ہر کسی کو چاہیے کہ وہ اس ایمان سے متصف ہو جائے ، جس ایمان سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم متصف تھے اور جس کا ذکر قرآن کی مندرجہ ذیل آیت کریمہ میں ہے، تو وہ بندہ صراط مستقیم پر گامزن ہو جائے گا۔ چنانچہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا ۖ وَّإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ ۖ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
(2-البقرة:137)
”پس اگر یہ تمہاری طرح ایمان لے آئیں، تو ہ راہ راست پر آگئے، اور اگر انہوں نے حق سے منہ پھیر لیا، تو وہ مخالفت وعداوت پر آگئے، پس اللہ آپ کے لیے ان کے مقابلے میں کافی ہوگا، اور وہ بڑا سننے والا اور بڑا جانے والا ہے۔ “
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عالی شان ہے:
«اقتدوا باللذين من بعدى من أصحابي، أبى بكر وعمر، واهتدوا بهدي عمار وتمسكوا بعهد ابن مسعود »
صحيح الجامع الصغير رقم: 1134، 1144، 2511۔سلسلة الصحيحة رقم:1233.
” تم میرے بعد میرے صحابہ کی اقتداء کرنا ، جیسے ابوبکر وعمر ہیں ، اور عمار کی سیرت کو اپناؤ اور ایسے ہی ابن مسعود کی بیان کردہ باتوں کو مضبوطی سے تھام لو۔ “
علامہ بر بہاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«فانظر رحمك الله كل من سمعت كلامه من أهل فى شيء منه حتى تسأل وتنظر: هل تكلم به أصحاب زمانك خاصة فلا تدخلن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، أو أحد من العلماء؟ فإن وجدت فيه أثر أعنهم فتمسك به، ولا تجاوزه لشيي ولا تختار عليه شيئا، فتسقطفي النار»
”اے قاری ! اللہ آپ پر رحم کرے کہ ہر وہ بات جو آپ سنیں خاص طور پر ہمارے دور کے لوگوں کی تو اس کی طرف جلدی نہ کیا کرو اور نہ ہی اس پر اس وقت تک عمل کی کوشش کیا کرو جب تک علماء سے سوال نہ کرلو، اور اس پر غور وفکر نہ کر لو کہ کیا (یہ بات ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ یا پھر علماء حقہ میں سے کسی ایک نے کہی بھی ہے یا نہیں ؟ اگر اس بارے میں آپ کو کوئی اثر و دلیل مل جائے تو اس پر مضبوطی سے جم جائیں اور اس پر تجاوز نہ کریں اور اس پر کسی اور چیز کو ترجیح نہ دیں ۔ “
منهج سلف صالحین، ص: 146.
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”اگر کوئی کسی کو آئیڈیل و نمونہ بنانا چاہتا ہے تو وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو اپنا آئیڈیل بنائے، کیونکہ وہ دلوں کے لحاظ سے اس امت کے پاکیزہ ترین دلوں والے تھے، اور گہرے علم والے، اور وہ تکلف سے بری تھے اور ہدایت کے لحاظ سے پختہ ترین تھے، اور اچھے حال والے تھے، یہ وہ گروہ تھا جس کو اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے لیے چنا تھا اور انہیں اپنے دین کو قائم کرنے کے لیے پسند فرمایا تھا۔ ( تو پھر نتیجتا ) تم ان کی فضیلت کا اعتراف کرو اور ان کے آثار وسیرت اور طریقہ کی پیروی کرو، وہ صحیح ہدایت اور صراط مستقیم پر تھے۔ “
التمهيد لا بن عبد الله: 96/2.
امام بر بہاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وهم أهل السنة والجماعة، فمن لم يأخذ عنهم، فقد ضل وابتدع، وكل بدعة ضلالة، والضلالة وأهلها فى النار»
(منهج سلف صالحین)
” صحابہ کرام ہی اہل السنہ والجماعت ہیں جو ان سے دین کے معاملات میں رہنمائی نہیں لیتا ، وہ گمراہ ہو گیا، اس نے بدعت گھڑی ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور گمراہی اور گمراہ دونوں جہنمی ہیں ۔ “
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
« إن الله لا ينظر إلى صوركم وأموالكم، ولكن ينظر إلى قلوبكم وأعمالكم.»
”اللہ تعالیٰ تمہاری شکل وصورت اور مال کی طرف نہیں دیکھتا، بلکہ وہ تو تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے ۔ “
صحیح مسلم کتاب البر والصلة، رقم: 2543.
”سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے بندوں کے دلوں پر نظر دوڑائی تو سب سے بہترین دل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پایا۔ چنانچہ انہیں اپنے لیے چن لیا اور انہیں اپنی رسالت دے کر بھیجا۔ پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کے بعد باقی انسانوں کے دلوں کو دیکھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے دلوں کو بہترین پایا۔ چنانچہ انہیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وزیر بنایا، جو اس کے دین کے لیے لڑتے ہیں۔ تو جس چیز کو وہ اچھا سمجھیں وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی اچھی ہے اور جسے وہ برا سمجھیں وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی بری ہے ۔ “
مسند احمد : 1/ 379،صفحہ : 23۔ الفقيه والمتفقه : 1 / 166۔ خطیب بغدادی نے اسے حسن سند کے ساتھ موقوف بیان کیا ہے۔
امام الآجری رحمہ اللہ (م 360ھ) فرماتے ہیں:
«فكل من رد سنن رسول الله صلى الله عليه وسلم وسنن أصحابه، فهو ممن شاقق الرسول وعصاه، وعصى الله عزوجل بتركه قبول السنن، ولو عقل هذا الملحد وأنصف من نفسه، علم أن أحكام الله عز وجل وجميع ما تعبد به خلقه إنما تؤخذ من الكتاب والسنة، وقد أمر الله عز وجل نبيه صلى الله عليه وسلم أن يبين لخلقه ما أنزله عليه مما تعبدهم به، فقال جل ذكره: ﴿ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ﴾ (16-النحل:44) فقد بين لأمت جميع ما فرض عليهم من جميع الأحكام وبين لهم أمر الدنيا وأمر الآخرة وجميع ما ينبغي أن يؤمنوا به، ولم يدعهم جهلة لا يعلمون، حتى أعلمهم أمر الموت والقبر، وما يلقى فيه المؤمن، وما يلقى فيه الكافي وأمر الحشر والوقوف، وأمر الجنة والنار، حالا بعد حال يعرفه أهل الحق»
”جو شخص بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی سنت کوٹھکرائے گا ، وہ ان لوگوں میں سے ہو گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف اور نافرمان ہیں، نیز وہ سنتوں کو چھوڑنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا بھی نافرمان ہوگیا ہے، اگر یہ بے دین شخص عقل کرے اور خود انصاف کرے تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ اللہ تعالیٰ کے تمام احکام اور مخلوق جو اس کی عبادات بجالاتی ہے، اس کے تمام طریقے کتاب وسنت سے ہی اخذ کیے جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم بھی فرمایا ہے کہ وہ اس کی مخلوق کے لیے اس کے نازل کردہ تعبدی فرامین کی توضیح کریں، چنانچہ فرمایا :
وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ
(16-النحل:44)
(اور ہم نے آپ کی طرف ذکر اس لیے نازل کیا ہے کہ آپ لوگوں کے لیے ان کی طرف نازل کردہ وحی کی وضاحت کریں اور تا کہ وہ غور و فکر کریں) لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لیے تمام وہ احکام بیان کر دیئے ہیں جو ان پر مقرر کیے گئے ہیں، نیز ان کے لیے دنیا و آخرت کا معاملہ بیان کر دیا ہے اور تمام وہ چیزیں بھی جن پر ایمان لانا ضروری ہے، ان کو بے علم جاہل نہیں چھوڑا، یہاں تک کہ ان کو موت اور قبر کے حالات کی بھی خبر دی ہے، مومن و کافر کے انجام، حشر ووقوف ( روز قیامت حساب کے لیے اجتماع اور قیام) اور جنت و جہنم کے لمحہ بہ لمحہ حالات بھی بیان کر دیئے ہیں، جن کو اہل حق جانتے ہیں ۔ “
الشريعة للآجری، ص:350۔ 351.
شیخ الاسلام امام احمد بن عبد الحلیم المعروف ابن تیمیہ (المتوفی 728 ھ ) رقم طراز ہیں:
«ومن أهل السنة والجماعة مذهب قديم معروف قبل أن يخلق الله أبا حيفة ومالكا والشافعي وأحمد فإنه مذهب الصحابة الذين تلقوه عن نبهم ومن خالف ذلك كان مبتدعا عنداهل السنة والجماعة»
منهاج السنة، 256/1.
”یعنی اہل سنت و الجماعت قدیم ومعروف مذہب ہے جو اس وقت سے بھی پیشتر کا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ، امام مالک رحمہ اللہ ، امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ کو پیدا کیا تھا اور وہ (مذہب اہل سنت و الجماعت) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مذہب ہے۔ انہوں نے وہ مذہب اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا تھا اور جو شخص اس کے خلاف چلے وہ اہل سنت و الجماعت کے نزدیک بدعتی ہے۔ “
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«فإنا نعلم بالضرورة أنه لم يكن فى عصر الصحاب رجل واحد اتخذ رجلا منهم»
” ہم بخوبی جانتے ہیں کہ عصر صحابہ میں کوئی شخص ایسا نہیں تھا جس نے ان میں سے کسی ایک کو پکڑ رکھا ہے۔ یعنی اس کی فقہ کومانتا ہو یا اس کی تقلید کرتا ہو۔“
بعینہ یہ سمجھنا کہ دور جدید کے پیدا شدہ مسائل کا حل، قدیم فقہی ذخیرہ میں ملتا ہے تو یہ بھی راست فکر نہیں اس لیے کہ:
«من زعم أن الدين كله فى الفقه بحيث لا يبقى ورائه شيء فقد عاد عن الصواب»
”جو یہ سمجھتا ہے کہ سارے کا سارا دین فقہ میں اس طرح آ گیا ہے کہ اب کوئی شے باقی نہیں رہی ، وہ صحیح سوچ سے ہٹا ہوا ہے۔“
فيض الباري: 10/2.
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
” یہودیوں نے تفرقہ کیا حتی کہ وہ اکہتر (71) فرقے بن گئے ، اور نصاری تفرقے کے سبب بہتر (72) فرقے بن گئے اور میری یہ امت تہتر (73) فرقوں میں بٹ جائے گی، اور وہ تمام کے تمام فرقے آگ میں جائیں گے سوائے ایک کے۔“ پوچھا گیا کہ وہ ایک کون سا ہوگا؟ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا: «ما أنا عليه وأصحابي»” جس چیز پر ( آج) میں اور میرے صحابہ ہیں ۔ “
سنن ترمذی، کتاب الایمان، رقم: 2641۔ سلسلة الصحيحة، رقم: 1348.
مذکورہ روایت میں استعمال شدہ الفاظ «ما أنا عليه وأصحابي»” میں اسی منہج سلف کی وضاحت ہے۔ جس پر وہ واحد فرقہ ناجیہ اور طائفہ منصورہ کار بند ہوگا۔ یہ وہ جماعت ہوگی جو اپنا منہج رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لیتی ہوگی۔ مزید کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی واشگاف الفاظ میں ان لوگوں کا ذکر بھی کیا جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فوراًبعد آئے:
«خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم.»
صحیح بخاری، کتاب الشهادات، حدیث: 2652.
”بہترین لوگ میرے زمانے کے لوگ ہیں، پھر جو ان کے بعد آئیں، پھر جوان کے بعد آئیں گے۔ “
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
«أصول السنة عندنا : التمسك بما كان عليه أصحاب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم والاقتداء بهم، وترك البدع ، وكل بدعة فهي ضلالة»
شرح اصول السنة للالكائي.
”ہمارے نزدیک اُصول سنت یہ ہیں:
(1) جس مسلک و منہج اور صراط مستقیم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب تھے اُسے مضبوطی سے تھامے رکھنا اور اُنہی حضرات کی اقتداء کرنا۔
(2) اور بدعات وخرافات کو ترک کر دینا۔ اور یہ بات جان لیجیے کہ ہر بدعت ہی گمراہی ہے۔“
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
«من كان مستنا فليستن بمن قدمات فإن الحي لا تؤمن عليه الفتنة أولئك أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم كانوا أفضل هذه الأمة، أبرها قلوبا ، وأعمقها علما، وأقلها تكلفا اختارهم الله لصحبة نبيه، ولإقامة دينه، فاعرفولهم فضلهم، واتبعوهم على آثارهم، وتمسكوا بما استطعتم من اخلاقهم وسيرهم، فإنهم كانوا على الهدى المستقيم»
مشكوة المصابيح كتاب الإيمان، باب الاعتصام بالكتاب والسنة، رقم: 193.
”جو شخص کسی کی اقتداء کرنے والا ہے تو وہ ان لوگوں کی اقتداء کرے جو اسلام پر فوت ہوئے اس لیے کہ زندہ لوگ فتنے سے محفوظ نہیں ہیں، یہ صحابہ کرام اُمت اسلامیہ میں سب سے افضل ہیں۔ ان کے دل زیادہ اطاعت والے ہیں اور ان کا علم بہت گہرا ہے اور وہ تکلفات سے بری ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے پیغمبر کی رفاقت اور اپنے دین کے قیام کے لیے منتخب فرمایا ۔ پس ان کی دوسری ہر فضیلت کو تسلیم کرو اور ان کے نقش قدم پر چلو اور جہاں تک ممکن ہو ان کے اخلاق اور ان کی سیرت پر عمل پیرا رہو۔ یقینا یہ لوگ ہدایت کے راستے پر تھے ۔ “
مضمون کے اہم نکات:
خلیفہ اول بلا فصل سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ :
آیئے سالار صحابہ رضی اللہ عنہا خلافت کے عہدہ پر فائز ہونے والی پہلی شخصیت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو دیکھئے کہ کس قدر سنت سے پیار اور وابستگی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تیسرے دن لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کو اکٹھا کرنے اور روانہ کرنے کا حکم فرمایا۔ حالات کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی جماعت نے وقت کے تقاضے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھا کہ لشکر نہ روانہ کیا جائے ۔ تو جناب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
”اگر مجھے کتے اور بھیڑیئے اچک لیں ، تب بھی میں اسے ویسے ہی نافذ کروں گا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے نفاذ کا حکم دیا۔ میں کبھی اس فیصلے کو رد نہیں کر سکتا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہو۔“
الكامل لابن الاثير : 226/2 .
مزید ارشاد فرمایا:
”اگر بستیوں میں میرے سوا کوئی بھی باقی نہ رہے، تب بھی میں اسے نافذ کر کے رہوں گا۔“
اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے مزید فرمایا:
”اگر میں اپنے معاملات کی ابتدا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جاری کردہ حکم کے علاوہ کسی معاملے سے شروع کروں تو میں پسند کروں گا کہ پرندے مجھے اُچک لیں ۔ “
طبقات ابن سعد.
سید نا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خلافت کے بعد پہلے خطبہ میں فرمایا:
«إن أطعت الله ورسوله فأطيعوني، وإن عصيت الله ورسوله فأقيموني»
تاريخ الخلفاء للسيوطي، ص: 118.
” اگر میں اللہ اور رسول کی اطاعت کروں تو تم میری اطاعت کرو، اگر میں اللہ اور رسول کی نافرمانی کروں تو تم مجھے سیدھا کر دو۔ “
امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ :
«عن سعيد رضى الله عنه قال كان عمر بن الخطاب رضى الله عنه يقول: الدية للعاقلة ولا ترث المرأة من ديةزوجها شيئا، حتى قال له الصحال بن سفيان رضى الله عنه كتب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أورث امرأة أشيم الضبايي من ديقزوجها فرجع عمر رضى الله عنه »
سنن ابی داؤد، کتاب الفرائض، رقم: 2927۔ محدث البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
” حضرت سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے دیت صرف والد کے رشتہ داروں کے لیے ہے، لہذا بیوی کو اپنے شوہر کی دیت سے کوئی حصہ نہیں ملتا، ضحاک بن سفیان رضی اللہ عنہ نے ( امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ ) سے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ پیغام لکھوا کر بھجوایا کہ میں اشیم ضبابی کی بیوی کو اس کے شوہر کی دیت سے حصہ دلاؤں، چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی رائے سے رجوع کرلیا۔ “
عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ہاتھ کی انگلیوں کی دیت کے بارے میں فیصلہ یہ کیا کہ انگوٹھے کی دیت پندرہ اونٹ ، شہادت والی اور درمیانی انگلی کی دس دس اونٹ ، درمیانی انگلی کے ساتھ والی انگلی کی نو اونٹ اور چھنگلی کی چھ اونٹ مگر جب انھیں یہ علم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آل حزم کی طرف دیت کے بارے میں ایک خط لکھا تھا جس میں یہ تھا کہ انگلیاں سب برابر ہیں۔ یعنی سب کی برابر برابر دیت ہوگی تو انہوں نے اپنے فیصلے سے رجوع کیا اور اس حدیث پر عمل کیا۔
مصنف عبدالرزق: 384/9، 385.
اگر کوئی شخص یا عورت کسی حاملہ عورت کو قتل کر دے اور اس کی وجہ سے اس کا بچہ بھی مر جائے تو قاتل پر عورت کو قتل کرنے کی وجہ سے قصاص یا دیت آئے گی مگر اس کے پیٹ میں جو بچہ ہو اس کے مرجانے سے اس پر کیا لازم آئے گا۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں یہ مسئلہ پیش آیا تو انہوں نے مجلس عام میں اس کے بارے میں صحابہ رضی اللہ عنہم سے سوال کیا تو حمل بن مالک رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایسے پیش آنے والے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنین (حمل) کے بدلے میں ایک غلام دینے کا حکم دیا تھا۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جب اس حدیث کو سنا تو فرمایا:
«لو لم نسمع هذا لقضينا بغيره»
” اگر ہم یہ حدیث نہ سنتے تو کوئی دوسرا فیصلہ کر دیتے۔“
سنن ابو داؤد، کتاب الدیات، رقم: 4573،457۔ محدث البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ حجر اسود کے پاس آئے اسے بوسہ دیا اور کہا: ”میں جانتا ہوں تو ایک پتھر ہے نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع دے سکتا ہے۔ اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھا ہوتا کہ تمہیں بوسہ دیتے تھے تو میں تمہیں بوسہ نہ دیتا۔“
صحیح بخاری، کتاب الحج، رقم: 1097 ۔ صحیح مسلم، رقم: 127.
سید نا عثمان غنی رضی الله عنہ :
آپ انتہائی متبع سنت تھے۔ حمران بن ابان ، عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے پانی منگوایا پھر وضو کیا، کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا ، پھر اپنے چہرے کو تین مرتبہ دھو یا اور اپنے دونوں ہاتھوں کو تین تین بار دھویا ، اور سر کا مسح کیا، اور دونوں قدموں کو دھویا ، پھر ہنس پڑے پھر اپنے ساتھیوں سے فرمایا: تم مجھ سے دریافت نہیں کرو گے کہ میں کیوں ہنسا ہوں؟ لوگوں نے عرض کیا: امیر المومنین آپ کے ہنسنے کی وجہ کیا ہے؟ فرمایا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے تھوڑا سا پانی طلب کیا پھر جیسا میں نے وضو کیا ہے وضو فر مایا، پھر مسکرا دیئے، پھر ارشاد فرمایا: تم مجھ سے پوچھتے نہیں کہ میں کیوں ہنسا ہوں؟ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول الله ! آپ کے ہنسنے کی وجہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” بندہ جب وضو کے لیے پانی طلب کرتا ہے اور پھر اپنا چہرہ دھوتا ہے تو اس کے چہرے سے جو گناہ بھی صادر ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دیتا ہے، اور جب اپنے دونوں ہاتھ دھوتا ہے تو اس کے ہاتھ کے گناہ اس طرح معاف کر دیتا ہے، اور جب مسح کرتا ہے تو سر کے گناہ اس طرح معاف کر دیتا ہے اور جب اپنے دونوں قدموں کو دھوتا ہے تو اس کے قدموں کے گناہ اس طرح معاف کر دیتا ہے۔ “
مسند احمد، رقم: 415۔ شیخ شعیب نے اسے حسن لغیرہ قرار دیا ہے۔
سید نا علی المرتضی رضی الله عنہ :
سید نا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
«ما كنت لآدع سنة النبى صلی اللہ علیہ وسلم لقول أحد »
صحیح بخاری، کتاب الحج، رقم: 1563 .
”میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کسی کے قول کی وجہ سے نہیں چھوڑ سکتا ۔“
جب آپ رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے روز ایک عورت کو سنگسار کیا تو ارشاد فرمایا کہ: ”بیشک میں نے اسے سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق سنگسار کیا۔ “
صحيح البخاری، کتاب الحدود، رقم: 6812.
ایک دفعہ سیدناعلی رضی اللہ عنہ سوار ہونے لگے، تو رکاب میں بسم الله کہہ کر پاؤں رکھا، پشت پر پہنچے تو الحمدلله کہا۔ پھر یہ آیت پڑھی:
لِتَسْتَوُوا عَلَىٰ ظُهُورِهِ ثُمَّ تَذْكُرُوا نِعْمَةَ رَبِّكُمْ إِذَا اسْتَوَيْتُمْ عَلَيْهِ وَتَقُولُوا سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ ﴿١٣﴾ وَإِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا لَمُنقَلِبُونَ ﴿١٤﴾
(43-الزخرف:13، 14)
پھر تین بار الحمد لله اور تین بار الله اكبر کہا۔ اس کے بعد یہ دعا پڑھی ۔
سُبحانك إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْلِي، فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ
پھر ہنس دیے ، لوگوں نے ہنسنے کی وجہ پوچھی، بولے ” ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان ہی پابندیوں کے ساتھ سوار ہوئے اور اخیر میں ہنس پڑے، میں نے ہنسنے کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ جب بندہ علم و یقین کے ساتھ یہ دعا کرتا ہے تو اللہ اس سے خوش ہوتا ہے۔ “
سنن ابوداؤد، کتاب الجهاد، باب ما يقول الرجل إذار كب، رقم: 2602۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
سید نا عبد اللہ بن مسعود رضى الله عنہ :
سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :” لعنت کی اللہ تعالیٰ نے گودنے والیوں اور گودوانے والیوں پر اور منہ کے بال اکھاڑنے والیوں اور اکھڑوانے والیوں اور دانتوں کو کشادہ کرنے والیوں پر خوب صورتی کے لیے اور اللہ کی تخلیق بدلنے والیوں پر ۔“ پھر یہ خبر بنی اسد کی ایک عورت کو پہنچی جس کا نام ام یعقوب تھا، وہ قرآن پڑھا کرتی تھی، وہ ایک مرتبہ سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور بولی : ”مجھے کیا خبر پہنچی ہے کہ تم نے گودنے اور گودوانے اور منہ کے بال اکھاڑنے اور اکھٹروانے اور دانتوں کو کشادہ کرنے اور اللہ تعالیٰ کی خلقت کو بدلنے والیوں پر لعنت کی ہے۔“
سید نا عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”میں کیوں لعنت نہ کروں اس پر جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی اور یہ تو اللہ کی کتاب میں موجود ہے ۔“ وہ عورت بولی: ”میں نے تو جس قدر قرآن تھا پڑھ ڈالا ، مجھے یہ نہیں ملا۔ “سید نا عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ”اگر تو پڑھتی تو تجھ کو ملتا“ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا
(59-الحشر:7)
” جو رسول تم کو دے اس کو تھامے رکھو، اور جس سے منع کرے اس سے باز رہو ۔ “
وہ عورت بولی: ان میں سے تو بعض کام تمہاری بیوی بھی کرتی ہے۔ سینا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ”جاد یکھ تو سہی ۔ وہ ان کی بیوی کے پاس گئی تو کچھ نہ پایا، پھر لوٹ آئی اور کہنے لگی: ان میں سے کوئی بات میں نے ان میں نہیں دیکھی ۔ سید نا عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ”اگر وہ ایسا کرتی تو ہم اس سے صحبت نہ کرتے ۔“
صحیح مسلم، کتاب اللباس والزينة، باب تحريم فعل الواصلة والمستوصلة والواشمة والمستوشمة الخ.
سید نا عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہ :
امام ابن شہاب زہری رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سالم بن عبد اللہ نے ان سے بیان کیا کہ انہوں نے ملک شام کے ایک شخص کو سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے حج تمتع کے بارے میں سوال کرتے ہوئے سنا تو سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ یہ جائز ہے، اس شامی آدمی نے کہا: آپ کے والد گرامی نے تو اس سے منع کیا ہے۔ سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ اگر میرے والد نے ایک کام سے منع کیا ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سر انجام دیا ہو تو کیا میرے والد گرامی کا حکم مانا جائے گا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی اتباع کی جائے گی؟ اس آدمی نے جواب دیا کہ اتباع تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ہی کی کی جائے گی ، تو سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : پھر یہ ن لو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج تمتع کیا ہے۔
سنن ترمذی، کتاب الحج، رقم الحدیث: 824۔ محدث البانی نے اسے صحیح الاسناد قراردیا ہے۔
جناب ابراہیم نخعی رحمہ اللہ ( جو کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے استاد ہیں ) فرماتے ہیں:
«لو بلغنى عنهم أنهم لم يجاوزوا بالوضوء صفرا ما جاوزتهم به، وكفى على قوم وزرا أن تخالف أعمالهم أعمال بنيتهم»
”اگر مجھے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف سے یہ بات پہنچے کہ انہوں نے ایک ناخن سے زیادہ وضو نہیں کیا تو میں ان کے عمل سے تجاوز نہیں کروں گا۔ (یعنی ایک ناخن کے برابر وضو کروں گا) اور کسی قوم کے لیے اتنا ہی گناہ کافی ہے کہ ان کے اعمال ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کے مخالف ہوں۔“
شرح اصول اعتقاد اهل السنة الألكائى.
سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«وعليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين من بعدى تمسكوا بها وعضوا عليها بالنواجذ وإياكم ومحدثات الأمور»
”تم پر میری سنت وطریقہ کار پر چلنا لازم ہے اور میرے بعد میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین (خلفاء اربعہ، ابوبکر، عمر، عثمان وعلی رضی اللہ عنہم ) کی سنت وطریقہ کار لازم ہے، ان کو تم اپنی داڑھوں کے ساتھ مضبوطی سے پکڑے رکھو اور تم دین میں بدعات ایجاد کر نے سے بچو ۔ “
مسند احمد: 126/4، 128۔ سنن ابوداؤد، رقم: 4607۔ سنن ترمذی، رقم: 2676 ۔ سنن ابن ماجه ، رقم: 42۔ محدث البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إن الإسلام بدأ غريبا، وسيعود غريبا كما بدأ وهويأرزبين المسجدين كما تأرز الحية فى جحرها»
”اسلام آغاز میں اجنبی تھا اور عنقریب وہ دوبارہ اجنبی ہو جائے گا جیسا کہ آغاز میں تھا۔ اور وہ دو مسجدوں کے درمیان جائے گا، جیسے سانپ اپنی بل میں ٹھس جاتا ہے۔ “
صحیح مسلم کتاب الایمان، رقم: 273
علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے سید نا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ تشریف فرما تھے۔
تو کسی نے کہا کہ ہمیں صرف قرآن حکیم سے بتائیں۔
تو آپ نے فرمایا: میرے قریب آؤ، تو وہ شخص آپ کے قریب آ گیا۔
آپ نے فرمایا: دیکھو اگر تم اور تمہارے ساتھی صرف قرآن حکیم پر ہی اکتفا کریں گے تو کیا قرآن کریم میں تم اور تیرے ساتھیوں کو نماز ظہر کی چار رکعت اور نماز عصر کی چار رکعت اور مغرب کی تین رکعات دورکعات میں اونچی پڑھنے کا ذکر ملتا ہے۔
اگر تم اور تمہارے ساتھی صرف قرآن حکیم پر ہی اکتفا کریں گے تو کیا قرآن کریم میں تم اور تمھارے ساتھیوں کو بیت اللہ کے طواف اور صفا و مروہ کے سات سات چکروں کا ذکر پاتے؟
پھر فرمایا اے لوگو! ہم سے لو۔ یعنی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو تم ضرور گمراہ ہو گئے۔
الكفاية في علم الرواية: 15 .
جناب ایوب سختیانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: اگر تم نے کسی شخص کو حدیث سنائی اور اس نے کہا، چھوڑ و حدیث کو اور بیان کر و قرآن کریم سے، تو جان لو ایسا شخص خود گمراہ ہے اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہے۔
الكفاية في علم الرواية: 15 .
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنه:
ایک دن سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سید نا حسن رضی اللہ عنہ ملے اور کہا کہ ”ذرا پیٹ کھولیے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بوسہ دیا تھا، وہیں میں بوسہ دوں گا، چنانچہ انہوں نے پیٹ کھولا اور انہوں نے وہیں بوسہ دیا۔“
مسند احمد: 488/2۔ صحیح ابن حبان، رقم: 9355۔ امام ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے۔
سید نا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ:
سید نا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
«ما من أحد إلا يؤخذ من علمه ويترك إلا رسول الله صلى الله عليه وسلم»
معجم الطبراني الكبير.
”ہر شخص کے علم کو قبول کیا جاسکتا ہے اور ترک بھی کیا جاسکتا ہے سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جن کی ہر بات واجب ہے۔ “
سید نا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے حج تمتع کے سلسلہ میں کچھ لوگوں نے گفتگو کی، آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی روشنی میں اس کو صحیح قرار دیا تو لوگوں نے کہا: ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہ اس سے روکتے تھے۔ تو آپ نے فرمایا:
«يؤشك أن تنزل عليكم حجارة من السماء أقول لكم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وتقولون قال أبو بكر وعمر»
”ڈر ہے کہ تم پر آسمان سے پتھروں کی بارش ہونے لگے، میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اور تم کہتے ہو، ابوبکر وعمر نے کہا۔ “
سنن الدارمی۔
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
«أراهم سيهلكون، أقول: قال النبى صلى الله عليه وسلم ويقولون: قال أبو بكر وعمر»
مسند احمد.
”میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ ابھی ہلاک ہو جائیں گے۔ میں کہتا ہوں کہ اللہ اور اس کے رسول کا فرمان یہ ہے۔ اور وہ کہتے ہیں کہ ابو بکر اور عمر کا فرمان یہ ہے۔ “
سیدنا ابو موسیٰ الاشعری رضی الله عنہ:
سید نا ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ سے بیٹی ، پوتی اور بہن کی وراثت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: بیٹی کے لیے آدھا ہے اور بہن کے لیے آدھا ہے، ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر پوچھ لو، وہ میری تائید کریں گے۔ پھر سید نا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا اور انہیں سیدنا ابو موسی (رضی اللہ عنہ ) کا قول بتایا گیا تو انہوں نے فرمایا: میں اس کے بارے میں وہ فیصلہ کروں گا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا: بیٹی کے لیے آدھا ہے، پوتی کے لیے چھٹا حصہ ہے اور اس طرح دو تہائی پوری ہوگئی، جو باقی بچا وہ بہن کا ہے۔ پھر سیدنا ابو موسیٰ (رضی اللہ عنہ ) نے فرمایا: جب تک یہ عالم تمہارے درمیان موجود ہیں مجھ سے مسئلے نہ پوچھو۔
صحیح بخاری، رقم: 6737 ملخصاً.
خلاف سنت عمل پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا رد :
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے محب تھے، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کے ہر شعبے میں سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا خاص خیال رکھتے اور اگر کسی کو خلاف سنت کام کرتے دیکھ لیتے تو فوراً سختی سے اس کا رد کرتے۔ مندرجہ ذیل احادیث مبارکہ اس پر شاہد عدل کی حدیث رکھتی ہیں ۔
صحیح بخاری میں ہے:
«عن عمران بن حصين قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم الحياء لا يأتى إلا بخير فقال بشير بن كعب: مكتوب فى الحكمة إن من الحياء وقارا ، وإن من الحياء سكينة، فقال له عمران: أحدثك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم وتحدثني عن صحيفتك»
صحیح البخاری: 1/638، کتاب الادب، باب الجهاد.
”سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حیا خیر ہی لائے گا، بشیر بن کعب نے سن کر کہا: کہ حکمت کے باب میں لکھا ہے بعض حیا وقار اور سکینت ہے، سید نا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے سن کر کہا کہ: میں تم سے حدیث رسول بیان کر رہا ہوں اور تم اس کے مقابلے میں اپنے صحیفے سے بیان کر رہے ہو ۔ “
اس کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی ان الفاظ میں روایت کیا ہے:
«عن أبى قتادة قال: كنا عند عمران بن حصين فى رهط منا وفينا بشير بن كعب، فحدثنا عمران يومئذ قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الحياء خير كله أو قال: الحياء كله خير فقال بشير بن كعب: إنا لتجد فى بعض الكتب أو الحكمة أن منهسكينة ووقار الله ومنه ضعف الخ»
صحیح مسلم: 1: 64 ، حدیث نمبر: 37، کتاب الایمان، باب بیان عدد شعب الایمان.
”ابو قتادہ کہتے ہیں کہ ہم اپنی قوم کے کچھ لوگوں کے ساتھ عمران بن حصین کے پاس تھے وہاں بشیر بن کعب بھی تھے ، آپ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: حیا خیر ہی خیر ہے، بشیر بن کعب نے کہا کہ بعض کتابوں یا حکمتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ حیا کبھی وقار کی شکل میں ہوتا ہے اور کبھی کمزوری کی شکل میں ہوتا ہے، سید نا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سن کر ایسے غصہ ہوئے کہ آپ کی آنکھیں سرخ ہو گئیں اور کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کر رہا ہوں اور تم اس پر اعتراض کر رہے ہو۔ “
عمران بن حصین نے حدیث رسول کا اعادہ کیا ، بشیر بن کعب نے بھی اپنی بات کا اعادہ کیا، عمران غصہ ہوئے ہم عذر کرتے رہے کہ یہ ہم ہی لوگوں میں سے ہے اس میں عقیدے کی کوئی خرابی نہیں۔
«عن عروة بن الزبير أنه أتى ابن عباس فقال: يا ابن عباس طالما أضللت الناس قال: وما ذاك يا عروة قال: الرجل يخرج مخرجا بحج أو عمرة فإذا طاف بالبيت زعمت أنه قد حل فقد كان أبو بكر وعمرينهيان عن ذلك، فقال أهما ويحك آثر عندك أم ما فى كتاب الله وما سن رسول الله صلى الله عليه وسلم مني ومنك قال ابن أبى مليكة: فخصمه عروة.»
المعجم الاوسط للطبرانی: 42/1، حدیث نمبر: 21، باسناد حسن.
”جناب عروہ بن زبیر، سید نا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ ابن عباس ! آپ نے لوگوں کو بہت گمراہ کر رکھا ہے۔ سید نا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: عروہ بات کیا ہے؟ عروہ نے کہا: آدمی حج یا عمرہ کے لیے نکلتا ہے، جب طواف کرلے تو آپ کہتے ہیں کہ وہ احرام سے نکل گیا اس کا مطلب قطعا یہی ہے کہ طواف اور سعی کے بعد اگر حج وعمرہ کا احرام ہے تو بھی احرام سے نکل کر متمتع ہو گیا اور اگر صرف عمرہ کا احرام باندھا ہے تو بہر حال وہ احرام سے نکل ہی گیا۔ سید نا ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہ اس سے منع کرتے تھے ، سید نا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے اور تمہارے نزدیک ابوبکر وعمر افضل ہیں یا وہ چیز جو کتاب اللہ اور سنت رسول میں ہے، عروہ بن الزبیر نے بے حجت ہو کر بات قبول کر لی۔“
سعید بن جبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج تمتع کیا تھا، عروہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ نے سن کر کہا کہ: سیدنا ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہا تمتع سے منع کرتے تھے، سید نا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے لگتا ہے کہ لوگ ہلاک ہو جائیں گے !میں کہتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور لوگ کہتے ہیں کہ ابو بکر و عمر نے منع کیا ہے۔
مسند احمد: 337/1.
حافظ ابن القیم نے اس اثر کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ابن عباس پر رحم کرے اور ان سے راضی ہو، اگر اس زمانے کے لوگوں کو دیکھتے تو کیا کہتے؟ ان کے سامنے جب کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، تو وہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسے لوگوں کے اقوال سے معارضہ کرتے ہیں، جو صحابہ سے بہت ہی نیچے درجے کے لوگ ہوتے ہیں۔
اعلام الموقعین: 539/3 ۔
امام دارمی نے صحیح سند سے ابن عباس سے روایت کیا ہے، کہتے ہیں:
«ألا تخافون أن تعذبوا أو يخسف بكم أن تقولوا قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال فلان.»
سنن دارمی: 95/1.
”کہ تم ڈرتے نہیں کہ تمہارے اوپر عذاب نازل ہو جائے یا دھنسا دیئے جاؤ! ایک طرف کہتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اور پھر اس کے مقابل کہتے ہو، فلاں نے ایسا کہا۔ “
«عن سالم بن عبد الله أنه سمع رجلا من أهل الشام وهو يسأل عبد الله بن عمر عن التمتع بالعمرة إلى الحج، فقال عبد الله بن عمر: هي حلال، فقال الشامي: إن أباك قد نهى عنها ، فقال عبد الله بن عمر: أرأيت إن كان أبى نهى عنها و صنعها رسول الله صلى الله عليه وسلم»
سنن الترمذی، کتاب الحج، رقم: 824۔ محدث البانی نے اسے صحیح الاسناد قرار دیا ہے۔
”سالم بن عبد اللہ بن عمر نے سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے ایک شامی کو حج تمتع کے بارے میں پوچھتے ہوئے سنا، سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حلال ہے ، شامی نے کہا کہ آپ کے والد نے اس سے منع کیا ہے، سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: بتاؤ اگر میرے والد نے منع کیا ہے اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے، تو پھر بھی والد کی بات مانی جائے گی یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مانا جائے گا؟ اس شخص نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہی مانا جائے گا، آپ نے فرمایا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج تمتع کیا ہے۔“
امام احمد رحمہ اللہ کی روایت میں ہے کہ:
«كان عبد الله بن عمر يفتي بالذي أنزل الله عز وجل من الرحصة بالتمتع، وسن رسول الله صلى الله عليه وسلم فيه، فيقول ناس لابن عمر: كيف تخالف أباك وقد نهى عن ذلك؟ فيقول لهم عبد الله: ويلكم ألا تتقون الله أن عمر نهى عن ذلك فيبتغي فيه الخير يلتمس به تمام العمرة فلم تحرمون ذلك وقد احله الله وعمل به رسول الله صلى الله عليه وسلم أفرسول الله أحق أن تتبعوا سنته ۚ إن عمر لم يقل لكم: إن العمرة فى أشهر الحج حرام ولكنه قال: إن أتم العمرة ان تفرد وها من أشهر الحج»
مسنداحمد: 95/2.
”سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہا اللہ کی رخصت کے مطابق حج تمتع کا فتویٰ دیتے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کو مسنون فرمایا ہے، سید نا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے کچھ لوگ کہتے کہ آپ اپنے والد کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟ انہوں نے تو تمتع سے منع کیا ہے۔ سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ انہیں جواب دیتے تمہارے لیے خرابی ہو، تم اللہ سے ڈرتے نہیں ! بیشک جناب عمر رضی اللہ عنہ نے خیر ہی کی نیت سے تمتع سے منع کیا تھا، وہ چاہتے تھے کہ لوگ عمرہ مکمل الگ سے کریں لیکن جب اللہ نے اسے حلال کیا ہے اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے تو پھر بتاؤ! کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اتباع کی زیادہ حق دار ہے یا عمر کی سنت لائق اتباع ہے؟ سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے یہ نہیں کہا کہ حج کے مہینوں میں عمرہ حرام ہے، بلکہ یہ کہا ہے کہ مکمل عمرہ یہ ہے کہ حج کے مہینوں کے علاوہ مہینوں میں عمرہ کیا جائے ۔“
امام بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے کہ:
«عن عبد الله بن مغفل أنه رأى رجلا يخذف فقال له: لا تخذف كان رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نهى عن الخذف أو كان يكره الخذف وقال: إنه لا يصاد به صيد، ولا ينكى به عدو ولكنها قد تكسر السن وتفقأ العين، ثم رآه بعد ذلك يخذف فقال: له أحدثك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه نهى عن الخذف أو كره الخذف وأنت تخذف لا أكلمك أبدا»
صحیح بخاری، کتاب الذبائح والصيد باب الخذف، حدیث نمبر: 5379۔ صحیح مسلم، کتاب الصيد، حدیث نمبر: 5164
”سیدنا عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ انگلیوں کے درمیان کنکری رکھ کر پھینک رہا ہے، اس پر آپ نے کہا کہ اس طرح (خذف) کنکریوں کو پھینکنے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے، یا اسے پسند نہ کرتے تھے اور آپ نے فرمایا: کہ اس سے نہ تو شکار کیا جاسکتا ہے اور نہ دشمن کو زخمی کیا جاسکتا ہے، البتہ اس سے دانت ٹوٹ سکتا ہے یا کسی کی آنکھ پھوٹ سکتی ہے، اس کے بعد بھی آپ نے دیکھا کہ وہ آدمی کنکری پھینک رہا تھا، تو آپ نے کہا کہ میں تم سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کر رہا ہوں کہ آپ نے خذف سے منع فرمایا ہے اور تم کنکریاں پھینکے جار ہے ہو، میں تم سے بات نہیں کروں گا۔ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ تم سے کبھی بات نہ کروں گا۔“
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”اس حدیث میں سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنے والے سے قطع کلامی کا جواز ہے۔ اور جس حدیث میں تین دن سے زیادہ نہ بولنے کی ممانعت ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ اپنی خواہش نفس کی بنا پر کسی کو چھوڑے، دین کی خاطر نہیں۔“
فتح الباری: 757/9۔
صحیح مسلم کی روایت میں ہے، سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے:
«لا تمنعوا نسآتكم المساجد إذا استأذنكم إليها قال فقال بلال بن عبد الله و الله لنمنعهن، قال: فأقبل عليه عبد الله فسبه سبا سينا ما سمعته سبه مثله قط، وقال: أخبرك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم وتقول والله لتمنعهن»
صحیح مسلم حدیث نمبر: 442۔
”کہ اللہ کی بندیوں کو مسجدوں میں نماز کے لیے جانے سے نہ روکو، اس پر ان کے بیٹے بلال نے کہا کہ ہم سختی سے انہیں روکیں گے، جب بلال آئے تو سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو بہت سخت سست کہا، اور کلمات زجر کہے کہ ایسا ان سے کبھی نہ سنا تھا، اور کہا کہ میں تمہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات بتارہا ہوں اور تم کہتے ہو کہ ہم انہیں سختی سے روکیں گے ۔ “
طبرانی اور الجامع لا بن عبدالبر کی روایت میں ہے کہ کئی بار ان کو لَعَنَكَ اللهُ کہا، رونے لگے اور غصے میں مجلس سے اٹھ کر چلے گئے۔
معجم الطيراني الكبير: 326/12۔ جامع بيان العلم: 1208/2 ، 1209
ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں باب کا ذکر کیا ہے،
باب كراهية معارضة خبر النبى صلى الله عليه وسلم بالقياس والراى والدليل على ان امر النبى صلى الله عليه وسلم يجب قبوله اذا علم المرء به وإن لم يدرك ذلك عقله ورأيه.
یعنی ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا قیاس اور رائے سے معارضہ کی کراہیت کا بیان“ اور اس بات کی دلیل کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خبر آدمی کو ہو جائے تو اس کا قبول کرنا واجب ہے، اگر چہ اس کی عقل اور رائے اس کو سمجھ نہ سکے اور قبول نہ کرے۔“
پھر اس کے بعد روایت کا ذکر کیا کہ:
«عن سالم بن عبد الله عن أبيه قال: قال النبى صلی اللہ علیہ وسلم إذا استيقظ أحدكم من منامه فلا يدخل يدة فى الإناء حتى يغسلها ثلاث مرات فإنه لا يدرى أين باتت يده أو أين طافت يده، فقال لمرجل أرأيت إن كان حوضا قال: فحصبه ابن عمر وقال: أخبرك عن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وتقول أرأيت حوضا»
صحیح ابن خزیمہ: 75/1۔ ابن خزیمہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
”سالم بن عبد اللہ بن عمر اپنے والد گرامی سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں کوئی جب نیند سے اٹھے تو ہاتھ کو تین بار دھوئے بغیر برتن میں نہ ڈالے، کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ نیند میں اس کا ہاتھ کہاں تھا، یا کہاں کہاں لگ رہا تھا، ایک شخص نے سن کر کہا: پانی کا حوض ہو تو کیا کرے؟ سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اسے کنکری ماری، اور کہا: کہ میں تمہیں حدیث رسول سنا رہا ہوں اور تم معارضہ کر کے کہہ رہے ہو کہ حوض ہو تو کیا کرے؟“
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے اصول وضوابط:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تفقہ فی الدین جن اصول و ضوابط پر مبنی تھا، وہ کتاب اللہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اقوال صحابہ ، مشورہ اور قیاس تھے۔
جناب میمون بن مہران رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس جب کوئی مسئلہ آتا تو اگر اس کا حل کتاب اللہ میں پاتے تو فیصلہ کرتے نہیں تو سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈھونڈ تے اگر اس میں حل ملتا تو اس کا فیصلہ کرتے نہیں تو لوگوں سے پوچھتے کہ کیا کسی کو اس مسئلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی حکم اور فیصلہ معلوم ہے؟ ایسا بھی ہوتا تھا کہ کسی کو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا علم ہوتا اور بتاتے تو اس کے مطابق فیصلہ دیتے ۔ اگر کوئی فیصلہ نہ ملتا تو اکابر صحابہ کو جمع کر کے ان سے مشورہ کرتے ، اگر وہ کسی چیز پر متفق ہو کر فیصلہ دیتے تو سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اس کا فیصلہ فرماتے۔
سنن دارمی، المقدمة، رقم: 173/5، اعلام الموقعین: 118/2.
امیر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے قاضی شریح کو لکھا کہ اگر مسئلہ کتاب اللہ میں ہے تو اس کا فیصلہ کرو۔ اگر کتاب اللہ میں نہ ملے تو سنت رسول میں دیکھو اور فیصلہ دو۔ اگر کتاب وسنت میں نہیں ہے اور تم سے پہلے کسی نے اس کا فیصلہ بھی نہیں کیا ہے تو تمہیں اختیار ہے کہ اپنی رائے اور اجتہاد سے فیصلہ کرو یا پیچھے ہٹ جاؤ۔ میری نظر میں پیچھے ہٹ جانا اچھا رہے گا۔
سنن دارمی: 55/1، اخبا القضاة: 189/1.
جناب عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں: کہ سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایک زمانہ وہ تھا کہ ہم قضاء اور فتویٰ کے اہل نہ تھے اور نہ ہی فتوے دیتے ۔ پھر اللہ نے ہم سب کو اپنی مشیت سے اس مقام پر پہنچا دیا جسے دیکھ رہے ہو۔ تو جس کے پاس کوئی مسئلہ آئے تو اس کا فیصلہ کتاب اللہ سے کرے۔ اگر کتاب اللہ میں وہ مسئلہ موجود نہ ہو تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کی روشنی میں فیصلہ دے۔ اگر ان میں سے کسی میں نہ ملے تو اجتہاد کرے یہ عذر نہ کرے کہ میں ڈرتا ہوں، میں ڈرتا ہوں ۔ حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ۔ حلال و حرام کے درمیان کچھ غیر واضح چیزیں ہیں تو جہاں شبہ ہوا سے ترک کر دو۔
سنن نسائی، ص: 811، سنن دارمی: 21/1 ، اخبار القضاة لوكيع: 76/1.
جناب عالقمہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کسی نے سوال کیا کہ ایک شخص نے مہر کی تعین کے بغیر نکاح کیا اور دخول سے پہلے ہی اس کا انتقال ہو گیا تو اس عورت کے مہر کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ چنانچہ سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: کہ میں اپنے اجتہاد سے کہ رہا ہوں اگر درست ہے تو اللہ کی طرف سے ہے، اور اگر غلط ہے تو میری طرف سے۔ میری رائے ہے کہ اس کا مہر اس جیسی عورت کے مہر کی طرح لیا جائے نہ کم نہ پیش ۔ اس عورت پر عدت وفات بھی ہے اور اسے متوفی کی میراث بھی ملے گی ۔ معقل بن سنان اشجعی نے سن کر کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ بروع بنت واشق کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فیصلہ دیا تھا وہی فیصلہ آپ نے بھی کیا ہے۔
مصنف عبدالرزاق: 294/2۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس کسی نے کسی کو بغیر علم کے فتوی دیا تو اس کا گناہ فتوی دینے والے پر ہے۔
سنن دارمی: 53/1، مستدرك حاكم: 126/1.
عبد اللہ بن ابی یزید کہتے ہیں کہ سید نا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کسی مسئلے میں پوچھا جاتا تو آپ کو اگر وہ مسئلہ قرآن کریم میں مل جاتا تو اس سے جواب دیتے نہیں تو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں مل جاتا تو جواب دیتے ۔ نہیں تو سیدنا ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہا کے فتاوی و اقوال میں ملتا تو اس سے جواب دیتے ، ورنہ اپنے اجتہاد سے جواب دیتے۔
سنن دارمی: 55/1، الفقيه والمتفقه: 203/1
تابعین عظام رحمہ اللہ کی سنت سے محبت اور ان کے اصول وضوابط :
یہی طرز عمل تابعین عظام رحمہ اللہ کا تھا ، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے دلوں میں زیادہ معظم و مکرم تھی ، اس کی مخالفت پر صبر نہ کرتے تھے۔
سنن دارمی میں جناب قتادہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ابن سیرین رحمہ اللہ نے کسی آدمی سے حدیث رسول بیان کی تو کسی شخص نے کہا یہ کہ فلاں نے ایسا ایسا کہا ہے۔ اس پر ابن سیرین نے غصہ ہو کر کہا: کہ میں تم سے حدیث رسول بیان کر رہا ہوں اور تم کہہ رہے ہو فلاں فلاں نے ایسا کہا؟ تم سے کبھی بات نہ کروں گا۔
سنن دارمی: 97/1۔
تفقہ فی الدین اور تعلیم کتاب وسنت کا طریقہ تابعین نے بھی وہی اختیار کیا جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تھا، کیونکہ تابعین، صحابہ رضی اللہ عنہم کے شاگرد تھے، اور ان پر ان کا رنگ چڑھا ہوا تھا۔ چنانچہ ابو سہیل کہتے ہیں کہ میری بیوی نے مسجد حرام میں تین دن اعتکاف کرنے کی نذر مانی تھی۔ میں نے جناب عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ سے سوال کیا اور ساتھ میں امام ابن شہاب زہری رحمہ اللہ بھی تھے کہ اس کو اعتکاف کے ساتھ صوم بھی رکھنا ہے؟ زہری رحمہ اللہ نے کہا کہ بغیر صوم کے اعتکاف نہیں۔
اس پر جناب عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے پوچھا کہ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے؟ کہا کہ نہیں۔ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے پوچھا: کہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے؟ کہا: کہ نہیں۔ کہا: سید نا عمر رضی اللہ عنہ سے؟ کہا: نہیں۔ کہا: سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے؟ کہا: نہیں۔ تو جناب عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے کہا: میری رائے یہ ہے کہ اس عورت کے لیے روزہ ضروری نہیں۔ وہاں سے نکلا تو طاؤس اور عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ سے ملاقات ہوئی۔ جناب طاؤس نے کہا: کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا فتویٰ یہ ہے کہ اگر اس نے صوم کی نذر اعتکاف کے ساتھ نہیں مانی ہے تو پھر اس پر صوم واجب نہیں۔ عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ نے فرمایا: کہ میری بھی یہی رائے ہے۔
سنن دارمی: 54/1 ۔
سید نا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد آپ کے خلفا نے سنت پر ثابت قدم رہ کر بتلا دیا کہ اس کی پابندی در حقیقت قرآن مجید کی تصدیق، اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور دین متین کو تقویت پہنچانا ہے۔ جو اس پر عمل پیرا ہو، وہ راہ یاب ہے، جس نے اس سے مدد چاہی وہ فائز المرام ہے اور جو اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گیا، اس نے مومنین ، صالحین و کاملین سے بغاوت کی راہ اختیار کی ، اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو منہ کی کھلائے گا اور جہنم رسید کرے گا۔“
چنانچہ سنن ترمذی میں ہے:
«عن ابن عباس أن النبى صلى الله عليه وسلم قلد نعلين، وأشعر الهدي، ثم قال سمعت يوسف بن عيسى يقول: سمعت وكيعا يقول حين روى هذا الحديث فقال: لا تنظروا إلى قول أهل الر أى فى هذا، فإن الإشعار سنة، وقولهم بدعة وقال: سمعت أبا السائب يقول: كنا عند وكيع فقال لرجل عنده ممن ينظر فى الرأي: أشعر رسول الله صلى الله عليه وسلم ، ويقول أبو حنيفة: هو مثلة قال الرجل: فإنه قد روي عن إبراهيم النخمي أنه قال: الإشعار مثلة، قال: فرأيت وكيعا غضب غضبا شديدا ، وقال: أقول لك، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ، وتقول: قال إبراهيم، ما أحقك بأن تحبس ثم لا تخرج حتى تنزع عن قولك هذا»
سنن الترمذی، 218، 219، الفقيه والمتفقه، ص: 138.
”سید نا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدی کے جانور کا اشعار کیا، اور اس کی گردن میں کوئی چیز لٹکائی، امام ترمذی رحمہ اللہ کہتے ہیں: میں نے یوسف بن عیسی سے سنا: وہ کہتے تھے کہ میں نے وکیع سے سنا: جب آپ نے اس کی روایت کی تو کہا کہ: اس مسئلے میں اہل رائے کی بات نہ سنو، اشعار سنت رسول ہے اور ان کا قول بدعت ہے، ابو السائب کہتے ہیں کہ ہم وکیع رحمہ اللہ کے پاس بیٹھے تھے، ایک آدمی جو رائے اور قیاس کرتا تھا اس سے کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشعار کیا، ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ اشعار مثلہ ہے ، اس آدمی نے کہا کہ ان کی دلیل یہ ہے کہ ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ اشعار مثلہ ہے، ابو السائب کہتے کہ میں نے وکیع کو دیکھا کہ بہت سخت غصہ ہوئے اور کہا کہ میں تم سے کہہ رہا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا، اور تم کہتے ہو کہ ابراہیم نے کہا تم اس لائق ہو کہ تمہیں جیل میں بند کر دیا جائے اور جب تک اس سے توبہ نہ کر لو تمہیں جیل سے نہ نکالا جائے ۔“
امام عامر بن شرحبیل الشعبی (تابعی متوفی 104ھ) فرماتے ہیں:
«ما حدثوك هؤلاء عن رسول الله فخذ به، وما قالوه برأيهم فألقه فى الحش»
یہ لوگ تجھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو حدیث بتا ئیں اسے مضبوطی سے پکڑ لو اور جو بات وہ اپنی رائے سے خلاف کتاب وسنت کہیں اسے کوڑے کرکٹ پر پھینک دو۔
سنن الدارمی: 27/1 ، رقم: 206۔
امام حکم بن عتیبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ليس أحد من الناس إلا وأنت آخذ من قوله أوتارك إلا التبي»
”لوگوں میں سے ہر آدمی کی بات آپ لے بھی سکتے ہیں اور رد بھی کر سکتے ہیں سوائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آپ کی ہر بات لینا فرض ہے۔ “
الاحكام لابن حزم: 293/6۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وكذلك تابعوهم أيضا يرجعون إلى الكتاب والسنة، فإن لم يجدوا نظروا ما أجمع عليه الصحابة، فإن لم يجدوا اجتهدوا، واختار بعضهم قول صحاتي فرآه الأقوى فى دين الله تعالى»
”یہی تابعین کی حالت تھی وہ بھی فقہی مسائل میں کتاب وسنت کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔ اگر وہ کوئی مسئلہ کتاب وسنت میں نہ پاتے تو اس بات کو دیکھتے جس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے۔ اگر اجماع بھی نہ پاتے تو اپنے طور پر اجتہاد کرتے ۔ بعض تابعین تو صحابی کے اس قول کو لے لیتے جسے وہ اللہ تعالیٰ کے دین کے لیے قوی تر سمجھتے ۔ “
ائمہ کرام رحمہ اللہ کی سنت نبوی سے محبت اور ان کے اصول:
ائمہ کرام رحمہ اللہ کتاب و سنت سے بہت زیادہ محبت کیا کرتے تھے، ان ائمہ کی تفقہ فی الدین کی بنیاد ان اصولوں پر تھی:
1: کتاب الله عز وجل۔
2: سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔
3: اجماع صحابہ یا غیر صحابہ۔
4: آثار صحابہ ، خصوصاً خلفاء اربعہ۔
5: قیاس۔
امام ابوحنیفہ رحمہ الله (المتوفی: 150ھ):
اُصول فقہ:
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے امام یحیی بن معین اور خطیب بغدادی وغیرہ نے نقل کیا ہے کہ: یحیی بن الفریس کہتے ہیں کہ سفیان ثوری کے پاس ایک شخص نے آ کر کہا کہ ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے آپ ناراض کیوں ہیں؟ میں نے ان کو کہتے سنا ہے کہ میں کتاب اللہ سے مسئلہ لیتا ہوں، نہ ملے تو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لیتا ہوں ، نہ ملے تو صحابہ کے اقوال سے لیتا ہوں ۔ ان کے اختلاف کی صورت میں جس کے قول کو زیادہ مناسب سمجھتا ہوں اسے لے لیتا ہوں اور جس کو چاہتا ہوں چھوڑ دیتا ہوں۔ لیکن صحابہ کے اقوال سے نہیں نکلتا ہوں ۔ البتہ جب معاملہ ابراہیم نخعی، شعبی ، ابن سیرین، حسن بصری، عطاء بن ابی رباح اور سعید ابن المسیب وغیرہ تابعین تک پہنچتا ہے تو جیسا انہوں نے اجتہاد کیا ہے میں بھی اجتہاد کرتا ہوں ان کے اقوال کی پابندی نہیں کرتا۔
تاریخ ابن معين برواية الدوری: 63/4 ، تاریخ بغداد: 368/13 اخبارابي حنيفة للصيمري، ص: 10.
حسن بن صالح رحمہ اللہ کہتے ہیں: امام ابوحنیفہ حدیث میں ناسخ اور منسوخ کو بڑی کدوکاوش سے تلاش کرتے۔ اگر ان کے نزدیک حدیث رسول یا آثار صحابہ صحیح ثابت ہو جاتے تو اس پر عمل کرتے۔ وہ اہل کوفہ کی حدیث اور فقہ کے عالم تھے کوفہ کے لوگوں کے عمل کی شدید اتباع کرتے۔ اہل کوفہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جو آخری فعل پہنچے ان کے حافظ تھے۔ کہا کرتے تھے کہ کتاب اللہ میں کچھ چیزیں منسوخ ہیں، اسی طرح حدیث میں بھی منسوخ ہیں۔
اخبار ابو حنيفة للصميري ص: 10 .
ابو حمزہ اسکری رحمہ اللہ کہتے ہیں: کہ میں نے ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے کہتے ہوئے سنا ہے کہ صحیح سند سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث ثابت ہو تو میں اسے لیتا ہوں ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مختلف اقوال میں کسی کو اختیار کر لیتا ہوں۔ تابعین کے اقوال کو چھوڑ کر میں انہیں کی طرح اجتہاد کرتا ہوں اور ان کے قول سے نہیں نکلتا ہوں۔
الإنتقاء لابن عبدالبں: 144 ، 145.
امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو کہتے سنا ہے، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث مل جائے تو وہ سر آنکھوں پر صحابہ کے اقوال مل جائیں تو ان کے مختلف اقوال میں سے ہم کسی ایک کا اختیار کریں گے، تابعین کے اقوال سامنے آئیں تو ہم بھی انہی کی طرح اجتہاد کریں گے۔
اقوال:
1: «إذا صح الحديث فهو مذ ہبي»
حاشیه ابن عابدین: 63/1۔ حاشية على البحر الرائق: 293/2.
”کہ میرامذہب صحیح حدیث ہے۔ “
2: «إِذَا رَأَيْتُمْ كَلَامَنَا يُخَالِفُ ظَاهِرَ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ فَاضْرِبُوا بِكَلَامِنَا الْحَائِط»
میزان شعرانی۔
” جب دیکھو کہ ہمارے اقوال قرآن اور حدیث کے خلاف ہیں تو قرآن اور حدیث پر عمل کرو اور ہمارے اقوال کو زمین پر دے مارو “
3 : «قال الإمام أبو حنيفة لا تقلدني ولا تقلدن مالكا ولا غيره وخذ الأحكام من حيث أخذوا من الكتاب والسنة كذا فى الميزان وغيره»
حقيقت الفقه.
”حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا، میری تقلید نہ کرنا ، اور نہ مالک رحمہ اللہ کی ، اور نہ کسی اور کی تقلید کرنا اور احکام دین وہاں سے لینا، جہاں سے اُنہوں نے لیے ہیں یعنی کتاب وسنت سے۔ “
4: «حرام على من لم يعرف دليلى أن يفتي بكلامي»
میزان شعرانی۔
”میرے قول پر فتویٰ دینا حرام ہے، جب تک میری بات کی دلیل معلوم نہ ہو ۔“
5 : امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
«لا أقلد التابعى لأنهم رجال ونحن رجال ولا يصح تقليده»
نور الانوار ص: 219، طبع یوسفی.
”میں کسی تابعی کی تقلید نہیں کرتا اس لیے کہ وہ بھی ہماری طرح انسان ہیں ان کی تقلید جائز نہیں۔“
6 : حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم امام (ابو حنیفہ ) کے قول پر مقدم ہے۔
هدايه: 502/1۔
7 :«لا يحل لأحد أن نا خذ بقولنا ما لم يعلم من أين أخذناه.»
الانتقاء في فضائل الثلاثة الائمة الفقهاء ابن عبدالبر ص: 145 ۔ اعلام الموقعين ابن قيم: 309/1 ۔ حاشیه ابن عابدين علي البحر الرائق: 293/3 ۔ رسم المفتی ، ص: 29، 32۔ میزان شعرانی: 55/1 .
”کسی کے لیے یہ حلال ہی نہیں کہ وہ ہمارے قول کے مطابق عمل کرے جب تک کہ اسے یہ معلوم نہ ہو کہ ہمارے قول کا ماخذ کیا ہے۔ “
آپ سے ایک یہ قول بھی منقول ہے:
8 : آپ نے اپنے شاگرد رشید قاضی ابو یوسف کو ایک مرتبہ مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: افسوس ہے تجھ پر اے یعقوب ! ہر بات جو مجھ سے سنتے ہو، اسے نہ لکھا کرو، کیونکہ میں آج ایک رائے اختیار کرتا ہوں اور کل اسے چھوڑ دیتا ہوں اور کل ایک رائے اختیار کرتا ہوں اور اسے پرسوں ترک کر دیتا ہوں۔
آپ سے ایک یہ ارشاد بھی منقول ہے:
9 : «إذا قلت قولا يخالف كتاب الله تعالى وخبر الرسول فاتركوا قولي»
ایقاظ همم اولی الابصار ص : 50.
”جب میرا قول کتاب اللہ اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہو تو میرے قول کو ترک کردو“
10 : ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے ابو یوسف رحمہ اللہ سے کہا: ”تم اصول دین یعنی کلام کے بارے میں عام لوگوں سے گفتگو کرنے سے بچ کر رہنا، کیونکہ یہ لوگ تمہاری تقلید کریں گے، اور اسی میں پھنس جائیں گے ۔“
مناقب ابي حنيفة ، ص: 373.
امام مالک رحمہ اللہ (المتوفی 179ھ):
اُصول فقہ:
اسی طرح امام مالک رحمہ اللہ سے بھی آپ کے اصول وضوابط کو ثقات ائمہ نے نقل کیا ہے۔ مطرف بن عبد اللہ کہتے ہیں کہ میں نے امام مالک رحمہ اللہ کو کہتے سنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنتیں جاری فرمائیں، اور آپ کے بعد علماء و حکام نے کچھ سنتیں جاری کیں ان سب پر تمسک کتاب اللہ کی اتباع ہے۔ اور اللہ کی اطاعت کی تکمیل ہے۔ نیز دین کے لیے باعث قوت ہے کہ کسی کو تغیر و تبدیل کا حق حاصل نہیں۔ نہ ہی ان کے خلاف کسی اور چیز کی طرف دیکھنا ہے۔ انہی سے ہدایت لینے والا ہدایت یاب ہے۔ جس نے ان سے مدد لی وہی غالب اور کامیاب ہے۔ جس نے ان سنتوں کو ترک کر دیا اس نے مومنوں کے راستے کے خلاف راستہ کی پیروی کی۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنے اختیار پر چھوڑ دے گا۔ اور جہنم کے برے ٹھکانے میں اسے داخل کر دے گا۔
الحلية: 324/6 ۔
اسحاق بن عیسی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ نے کہا: کہ جب بھی کوئی بحث و مباحثہ کرنے والا آئے تو کیا ہم جبریل علیہ السلام کے ذریعہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ دین کو چھوڑ دیں گے .
الحلية: 324/6.
لیث بن سعد رحمہ اللہ نے جو مکتوب امام مالک رحمہ اللہ کو بھیجا تھا، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمین خصوصاً اہل مدینہ کے صحابہ کرام کے آثار کو کس سختی اور جد و جہد سے تلاش کرتے اور ان کی اتباع کرتے ۔
اعلام الموقعين : 170/3.
اقوال:
1: «إنما أنا بشر أخطئ وأصيب فانظروا فى رأى كلما وافق الكتاب والسنة فخذوه وكلما لم يوافي الكتاب والسنة فا تركوه.»
جامع بيان العلم 91/20، الاحكام لابن حزم: 145/6 .
”میں بشر ہوں! مجھ سے غلطی اور درستگی دونوں کا احتمال ہے، میری ہر بات کی تحقیق کیا کرو، جو کتاب وسنت کے موافق ہو اس پر عمل کر لیا کرو، جو مخالف ہوا سے رد کر دیا کرو ۔ “
2 : امام قعنبی رحمہ اللہ جو آپ کے خاص تلامذہ میں سے تھے انہوں نے امام محترم کی آنکھوں سے آنسو نکلتے دیکھے تو سبب پوچھا۔ امام محترم فرمانے لگے قعنبی ! میں نہ روؤں تو کون روئے۔ اے کاش! مجھے میرے ہر قیاسی فتوے کے بدلے میں ایک کوڑا مارا جاتا۔ یہی گریہ جاری تھا لب متحرک تھے کہ اس عالم میں جان جان آفرین کے سپر د کر دی۔ اور یوں 86 سال کی عمر پا کر 179ھ کو انتقال فرمایا۔
3 : امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس کی بات لی اور چھوڑی نہ جاسکتی ہو صرف اور صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی ایسے ہیں جن کی ہر بات کا قبول کرنا فرض ہے۔
ارشاد السالك: 227/1 ۔
4 : امام ابن وہب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں امام مالک رحمہ اللہ کے پاس تھا کسی نے مسئلہ پوچھ لیا کہ وضو میں پاؤں کی، انگلیوں کے خلال کا کیا حکم ہے؟ امام مالک رحمہ اللہ فرمانے لگے کہ هذا ليس بشبي ”کہ یہ کوئی چیز نہیں “ یعنی اس بارے میں کوئی حدیث نہیں ہے۔ امام ابن وہب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب لوگ چلے گئے اور امام مالک اکیلے رہ گئے تو میں ان کے پاس گیا، اور عرض کیا کہ استاد محترم! اس بارے میں ہمیں ایک حدیث اس سند کے ساتھ پہنچی ہے۔ حدثني ليث بن سعد وابن لهيعة وعمرو بن حارث ان تینوں نے مجھے یہ حدیث بیان کی ہے یزید بن عمرو سے، انہوں نے ابوعبد الرحمن الحبلی سے اور انہوں نے مستورد بن شداد رضی اللہ عنہ سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ اپنی خنصر سے پاؤں کی انگلیوں کا خلال کرتے تھے، تو امام مالک رحمہ اللہ فرمانے لگے : یہ حدیث حسن ہے۔ عبد اللہ بن وہب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد امام مالک رحمہ اللہ سے پھر کسی نے یہ مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا: ہاں انگلیوں کا خلال کرنا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
مقدمه جرح و تعدیل، ص: 31، 32۔ سنن الكبرى للبيهقي: 76/1، 77.
امام شافعی رحمہ اللہ (وفات 204ھ) :
اُصول فقہ:
امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنے اصول کو خود اپنی تالیفات میں واضح طور پر بیان فرمایا ہے۔ نیز ثقات نے بھی بہت کچھ سنہرے اصول آپ سے نقل کیے ہیں۔
آپ کے اقوال دیگر ائمہ سے اصول اتباع وسنت کے بارے میں زیادہ منقول اس لیے بھی ہیں کہ آپ کے زمانے میں مذاہب اور اقوال علماء پر تعصب مزید ہو چکا تھا۔ اسی طرح امام احمد بن حنبل کے زمانے میں بھی تعصبات میں شدت آچکی تھی اس لیے آپ سے بھی اس مسئلے
میں اقوال کثرت سے منقول ہیں۔
امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں : اصل الأصول قرآن وسنت ہے، اگر دونوں میں مسائل کا حل نہ ملے تو انہیں دونوں پر قیاس کرنا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند سے حدیث ثابت ہو تو وہی سنت ہے۔ اجماع ، خبر یعنی حدیث و آثار صحابہ سے قوی ہے۔ حدیث کو اس کے ظاہر ہی پر محمول کرنا ہے۔ اگر کئی معانی کا اشتباہ ہو تو جو سب سے ظاہر معنی ہے اسی کولیا جائے گا۔ اگر کئی احادیث میں اختلاف ہو تو جو سب سے صحیح سند سے ہے وہی راجح ہے۔ جس حدیث کی سند میں انقطاع ہے سوائے سعید بن مسیب کی منقطع کے وہ ضعیف ہے۔
الفقيه والمتفقه : 23/1.
نیز فرمایا: کسی کو بغیر علم کے کسی چیز کے بارے میں حلال و حرام کا فتویٰ دینا جائز نہیں اور علم کے مصادر کتاب وسنت، اجماع اور قیاس ہیں۔
دوسرے مقام پر کہا کہ علم کے مصادر کتاب وسنت، اجماع، آثار اور بیان کردہ طریقے پر قیاس ہے۔
کے اجتہاد پر اس کے لیے عمل کرنا جائز نہیں۔
الرسالة، ص: 8583۔
پھر فرمایا کہ علم کے دو طریقے ہیں:
(1) اتباع
(2) استنباط
اتباع یہ ہے: کہ کتاب اللہ پر عمل کیا جائے ، اگر مسئلہ کتاب اللہ میں نہ ملے تو سنت رسول پر عمل ہو، اگر سنت رسول میں نہ ملے تو سلف کے اقوال پر عمل ہو ۔ ان سب کے نہ ہونے کی صورت میں اللہ کی کتاب کی دلیل پر قیاس ہو، نہیں تو سنت کی دلیل پر قیاس ہو، نہیں ہے تو عام سلف کے متفق علیہ قول پر قیاس کیا جائے۔ تمام ادلہ کے نہ ہونے کی صورت میں قیاس کے بغیر کہنا جائز نہیں۔
اور جن کے لیے قیاس کرنا جائز ہے، اگر ان میں قیاس و اجتہاد میں اختلاف ہو تو ہر ایک کو اپنے اجتہاد کے مطابق عمل کرنا ہے، دوسرے کے اجتہاد پر اس کے لیے عمل کرنا جائز نہیں۔
كتاب الأم: 153/1 .
مزید فرمایا: حجت کتاب وسنت میں اور آثار صحابہ میں ہے۔ مسلمانوں کے قول یعنی اجماع میں ہے۔ اور نہیں تو مذکورہ حجتوں پر قیاس بھی حجت ہے۔
كتاب الأم:31/2.
نیز فرمایا : بات وہی قبول کی جائے گی جو کتاب و سنت یا صحابہ کرام سے ثابت شدہ آثار یا اجماع سے ہو۔
كتاب الأم: 343/2.
نیز فرمایا : جو احکام کتاب وسنت میں ہوں ان کی اتباع نہ کرنے میں کوئی عذر نہیں۔ بہر حال ان کی اتباع واجب ہے۔
اگر کتاب وسنت میں نہیں تو صحابہ کے اجماعی اقوال کو لیں گے۔ اگر اجماع نہیں ہے تو ابوبکر و عمر وعثمان رضی اللہ عنہم کی تقلید ہمارے لیے سب سے زیادہ پسندیدہ ہے۔
كتاب الأم: 265/7.
مزید کہا: ائمہ کا طریقہ ہم نے یہ پایا کہ کوئی بات کہنی ہو تو لوگوں سے کتاب وسنت کا علم پوچھتے تھے۔ ان کی اپنی رائے کے خلاف اگر کسی مسئلہ کی خبر ملی تو کتاب وسنت کی خبر کو قبول کر لیتے ۔ اپنے تقویٰ کی بنا پر کتاب وسنت کی طرف رجوع کر لیتے انکار نہ کرتے۔ اگر ہمیں ائمہ کی تحقیق نہ ملے تو صحابہ کرام کے اونچے مقام کی بنا پر ان کے قول کو لیں گے۔ ان کے بعد کے لوگوں کی پیروی کی بجائے صحابہ کی پیروی افضل ہے۔ اور علم کے کئی درجات ہیں:
پہلا درجہ :
کتاب وسنت صحیحہ کا ہے۔
دوسرا درجہ :
اجماع کا ہے جہاں کتاب وسنت نہ ملے۔
تیسرا درجہ :
کسی صحابی کے قول کا ہے اگر ان کا کوئی مخالف نہیں۔
چوتھا درجہ :
صحابہ کے مختلف اقوال و آراء کا ہے۔
پانچوں درجہ :
قیاس کا ہے بشرطیکہ ان مذکورہ درجات پر قیاس کیا گیا ہو۔
لیکن یاد رہے کہ کتاب وسنت کے ہوتے ہوئے کسی اور دلیل کو لینا جائز نہیں۔ اس کے با وجود امام شافعی رحمہ اللہ قیاس کو مجبوری اور اضطراری حالات میں استعمال فرماتے۔ آپ نے فرمایا کہ ہم اجماع سے فیصلہ کریں گے اس کے بعد قیاس سے۔ اجماع کی یہ نسبت قیاس بہت ہی ضعیف دلیل ہے مگر اضطراری حالات کے لیے ہے۔ خبر (حدیث ) کی موجودگی میں قیاس کرنا حلال نہیں بعینہ تیمم کی طرح کہ پانی کے ہوتے ہوئے تیمم جائز نہیں ۔ اسی طرح سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کی دلیلیں اس وقت حجت ہوگی جبکہ سنت نہ پائی جائے۔
الرسالة ، ص: 559، 560۔ دیکھیں : آداب الشافعي ومناقبة لابن ابی حاتم۔ مناقب الشافعی للبیھقی۔ معرفة السنن والآثار للبيهقى الفقيه والمتفقه للخطيب.
اقوال:
1 : امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا جب میں کوئی بات کہوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان میری بات کے خلاف ہو تو یا درکھو کہ جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سند صحیح ثابت ہو وہی لائق اتباع ہے لہذا میری تقلید نہ کرنا ۔
کتاب الامتاع از امام بیهقی
2 : «قال الشافعي : إذا قلت قولا وكان النبى قال خلاف قولي فما يصح من حديث النبى أولى فلا تقلدوني »
عقد الجيد.
” امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا : جب میں کوئی مسئلہ بتاؤں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے قول کے خلاف فرمایا ہو تو جو مسئلہ حدیث سے ثابت ہو وہی افضل ہے۔ پس میری تقلید مت کرو۔“
3 :«إنه كان يقول إذا صح الحديث فهو مذبسبي إذا رأيتم كلامي يخالف الحديث فاعملوا بالحديث واضربوا بكلامي الحائط»
عقد الجيد.
” امام شافعی رحمہ اللہ فرما یا کرتے ، جب صحیح حدیث مل جائے پس جان لو کہ میرا مذہب وہی ہے ( اور ) جب میری بات کو حدیث کے مخالف دیکھو تو ( خبر دار ) حدیث پر عمل کرو اور میری بات کو دیوار پر دے مارو “
امام شافعی رحمہ اللہ نے امام احمد کی خدمت میں عرض کیا:
4 : «أنتم أعلم بالحديث والرجال مني ، فإذا كان الحديث الصحيح فا علموني به أى شيء يكون كوفيا أو بصريا أو شاميا حتى أذهب إليه»
آداب الشافعی، ابن ابی حاتم ص: 94، 95 ۔ حلية الأولياء ابونعیم 106/9۔ الاحتجاج بالشافعی، خطيب، ص: 8.
” آپ کو میری نسبت حدیث اور رجال کا زیادہ علم ہے۔ لہذا آپ کی تحقیق کے مطابق جب کوئی حدیث صحیح ہو تو مجھے بھی بتا دیا کریں خواہ وہ کوفی ہو یا بصری ہو یا شامی تاکہ حدیث کے صحیح ہونے کی صورت میں میں بھی اس کے مطابق عمل کروں ۔“
آپ تو یہاں تک فرمایا کرتے تھے :
5 : «إذا رأيتموني أقول قولا وقد صح عن النبى خلافه، فاعلموا أن عقلي قد ذهب»
آداب الشافعی ابن ابی حاتم ص : 39ـ حلية الأولياء: 106/9 ۔ ابن عساکر : 10/15.
”جب تم یہ دیکھو کہ میں ایک بات کہہ رہا ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے خلاف ثابت ہے تو جان لو کہ میری عقل جواب دے گئی ہے۔“
امام شافعی رحمہ اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے:
6 : «كل ما قلت فكان عن النبى خلاف قولي مما يصم فحديث النبى أولى فلا تقلدوني»
ابن عساکر : 9/1۔
” میری ہر وہ بات جس کے خلاف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان صحیح سند سے ثابت ہو، تو میری تقلید نہ کرو بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر عمل کرو ۔ “
امام شافعی فرماتے ہیں:
7 :«أجمع المسلمون على أن من استبان له سنة عن رسول الله لم يحل له أن تدعها لقول احد»
اعلام الموقعين : 361/2 ایقاظه ص: 68.
” مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت واضح ہو جائے تو اس کے لیے یہ حلال نہیں کہ کسی کے قول کی وجہ سے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دے۔“
8 : كل العلوم سوى القرآن مشغلة
إلا الحديث وإلا الفقه فى الدين
العلم ما كان فيه قال حدثنا
وسوى ذاك من وسواس الشياطين
مواهب الوفي في مناقب الشافعي
” قرآن وحدیث اور تفقہ فی الدین کے علاوہ تمام علوم مشغلہ ومصروفیت ہیں ۔ علم وہی ہے جس میں یہ ہو کہ فلاں نے یہ حدیث بیان کی وگر نہ صرف شیطانی وساوس ہی ہیں ۔ “
9 : امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:
”ہر شخص سے سنت رسول کبھی مخفی رہ سکتی ہے، لہذا جب میں کوئی بات کہوں یا کوئی اصول بیان کروں اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے خلاف ہو تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو تسلیم کرو، وہی میرا قول ہے۔ “
ایقاظهمم أولى الأبصار ص : 100 ۔ اعلام الموقعين: 363/2.
10 : امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ففرض الله على الناس اتباع وحبه وسنن رسوله »
الرسالة، ص: 76 ، رقم: 244
”اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر اپنی وحی اور اپنے رسول کی سنن کی اتباع فرض کی ہے۔ “
11 : امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«كل ما قلت وكان عن النبى صلى الله عليه وسلم خلاف قولىٰ مما يصح فحديث النبى صلى الله عليه وسلم أولى، ولا تقلدوني»
آداب الشافعي و مناقبه لا بن ابی حاتم، ص: 15.
”میری ہر بات جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کے خلاف ہو، اُسے چھوڑ دو، پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سب سے زیادہ لائق اتباع ہے، لہذا میری تقلید نہ کرو۔ “
12 :امام مزنی رحمہ اللہ نے فرمایا:
«اختصرت هذا الكتاب من علم محمد بن إدرئيس الشافعي رحمه الله ومن معنى قوله لأقربه على من أراده مع اعلامية نهيه عن تقليده وتقليد غيره، لينظر فيه لحديثه ويحتاط فيه لنفسه»
الام مختصر المزني ص: 1.
”میں نے یہ کتاب (امام) محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ کے علم سے مختصر کی ہے تا کہ جو شخص اسے سمجھنا چاہے آسانی سے سمجھ لے، اس کے ساتھ میرا یہ اعلان ہے کہ امام شافعی نے اپنی تقلید اور دوسروں کی تقلید سے منع فرما دیا ہے تا کہ شخص اپنے دین کو پیش نظر رکھے اور اپنے لیے احتیاط کرے۔ “
امام احمد بن حنبل والله (وفات 241 ھ) :
أصول فقه:
اسی طرح ائمہ ثقات نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے بھی آپ کے اصول نقل کئے اور وہ ان پر عمل کرتے رہے۔ اثرم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ احمد بن حنبل کے منجملہ اور مسائل کے جنہیں ہم نے ان سے سنا ہے، انہیں دیکھا بھی ہے کہ اگر کسی مسئلے میں کوئی حدیث ہوتی تو وہ کسی صحابی یا تابعی وغیرہ کی بات اس کے خلاف نہ لیتے ۔ اور اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مختلف اقوال انہیں ملتے تو ان میں سے کسی ایک کو ترجیح دے کر قبول کرتے۔ اسی طرح اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہ ملتی نہ ہی صحابہ کے اقوال ملتے تو تابعین کے اقوال میں سے کسی کا قول اختیار کرتے ۔ عمرو بن شعیب اور ابراہیم ھجری کی حدیث کی طرح اگر حدیث میں کچھ ضعف بھی ہوتا تو اسے لے لیتے اگر اس سے قوی کوئی حدیث نہ ملتی۔ اسی طرح مرسل حدیث کے خلاف بھی کوئی حدیث نہ ملتی تو اسے قبول کرتے۔
الفقيه والمتفقه : 321/1۔
ابو محمد رزق اللہ تمیمی نے امام احمد کے اصول کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ کا یہ کہنا تھا کہ احکام شرعیہ اور ان مسائل میں جن میں ظاہری علوم کا دخل نہیں دلیلوں کے پانچ اصول ہیں :
پہلا اصل:
اللہ کی کتاب ہے۔ اور یہ آیت پڑھتے تھے:
مَّا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِن شَيْءٍ
(6-الأنعام:38)
”ہم نے کتاب میں کوئی چیز بیان کئے بغیر نہیں چھوڑی۔ “
دوسرا اصل :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ استدلالاً یہ آیت پڑھتے :
فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ
(4-النساء:59)
”اگر کسی چیز میں اختلاف ہو تو اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو ۔ “
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آپ کی وفات کے بعد لوٹانے کا معنی یہ ہے کہ آپ کی سنت کی طرف لوٹایا جائے۔ عليكم بسنتي کی حدیث کی روایت بھی کرتے ، اور یہ آیت پڑھتے:
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا
(59-الحشر:7)
”جو کچھ رسول تمھیں دیں اسے لے لو اور جس سے منع کریں اس سے باز آجاؤ۔“
تیسرا اصل :
کسی زمانہ کے علماء کا اجماع ہے اگر وہ آپس میں اختلاف نہ کریں۔ اگر ان میں سے ایک عالم نے بھی اختلاف کر دیا تو اجماع ثابت نہ ہوگا۔ اجماع کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ بعض علماء سے کوئی قول مشہور ہو دوسرے لوگوں کو اس کا علم ہولیکن کسی نے اس کا انکار نہ کیا ہو۔
پہلا درجہ اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم کا ہے بعد کے لوگوں کو اس کے تابع رہنا ہے۔
چوتھا اصل :
کسی ایک صحابی کا قول ہے جولوگوں میں مشہور ہو۔ کسی صحابی نے اس پر نکیر نہ کی ہو۔
پانچواں اصل :
یہ قیاس ہے۔
قیاس کی تعریف یہ ہے: کہ کسی مسئلے کا شرعی حکم ثابت ہو تو اسی جیسے دوسرے مسئلے پر بھی مشترک سبب کی بنا پر حکم لگانا اور اگر دونوں مسئلوں میں کوئی مشترک سبب نہ ہو تو قیاس جائز نہیں۔
امام رحمہ اللہ ایسے ہی قیاس کو جائز سمجھتے تھے پھر بھی قیاس کو دلیلوں کے درمیان مجبوری میں مردہ کا گوشت کھانے اور پانی نہ ہونے کی صورت میں مٹی سے تیمم کی طرح جانتے تھے۔
اصول مذهب الامام احمد و مشربه المطبوع باخر طبقات الحنابله لابن ابن یعلی : 283/2، 285.
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ امام احمد رحمہ اللہ کے اصول کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ کے فتاوی کی بنیاد پانچ اصول و قواعد پر تھی :
پہلا قاعدہ :
نصوص ہیں ۔ نصوص کے مطابق فتوی دیتے اس کے خلاف کسی چیز کی طرف توجہ نہ دیتے۔ صحیح حدیث پر کسی کے قول عمل، رائے ، قیاس ، صحابی کے قول اور نہ اس اجماع کے دعوی کو ترجیح دیتے جسے بہت سے علماء صحیح حدیث پر ترجیح دیتے ہیں، بلکہ اس قسم کے اجماع کا دعوی کرنے والے کو امام احمد جھٹلاتے تھے۔ اسے حدیث پر ترجیح دینے کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔
دوسرا قاعدہ :
صحابہ کے فتاوی ہیں اگر کسی صحابی کا فتویٰ جس کا صحابہ میں سے کوئی مخالف نہ ہوتا تو اس فتوی کو نہ چھوڑتے ۔ آپ تو رّع میں اس قسم کے قول کو اجماع نہ کہتے بلکہ اس طرح کہتے کہ مجھے اس فتوی کے مخالف فتویٰ کا علم نہیں ہے۔
تیسرا قاعدہ :
یہ ہے کہ صحابہ کے اختلافی مسائل میں جو کتاب وسنت سے زیادہ قریب ہوتا اسی کو اختیار کرتے لیکن صحابہ کے اقوال سے باہر نہ جاتے ۔ اگر کسی قول کی ترجیح آپ کے نزدیک ظاہر نہ ہوتی تو بغیر ایک کے اختیار کئے تمام اقوال کا ذکر کرنے پر اکتفا کرتے۔
امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کسی بستی میں آدمی سے ایسا مسئلہ پوچھا جائے جس میں لوگوں کا اختلاف ہے تو کیا کرے؟ آپ نے کہا: کہ کتاب وسنت کی موافقت میں فتوی دے اور جو کتاب وسنت کے موافق نہ ہو اس کا فتوی نہ دے۔ کہا گیا کہ اس صورت میں اس پر کوئی خوف نہیں؟ کہا نہیں۔
چوتھا قاعدہ :
مرسل اور ضعیف حدیث سے استدلال لینا ہے۔ جبکہ اس موضوع میں کوئی دوسری حدیث اسے دفع نہ کرتی ہو۔ آپ نے اسی حدیث کو قیاس پر ترجیح دیا ہے۔ البتہ ضعیف سے مراد باطل اور منکر حدیث نہیں ہے۔ اور نہ ایسی حدیث مراد ہے جس کی سند میں کوئی متہم بالکذب راوی ہو، جس سے مسئلہ لینا جائز نہ ہو، بلکہ ضعیف حدیث سے مراد حسن درجہ کی حدیث ہے۔ اگر کسی مسئلہ میں کوئی قول صحابی یا اجماع اس کے خلاف نہ ہو آپ کے نزدیک ایسی ضعیف حدیث پر عمل قیاس پر عمل سے افضل ہے۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ : تمام ائمہ کرام اس رائے میں امام احمد کے موافق ہیں۔ اس کے بعد ابن قیم رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہ ،شافعی اور مالک رحمہ اللہ سے کئی ایسے مسائل ذکر کئے ہیں جن میں انہوں نے ضعیف حدیث سے استدلال کیا ہے۔
پانچواں قاعدہ :
اگر امام کے پاس کسی مسئلہ میں کتاب وسنت کا نص نہ ہو، نہ قول صحابہ یا قول صحابی اور نہ ہی مرسل اور ضعیف حدیث تو قیاس کو مجبوری کی صورت میں استعمال فرماتے ۔ ابو الحارث کی روایت میں امام نے کہا کہ رائے اور قیاس کی ضرورت نہیں، حدیث میں سب کچھ ہے۔ میمونی کی روایت میں آپ نے فرمایا: کہ فقہ سے متعلق بولنے والا جمل اور قیاس سے دوری ہے۔
یہ پانچ اصول و قواعد آپ کے فتاوی کے مدار اور بنیاد تھے۔ کبھی آپ فتوکی سے توقف فرماتے ۔ جب دلیلیں متعارض ہو تیں یا صحابہ کا اختلاف ہوتا یا مسئلے میں صحابی یا تابعی کا فتوئی نہ پاتے یا جس مسئلے میں سلف کا کوئی اثر نہ پاتے تو اس میں فتویٰ کو سخت مکر وہ جانتے اور فتوی دینے سے سختی سے منع فرماتے۔ جیسا کہ آپ نے بعض شاگردوں سے فرمایا : جس مسئلے میں تم سے پہلے کسی امام نے فتوی نہ دیا ہو تو اس میں ہرگز نہ بولنا۔
اعلام الموقعين : 33، 29/1۔
اقوال:
1 : «لا تقلدني ولا تقلد مالكا ولا الشافعي ولا الأوزاعي ولا التورئ وخذ من حيث أخذوا من الكتاب والسنة»
عقد الجيد.
”ہرگز میری تقلید نہ کرنا اور نہ امام مالک رحمہ اللہ کی اور نہ امام شافعی رحمہ اللہ کی اور نہ امام اوزاعی رحمہ اللہ کی اور نہ امام ثوری رحمہ اللہ کی اور نہ ان کے سوا کسی اور کی تقلید کرنا ، کتاب وسنت سے احکام لو جہاں سے انہوں نے لیے ہیں ۔ “
2 : امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے :
« عجبت لقوم عرفوا الإسناد وصحته يذهبون إلى ر أى سفيان والله يقول: ﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾
(24-النور:63) اتدرى ما الفتنة؟ الفتنة الشرك، لعله إذا رد بعض قوله أن تقع فى قلبه شيئ من الزيغ فيهلك»
مجھے ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے، جو اسناد کو بھی جانتے ہیں اور اس کی صحت کو بھی، اس کے باوجود سفیان رحمہ اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں، باوجود اس بات کے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
(24-النور:63)
”سنو جو لوگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آ پڑے یا انہیں درد ناک عذاب (نہ) پہنچے۔ “
3 : امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا:
«من رد حديث رسول الله فهو على شفا هلكة »
المناقب لابن الجوزي ص: 182.
” جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو رد کر دے، وہ تباہی و ہلاکت کے کنارے پر ہے۔ “
5 : امام ابو داود السجستانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
میں نے امام احمد سے پوچھا: کیا امام اوزاعی، امام مالک سے زیادہ متبع سنت ہیں؟ انہوں نے فرمایا:
«لا تقلد دينك أحدا من هؤلاء الخ»
”اپنے دین میں، ان میں سے کسی ایک کی بھی تقلید نہ کر ۔ الخ “
مسائل ابی داود، ص: 277 ۔
6 : امام احمد فرماتے ہیں:
«ليس لأحد مع الله ورسوله كلام»
عقد الجيد: 81.
”اللہ اور اس کے رسول کے مقابلے میں کسی کا کلام کوئی حقیقت نہیں رکھتا ۔ “
7 : اوزاعی مالک اور ابوحنیفہ کی آراء، آراء ہی ہیں میرے نزدیک ان کا درجہ دلیل و حجت نہ ہونے میں یکساں ہے اور دلیل و حجت تو صرف احادیث اور آثار ہیں ۔
جامع بيان العلم لابن عبد البر : 149/2.