وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ عَل قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَمُرَ بِحَطَبٍ فَيُحْتَطَبَ ثُمَّ امْرَ بِالصَّلَاةِ فَيَؤْذَنَ لَهَا ثُمَّ أَمْرَ رَجُلًا فَيَوْمَ النَّاسَ ثُمَّ أُخَالِفَ إِلَى قَوْمٍ فَأُحَرِّقَ عَلَيْهِمْ بُيُوتَهُمْ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ يَعْلَمُ أَحَدُهُمْ أَنَّهُ يَجِدُ عَرْفًا سَمِينًا، أَوْ مِرْمَا تَيْنِ حَسَنَتَيْنِ لَشَهِدَ الْعِشَاء ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ [لَفَظُ الْبُخَارِي]
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں نے ارادہ کیا کہ حکم دوں، ایندھن اکٹھا کیا جائے پھر یہ حکم دوں کہ نماز کے لیے آذان دی جائے پھر ایک شخص کو حکم دوں کہ وہ امامت کرائے، پھر میں قوم کے گھروں کا چکر لگاؤں اور جماعت میں شامل نہ ہونے والوں کے گھروں کو جلا دوں، مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر ان میں سے کسی ایک کو معلوم ہو جائے کہ وہ مسجد میں ایک موٹی ہڈی یا دو عمدہ گوشت والی ہڈیاں پائے گا تو وہ عشاء کی نماز میں ضرور حاضر ہو۔“ متفق علیہ، لفظ بخاری کے ہیں۔
تحقیق و تخریج:
بخاری: 657، 644، مسلم: 651
فوائد:
➊ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے نام، صفات اور ذات کی قسم کھائی جا سکتی ہے یہی انبیاء علیہ السلام کی تعلیم ہے اور ہمارے محتر م نبی صلى الله عليه وسلم نے بھی اس حدیث میں اللہ کی ذات کی قسم کھائی فرمایا ”والذی نفسی بیدہ“ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے نام کی قسم کھانا ناجائز ہے خواہ وہ کتنی ہی محتر م ہو ۔ نبی کریم صلى الله عليه وسلم کا قسم کھانے کا انداز بہت شاندار نظر آتا ہے جس میں یہ بھی سبق ہے کہ سبھی جانیں اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں وہ جدھر چاہے جیسے چاہے کر سکتا ہے ۔
➋ جہاں بھی نبی کریم صلى الله عليه وسلم کا یہ انداز قسم مذکور ہے ۔ وہاں رعب، غیرت اور ایک کام کی اہمیت سامنے آتی ہے ۔
➌ اسلام میں نیابت جائز ہے ۔
➍ اگر آگ میں جلا دیا جائے تو تب بھی فرض نماز نہیں چھوڑنی چاہیے ایسے ہی وہ آدمی جو جماعت کے وقت یا جماعت سے پیچھے رہے اس کو مع اس کے گھر کے تعریز جلا دینا یہ انتہا درجہ کی توبیخ ہے اور جماعت کے وقار اور اہمیت کو اجاگر کرنے والا فرمان ہے ۔
➎ جیسے مال کے اعتبار سے دو موٹی تازی اونٹنیاں بہترین ہوتی ہیں اسی طرح ثواب کے لحاظ سے مومن کے لیے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا یہ اونٹنیوں سے بھی عمدہ ہے ۔ یہ ان کے ذہن کے مطابق خطاب ہے ۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں نے ارادہ کیا کہ حکم دوں، ایندھن اکٹھا کیا جائے پھر یہ حکم دوں کہ نماز کے لیے آذان دی جائے پھر ایک شخص کو حکم دوں کہ وہ امامت کرائے، پھر میں قوم کے گھروں کا چکر لگاؤں اور جماعت میں شامل نہ ہونے والوں کے گھروں کو جلا دوں، مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر ان میں سے کسی ایک کو معلوم ہو جائے کہ وہ مسجد میں ایک موٹی ہڈی یا دو عمدہ گوشت والی ہڈیاں پائے گا تو وہ عشاء کی نماز میں ضرور حاضر ہو۔“ متفق علیہ، لفظ بخاری کے ہیں۔
تحقیق و تخریج:
بخاری: 657، 644، مسلم: 651
فوائد:
➊ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے نام، صفات اور ذات کی قسم کھائی جا سکتی ہے یہی انبیاء علیہ السلام کی تعلیم ہے اور ہمارے محتر م نبی صلى الله عليه وسلم نے بھی اس حدیث میں اللہ کی ذات کی قسم کھائی فرمایا ”والذی نفسی بیدہ“ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے نام کی قسم کھانا ناجائز ہے خواہ وہ کتنی ہی محتر م ہو ۔ نبی کریم صلى الله عليه وسلم کا قسم کھانے کا انداز بہت شاندار نظر آتا ہے جس میں یہ بھی سبق ہے کہ سبھی جانیں اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں وہ جدھر چاہے جیسے چاہے کر سکتا ہے ۔
➋ جہاں بھی نبی کریم صلى الله عليه وسلم کا یہ انداز قسم مذکور ہے ۔ وہاں رعب، غیرت اور ایک کام کی اہمیت سامنے آتی ہے ۔
➌ اسلام میں نیابت جائز ہے ۔
➍ اگر آگ میں جلا دیا جائے تو تب بھی فرض نماز نہیں چھوڑنی چاہیے ایسے ہی وہ آدمی جو جماعت کے وقت یا جماعت سے پیچھے رہے اس کو مع اس کے گھر کے تعریز جلا دینا یہ انتہا درجہ کی توبیخ ہے اور جماعت کے وقار اور اہمیت کو اجاگر کرنے والا فرمان ہے ۔
➎ جیسے مال کے اعتبار سے دو موٹی تازی اونٹنیاں بہترین ہوتی ہیں اسی طرح ثواب کے لحاظ سے مومن کے لیے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا یہ اونٹنیوں سے بھی عمدہ ہے ۔ یہ ان کے ذہن کے مطابق خطاب ہے ۔
[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]