آپ بھی اکثر سفر کرتے رہتے ہیں، لیکن آج میں آپ کو ایک حیرت انگیز اور سبق آموز سفر کی کہانی سنانے جا رہا ہوں۔ امید ہے کہ اس کہانی سے آپ کی معلومات میں اضافہ ہوگا اور آپ کے لیے یہ سبق آموز بھی ثابت ہوگی۔
کئی صدیوں پرانا واقعہ
یہ ایک صدیوں پرانا واقعہ ہے، جب شدید گرمی کا موسم تھا۔ تین طالب علم قرآن و حدیث کی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے اپنے علاقے کو چھوڑ کر سمندر پار جانے کے لیے نکلے۔ ان کی خوشی کا عالم یہ تھا کہ تین مہینے کا راشن ان کے پاس تھا، اور انہیں یہ امید تھی کہ وہ علم کی پیاس کو کچھ حد تک بجھا سکیں گے۔ مگر: "ہوتا ہے وہی جو منظور خدا ہوتا ہے۔”
کشتی کا سفر: ایک امتحان
اس زمانے میں انجن سے چلنے والے بحری جہاز نہیں ہوا کرتے تھے، بلکہ چھوٹی چھوٹی کشتیاں ہوا کے رحم و کرم پر چلتی تھیں۔ اگر ہوا ان کی منزل کی طرف چلتی تو مسافروں کو سفر میں بڑی آسانی ہوتی، لیکن اگر ہوا مخالف سمت میں چلنے لگتی تو یہ مسافر سمندر میں بھٹکتے رہ جاتے اور کئی مرتبہ بھوک و پیاس کے باعث زندگی سے مایوس ہو جاتے۔
طلبہ کا سفر مشکلات میں تبدیل
ان تین طلبہ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ ان کی کشتی مخالف ہوا کی لپیٹ میں آ گئی۔ تین مہینے تک طوفانی ہوائیں انہیں سمندر میں ادھر ادھر گھماتی رہیں۔ ان کا سارا کھانے پینے کا سامان ختم ہو چکا تھا، اور ان کے پاس دعاؤں اور التجاؤں کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ لہٰذا، اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی سے گڑگڑانے لگے۔ چونکہ وہ طلبِ علم کے لیے سفر کر رہے تھے، جن کے لیے فرشتے بھی اپنے نورانی پَر بچھانے کو فخر سمجھتے ہیں، تو "ارحم الرّاحمین” کی رحمت جوش میں آئی اور ان کی دعا قبول ہوئی۔ کشتی کنارے جا لگی، مگر: "آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا!”
آزمائشوں کا آغاز
اب اصل آزمائش کا آغاز ہوا۔ اللہ تعالیٰ کی مشیئت ان کی مزید آزمائش چاہتی تھی، اور یہ طالب علم بھی اپنے مقصد میں ایسے پختہ تھے کہ مشکلات کے باوجود علم کی راہ سے پیچھے ہٹنا ان کے لیے ناممکن تھا۔ بے سروسامانی کی پروا کیے بغیر وہ اپنی منزل کی طرف بڑھنے لگے۔ جب بھوک لگی تو جو تھوڑے بہت لقمے بچ گئے تھے، انہیں کھا لیا۔
بے سروسامانی اور تپتے صحرا کا سامنا
اب ان کے پاس نہ کھانے کو کچھ تھا، نہ پینے کو۔ صحرا کی تپتی ہوئی ریت اور سورج کی گرم ہوائیں گویا جہنم کا منظر پیش کر رہی تھیں۔ پورا دن چلتے چلتے گزر گیا۔ دور دور تک کسی جانور کا نشان بھی نہ تھا، اور موت ان کے سامنے دکھائی دینے لگی۔ مگر ان کی بھوک اور پیاس نے ان کے عزم کو نہیں توڑا۔ رات کو ایک جگہ سو گئے، اور اگلے دن پھر منزل کی جانب چل پڑے۔ اب ان کی زبانیں خشک ہو چکی تھیں اور قدم لڑکھڑانے لگے تھے، مگر پھر بھی وہ چلتے رہے۔
بھوک اور پیاس کی شدت
کئی دنوں کی مسلسل بھوک اور پیاس نے ان کی حالت خراب کر دی تھی۔ تیسرے دن ان کے لیے قیامت بن گیا۔ تھوڑا سا چلنے کے بعد ایک طالب علم بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ بھوک پیاس نے ان کے باقی ساتھیوں کو بھی بے حال کر دیا تھا۔ وہ اسے سنبھالنے سے قاصر تھے، اور اسے وہیں چھوڑ کر پانی کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ کچھ دور گئے تھے کہ دوسرا ساتھی بھی گرمی اور پیاس کی شدت کو برداشت نہ کرتے ہوئے زمین پر گر گیا۔
آخری ساتھی کی آزمائش
اب اکیلے بچ جانے والے ساتھی کی حالت کا اندازہ کریں، جو اپنے دونوں ساتھیوں کو پیاس اور گرمی سے تڑپ کر گرتا دیکھ رہا تھا مگر کچھ کر نہیں سکتا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر اس کے بھی حواس جواب دینے لگے تھے، مگر پھر بھی اس نے ہمت کر کے پانی کی تلاش میں دوڑنا شروع کر دیا۔
اللہ تعالیٰ کی مدد اور آزمائش
پھر وہی ہوا جو ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ کی سنت رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ وہ اپنے دین کے طالبوں اور خادموں کو آزماتا ضرور ہے، مگر کبھی انہیں بے یار و مددگار نہیں چھوڑتا۔ اللہ کا وعدہ ہے:
"(وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہ,)”‘ اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کی ضرور مدد کرے گا جو اُس کے دین کی مدد کریں گے۔ (الحج: ٤٠)
خلاصہ
یہ کہانی تین طالب علموں کے صبر، استقامت اور علم کی جستجو کی ہے، جو قرآن و حدیث کی تعلیم کے لیے سمندر پار سفر کرتے ہیں۔ ان کا سفر غیر متوقع آزمائشوں سے بھرپور ہوتا ہے: کشتی مخالف ہوا کے سبب کئی مہینے سمندر میں بھٹکتی رہتی ہے، اور جب خشکی پر پہنچتے ہیں تو صحرا کی تپش اور بھوک پیاس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان میں سے دو ساتھی شدتِ پیاس سے بے ہوش ہو جاتے ہیں، مگر تیسرا عزم کے ساتھ پانی کی تلاش جاری رکھتا ہے۔ آخرکار اللہ کی مدد شاملِ حال ہوتی ہے، جو وعدہ کرتا ہے کہ دین کے طالبوں کو کبھی بے یار و مددگار نہیں چھوڑے گا۔