالا کہ اگر اللہ کی کوئی جہت ہے ، وہ تو ہر چیز ہی کسی نہ کسی جہت میں ہے ۔ جیسے انسان اپنے گھر میں ہوتا ہے اور سورج ، چاند ، ستارے آسمان میں ہیں ۔ پھر کہا کہ ان میں ہر ایک دوسرے کا محتاج ہے ، جب کہ اللہ تعالیٰ کسی کا محتاج نہیں ۔ (لہٰذا اللہ کی کوئی جہت نہیں۔) یہ تمام مقدمات باطل ہیں ۔“ [ منهاج السنة النبوية: ٦٤٨/٢]
سلف صالحین کی مخالفت میں صفات باری تعالیٰ میں لغت عرب کی بنیاد پر تاویلات کو جائز قرار دینا تاکہ کم فہم سمجھ لیں ، عقیدہ توحید کے منافی ہے ۔ صفات باری تعالیٰ کو ظاہری معنی سے پھیر کر مجاز کی طرف لانا اللہ اور اس کے رسول کی مراد کے خلاف ہے ۔ یہ صفات میں الحاد اور باطل تحریف ہے ۔ کیا توحید ایسی چیز ہے کہ عوام کے لیے اس کا حلیہ بگاڑ دیا جائے؟
استواء سے مراد غلبہ اور صفت ید (ہاتھ) کو قدرت و طاقت کے مجازی معنی کی طرف پھیرنا سلف کی تصریحات کے خلاف ہے ۔
سادہ سی بات ہے کہ اللہ کی صفات اس کے شایان شان ہیں اور مخلوقات کی صفات ان کے شایان شان ہیں ۔ اللہ کی صفات میں کمال اور دوام ہے جب کہ مخلوق کی صفات ایسی نہیں ۔ تحریف و تاویل کی ضرورت تو تب پڑے جب کوئی یہ کہتا ہو کہ خالق کی صفات مخلوق کی طرح ہیں ۔ لہٰذا ہر موول و محرف پہلے صفات خالق کو مخلوق سے تشبیہ دے کر ”مشبہ“ بن جاتا ہے ، پھر تاویل و تحریف پر اتر آتا ہے ۔
عوام کو سمجھانے کے لئے تاویل و تحریف کا راستہ ہموار کرنے سے کتاب اللہ میں نقص لازم آتا ہے ۔ کیا عقیدہ توحید عوام کی سمجھ سے بالا تر ہے کہ گمراہی اس میں دخیل ہو گئی؟
علامہ ابن ابی العز رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
فلذلك صار كلام المتأخرين كثيرا ، قليل البركة ، بخلاف كلام المتقدمين ، فإنه قليل ، كثير البركة ، لا كما يقوله ضلال المتكلمين وجهلتهم: إن طريقة القوم أسلم ، وإن طريقتنا أحكم وأعلم ، ولا كما يقوله من لم يقدرهم من المنتسبين إلى الفقه: إنهم لم يتفرغوا لاستنباط الفقه وضبط قواعده وأحكامه اشتغالا منهم بغيره ، والمتأخرون
تفرغوا لذلك ، فهم أفقه !

فكل هؤلاء محجو بون عن معرفة مقادير السلف ، وعمق علومهم ، وقلة تكلفهم ، وكمال بصائرهم .
”متاخرین کی گفتگو لمبی ہوتی ہے اور اس میں برکت کم ہوتی ہے ۔ متقدمین کا کلام مختصر ہوتا تھا اور اس میں برکت بےبہا ہوتی تھی ۔ گمراہ اور علم وعرفان سے عاری متکلمین کہتے ہیں کہ اسلاف کا طریقہ اسلم تھا اور ہمارا طریقہ احکم اور اعلم ہے ۔ اسی طرح نام نہاد ”فقہا“ کہتے ہیں کہ سلف دیگر مشغولیات کی بنا پر فقہ ، اصول فقہ اور احکامات مرتب کرنے سے قاصر رہ گئے اور متاخرین نے ان پر توجہ دی ، لہٰذا متاخرین بڑے فقیہ ہیں ! ان کی بات صریح باطل ہے ، یہ لوگ نہیں جانتے کہ سلف کی قدر و منزلت کیا ہے ، ان میں تکلف کس قدر کم تھا ، کیسے صاحب بصیرت اور علم میں گہرائی رکھنے والے تھے ۔“ [ شرح العقيدة الطحاوية ، ص ٧٦]
مولانا اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں:
”نفی مسائل کے بعد آگے ان کے دو طریق ہیں ۔ ایک طریقہ سلف کا ہے کہ اس کو حقیقی معنی پر محمول فرماتے ہیں اور حقیقی معنی کی کنہ مفوض بعلم الہی کرتے ہیں اور اس کی کوئی کیفیت متعین نہیں کرتے ۔ اور دوسرا طریقہ خلف کا ہے کہ اس میں مناسب تاویل کر لیتے ہیں تاکہ گمراہ فرقے مشبہہ و مجسمہ ان کو غلطی میں واقع نہ کر سکیں اس طرح سے کہ دیکھواللہ تعالیٰ عرش پر مستقر ہیں اور استقرار کے معنی ظاہر ہیں کہ جتنے اور بیٹھنے کے ہیں ، تو معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ عرش پر بیٹھا ہے ، جیسے ہم تخت پر بیٹھے ہیں ، تو وہ بھی ہماری طرح جسمانی چیز ہے ۔ نعوذ باللہ ! اس شبہ کا جواب اگرچہ سلف کے طریق پر یہ ہے کہ استقرار تو ثابت ہے ، مگر یہ ضرور نہیں کہ ہمارے استقرار کی طرح ہو ، جس سے جسم ہونا لازم آوے ، بلکہ اس کی اور ہے ، جو ہم کو معلوم نہیں اور یہ جواب صحیح بھی ہے ، لیکن عوام کو یہ سمجھانا مشکل ہے کہ استقرار تو ہے ، مگر ہماری طرح کا نہیں ۔ اسی طرح سے وہ یہ شبہ ڈال سکتے ہیں کہ دیکھو قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ”ید“ یعنی ہاتھ اور حدیث میں ”وضع قدم“ یعنی پاؤں رکھنا وارد ہے اور ظاہر ہے کہ ہاتھ اور پاؤں اعضائے جسمانیہ ہیں ، تو معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے اعضائے جسمانیہ ہیں اس کا صحیح جواب بھی سلف کے طریقہ پر یہ ہے کہ ”ید“ اور ”قدم“ تو ہیں لیکن ہماری طرح کے نہیں ، مگر اس کا سمجھنا بھی عوام کو مشکل ہے ، ان کا ذہن تو ان مفہومات سے تجسیم اور تشبیہ کی طرف جاتا ہے اور اس عقیدہ تجسیم و تشبیہ سے بچانا واجب تھا ، اس لیے علما خلف نے اس کی یہ تدبیر کی کہ ایسے حقائق کی ایسے طریق سے تاویل کر دی کہ نہ قرآن و حدیث متروک ہو اور نہ عقیدہ تجسیم و تشبیہ میں مبتلا ہوں ، مثلاً استوی علی العرش کو کنایہ تنفیذ احکام سے کہہ دیا اور ”ید“ کے معنی قدرت کے کہہ دیے ، ”وضع قدم“ کے معنی مقہور کر دینے کے کہہ دیے ۔“ [ بوادر النوادر ، ص ٦٠٣]
بالکل درست ،کہ صفات باری تعالیٰ میں صحیح منہج سلف صالحین کا ہے ۔ اس سے مشبہہ اور مجسمہ کا رد ہو جاتا ہے ۔ اگلی بات سے مگر ہم متفق نہیں ، یہ کہنا کہ تاویل مشبہ کے رد کے لئے کی گئی ، خود باعث اعتراض ہے ، سلف نے جہاں ،تشبیہ و تجسیم کا رد کیا ہے ، وہیں تاویل کا رد بھی کیا ہے ۔
حسین احمد مدنی صاحب کا کہنا ہے:
”اہل سنت والجماعت ان تمام صفات کی تاویل ضروری سمجھتے ہیں ، ”ید“ سے مراد قوت ہے ، کیوں کہ اہل سنت والجماعت کے ان مشابہات کے بارے میں دو طریقے ہیں ۔ سلف صالحین تو کہتے ہیں: لله يد كما يليق بشانه ، لا كأيدينا، کیوں کہ ليس كمثله شيء کے مطابق وہ تشبیہ سے بھی منزہ ہے اور مالا یلیق سے بھی منزہ ہے ، لیکن متاخرین نے یہ مسائل عوام کو سمجھانا مشکل جانا ، تو کہنے لگے کہ ممکن ہے کہ ”ید“ کے معنی نعمت کے ہوں یا قدرت کے ہوں ، عرب میں یہ استعمال برابر چلی آتی ہے ، تو خلف نے ان میں تاویل کی ۔ “ [ تقرير ترمذي ، ص ٥٨١]
سلف تو صفات کو ان کے ظاہری معنی پر رکھتے تھے ، ان میں تاویل و تحریف نہیں کرتے تھے ، جیسا کہ خود مدنی صاحب نے بیان کیا ۔ اب یہ کیا ہوا کہ سلف تو تاویل سے منع کریں اور ہم کہیں کہ ”اہل سنت والجماعت ان تمام صفات کی تاویل ضروری سمجھتے ہیں ۔“ کیا اہل سنت والجماعت سلف کے مخالف ہوتے ہیں؟ اہل سنت تو وہ ہوتے ہیں ، جو عقیدہ و عمل میں سلف کے موافق ہوں ۔
لکھتے ہیں:
”مثلاً علی العرش استوی وغیرہ آیات میں طائفہ وہابیہ (سعودی علما) استوی ظاہری اور جہات وغیرہ ثابت کرتا ہے ، جس کی وجہ سے ثبوت جسمیت وغیرہ لازم آتا ہے ، مگر یہ مقدس بزرگواران سب آیات و احادیث میں مثل سلف بنفی لوازم حدوث و جسمیت توقف فرماتے ہیں اور یا مثل خلف ان کے تاویلات جائز فرماتے ہیں ۔ “ [الشهاب الثاقب ، ص ٢٤٣]
قارئین ! آپ نے ملاحظہ کیا کہ مدنی صاحب کس طرح ائمہ اہل سنت کے متفقہ عقیدہ پر اعتراض وارد کر رہے ہیں کہ اگر استواء کو ظاہری معنی پر رکھا جائے ، تو ثبوت جسمت وغیرہ لازم آتا ہے ۔ مطلب واضح ہے کہ سلف کا عقیدہ ناقص ہے اور خلف کا عقیدہ درست ہے ۔ حالاںکہ یہ بات بدیہی البطلان ہے ۔ کیوں کہ سلف کا عقیدہ اسلم ، احکم اور اعلم ہے ۔ اگر صفات باری تعالیٰ کو ان کے ظاہری معنی پر رکھنے سے جسمیت لازم آتی ہے ، تو ذات باری تعالیٰ کے ثبوت سے کیا لازم آتا ہے؟
اہل سنت والجماعت تو یہ کہتے ہیں کہ اللہ وہ ذات ہے ، جس کی یہ صفات ہیں اور یہ صفات اس کے لیے ایسے ثابت کرتے ہیں ، جیسے اس کی شان کے لائق ہیں ۔ اللہ نے اپنے متعلق خبر دی ہے کہ وہ عرش پر مستوی ہے ، لہٰذا ہم بھی کہیں گے کہ اللہ عرش پر مستوی ہے ، لیکن کیسے؟ جیسے اس کی شان کے لائق ہے ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كما أن الرب نفسه ليس كمثله شيء ، فصفاته كذاته
”چوں کہ اللہ کی ذات کی مثل کوئی چیز نہیں ، لہٰذا اس کی صفات بھی اس کی ذات کی طرح ہیں ۔“ [ درء تعارض العقل والنقل: 198/10]
نیز فرماتے ہیں:
كنه ذاته وصفاته التى لا يعلمها غيره
”اللہ کی ذات اور صفات کی حقیقت کا علم اسی کے پاس ہے ۔ “ [ درء تعارض العقل والنقل: ٢٠٧/١]
مدنی صاحب مزید کہتے ہیں:
”باری تعالیٰ کے لیے نزول وعروج کا ثابت کرنا حالاںکہ وہ مکان اور جہت سے منزہ ہے ، بطور تشبیہ کے ہے ۔ جیسے دنیا کے بادشاہ اپنے محل سراسے نزول کر کے رعایا کی طرف آتے ہیں ، ایسے ہی آخری شب میں توجہ باری تعالیٰ کا نزول الی الخلق ہوتا ہے ۔ دوسری توجیہ یہ ہے کہ ينزل رحمة الله أو ملك الله تیسری توجیہ سلف کی یہ ہے کہ ان روایات کو ہم اصل معنی پر باقی رکھتے ہیں ، لیکن ہم ان کی کیفیت کو نہیں جانتے ، ينزل كما يليق بشانه ، جیسے شمس کی شعاعوں کا نزول ہوا ، ملائکہ اور جنات کا نزول ہمارے نزول کی طرح نہیں ہے ۔“ [ درس ترمذي ، ٥٢٧۔٥٢٦]
اہل سنت کا نزول باری تعالیٰ کے بارے میں عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود نازل ہوتے ہیں ، یہ اللہ تعالیٰ کا حقیقی نزول ہے ، جیسا کہ اس کے شایان شان ہے ۔ اس کی کیفیت کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ اللہ کے حکم کا نازل ہونا ، چند وجوہ سے نا قابل التفات ہے:
➊ احادیث صحیحہ اور اجماع سلف صالحین کے مخالف ہے ۔
➋ اللہ کا حکم ہمہ وقت نازل ہوتا ہے ۔ دن اور رات کے کسی حصے کے ساتھ خاص نہیں ۔
➌ ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا امر کہے : من يدعوني فأستجيب له
اللہ کا آسمان دنیا پر نازل ہونا (اترنا) ، اس کے علو (بلندی) کے منافی نہیں ۔ اللہ جیسا کوئی نہیں ۔ اللہ کے نزول کو مخلوق کے نزول پر قیاس نہیں کیا جا سکتا ۔
امام ابوجعفر ترمذی محمد بن احمد بن نصر رحمہ اللہ (201 ۔ 295ھ) سے ایک سائل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث: إن الله تعالى ينزل إلى سماء الدنيا کے بارے میں پوچھا:
فالنزول ، كيف يكون يبقى فوقه علو؟
اگر نزول مانا جائے تو صفت علو باقی کیسے رہے گی؟
فرمایا:
النزول معقول ، والكيف مجهول والإيمان به واجب ، والسوال عنه بدعة
”نزول کا معنی معلوم ہے ، کیفیت مجہول ہے ، اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کیفیت کے متعلق سوال کرنا ہی بدعت ہے ۔ “ [ تاريخ بغداد للخطيب: 382/1 ، وسنده صحيح]
مولانا ادریس کاندھلوی لکھتے ہیں:
”اسی طرح سمجھو کہ استواء علی العرش سے ظاہری اور حسی معنی مراد نہیں کہ اللہ تعالیٰ عرش پر بیٹھا ہوا ہے ، بلکہ اس سے اللہ کے علو شان اور رفعت مرتبہ کا بتلایا ہے ، كما قال تعالى: رفيع الدرجات ذو العرش اور اسی طرح جس حدیث میں یہ آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر شب آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے ، سو معاذ اللہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدا کوئی جسم ہے کہ عرش سے اتر کر آسمان دنیا پر آتا ہے ، بلکہ اس خاص وقت میں اس کی رحمت کا نزول یا کسی رحمت کے فرشتے کا آسمان دنیا پر اترنا مراد ہوتا ہے ۔ “ [ عقائد الإسلام: حصه دوم ، ص ٤١۔٤٠]
شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وينبغي إطلاق صفة الاستواء من غير تأويل ، وأنه استواء الذات على العرش لا على معنى القعود والمماسة كما قالت المجسمة والكرامية ، ولا على معنى العلو والرفعة كما قالت الأشعرية ، ولا على معنى الإستيلاء والغلبة كما قالت المعتزلة ، لأن الشرع لم يرد بذلك ، ولانقل عن أحد من الصحابة والتابعين من السلف الصالح من أصحاب الحديث ، بل المنقول عنهم حمله على الإطلاق
”صفت استوا کو بلا تاویل بیان کرنا چاہیے ، اس سے ذات باری تعالیٰ کا عرش پر مستوی ہونا مراد ہے ، بیٹھنا یا چھونا مراد نہیں ، جیسا کہ مجسمہ اور کرامیہ نے کہا ہے ۔ نہ ہی علو شان اور رفعت مرتبہ مراد ہے ، جیسا کہ اشاعرہ کا مؤقف ہے اور نہ ہی استیلا اور غلبہ کے معنی میں ہے ، جیسا کہ معتزلہ نے کہا ہے ۔ کیوں کہ یہ تمام معانی شریعت سے ثابت نہیں ، نہ سلف صالحین میں کسی صحابی و محدث تابعی سے منقول و ماثور ہیں ، بلکہ ان تمام سے اسے ظاہری معنی پر محمول کرنا ہی ثابت ہے ۔ “ [ غنية الطالبين: ٥٠/١]
مفتی احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں:
”خدا کے لیے ہاتھ منہ (چہرہ از ناقل) ہونا عقل کے خلاف ہے ، لہٰذا یہ آیات واجب التاویل ہیں ۔“ [ جاء الحق ، حصه دوئم ، ص ٥٠]
محمد عبدالحکیم شرف قادری صاحب لکھتے ہیں:
”حدیث شریف میں اللہ تعالیٰ کے لیے ”ید“ (ہاتھ) اور ”انامل“ (انگلیاں) کا اثبات ہے اور از قبیل متشابہات ہیں ، جس کی حقیقت تک ہماری عقل کی رسائی نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ جسم ، ہاتھ اور پوروں سے پاک ہے ۔ “ [ عقائد و نظريات ، ص 210]
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قوله تعالى: ﴿ما منعك أن تسجد لما خلقت بيدي﴾ ﴿بل يداه مبسوطتان﴾ (المائدة: ٦٤) قالت الجهمية: مجاز فى النعمة أو القدرة ، وهذا باطل من وجوه: أحدها: أن الأصل الحقيقة فدعوى المجاز مخالفة للأصل ، الثاني: أن ذلك خلاف الظاهر فقد اتفق الأصل والظاهر على بطلان هذه الدعوى ، الثالث: أن مدعي المجاز المعين يلزمه أمور ، أحدها: إقامة الدليل الصارف عن الحقيقة ، إذ مدعيها معه الأصل والظاهر ومخالفها مخالف لهما جميعا ، ثانيها بيان احتمال اللفظ لما ذكره من المجاز لغة وإلا كان منشما من عنده وضعا جديدا ، ثالثها: احتمال ذلك المعنى فى هذا السياق المعين ، فليس كل ما احتمله اللفظ من حيث الجملة يحتمله هذا السياق الخاص ، وهذا موضع غلط فيه من شاء الله ولم يبين أو يميز بين ما يحتمله اللفظ بأصل اللغة وإن لم يحتمله فى هذا التركيب الخاص وبين ما يحتمله فيه ، رابعها: بيان القرائن الدالة على المجاز الذى عينه بأنه المراد إذ يستجيل أن يكون هذا هو المراد من غير قرينة فى اللفظ تدل عليه البتة ، وإذا طولبوا بهذه الأمور الأربعة تبين عجرهم
الوجه الرابع: أن اطراد لفظها فى موارد الاستعمال وتنوع ذلك وتصريف استعماله يمنع المجاز
”اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿مَا مَنَعَكَ أَن تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ﴾ ﴿بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ﴾ (المائدة: ٦٤) (جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا ، تو نے اسے سجدہ کیوں نہ کیا؟ ) اور (بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں۔) کے متعلق جہمیہ کہتے ہیں کہ اس میں ہاتھوں سے نعمت یا قدرت مراد ہے مجازا ۔
یہ کئی اعتبار سے باطل ہے:
➊ حقیقت اصل ہے ، مجاز کا دعوی اصل کی مخالفت ہے ۔
➋ یہ ظاہر کے بھی خلاف ہے ، لہٰذا اصل اور ظاہر اس دعوی کی تردید کرتے ہیں ۔
➌ مجاز کے مدعی پر لازم ہے کہ
1۔ حقیقی معنی سے ہٹانے والا کوئی قرینہ صارفہ پیش کرے ۔ کیوں کہ اسے حقیقت پر محمول کرنے والے کے پاس اصل اور ظاہر (دو دلیلیں) موجود ہیں اور حقیقی معنی کی مخالفت کرنے والا اصل اور ظاہر کا مخالف ہے ۔
2۔ جس لفظ سے مجازی معنی مراد لیا جا رہا ہے ، کیا لغت میں یہ لفظ اس معنی کا احتمال رکھتا ہے ، ورنہ یہ اس کی اپنی جدید اختراع ہو گی ۔
3۔ کیا اس سیاق میں ایسے معنی کا احتمال کیا جا سکتا ہے؟ کیوں کہ ایسا تو نہیں کہ مجموعی طور پر لفظ جس معنی کا بھی احتمال رکھے ،مخصوص سیاق بھی اس کا احتمال رکھے ۔ اس مقام پر بہت سوں نے غلطی کھائی ہے ، انہوں نے لفظ کے اصل لغوی احتمالات ، میں اور جس معنی میں یہ محمول کرتے ہیں ، اس میں امتیاز نہیں کیا ۔ یہ اس خاص ترکیب میں اس معنی کا احتمال نہیں رکھتے ۔
4۔ مجازی معنی مراد لینے پر دلائل پیش کیے جائیں ، کیوں کہ ناممکن ہے کہ بغیر کسی قرینے کے لفظ کی وہ مراد لی جائے ، جس پر وہ دلالت ہی نہیں کرتا ۔ جب ان سے ان چار چیزوں کا مطالبہ کیا جائے گا ، شکست واضح ہو جائے گی ۔
➍ استعمال ہونے میں اس لفظ کا مطرد (جو قواعد اور قوانین کے مطابق ہو) ہونا ، اس کا مختلف الانواع ہونا اور بار بار استعمال ہونا مجازی معنی مراد لینے سے روکتا ہے ۔“ [ مختصر الصواعق المرسلة ، ص ٣٩١]
نیز فرماتے ہیں:
كذلك قوله: ﴿خلقت بيدي﴾ يعني بقدرته ونعمته ، قال: فيقال له: هذا باطل ، إذ قوله: ﴿بيدي﴾ يقتضي إثبات يدين هما صفة له ، فلو كان المراد بهما القدرة لوجب أن يكون له قدرتان ، وأنتم تزعمون أن لله تعالى قدرة واحدة فكيف يجور أن تنبتوا قدرتين وقد أجمع المسلمون المثبتون للصفات والنافون لها على أنه لا يجور أن يكون لله تعالى قدرتان ، فبطل ما قلتم
”اسی طرح فرمان باری تعالیٰ: ﴿خَلَقْتُ بِيَدَيَّ﴾ (میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا۔) سے مراد اس کی قدرت اور نعمت لیتے ہیں ۔ انہیں کہا جائے گا کہ یہ معنی باطل ہے ، کیوں کہ ﴿بِيَدَيَّ﴾ کا لفظ دو ہاتھوں کے ثبوت کا تقاضا کرتا ہے ، جو کہ اس کی صفت ہیں ۔ اگر یہاں قدرت مراد ہے ، تو لازم آئے گا کہ اس کی دو قدرتیں ہیں ، جب کہ آپ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ اللہ کی ایک ہی قدرت ہے ۔ آپ اللہ کے لیے دوقدرتیں ثابت کرنے کے کیوں کر مجاز ہیں ۔ اللہ کے لیے صفات کو ثابت کرنے والے اور نفی کرنے والے ہر دو طبقہ کے مسلمانوں کا اجماع ہے کہ اللہ کے لیے دو قدرتیں ثابت کرنا جائز نہیں ، لہٰذا تمہارا دعوی باطل ٹھہرا ۔ “ [ مختصر الصواعق المرسلة ، ص ٤٠٤]
سید ابوالاعلی مودوی صاحب نے صفات باری تعالیٰ میں ٹھوکریں کھائی ہیں:
ثم استوى على العرش کا یوں ترجمہ کرتے ہیں:
” پھر تخت حکومت پر جلوہ گر ہوا ۔ “ [ تفهيم القرآن: ٢٦٢/٢]
یہ بات قرآن وسنت اور اجماع امت کے خلاف ہے ، یقیناً یہ تحریف ہے ۔ قرآن ، حدیث ، اجماع اور فطرت سے ثابت ہے کہ اللہ ،رحمن اپنے عرش پر بلند ہے ۔
➋ ”رہا یہ ارشاد کہ خدا کا عرش پہلے پانی پر تھا ، تو اس کا مفہوم ہماری سمجھ میں یہ آتا ہے کہ خدا کی سلطنت پانی پر تھی ۔ “ [تفهيم القرآن: ٣٢٥/٢]
کیا اب اللہ کی سلطنت پانی پر نہیں ہے؟ سلف سے کوئی بھی یہ مراد بیان نہیں کرتا ، کہ خدا کی سلطنت پانی پر تھی ، قرآن وسنت کی وہی تعبیریں اور مفاہیم معتبر ہیں ، جو صحابہ اور ائمہ سلف سے ثابت ہیں ۔
حافظ ابن الجوزی رحمہ الله (597ھ) لکھتے ہیں:
وإجماع السلف منعقد على أن لا يزيدوا على قراءة الآية ، وقد شذ قوم فقالوا: العرش بمعنى الملك ، وهذا عدول عن الحقيقة إلى التجوز ، مع مخالفة الأثر ، ألم يسمعوا قوله عز وجل: ﴿وكان عرشه على الماء﴾ أتراه كان الملك على الماء؟
”سلف کا اجماع ہے کہ آیت کی قراءت پر زیادتی نہ کی جائے بعض لوگوں نے شذوذ اختیار کرتے ہوئے کہا ہے: عرش کا معنی بادشاہت ہے ۔ یہ حقیقت سے مجاز کی طرف عدول ہے ، حدیث کی بھی مخالفت ہے ۔ کیا انہوں نے فرمان بارى تعالى: ﴿وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ﴾ اس کا عرش پانی پر تھا ۔ نہیں سنا؟ کیا اللہ کی ملکیت (بادشاہت) پانی پر تھی؟“ [زاد المسير: 213/3]
➌ ”خالق بذات خود کسی مقام پر متمکن نہیں ہے ۔“ [تفهيم القرآن: ٥٩٠/٢]
اللہ نے اپنے متعلق خبر دی ہے کہ وہ عرش پر بلند ہے ۔ یہ اہل سنت کا مذہب ہے ۔ کسی بچے سے پوچھا جائے کہ اللہ کہاں ہے؟ تو وہ اوپر کو اشارہ کرے گا یا زبان سے کہے گا کہ اللہ اوپر ہے ۔
➍ ”اللہ تعالیٰ کے بارے میں بھی یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کسی خاص مقام پر رہتا ہے ، کیوں کہ اس کی ذات زمان و مکان کی قیود سے منزہ ہے ۔“ [تفهيم القرآن: ٨٧/٦]
➎ ”اور ذات باری تعالیٰ کا جو تصور ہم کو قرآن مجید میں دیا گیا ہے ، وہ بھی یہ خیال کرنے میں مانع ہے کہ وہ جسم اور جہت اور مقام سے منزہ ہستی کسی جگہ متمکن ہو اور کوئی مخلوق اسے اٹھائے ۔ “ [تفهيم القرآن: ٤١/٦]
انسان سلف صالحین سے بے نیاز ہو جائے، تو حق بھی اسے باطل نظر آتا ہے ۔ صفات باری تعالیٰ کے بارے میں اہل سنت محتاط ہیں ۔ وہ اس باب میں نصوص کو ان کے ظاہری معنی پر رکھتے ہیں ۔ اللہ نے اپنے متعلق جو خبر دی ہے ، اسے ثابت کرتے ہیں ، جس کی نفی کی ہے ، نفی کرتے ہیں ۔ جس سے سلف نے سکوت اختیار کیا ، ہم بھی اس میں سکوت اختیار کرتے ہیں ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728 ھ) فرماتے ہیں:
وحقيقة الأمر فى المعنى أن ينظر إلى المقصود ، فمن اعتقد أن المكان لا يكون إلا ما يفتقر إليه المتمكن ، سواء كان محيطا به أو كان تحته فمعلوم أن الله سبحانه ليس فى مكان بهذا الاعتبار ، ومن اعتقد أن العرش هو المكان ، وأن الله فوقه ، مع غناه عنه ، فلا ريب أنه فى مكان بهذا الاعتبار ، فمما يجب نفيه بلا ريب افتقار الله إلى ماسواه ، فإنه سبحانه غني عن ماسواه ، وكل شيء فقير إليه ، فلا يجوز أن يوصف بصفة تتضمن افتقاره إلى ماسواه
”حقیقت یہ ہے کہ مقصد کو دیکھا جائے ۔ جو یہ سمجھے کہ مکان اسے کہتے ہیں ، جس کا رہنے والا محتاج ہوتا ہے ، گو وہ مکان اسے گھیرے ہوئے ہو یا اس کے نیچے ہو ، تو ظاہر ہے کہ اس اعتبار سے اللہ کسی مکان میں نہیں ہے ۔ جس کا عقیدہ ہو کہ عرش ایک مکان ہے اور اس کے اوپر ہے ،لیکن اللہ اس کا محتاج نہیں ، تو اس اعتبار سے بلاشبہ اللہ مکان میں ہے ۔ لہٰذا جس چیز کی نفی کرنا ضروری ہے ، وہ یہ ہے کہ اللہ کسی کا محتاج نہیں ، ہر چیز اس کی محتاج ہے ۔ اسے کسی ایسی صفت سے متصف کرنا جائز نہیں ، جس سے اس کا محتاج ہونا لازم آئے ۔“ [ درء تعارض العقل والنقل: ٢٤٩/٦]
نیز فرماتے ہیں:
لكن قياس الله الخالق لكل شيء الغني عن كل شيء الصمد الذى يفتقر إليه كل شيء بالمخلوقات الضعيفة المحتاجة عدل لها برب العالمين ومن عدلها برب العالمين فإنه فى ضلال مبين
”لیکن اللہ تعالیٰ ، جو سب کا خالق ، سب سے غنی اور ایسا بے پرواہ کہ ہر چیز اس کی محتاج ہے ، کو محتاج اور کمزور مخلوقات پر قیاس کرنا مخلوق کو رب العالمین کے برابر کرنے کے مترادف ہے اور جو مخلوق کو رب العالمین کے برابر کرے ، وہ واضح گمراہی میں ہے ۔ “ [ بيان تلبيس الجهمية فى تأسيس بدعهم الكلامية: ٦٢٢/٣]
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (751 ھ) لکھتے ہیں:
واستواؤه وعلوه على عرشه سلام من أن يكون محتاجا إلى ما يحمله أو يستوي عليه بل العرض محتاج إليه وحملته محتاجون إليه فهو الغني عن العرش وعن حملته وعن كل ماسواه فهو استواء وعلو لا يشو به حصر ولا حاجة إلى عرش ولا غيره ولا إحاطة شيء به سبحانه وتعالى بل كان سبحانه ولا عرش ولم يكن به حاجة إليه وهو الغني الحميد بل استواؤه على عرشه واستيلاؤه على خلقه من موجبات ملكه ، وقهرم من غير حاجة إلى عرض ولا غيره بوجه ما ونزوله كل ليلة إلى سماء الدنيا سلام مما يضاد علوه وسلام مما يضاد غناه وكماله سلام من كل ما يتوهم معطل أو مشبه وسلام من أن يصير تحت شيء أو محصورا فى شيء تعالى الله ربنا عن كل ما يضاد كماله وغناه وسمعه وبصره سلام من كل ما يتخيله مشبه أو يتقوله معطل وموالاته لأوليائه سلام من أن تكون عن ذلك كما يوالي المخلوق المخلوق ، بل هي موالاة رحمة وخير وإحسان وبر
اللہ کا مستوی ہونا اور اپنے عرش پر بلند ہونا اس سے پاک ہے کہ اللہ کسی اٹھانے والے یا جس چیز پر بلند ہے ، کا محتاج ہو ، بلکہ عرش اور حاملین عرش اس کے محتاج ہیں ، اللہ عرش ، حاملین عرش اور ہر غیر سے غنی ہے ۔ یہ استوا اور علو ایسا ہے ، جس میں کوئی محصور چیز نہیں ملی ہوتی ۔ اللہ کو عرش یا کسی اور شے کی حاجت نہیں اور نہ اسے کوئی چیز محیط ہے ، بلکہ ایک وقت اللہ تھا ، لیکن عرش نہیں تھا اور نہ ہی اسے عرش کی حاجت تھی ۔ وہ غنی اور بزرگ ہے ۔ بلکہ اس کا عرش پر مستوی ہونا اور اپنی مخلوق پر بلند ہونا اس کی بادشاہت اور قہر کے موجبات میں سے ہے ، جسے کسی صورت بھی عرض (اہل کلام کی اصطلاح ہے ، جس کا معنی ہے کہ جو کسی ذات کے ساتھ قائم ہو ، بذات خود قائم نہ ہو ۔ از ناقل) وغیرہ کی ضرورت نہ ہو ۔ اس کا ہر رات نزول اس کے علو ،غنی اور کمال کے مخالف نہیں ہے ۔ اسی طرح معطل اور مشبہہ کے جملہ اوہام سے بھی پاک ہے ۔ اس سے بھی پاک ہے کہ باری تعالیٰ کسی چیز کے ماتحت ہو یا کسی چیز میں محصور ہو جائے ۔ ہمارا رب ہر اس نقص سے پاک ہے ، جس اس کے کمال غنی ، سمع اور بصر کے مخالف ہو ۔ باری تعالیٰ مشبہہ کے خیالات اور معطلہ کے اختراعات سے پاک ہے ۔ اس کا اپنے اولیا سے محبت و موالات مخلوق کے مخلوق کے ساتھ محبت کی طرح نہیں ہے ، بلکہ یہ محبت رحمت ، خیر ، احسان اور نیکی کی وجہ سے ہے ۔ [بدائع الفوائد: ١٣٦/٢]
➏ ”اس کے ہاتھ میں اقتدار ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ جسمانی ہاتھ رکھتا ہے ، بلکہ لفظ محاورہ کے طور پر قبضہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ عربی کی طرح ہماری زبان میں بھی جب یہ کہتے ہیں کہ اختیارات فلاں کے ہاتھ میں ہیں ، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہی سارے اختیارات کا مالک ہے ، کسی دوسرے کا اس میں دخل نہیں ہے ۔ “ [تفهيم القرآن: ٤١/٦]
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے منسو ب ہے:
وله يد ووجه ونفس كما ذكره الله تعالى فى القرآن ، فما ذكره الله تعالى فى القرآن من ذكر الوجه واليد والنفس فهو له صفات بلا كيف ولا يقال: إن يده قدرته أو نعمته لان فيه إبطال الصفة وهو قول أهل القدر والاعتزال ولكن يده صفته بلا كيف
”اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ، چہرہ اور نفس ہے ، جیسا کہ اللہ نے قرآن میں ذکر کیا ۔ اللہ نے قرآن میں جو چہرے ، ہاتھ اور نفس کا ذکر کیا ہے ، یہ اس کی صفات ہیں ، جن کی نہ کیفیت بیان کی جا سکتی ہے اور نہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کے ہاتھ سے مراد قدرت یا نعمت ہے ، کیوں کہ اس سے صفت کا بطلان لازم آتا ہے ، جو کہ قدریہ اور معتزلہ کا عقیدہ ہے ، بلکہ ہاتھ اللہ کی صفت ہے ، کیفیت معلوم نہیں ۔“ [الفقه الأكبر ، ص 27]
كہتے هيں:
لا يوصف الله تعالى بصفات المخلوقين ، وغضبه ورضاه صفتان من صفاته بلا كيف وهو قول أهل السنة والجماعة وهو يغضب ويرضى ولا يقال: غضبه عقو بته ورضاه ثوابه ونصفه كما وصف نفسه أحد صمد لم يلد ولم يولد ولم يكن له كفوا أحد حى قيوم قادر سميع بصير عالم ، يد الله فوق أيديهم ليست كأيدي خلقه وليست جارحة ، وهو خالق الأيدي ووجهه ليس كوجوه خلقه وهو خالق كل
الوجوه ونفسه ليست كنفس خلقه وهو خالق كل النفوس ﴿ليس كمثله شيء وهو السميع البصير﴾
”اللہ کو مخلوق کی صفات سے متصف نہیں کیا جائے گا ۔ غضب اور رضا دونوں اللہ کی صفات ہیں ، ان کی کیفیت بیان نہیں کی جائے گی ، یہ اہل سنت کا منہج ہے ۔ اللہ تعالیٰ غصے ہوتے ہیں اور راضی بھی ہوتے ہیں ۔ یہ نہیں کہا جائے گا کہ اللہ کے غضب سے مراد اس کی عقوبت اور رضا سے مراد اس کا ثواب ہے ۔ ہم اللہ کے وصف ایسے بیان کریں گے جیسے اللہ أحد صمد لم يلد ولم يولد ولم يكن له كفوا أحد حي قيوم قادر سميع بصير عَالِمٌ نے اپنا وصف خود بیان کیا ہے ۔ يد الله فوق أيديهم اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے ۔ اللہ کا ہاتھ مخلوق کے ہاتھوں کی طرح نہیں ہے اور نہ ہی کوئی عضو جسمانی ہے ، وہ تو سب ہاتھوں کا خالق ہے ۔ اسی طرح اس کا چہرہ مخلوق کے چہروں کی طرح نہیں ہے ، وہ تو سب چہروں کا خالق ہے ۔ اس کا نفس مخلوق کے انفاس کی طرح نہیں ہے ، وہ تو سب نفسوں کا خالق ہے ۔ فرمان باری تعالیٰ ہے : ﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ البَصِير﴾ (اس کی مثل کوئی شے نہیں ہے اور وہ خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔)“ [الفقه الأكبر ، ص ١٦١]
خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
أما الكلام فى الصفات ، فإن ما روي منها فى السنن الصحاح ، ملعب السلف إنباتها وإجراؤها على ظواهرها ، ونفي الكيفية والتشبيه عنها ، وقد نفاها قوم ، فأبطلوا ما أثبته الله ، وحققها قوم من المثبتين ، فخرجوا فى ذالك إلى ضرب من التشبيه والتكييف ، والقصد إنما هو سلوك الطريقة المتوسطة بين الأمرين ، ودين الله تعالى بين الغالي فيه والمقصر عنه
وَالْأَصْلُ فِي هَذَا أَنَّ الْكَلَامَ فِي الصِّفَاتِ فَرْعُ الْكَلَامِ فِي الذَّاتِ ، وَيُحْتَذْى فِي ذَلِكَ حَذْوُهُ وَمِثَالُهُ ، فَإِذَا كَانَ مَعْلُوْمًا أَنَّ إِثْبَاتَ رَبِّ الْعَالِمِينَ إِنَّمَا هُوَ إِثْبَاتُ وُجُوْدٍ لَّا إِثْبَاتُ كَيْفِيَّةِ ، فَكَذَالِكَ إِثْبَاتُ صِفَاتِه إِنَّمَا هُوَ إِثْبَاتُ وُجُوْدِ لَّا إِثْبَاتُ تَحْدِيدٍ وتَكييف . فَإِذَا قُلْنَا : لِلَّهِ يَدٌ وَسَمْعٌ و بصر ، فَإِنَّمَا هِيَ صِفَاتٌ أَثْبَتَهَا اللهُ لِنَفْسِهِ ، وَلَا نَقُولُ : إِنَّ مَعْنَى الْيَدِ الْقُدْرَةُ ، وَلَا إِنَّ مَعْنَى السَّمْع وَالْبَصَرِ العِلمُ ، وَلَانَقُولُ : إِنَّهَا جَوَارِحُ ، وَلَا نُشَبهُهَا بِالْأَيدِي وَالأَسْمَاعِ وَالْأَبْصَارِ الَّتِي هِيَ جَوَارِحُ وَأَدَوَاتٌ لِلْفِعْلِ ، وَنَقُولُ : إِنَّمَا وَجَبَ إِثْبَاتُهَا لِأَنَّ التَّوْقِيفَ وَرَدَ بِهَا ، وَوَجَبَ نَفِي التَّشْبِيهِ عَنْهَا لِقَوْلِهِ : لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ الشَّوْرى : 11 ، وَوَلَمْ يَكُنْ لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ [الإخلاص :3 ]
”جو صفات باری تعالیٰ صحیح احادیث میں مروی ہیں ، سلف ان کا اثبات کرتے ہوئے ظاہری معنی مراد لیتے ہیں اور کیفیت اور تشبیہ کی نفی کرتے ہیں ۔ بعض گروہوں نے ان صفات کی نفی کرتے ہوئے اسے باطل کر دیا ہے ، جسے اللہ نے ثابت کیا تھا ۔ بعض نے اثبات تو کیا ہے ، لیکن تشبیہ و تکییف کی گمراہیوں میں مبتلا ہو گئے ۔ درست بات یہ ہے کہ دونوں گروہوں کا درمیانی راستہ اختیار کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کا دین غلو اور تقصیر کے درمیان ہے ۔
صفات باری تعالیٰ میں گفتگو کرنا ذات باری تعالیٰ میں گفتگو کرنا ہے ۔ ان میں بھی وہی طریقہ کار اختیار کیا جائے گا ، جو ذات باری تعالیٰ کے بارے میں کیا جاتا ہے ۔ یہ تو بدیہی بات ہے کہ رب العالمین کا اثبات اس کی ذات کا اثبات ہے ، نہ کہ اس کی کیفیت کا ۔ اسی طرح صفات کا اثبات وجود کا اثبات ہے ، نہ کہ کیفیت اور تحدید کا ۔ لہٰذا جب ہم کہیں گے کہ صفت ید ،سمع اور بصر اللہ کے لیے ثابت ہے ، تو معنی ہو گا کہ یہ صفات ہیں ، جنہیں اللہ نے اپنے لیے ثابت کیا ہے ۔ یہ نہیں کہیں گے کہ ید (ہاتھ) کا معنی قدرت ہے اور سمع و بصر کا معنی علم ہے ، نہ ہی انہیں جوارح (جسمانی اعضا) قرار دیں گے اور نہ ہی انہیں ہاتھوں ، کانوں اور آنکھوں ، جو کہ جسمانی اعضا ہیں اور کام کرنے کے آلہ کار ہیں ، کے ساتھ تشبیہ دیں گے بلکہ ہم کہیں گے کہ ان کا اثبات واجب ہے ، کیوں کہ یہ شریعت سے ثابت ہیں اور تشبیہ کی نفی کرنا بھی ازحد ضروری ہے ، جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے : ﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْ﴾ [الشورى : 11]
”اللہ تعالیٰ کی مثل کوئی چیز نہیں ۔“ فرمایا : ﴿وَلَمْ يَكُن لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ﴾ [الإخلاص : 3]
”اور اس کے ہم سر کوئی نہیں ہے ۔ “ [سير أعلام النبلاء للذهبي : ٢٨٤/١٨ ، وسنده صحيح]
➐ ”اصل الفاظ ہیں جاءربک ، جن کا لفظی ترجمہ ہے : ”تیرا رب آئے گا ۔“ لیکن ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کا کوئی سوال پیدانہیں ہوتا ۔“ [تفهيم القرآن : 333/6]
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (751 ھ) لکھتے ہیں :
مما يوضح لك ذلك أن النزول والمجيء والإتيان ، والاستواء ، والصعود والارتفاع كلها أنواع أفعال ، وهو الفعال لما يريد ، وأفعاله كصفاته قائمة به ، ولولا ذلك لم يكن فعالا ولا موصوفا بصفات كماله ، فتزوله ومجيته واستواؤه وارتفاعه وصعوده ونحو ذلك ، كلها أفعال من أفعاله ، التى إن كانت مجازا فأفعاله كلها مجان ولا فعل له فى الحقيقة ، بل هو بمنزلة الجمادات ، وهذا حقيقة من عطل أفعاله ، وإن كان فاعلا حقيقة فأفعاله نوعان : لازمة ومتعدية ، كما دلت النصوص التى هي أكثر من أن تحصر على النوعين
وبإثبات أفعاله وقيامها به تزول عنك جميع الإشكالات ، وتصدق النصوص بعضها بعضا وتعلم مطابقتها للعقل الصريح ، وإن أنكرت حقيقة الأفعال وقيامها به سبحانه اضطرب عليك هذا الباب أعظم اضطراب ، وبقيت حائرا فى التوفيق بين النصوص وبين أصول التفاة ، وهيهات لك بالتوفيق بين النقيضين والجمع بين الضدين
يوضحه : إن الأوهام الباطلة والعقول الفاسدة لما فهمت من نزول الرب ومجيئه ، وإتيانه وهبوطه ودنوه ما يفهم من مجيء المخلوق وإتيانه وهبوطه ودنوه وهو أن يفرغ مكانا ويشغل مكانانفت حقيقة ذلك فوقعت فى محذورين : محذور التشبيه ومحذور التعطيل ، ولو علمت هذه العقول الضعيفة أن نزوله سبحانه ومجيئه وإتيانه لا يشبه نزول المخلوق وإتيانه ومجيئه ، كما أن سمعه وبصره وعلمه وحياته كذالك ، بل يده الكريمة ووجهه الكريم كذلك ، وإذا كان نزولا ليس كمثله نزول ، فكيف تنفى حقيقته ، فإن لم تنف المعطلة حقيقة ذاته وصفاته وأفعاله بالكلية وإلا تناقضوا ، فإنهم أى معنى أتبتوه لزمهم فى نفيه ما ألزموا به أهل السنة المثبتين لله ما أثبت لنفسه ، ولا يجدون إلى الفرق سبيلا
”واضح ہوا کہ صفات نزول ،مجیء ، اتیان ، استواء صعود اور ارتفاع تمام ”صفات فعلیہ“ ہیں ۔ اللہ جس کا ارادہ کرتا ہے ، اسے بخوبی کر سکتا ہے ۔ اس کی صفات فعلیہ صفات ذاتیہ ہی کی طرح ہیں ۔ ایسا نہ ہوتا ، تو وہ ”فعال“ ( ہر کام بخوبی کرنے والا) ہوتا ، نہ صفات کمال سے متصف ہوتا ۔ اللہ کی صفات نزول ، مجی ، اتیان ، استوار صعود ، ارتفاع اور دوسری صفات اس کے افعال ہیں ، کہ اگر یہ فعلی صفات مجازی ہیں ، تو اس کے تمام افعال ہی مجاز ہوں گے اور حقیقت میں کوئی فعل بھی باقی نہیں رہے گا ، بلکہ سب افعال جمادات کی طرح ہو جائیں گے ۔ معطلہ کی یہی حقیقت ہے ۔ اگر اللہ کو حقیقی فاعل تسلیم کر لیا جائے ، تو اس کے افعال کی دو قسمیں ہوں گی ۔
➊ لازمیہ ➋ متعدیہ ۔
ان دونوں اقسام پر ان گنت نصوص دلالت کرتی ہیں ۔
صفات افعال کے اثبات اور انہیں ذات باری کے ساتھ قائم کرنے سے آپ کے تمام شبہات کا فور ہو جاتے ہیں ۔ تمام نصوص ایک دوسرے کی تصدیق کرتی ہیں اور آپ انہیں عقل صریح کے موافق و مطابق بھی سمجھنے لگیں گے ۔ اگر آپ نے ان صفات کا انکار کر دیا یا انہیں ذات باری تعالیٰ کے ساتھ قائم نہ مانا ، تو آپ اس مسئلہ میں شدید اضطراب کا شکار ہو جائیں گے اور نصوص اور منکرین صفات باری تعالیٰ میں موافقت تلاش کرتے ہی رہ جائیں گے ۔ دو نقیض اور ضدوں میں جمع و توفیق کرنا ناممکن ہے ۔
کچھ مزید وضاحت : جب باطل اوہام اور فاسد عقلیں رب تعالیٰ کے نزول ، آنے ، نیچے اترنے اور قریب ہونے سے وہ مفہوم مراد لیں گی ، جو مخلوق کے نزول ، آنے ، نیچے اترنے اور قریب ہونے ، جس ایک جگہ سے دوسری جگہ انتقال لازم آتا ہے ، سے مراد لیا جاتا ہے ، تو ان صفات کی حقیقت کی نفی کر بیٹھیں گی ۔ نیز دو گمراہیوں کا شکار ہو جائیں گی :
➊ تشبیہ ➋ تعطیل ۔
اگر ان کمزور عقلوں کی سمجھ میں آجاتا کہ اللہ کانزول اور آنا مخلوق کے نزول اور آنے کے مشابہ نہیں ہے ، اسی طرح خالق کی مع ، بصر علم اور حیات مخلوق کے مشابہ نہیں ہے ، بلکہاس کا ہاتھ اور چہرہ بھی مخلوق کے مشابہ نہیں ہے ۔ اگر اللہ کا نزول مخلوق کے مشابہ نہ مانا جائے ، تو اس کی حقیقت کی نفی نہیں ہو گی ۔ معطلہ اللہ کی ذات ، صفات اور افعال کی حقیقت کی کلیتا نفی کر کے تناقض کاشکار ہو گئے ہیں ، کیوں کہ وہ جو معنی بھی ثابت کریں ، ان پر صفات کی نفی کرنے میں وہی اعتراض وارد ہوتا ہے ، جو اہل سنت پر صفات باری تعالیٰ کے اثبات کرنے میں وارد ہوتا ہے اور انہیں اس فرق کا کوئی راستہ نہیں ملتا ۔“ [مختصر الصواعق المرسلة ، ص ٤٥١۔٤٥٠]
نیز فرماتے ہیں :
وهذا النزول إلى الأرض يوم القيامة قد تواترت به الأحاديث والآثار ودل عليه القرآن صريحا
”روز قیامت زمین کی طرف اللہ کے نزول کی بابت احادیث اور آثار صحابہ متواتر ہیں ، نیز قرآن بھی صراحت کے ساتھ دلالت کناں ہے ۔“ [مختصر الصواعق المرسلة ، ص ٤٦٦]
مولانا سرفراز خان صفدر لکھتے ہیں :
”پروردگار عز وجل کے نزول وغیرہ کے متعلق ایک مسلک متقدمین کا ہے کہ نزول سے حقیقت نزول مراد ہے ، مگر کیفیت ہم نہیں جانتے ۔ اسی طرح سمع ،بصر ، ید ، استواء علی العرش کے متعلق متقدمین کا مسلک یہی ہے ۔ متاخرین تاویل کر کے فرماتے ہیں کہ اس سے رضائے الہی ، خوش نودی اور توجہ مراد ہے ۔ عمدہ قول متقدمین کا ہی ہے ۔ “ [خزائن السنن ، ص ٤٠٣]
بے شک عمدہ قول متقدمین کا ہی ہے ، لیکن متاخرین متکلمین کو حق نہیں کہ وہ توحید باری تعالیٰ میں متقدمین سے اختلاف کریں ۔ متاخرین نے تشبیہ کا بہانہ تراش کر صفات باری میں تعطیل کا ارتکا ب کیا ہے ۔
➑ ”۔۔۔۔اس سے معلوم ہوا کہ انسان کے اندر جو روح پھونکی گئی ہے ، وہ دراصل صفات الہی کا ایک عکس یا پر تو ہے ۔“ [تفهيم القرآن : ٥٠٢/٢]
یہ عقیدہ صوفیا سے مستعار لیا گیا ہے ۔ اہل سنت والجماعت اس کے تصور سے بھی کانپ اٹھتے ہیں ۔
مفتی تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں :
”تفہیم القرآن میں بہت سی باتیں جمہور کے مسلمات واقوال کے خلاف ہیں ، اس لیے اسے بقول سائل بلا تنقید پڑھنا پڑھوانا درست نہیں ہے ۔“ [فتاوي عثماني ، جلد اول ، ص 214]

بعض اتہامات کا جائزہ :

ایک صاحب کہتے ہیں :
”میں نے عرض کیا : میرے امام کا عقیدہ ہے ، اللہ ہر جگہ پر ہے ۔“ [خطبات گهمن ص ٢٠٥]
مزید کہا:
”رب کی ذات کے بارے میں نعمان کا ، احناف کا عقیدہ یہ ہے ، اللہ ہر جگہ پر ہے ، صرف اللہ عرش پر نہیں ہے ۔“ [خطبات گهمن ، ص 200]
امام صاحب کی طرف یہ عقیدہ جانے کن لوگوں نے منسوب کر دیا ہے ، حالاںکہ ان سے یہ عقیدہ ثابت نہیں ۔ ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ولا يلتفت إلى من أنكر ذلك ممن ينتسب إلى مذهب أبى حنيفة ، فقد انتسب إليه طوائف معتزلة وغيرهم ، مخالفون له فى كثير من اعتقاداته ، وقد ينتسب إلى مالك والشافعي وأحمد من يخالفهم فى بعض اعتقاداتهم ، وقصة أبى يوسف فى استتابة بشر المريسي ، لما أنكر أن يكون الله عز وجل فوق العرش مشهورة
”احناف کی طرف منسوب بعض لوگ ، جو اس عقیدے کا انکار کرتے ہیں ، تو ان کا انکار قابل التفات نہیں ۔ کیوں کہ معتزلہ کے کئی گروہ خود کو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں اور کئی اعتقادی مسائل میں ان کی مخالفت کرتے ہیں ۔ ائمہ مالک ، شافعی اور احمد رحمہ اللہ کے بعض اعتقادات میں مخالفت کرنے والے بھی خود کو ان کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ قاضی ابو یوسف کا قصہ مشہور ہے کہ جب بشر مریسی نے اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کا انکار کیا ، تو انہوں نے اسے توبہ کرنے کو کہا ۔“ [شرح العقيدة الطحاوية ، ص 288 ، ط دار السلام]
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ) لکھتے ہیں :
وكذالك الحنفي يخلط بمذاهب أبى حنيفة شيئا من أصول المعتزلة والكرامية والكلابية ، ويضيفه إلى مذهب أبى حنيفة
”اسی طرح احناف نے بھی مذہب ابوحنیفہ میں بہت کچھ ایسا داخل کر دیا ہے ، جو در حقیقت معتزلہ ، کرامیہ اور کلابیہ کے اصول و اعتقادات تھے اور پھر اسے مذہب ابوحنیفہ کی دم لگا دی ۔ “ [منهاج السنة النبوية : ٢٦١/٥]
نیز فرماتے ہیں :
ما من إمام إلا وقد انتسب إليه أقوام هو منهم برىء قد نتسب إلى مالك أناس مالك برىء منهم وانتسب إلى الشافعي أناس هو بريء منهم وانتسب إلى أبى حنيفة أناس هو بريء منهم
”ہر امام کی طرف کچھ نہ کچھ لوگ منسوب ہوتے ہیں ، جب کہ وہ امام ان سے بری ہوتا ہے ۔ امام مالک کی طرف کئی لوگ (جھوٹی) نسبت کرتے ہیں ، جب کہ آپ رحمہ اللہ ان سے بری ہیں ۔ خود کو شافعی کہنے والے بہت سے لوگ موجود ہیں ، جب کہ امام صاحب ان سے بری ہیں ۔ اسی طرح کئی لوگ خود کو ابوحنیفہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ، جب کہ آپ ان سے بری ہیں ۔“ [مجموع الفتاوى : ١٨٥/٣ ، العقود الدرية ، ص ١٥٧]
علامہ ابومظفر اسفر ایینی رحمہ اللہ (471ھ) لکھتے ہیں :
وقد نبغ من أحداث أهل الر أى ، من تلبس بشيء من مقالات القدرية والروافض مقلدا فيها وإذا خاف سيوف أهل السنة نسب ما هو فيه من عقائده الخبيثة إلى أبى حنيفة تسترا به فلا يغرنك ما ادعوه من نسبتها إليه فإن أبا حنيفة بريء منهم ومما نسبوه إليه
”کئی ایسے نوزائیدہ اہل رائے سامنے آئے ہیں ، جنہوں نے قدریہ اور روافض کی تقلید میں ان کے کچھ عقائد کو غلط ملط کر رکھا ہے ، پھر اہل سنت کی شمشیریں خوف طاری کرتی ہیں ، تو جھٹ سے اپنے اعتقادات کو حنفیت کا رنگ دیتے ہیں ۔ (اے مخاطب !) آپ ان کی نسبتوں سے دھوکہ نہ کھائیں ، کیوں کہ امام ابوحنیفہ ان سے اور ان کے منسو ب عقائد سے قطعاً بری ہیں ۔“ [التبصير فى الدين ، ص ١١٤]
علامہ خلیل احمد سہار نپوری (1346ھ) لکھتے ہیں :
وهذا الحديث يثبت كونه سبحانه وتعالى فوق عرشه ، والجهمية ينكرونه
”یہ حدیث ثابت کرتی ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے عرش پر (بلند) ہے ، جب کہ جہمیہ اس کا انکار کرتے ہیں ۔ “ [بذل المجهود فى حلّ سنن أبى داود : ١٤٤/١٨]
سلف صالحین اور ائمہ اہل سنت کا صفات باری تعالیٰ میں جو عقیدہ ہے ، وہی حق ہے ، اس سے انحراف کسی صورت بھی مناسب نہیں ۔
کیا اسلامی عقائد اس قدر پیچیدہ ہیں کہ ان کی تفہیم کے لیے باطل تاویلات کا سہارا لیا جائے ۔ ان عبارات سے واضح ہے کہ یہ عقیدہ اہل سنت سے انحراف ہے ۔ اسلامی عقائد کی بنیاد لغت عرب پر ڈالی جائے گی یا سلف صالحین کے فہم پر ؟
اسلاف صفات باری تعالیٰ میں تاویل نہیں کرتے تھے ، ہمارے لیے بھی اسی میں عافیت و سرخروئی ہے ۔ یہ کہنا کہ اگر سلف کے منہج کے مطابق صفات باری تعالیٰ کو مانا جائے ، تو اس سے یہ یہ لازم آئے گا ، حالاں کہ ایسا کچھ نہیں ہے ، کیوں کہ مسلک سلف ہی اسلم ، احکم اور اعلم ہے ۔ سلف کے بارے میں بدگمانی اور ان کے منہج سے انحراف جادہ حق سے دور کے جاتا ہے ۔ جب کہ سلف سب سے بڑھ کر علم و تقوی والے تھے ، تکلفات سے کوسوں دور تھے ۔ قرآن و حدیث کی نصوص کی صحیح تعبیریں بیان کرتے تھے ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: