صحابہ کرام کے مشاجرات پر سکوت کی علمی اہمیت

مشاجراتِ صحابہ کرام اور سکوت کی اہمیت

پروفیسر ظفر احمد صاحب کی یہ تحریر مشاجراتِ صحابہ کرام کے حوالے سے موجود غلط فہمیوں کو دور کرنے اور صحیح علمی و فکری رہنمائی فراہم کرنے کی کوشش ہے۔ اس کا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں بلکہ اتحاد بین المسلمین کے فروغ کے لیے ایک مثبت علمی بنیاد فراہم کرنا ہے۔

صحابہ کرام کی حسنِ عاقبت کی یقینی حیثیت

قرآن کریم کی روشنی میں

صحابہ کرام، خواہ مہاجرین ہوں، انصار ہوں، یا فتحِ مکہ کے بعد ایمان لانے والے ہوں، سب کی حسنِ عاقبت قرآن کی رو سے یقینی اور قطعی ہے:

"تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ، لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ، وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ”
"یہ ایک جماعت تھی جو گزر چکی، ان کے لیے وہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور تمہارے لیے وہ ہے جو تم کماؤ گے، اور تم سے ان کے اعمال کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا۔”
(سورۃ البقرہ: 134)

بعد کے لوگوں کی حالت

  • بعد کے افراد کی حسنِ عاقبت کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔
  • غیرصحابی افراد کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ معلوم العاقبہ صحابہ کرام کے اختلافات میں کسی کو باغی یا مخطی قرار دیں۔

متقدمین علماء کا رویہ

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ

امام احمد بن حنبل سے حضرت علی اور حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہما) کے اختلاف کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے جواب میں قرآن کریم کی آیت پڑھی:

"تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ…”
"یہ ایک امت تھی جو گزر چکی…”
(ملا علی قاری، شرح الفقہ الاكبر، صفحہ 102)

امام اوزاعی رحمہ اللہ

امام اوزاعی کے بقول، حسن بصری سے حضرت علی، عثمان، اور معاویہ (رضی اللہ عنہم) کے متعلق سوال ہوا تو انہوں نے فرمایا:

  • سب کے فضائل ہیں؛ کوئی قبولِ اسلام میں سبقت لے گیا اور کوئی رشتہ داری کے شرف سے ممتاز ہے۔
  • دونوں فریقوں کو آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا۔

(سیر اعلام النبلاء، جلد 3، صفحہ 142)

حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ

حضرت عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا:

"اللہ تعالیٰ نے ان کے خون میں ہماری تلواروں کو رنگین ہونے سے بچایا، تو ہمیں اپنی زبانوں کو بھی محفوظ رکھنا چاہیے۔”
(دمیری، حیوة الحیوان، جلد 1، صفحہ 350)

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ

امام ابو حنیفہ نے کہا:

"میں اللہ سے ڈرتا ہوں کہ کوئی ایسی بات کروں جس کے بارے میں مجھ سے پوچھا جائے۔”
(الخیرات الحسان، صفحہ 57)

شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ

شیخ عبدالقادر جیلانی فرماتے ہیں:

"ہم صحابہ کرام کے اختلافات کو اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔”
(غنیتہ الطالبین، صفحہ 140)

علامہ قرطبی رحمہ اللہ

علامہ قرطبی نے لکھا:

"صحابہ کرام کی طرف یقین کے ساتھ خطا منسوب کرنا جائز نہیں۔”

"وہ سب اجتہاد کرتے تھے اور اللہ کی رضا کا ارادہ رکھتے تھے۔”
(تفسیر الجامع لاحکام القرآن، جلد 16، صفحہ 322)

مشاجراتِ صحابہ میں سکوت کی اہمیت

اکابرین کی اکثریت کا رویہ

  • اکابر صحابہ کرام کی اکثریت نے ان جنگوں میں حصہ نہیں لیا۔
  • امام ابن کثیر نے بھی ذکر کیا کہ ہزاروں صحابہ زندہ تھے، لیکن صرف چند افراد ان جنگوں میں شریک ہوئے۔

محاکمہ سے اجتناب

  • مشاجرات صحابہ میں محاکمہ (فیصلہ دینے) سے گریز لازم ہے۔
  • یہ کہنا کہ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) یقینا حق پر تھے اور حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ) یقینا خطا پر، اکثر متاخرین کی اجتہادی خطا ہے۔
  • اصول "اهون البلیتین” (کمتر برائی) کے تحت غیرصحابی کو خطا پر قرار دینا زیادہ مناسب ہے۔

اجتہادی اختلافات کی نوعیت

  • اجتہادی اختلاف ہمیشہ حق و باطل کا نہیں ہوتا، بلکہ یہ:
  • اولیٰ اور خلافِ اولیٰ
  • احسن اور حسن
  • افضل اور مفضول
  • جیسے رفع یدین یا عدم رفع یدین کے مسائل میں اولیٰ اور خلافِ اولیٰ سے آگے نہیں بڑھا جاتا، اسی طرح مشاجرات صحابہ میں بھی فریقین کو مصیب (حق بجانب) قرار دینا بہتر ہے۔

متاخرین کے طرزِ عمل کا جائزہ

سکوت کی فضیلت

امام ابو حنیفہ، امام احمد بن حنبل، اور دیگر متقدمین نے سکوت کو ترجیح دی۔

متاخرین کی بجائے ان اکابرین کی پیروی ضروری ہے۔

خلاصہ

صحابہ کرام کے مشاجرات میں فیصلہ دینے یا کسی کو خطا پر قرار دینے کی بجائے سکوت اور توقف ہی بہترین رویہ ہے۔ اکابرینِ امت کے مطابق، یہ اختلافات اجتہادی نوعیت کے تھے، اور ان کے بارے میں زبان کھولنا غیر ضروری ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1